’ایک شخص نے ہیلمٹ پہن کر گولی چلائی‘: راولا کوٹ کی مسجد میں قتل ہونے والے ابو قاسم کشمیری کون تھے؟

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ سے تعلق رکھنے والے محمد ریاض، جن کو ابو قاسم کشمیری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو جمعہ کے روز نماز فجر کے دوران پولیس کے مطابق ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔

’میں فجر کی نماز پڑھا کر اپنے کمرے میں واپس پہنچا ہی تھا کہ فائرنگ اور شور کی آوازیں آئیں۔ نیچے پہنچا تو محمد ریاض میرے سامنے محراب کے قریب ہی سجدے کی حالت میں گرے ہوئے تھے۔‘

’دو عینی شاہدین نے بتایا کہ پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک شخص نے نماز کے بعد ہیلمٹ پہنا اور پھر پستول سے محمد ریاض پر فائرنگ کر دی۔‘

یہ الفاظ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں راولا کوٹ کی مسجد القدس کے امام قاری مظفر کے ہیں جو محمد ریاض عرف ابو قاسم کشمیری نامی شخص کی ہلاکت کے مقدمے کے مدعی ہیں۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ سے تعلق رکھنے والے محمد ریاض، جن کو ابو قاسم کشمیری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو جمعہ کے روز نماز فجر کے دوران پولیس کے مطابق ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔

محمد ریاض خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سابق کشمیری عسکریت پسند تھے جن کے والد اور ایک بھائی بھی ماضی میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ کشمیر امور پر نظر رکھنے والے صحافی ماجد نظامی کے مطابق وہ انڈیا کو مختلف مقدمات میں مطلوب تھے۔

تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محمد ریاض کے ایک رشتہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس تاثر کو رد کیا کہ محمد ریاض عرف ابو قاسم کشمیری کا تعلق کسی عسکریت پسند تنظیم سے تھا۔ محمد ریاض کے رشتہ دار کے مطابق مقتول کے نو بچے تھے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور انڈیا میں سرکاری طور پر حکام اس واقعے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ عسکریت پسند گروپ حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین نے ایک بیان میں محمد ریاض کے قتل کی مذمت کی ہے۔

محمد ریاض کا قتل ماضی میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ’جہادی کمانڈروں‘ کی پراسرار ہلاکتوں کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو گذشتہ کچھ عرصہ سے جاری ہے۔ گذشتہ ایک سال میں اس سے قبل پاکستان کے مختلف شہروں میں ایسے ہی پانچ واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں اہم کشمیری ’جہادی تنظیموں‘ کے موجودہ اور سابق سرکردہ کمانڈر نامعلوم حملہ آوروں کے پراسرار ہدفی حملوں میں نشانہ بنے۔

لیکن محمد ریاض عرف ابو قاسم کشمیری کون تھے اور کیا ان کا قتل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے؟ اس سوال کے جواب سے قبل یہ جانتے ہیں کہ راولا کوٹ کی مسجد القدس میں کیا ہوا تھا؟

پاکستان
AFP
سید صلاح الدین انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سرگرم سب سے بڑی کشمیری عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے سربراہ ہیں

’یہ قتل ٹارگٹ کلنگ کا کیس ہے‘

مسجد القدس کے امام قاری مظفر نے پولیس کو بتایا ہے کہ ’محمد ریاض اس شب ان کے پاس مہمان تھے جنھوں نے مسجد ہی کے ایک کمرے میں رہائش اختیار کی ہوئی تھی۔‘

قاری مظفر کے مطابق وقوعہ کی صبح انھوں نے فجر کی نماز پڑھائی تو ’محمد ریاض آخری رکعت میں شامل ہوئے تھے۔‘

ان کے مطابق جماعت مکمل ہو جانے کے بعد جب وہ اپنے کمرے میں واپس جانے کے لیے نکلے تو محمد ریاض اپنی بقیہ نماز ادا کر رہے تھے۔

قاری مظفر کمرے میں پہنچے ہی تھے کہ ’فائرنگ اور شور کی آوازیں سن کر واپس آئے تو ان کو عینی شاہدین امیر حمزہ اور شفیق احمد نے بتایا کہ ایک شخص جس نے ٹراؤزر اور شرٹ پہنی ہوئی تھی نے نماز کے بعد ہیلمنٹ پہنا اور پستول سے محمد ریاض پر فائرنگ کر دی۔‘

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ’فائرنگ کے دوران ایک اور شخص بھی مسجد سے بھاگا تھا۔‘ قاری مظفر کے مطابق وہ ملزم کو نہیں جانتے لیکن ’عینی شاہدین ملزم کو دیکھ کر پہنچان سکتے ہیں۔‘

راولاکوٹ پولیس نے محمد ریاض کے قتل کو ٹارگٹ کلنگ قرار دیتے ہوئے مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا ہے۔درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ’نامعلوم ملزم یا ملزمان نے طے شدہ منصوبے کے تحت محمد ریاض کو قتل کیا۔‘

پولیس کی جانب سے ایف آئی آر پر درج نوٹ میں کہا گیا ہے کہ قتل ہذا سال رواں کا چھٹا ایسا واقعہ ہے۔

پولیس نے مقتول کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے سی ایم ایچ بھجوا دیا ہے جبکہ محمد ریاض کے ایک رشتہ دار کے مطابق رشتہ دار کے مطابق محمد ریاض کا قتل ایک بڑی منصوبہ بندی کا حصہ لگتا ہے۔

’محمد ریاض نے 17 سال کی عمر میں نقل مکانی کی‘

بی بی سی نے محمد ریاض کے ایک قریبی رشتہ دار سے ان الزامات کے بارے میں بات چیت کی تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 1999 میں ’محمد ریاض جب صرف 17 سال کے تھے تو انھوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر نقل مکانی کر لی تھی۔‘

قریبی رشتہ دار کے دعوی کے مطابق محمد ریاض انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو ’انتہائی مشکل اور تکلیف دہ حالات میں چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔‘

کشمیر
Getty Images

انھوں نے بتایا کہ ’نوے کی دہائی میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جب ان کے علاقے 19 لوگوں کو کلہاڑیوں کے وار کرکے قتل کر دیا گیا تو محمد ریاض نے اہل علاقہ کے ساتھ مل کر احتجاج کیا جس کے بعد ان کو گرفتار کر لیا گیا اور کئی ماہ حراست میں رکھا گیا۔‘

’حراست سے نکلنے کے بعد بھی کئی بار ہمارے گھر پر چھاپے پڑے اور حالات اتنے مشکل ہو گئے کہ پہلے محمد ریاض اور پھر ان کے سب بہن بھائی ایک ایک کر کے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے نکل کر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پہنچ گئے۔‘

انھوں نے بتایا کہ محمد ریاض نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہائش اختیار کرنے کے بعد پانچ سال دینی تعلیم حاصل کی اور ’ان کا کسی تنظیم سے تعلق نہیں تھا۔‘

’وہ ضلع میرپور کے ایک مدرسے صوت السلام میں استاد کے فرائض انجام دیتے تھے۔ وہ کئی سال سے خاموشی سے زندگی گزار رہے تھے۔ مدرسے کے ساتھ وہ شہد اور ڈرائی فروٹ کا کاروبار کرتے تھے۔‘

محمد ریاض کے رشتہ دار نے بتایا کہ ’اس سے پہلے بھی ان کے خاندان کے لوگ مارے جا چکے ہیں‘ جن میں محمد ریاض کے والد اور بھائی شامل ہیں۔

رشتہ دار کے مطابق محمد ریاض کے والد پہلے ممبئی اور اس کے بعد سعودی عرب میں ملازمت کرتے رہے تاہم 2002 میں انھیں زمینوں پر کام کرتے ہوئے مبینہ طور پر انڈین سکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا۔

واضح رہے کہ انڈیا میں اس واقعے پر موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ’محمد اعظم سے اسلحہ برآمد ہوا اور جب ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کی جس کے بعد جوابی کارروائی میں وہ مارے گئے۔‘

قریبی رشتہ دار کے مطابق 2018 میں محمد ریاض کے ایک اور بھائی حافظ محمد اسماعیل، جو پاکستان کے صوبہ پنجاب میں انگریزی کے مضمون میں ماسٹر کر رہے تھے، ’کشمیر کے کنٹرول لائن کے علاقے ہجیرہ میں نماز پڑھانے گئے ہوئے تھے جب ان کو کنٹرول لائن کے پار سے ٹارگٹ بنا کر قتل کر دیا گیا تھا۔‘

’انڈیا کو مطلوب‘ ابو قاسم کشمیری

کشمیر امور پر نظر رکھنے والے صحافی ماجد نظامی کےمطابق محمد ریاض پر انڈیا میں مختلف مقدمات قائم ہیں۔

’کچھ تو پرانے ہیں تاہم زیادہ مقدمات اس سال میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے مختلف حملوں کے حوالے سے درج ہیں۔ ابھی تک کی ہماری اطلاعات کے مطابق محمد ریاض انڈیا کو مطلوب تھے۔‘

ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ ابو قاسم کشمیری نام کی باز گشت گزشتہ کچھ عرصہ سے انڈیا اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سنی جا رہی تھی۔

’انڈیا میں یہ تاثر عام ہے کہ ابو قاسم کشمیری یا محمد ریاض لشکر طیبہ کے کمانڈر ساجد جٹ کے بہت قریب ہیں۔‘

ماجد نظامی کے مطابق محمد ریاض کا نام انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اس سال ہونے والے چار بڑے واقعات میں لیا جاتا رہا ہے جن میں سے ایک ڈھنگری کا واقعہ ہے جہاں سات لوگ مارے گئے تھے اور ’ان سب واقعات کا ماسٹر مائنڈ محمد ریاض یا ابو قاسم کشمیری کو قرار دیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا میں الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ محمد ریاض ایک فنانسر تھے جنھوں نے ان واقعات میں لاجسٹک سپورٹ فراہم کی تھی اور وہ عموما ایسے واقعات کے لیے سرمایہ فراہم کرتے تھے۔‘

صحافی فیض اللہ خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں محمد ریاض سے پہلے بھی جن لوگوں کا انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندی کے حوالے سے نام لیا جا رہا تھا، پرسرار اور مختلف حالات میں قتل ہوئے ہیں۔‘

فیض اللہ خان کا کہنا تھا کہ ’اب تک جو لوگ مارے گئے ہیں ان کا تعلق لشکر طیبہ، جیش محمد، البدر اورحزب المجاہدین سے بتایا جاتا رہا ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.