’لکی گرل سنڈروم‘: ٹک ٹاک پر خود کو ’خوش قسمت‘ کہنے سے کیا واقعی آپ کی زندگی بدل سکتی ہے؟

لکی گرل سنڈرومایک قسم کی سوچ اور یقین ہے کہ مثبت سوچ سے آپ اپنے تمام مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں لیکن بہت سے لوگ ٹک ٹاک پر اس کی حقیقت کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔

کیا آپ خوش قسمت محسوس کر رہے ہیں؟ کیونکہ ایسی ہزاروں لڑکیاں ہیں جو کہ خود کو ’خوش قسمت‘ محسوس کر رہی ہیںاور وہ شاید آپ کے ٹک ٹاک پر بار بار نظر آ رہی ہیں۔

تو یہ کچھ اس طرح کام کرتا ہے: ’خود کو بتائیں کہ سب کچھ آپ کے حق میں ہو رہا ہے۔ کائنات آپ کے حق میں ہے۔ آپ سب سے خوش قسمت انسان ہیں۔‘ 

اگر آپ ایسا کر رہی ہیں تو آپ کو لکی گرل سنڈروم ہے۔ نئے سال کے دوران اس رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے بعد سے #Luckygirlsyndrome کو آٹھ کروڑ سے زیادہ زیادہ بار دیکھا جا چکا ہے۔

یہ ایک قسم کی سوچ اور یقین ہے کہ مثبت سوچ آپ کو اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد دے گی۔ اس کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے، لیکن بہت سے لوگ اس کے سچ ہونے کی قسمیں کھاتے ہیں۔

زیادہ تر ویڈیوز میں نوجوان خواتین کو ایک خوش قسمت لڑکی بننے کی زندگی بدل دینے والی طاقت کے بارے میں سرگوشی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ 

لیکن ہر کوئی اس کا قائل نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے ’ابھی تک کا سب سے شوخ ٹرینڈ‘ کہا ہے۔

یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ اگر آپ ذہنی صحت کی مخصوص حالتوں میں مبتلا ہیں تو ’اچھے خیالات سوچنے‘ کا دباؤ غیر مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ حالانکہ مثبت سوچ اچھی چیز ہو سکتی ہے لیکن ایک ماہر نے بی بی سی نیوز بیٹ کو بتایا کہ کچھ مسائل ایسے ہیں جنھیں آپ صرف سوچ کی طاقت سے حل نہیں کر سکتے۔

کانٹینٹ کریئیٹر ٹیم ’کور‘ اس سوچ کی پیروکار ہیں۔ ڈربی سے تعلق رکھنے والی 22 برس کی ٹیم نے لکی گرل سنڈروم کو آن لائن اس وقت دیکھا جب وہ اپنے کام کے حوالے سے منفی سوچ کا شکار تھیں۔

انھوں نے اس سوچ کو طرز زندگی کے طور پر اپنانے کا فیصلہ کیا اور اب ٹیم کے لیے، یہ ضروری ہے کہ وہ روزانہ خود کو یہ بتائیں کہ وہ خوش قسمت ہیں اور ہر چیز ان کے حق میں ہو رہی ہے۔ انھوں نے ایک جریدہ بھی رکھا ہوا ہے جس میں وہ ان سب چیزوں کے بارے میں لکھتی ہیں۔ 

’پہلے میں اس کے بارے میں قائل نہیں تھی لیکن جتنا زیادہ میں نے اس پر غور کیا اور اس کا مطلب معلوم کیا، جو کہ یہ کہتا ہے کہ آپ سب سے خوش قسمت لڑکی ہیں اور آپ اس کو مجسم بناتے ہیں اور اس طرز زندگی کو جیتے ہیں، میں نے محسوس کیا کہ اس سوچ کا اظہار سے بہت زیادہ تعلق ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اب تک، اس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ٹیم نے ماڈل بننے کا خواب دیکھا تھا اور حال ہی میں انھیں ایک فوٹو شوٹ کے لیے بُک کیا گیا۔ انھیں آن لائن بڑے برانڈز کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔

وہ کہتی ہیں ’یہ اس وقت تک نہیں ہوا جب تک میں نے اپنی سوچ کو تبدیل کر کے یہ تصور نہیں کیا کہ ایسا ہونے والا ہے۔ اور جب سے میں نے ایسا کرنا شروع کیا، تب سے مجھے ایسا لگتا ہے جیسے مواقع میرے اردگرد منڈلا رہے ہیں اور سب کچھ کام کر رہا ہے۔‘

مانچسٹر سے 20 سال کی قانون کی طالبہ ہولی تھامس کہتی ہیں کہ وہ تقریباً پانچ سال پہلے تک اس سوچ یا روحانیت پر یقین نہیں رکھتی تھیں۔ لیکن اب وہ لکی گرل سنڈروم کو ماننے والوں میں سے ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’مجھے لگتا ہے کہ آپ چیزوں کو وجود میں لا سکتے ہیں، یہ سب سے چھوٹی چیزیں ہوسکتی ہیں، جیسے آپ کے کام پر جانے والے راستے میں تمام سبز ٹریفک لائٹس سے گزرنا۔ یہ صرف ایک خوش قسمت ذہنیت ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ لکی گرل سنڈروم کے ساتھ، آپ ان چیزوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں جن کے بارے میں حقیقتاً آپ کو معلوم نہیں تھا کہ آپ انھیں چاہتے ہیں۔‘

ٹیم کی طرح، ہولی تھامس بھی خود کو بتائیں گی کہ وہ جو چاہتی ہیں وہ حاصل کرنے والی ہیں اور ان کے ساتھ 99 فیصد ایسا ہی ہوتا ہے۔

 لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ محنت پر یقین نہیں رکھتیں۔ جب ان کی پڑھائی کی بات آتی ہے تو وہ کہتی ہے کہ ’قانون کوئی قسمت کا کھیل نہیں۔‘

 لیکن اس کا خیال ہے کہ لکی گرل سنڈروم انھیں آخری لمحات کی پروازیں تلاش کرنے، اپنے فلیٹ میں جانے سمیتہر ایک چیز میں مدد دیتا ہے۔

 وہ کہتی ہیں کہ ’اس طرح کی بہت سی چھوٹی چھوٹی چیزیں، جن کے بارے میں مجھے نہیں لگتا کہ میں حقیقت میں کبھی اس طرف کام کر سکتی ہوں، قسمت پر مبنی ہیں۔‘

’مثبت سوچ فائدہ مند لیکن ہر کسی کے لیے مؤثر نہیں‘

ڈاکٹر کیرولین کینن ایک ماہر نفسیات ہیں جو ’خوش قسمت لڑکی‘ کے رجحان کو دیکھ رہی ہیں۔ اگرچہ وہ مانتی ہیں کہ مثبت سوچ فائدہ مند ہے، لیکن انھیں کچھ خدشات لاحق ہیں۔

کیرولین کا کہنا ہے کہ لکی گرل سنڈروم ایک نظریے ’لا آف ایسمپشن‘ پر مبنی ہے جسں کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے تصورات کو حقیقت میں تبدیل کر سکتے ہیں۔

 وہ کہتی ہیں کہ ’بدقسمتی سے، زندگی میں کچھ ایسے حالات ہوں گے جن کو ہم ظاہر کرنے اور ان سے نکلنے کے لیے سوچنے کے قابل نہیں ہیں۔ میں ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فکر مند ہوں جہاں شاید یہ ایک مؤثر حکمت عملی نہیں ہوگی۔‘

لکی گرل سنڈروم کے ناقدین اس سے متفق ہیں۔ آن لائن صارفین نے اپنے آپ کو اس وقت مورد الزام ٹھہرایا جب مثبت سوچ کسی بیمار رشتہ دار کی مدد یا طویل مدتی صحت کی حالتوں کا علاج نہیں کر سکی۔

اور کیرولین بتاتی ہیں کہ ’جب ہم کسی خواہش کو سچ میں تبدیل ہونے دینا چاہتے ہیں تو انسان خود سے مذاق کرنے میں کافی اچھے ہوتے ہیں۔‘

کیرولین کہتی ہیں تصور کریں کہ آپ نوکری کے انٹرویو کے لیے جا رہے ہیں۔ اگر آپ خود کو تیار نہیں محسوس کرتے ہیں تو شاید آپ کو چھوٹی چھوٹی علامات نظر آئیں گی جو آپ کی توقعات کے مطابق ہوں۔

’لہذا اگر لوگ آپ کی باتوں پر توجہ نہ دیں تو آپ اس منفی علامت سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ اب اسی انٹرویو کا تصور کریں، لیکن آپ اس کے لیے تیار محسوس کرتے ہیں۔ میں یہ سوچ کر چلی جاتی ہوں، میں بالکل جانتی ہوں کہ یہاں کیا ہونے والا ہے، میں اس انٹرویو کو ختم کرنے والی ہوں، مجھے یہ نوکری ضرور ملے گی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’پھر میں لوگوں کو سر ہلاتے ہوئے دیکھتی ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جو میرے عقیدے کی تائید کرتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے:

’سیکسومنیا‘: ’وہ دعویٰ جس نے میرا ریپ کیس خراب کر دیا‘

ٹِک ٹاک کا نشہ: نوجوان چاہ کر بھی ایپ ڈیلیٹ کیوں نہیں کر پاتے

’خودپسندوں‘ کی دنیا

کچھ ٹک ٹاکرز نے اس جنون کو ختم کرنے والی ویڈیوز بھی شیئر کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے لوگوں کو بُری چیزوں کے ہونے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے، چاہے یہ ان کے قابو سے باہر ہی کیوں نہ ہو۔

اور ناقدین نے نشاندہی کی ہے کہ خاص طور پر معذور لوگوں کے لیے، یا نظامی نسل پرستی کے شکار لوگوں کے لیے، اپنے حالات سے نکلنے کا راستہ نکالنا مشکل ہے۔

ہولی نے تسلیم کیا کہ لکی گرل سنڈروم ’کافی پاگل لگتا ہے‘ لیکن لوگوں پر زور دیا کہ اسے مسترد کرنے سے پہلے اسے آزمائیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’بس سب کو یہ بتانے کی کوشش کریں کہ آپ ایک حیرت انگیز شخص ہیں اور آپ واقعی خوش قسمت ہیں اور دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے۔‘

’اگر یہ آپ کے لیے کام نہیں کرتا ہے، تو آپ کے پاس اس پر یقین نہ کرنے کی ہر وجہ ہے۔ لیکن یہ کوشش کے قابل ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.