بابا ویٹ: ’دریا دل‘ انگریز پولیس افسر جن کی سخاوت کے قصے آج بھی چکوال میں مشہور ہیں

بھلیال گاؤں کے ملک حاکم خان بتاتے ہیں کہ ویٹ صاحب کبڈی کے مقابلوں میں اچھی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو ’بُک بھر‘ کر پیسے بطور انعام دیتے تھے۔ ملک حاکم خان مزید بتاتے ہیں کہ ویٹ صاحب روانی سے پنجابی بولتے تھے۔

چکوال شہر سے تقریباً 42 کلومیٹر جنوب کی طرف سالٹ رینج کی سحر انگیز پہاڑیوں کے درمیان بھلیال گاؤں آباد ہے۔ ضلع چکوال کی خوبصورت تحصیل کلرکہار کا یہ گاؤں کلرکہار-خوشاب روڈ کے دونوں اطراف میں واقع ہے۔

جیسے ہی بھلیال میں داخل ہوں تو سب سے پہلے سڑک کے بائیں جانب صدیوں پرانا بوہڑ کا درخت نظر آتا جو وہاں سے گزرنے والوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ بوہڑ کے اس گھنے درخت کے نیچے ایک چھوٹا سا مزار ہے، جس کے احاطے میں ایک پختہ قبر ہے جس میں لعل شاہ بخاری مدفون ہیں۔

قبر کے کتبے پر اس بزرگ کا سنہ ولادت اور سنہ وفات نہیں لکھا ہوا اور نہ ہی بھلیال کا کوئی باسی جانتا ہے کہ یہ شخصیت یہاں کب مقیم تھی۔

اس مزار کے احاطے کے باہر کیکر کے درختوں کے نیچے چاراور قبروں کے آثار موجود ہیں جن میں دفن افراد کے نام نجانے کب سے وقت کے سمندر میں گم ہو چکے ہیں۔

لعل شاہ بخاری کے مزار کے بالکل سامنے سڑک کے دائیں جانب پیر سید فضل شاہ کا دربار ہے، جس کے احاطے میں پیر فضل شاہ، ان کے بیٹے پیر سید نصیر الدین شاہ، بھائی پیر سید منور شاہ اور والد پیر سید محمود شاہ کی قبریں ہیں لیکن اس دربار میں ایک پانچویں قبر بھی ہے جو نہ صرف اس دربار کو ایک منفرد حیثیت دیتی ہے بلکہ اپنے اوپر لگے کتبے کے ذریعے ہمیں ایک انسان کی درویشانہ زندگی سے متعلق بھی بتاتی ہے۔

یہ قبر ایک انگریز افسر سر ہربرٹ ولیم ویٹ کی ہے جو تقسیم ہند سے پہلے انڈین ایمپیریل پولیس میں صوبہ پنجاب کے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل (ڈی آئی جی) رہے۔

انگریز راج کا یہ افسر بھلیال کے لعل شاہ بخاری کا اس قدر روحانی معتقد اور علاقے کے قدرتی حسن کا دیوانہ تھا کہ اپنے آبائی وطن برطانیہ کی سرزمین کی بجائے اس نے بھلیال کے لعل شاہ کی قربت میں دفن ہونے کو ترجیح دی۔

سال میں دو بار جب 14 محرم اور29جمادی الثانی کو اس دربار پر پیر محمود شاہ اور پیر فضل شاہ کا عرس منعقد ہوتا ہے تو اس انگریز افسر کی قبر کو بھی غسل دیا جاتا ہے اور لوگ اس قبر پر فاتحہ پڑھتے ہیں۔

ہربرٹ ولیم ویٹ کون تھے؟

برطانوی ویب سائٹ www.ukwhosowho.com کے مطابق ہربرٹ ولیم ویٹ 30 جون 1887 کو برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام ہینری ویٹ تھا۔

ہربرٹ ولیم ویٹ نے تعلیم لیمنگٹن کالج سے حاصل کی۔ کالج کی تعلیم سے فارغ ہو کر انڈین ایمپیریل پولیس میں شمولیت اختیار کی اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض سرانجام دیتے رہے۔

وہ ضلع جہلم کے پولیس سربراہ بھی رہے اور بعد میں پنجاب کے ڈی آئی جی بنے۔ پنجاب میں ملازمت کے دوران ہربرٹ ولیم ویٹ کو سالٹ رینج کا علاقہ اتنا بھایا کہ انھوں نے یہاں دفن ہونے کی وصیت کر ڈالی۔

انگریز دور میں پولیس کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے باوجود اس افسر کے عجیب ہی شوق تھے۔ کبھی ونہار میں وہ بیلوں کے جلسے اور کبڈی کے دنگل کروا رہا ہوتے تو کبھی بھلیال کے بچوں میں کھلونے اور ٹافیاں بانٹتے نظر آتے۔

علاقہ ونہار میں اگر پانی کی قلت ہو جاتی تو یہ درد دل رکھنے والا شخص اپنی جیب سے نئے تالاب بنواتا اور پرانے تالابوں کی بحالی کے لیے اقدامات کرتا۔

ان ہی اوصاف کی وجہ سے یہ انگریز افسر ونہار کے باسیوں کی آنکھ کا تارا بن گیا اور علاقے میں ’بابا ویٹ‘ اور ’ویٹ صاحب‘ کے ناموں سے پکارا جاتا۔

ننگے پاؤں لعل شاہ کی قبر پر حاضری

ہربرٹ ولیم ویٹ کی قبر کے احاطے کی ایک دیوار پر لگی تختی کے مطابق بھلیال گاؤں کے دو بااثر افراد ملک لال خان اور حبیب بخش ان کے ماتحت ملازم تھے جنھوں نے اپنی ساری زندگی اُن کی قربت میں گزاری۔

ملک لال خان اور ملک حبیب بخش کے توسط سے ہی ’ویٹ صاحب‘ علاقہ ونہار میں شکار کی غرض سے آئے اور اس کے قدرتی حسن سے مرعوب ہو گئے۔

اس گورے افسر کو نہ جانے پیر لعل شاہ بخاری کے مزار پر کون سی روشنی کی جھلک ملی کہ وہ لعل شاہ کے گرویدہ ہو گئے، جنھیں دُنیا سے گزرے ایک زمانہ بیت چکا تھا۔

قبر کے احاطے کی دیوار پر لگی تختی اور بھلیال گاؤں کے باسیوں کے مطابق ویٹ صاحب کا لعل شاہ کے ساتھ عقیدت کا یہ عالم تھا کہ وہ جب بھی بھلیال آتے تو لعل شاہ کے دربار سے ذرا فاصلے پر اپنی کار سے اُتر جاتے، جوتے ہاتھوں میں پکڑ لیتے اور ننگے پاؤں قبر پر حاضری دیتے۔ جب بھلیال سے واپسی ہوتی تو عقیدت و احترام کا یہی عمل دُہراتے۔

سرکاری دوروں کے دوران اپنے افسروں کے عارضی قیام کے لیے برطانوی حکومت نے ایک خاص فاصلے پر ڈاک بنگلے اور ریسٹ ہاؤس تعمیر کیے تھے۔ سالٹ رینج کے دورے کے دوران ویٹ صاحب کا پسندیدہ ٹھکانہ بھلیال کے قریب ایک ڈاک بنگلہ تھا جس کے آثار آج بھی سردھی گاؤں میں موجود ہیں۔

مشہور مصنف سلمان رشید اپنی کتاب ’سالٹ رینج اینڈ دی پوٹھوہار پلیٹو‘ میں لکھتے ہیں کہ سردھی ریسٹ ہاؤس ہربرٹ ولیم ویٹ کا پسندیدہ ٹھکانہ تھا۔

’ویٹ صاحب گاؤں آتے تو بچے اُن کے پیچھے دوڑ پڑتے‘

ویٹ صاحب کا بھلیال آنا، یہاں کے بچوں اور نوجوانوں کے لیے ایک جشن کا سماں پیدا کر دیتا کیونکہ وہ بچوں میں کھلونے تقسیم کرتے اور نوجوانوں کے لیے کبڈی کے دنگل منعقد کرواتے۔

بھلیال گاؤں کے ملک حاکم خان بتاتے ہیں کہ ویٹ صاحب کبڈی کے مقابلوں میں اچھی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو ’بُک بھر‘ کر پیسے بطور انعام دیتے تھے۔ ملک حاکم خان مزید بتاتے ہیں کہ ویٹ صاحب روانی سے پنجابی بولتے تھے۔

بھلیال گاؤں کے 80 سالہ دھمن خان، جنھوں نے خود ویٹ صاحب کو دیکھا بتاتے ہیں کہ ’ویٹ صاحب بہت اچھے آدمی تھے، بچوں کے لیے کھلونے لاتے، بیلوں کے جلسے اور کبڈی کے مقابلے کرواتے اور علاقے کے تالابوں کی دیکھ بھال کا کام کرواتے۔ وہ جب بھی گاؤں آتے تو بچے اُن کے پیچھے پیچھے دوڑ پڑتے تھے۔‘

سلمان رشید اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ہربرٹ ولیم ویٹ ایک سادہ انسان تھے۔ اُن کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ کبھی کسی ایسے ریسٹ ہاؤس میں داخل نہیں ہوتے تھے جس میں کوئی خاتون موجود ہو، خواہ کیوں نہ وہ رات کے کسی پچھلے پہر ایک طویل سفر سے واپس لوٹے ہوں۔

یہ بھی پڑھیے

انگریز راج میں دولالی صاحب اور کالے زمیندار کون تھے؟

منگل پانڈے: انگریزوں کے خلاف بغاوت میں پہلی گولی چلانے والے سپاہی جن کی پوری رجمنٹ بطور سزا تحلیل کر دی گئی

ہندوؤں کا دل جیتنے کے لیے ہولی کھیلنے والے انگریز افسر

سلمان رشید مزید لکھتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ویٹ صاحب نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ کالا باغ میں گزارا لیکن وہ اس علاقے ونہار میں اپنے فلاحی کاموں کی وجہ سے ایک دیومالائی کردار بن گئے تھے۔

ایک دفعہ ایک شخص نے ویٹ صاحب کو باتوں باتوں میں یہ بتایا کہ اُس کا بیٹا روزانہ 10 کلومیٹر پیدل چل کر سکول جاتا ہے تو ویٹ صاحب نے اُس شخص کو نئی سائیکل خرید دی۔

ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے سلمان رشید لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے ویٹ صاحب سے کچھ پیسے اُدھار لیے لیکن لوٹا نہ سکا۔ ویٹ صاحب نے ساری زندگی اُس شخص کا چہرہ نہ دیکھا۔ اگر کبھی اتفاق سے اُس شخص کے گاؤں سے گزرتے ہوئے اس سے آمنا سامنا ہو جاتا تو ویٹ صاحب منھ پھیر کر گزر جاتے تاکہ اُس شخص کو شرمندگی نہ ہو۔

ہر دفعہ موسم سرما کے آغاز پر ویٹ صاحب اپنے تینوں ملازموں کو گرم کوٹ یا اچکن دیتے۔ انھوں نے ایک ملازم کو گھر کی تعمیر کے لیے زمین بھی خرید کر دی۔

اپنے وطن برطانیہ جانے سے انکار

ویٹ صاحب جتنے عظیم انسان تھے اتنے ہی قابل اور محتنی پولیس افسر بھی تھے۔ اُنھوں نے اپنی ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگی کے تجربات و مشاہدات کو 51 مجموعوں میں قلم بند کیا۔

ویٹ صاحب کی اکاون جلدوں پر مشتمل یہ یاد داشتیں آج بھی برٹش لائبریری لندن میں ’پیپرز آف ہربرٹ ولیم ویٹ‘ کے عنوان سے محفوظ ہیں جو اُن کی بھانجی مس ڈیفینی بلیک مین نے 19 ستمبر 1991 کو برٹش لائبریری کے حوالے کیں۔

بھلیال گاؤں سے تعلق رکھنے والے ملک لال خان جو ویٹ صاحب کے ملازم تھے، کے پوتے تجمل جہانگیر جو اب خود چکوال پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر ہیں، بتاتے ہیں کہ ویٹ صاحب کا لکھا ہوا سارا کام اُن کے دادا جان نے اپنے گھر میں محفوظ کیا ہوا تھا۔

’ایک دن اُن کی بھانجی پنجاب پولیس کے افسران کے ہمراہ آئی اور دادا جان نے ویٹ صاحب کی یادداشتیں اُن کے سپرد کر دیں۔‘

ملک جہانگیر کے گھر آج بھی ویٹ صاحب کی پولیس یونیفارم میں ایک تصویر موجود ہے۔

اگست 1947 کو ہندوستان کی تقسیم کے بعد ویٹ صاحب نے اپنے وطن برطانیہ جانے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ پنجاب کو ہی اپنا وطن تسلیم کر چکے تھے۔

انھوں نے ساری زندگی شادی نہیں کی۔ اُن کے خطوط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ اپنی بہن گلیڈیز میری بلیک مین اور اپنی بھانجی ڈیفینی بلیک مین کے بہت قریب تھے۔

1947 کے بعد ویٹ صاحب کو پولیس ٹریننگ سکول سرگودھا کا پرنسپل تعینات کیا گیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اُنھوں نے نواب آف کالا باغ کے ساتھ ذاتی دوستی کی وجہ سے کالا باغ میں بقیہ زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔

اُن کے ملازم ملک لال خان کے بیٹے ملک جہانگیر بتاتے ہیں کہ ویٹ صاحب گرمیاں ایبٹ آباد میں گزارتے تھے۔

لعل شاہ کے مزار کے پہلو میں اسلامی طریقے سے تدفین

22 جولائی 1967 کو اُن کی وفات بھی ایبٹ آباد کے پیلس ہوٹل میں ہوئی۔ ہربرٹ ولیم ویٹ کی قبر پر موجود تختی کے مطابق اُن کی وصیت تھی کہ اُن کو بھلیال میں بابا لعل شاہ بخاری کے مزار کی قربت میں اسلامی طریقے سے دفن کیا جائے۔

ونہار کے باسیوں نے ویٹ صاحب کو اُن کی وصیت کے مطابق لعل شاہ بخاری کے مزار کے پہلو میں اسلامی طریقے کے ساتھ دفن کیا۔

پیر فضل شاہ کے بیٹے پیر ضیا الرحمن شاہ جو دربار کے گدی نشین ہیں بتاتے ہیں کہ ویٹ صاحب کا جنازہ ان کے والد نے پڑھایا تھا۔

اگرچہ ویٹ صاحب کی قبر پر آویزاں معلومات میں ان کے اسلام قبول کرنے سے متعلق کوئی ذکر نہیں ملتا تاہم پیر ضیا الرحمن اور بھلیال کے دوسرے باسی یہ مانتے ہیں کہ ویٹ صاحب نے اسلام قبول کر لیا تھا۔

سلمان رشید اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ویٹ صاحب کے جنازے میں ایک ہزار سے زائد لوگوں نے شرکت کی۔

سلمان رشید کہتے ہیں کہ وہ جس نے ساری زندگی شادی نہیں کی، اس کے سالٹ رینج میں کئی بیٹے اور بیٹیاں ہیں، جن کے لیے وہ آج بھی ’بابا ویٹ‘ ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.