یہ معاملہ جنوبی انڈیا کی ریاست کیرالہ کا ہے جہاں ہائیکورٹ کے جج نے ناچاقی کی وجہ سے الگ رہنے والے والدین کے بچے کا نام طے کیا کیوں کہ ماں اور باپ میں کسی ایک نام پر اتفاق نہیں ہو رہا تھا۔

انڈیا کی ایک عدالت میں حال ہی میں ایک دلچسپ مقدمے کا فیصلہ ہوا جس میں ایک جوڑے کے بچے کا نام جج کو رکھنا پڑا۔
یہ معاملہ جنوبی انڈیا کی ریاست کیرالہ کا ہے جہاں ہائیکورٹ کے جج نے ناچاقی کی وجہ سے الگ رہنے والے والدین کے بچے کا نام طے کیا کیوں کہ ماں اور باپ میں کسی ایک نام پر اتفاق نہیں ہو رہا تھا۔
کیرالہ ہائیکورٹ کے جسٹس بیچو کورین تھومس نے انڈین آئین کی ایک شق کے تحت گذشتہ ماہ یہ فیصلہ دیا جس کے تحت ججوں کو والدین یا سرپرست کا کردار اپنانے کی اجازت ہوتی ہے۔
اس مقدمے کے دوران جسٹس بیچو نے ریمارکس دیے کہ ’والدین کے درمیان مسلسل جھگڑوں سے بچے کے مفادات کو متاثر نہیں ہونا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بچے کے لیے نام کی عدم موجودگی بچے کی فلاح یا بہترین مفادات کے لیے موزوں نہیں ہے۔ بچے کی فلاح کا تقاضا ہے کہ اسے ایک نام دیا جائے۔ والدین کے درمیان مسلسل جھگڑے بھی بچے کے مفاد میں اچھے نہیں ہوتے۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں بچے کی والدہ کے تجویز کردہ نام کو ترجیح دیتے ہوئے ولدیت پر کوئی تنازع نہ ہونے کے باعث یہ حکم بھی دیا کہ والد کا نام بھی بچے کے نام میں شامل کیا جائے۔
واضح رہے کہ بچے کے والد اسکا کا نام ’پدما‘ رکھنا چاہتے تھے۔ تاہم جج نے فیصلہ دیا کہ بچے کا نام ’پُنیہ‘ رکھا جائے، جو کہ اس کی والدہ کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا، اور ساتھ میں کہا کہ باپ کے نام کی کنیت دی جائے۔
عدالت نے کہا کہ ’نام ایک شناخت دیتا ہے، جو ہمیشہ کے لیے اس فرد کے ساتھ رہتا ہے، جب تک کہ وہ خود اس سے مختلف انتخاب نہ کرے۔‘
یہ معاملہ عدالت کے سامنے اس وقت آیا جب ناچاقی کے سبب الگ رہنے والی خاتون نے ایک درخواست دائر کی کہ وہ اپنے بچے کا نام درج نہ ہونے کے باعث پریشانی کا شکار ہیں۔
ان کی درخواست کے مطابق بچے کی پیدائش کے سرٹیفکیٹ پر کوئی نام نہ ہونے کی وجہ سے سکول کے حکام نے اس طرح کے سرٹیفکیٹ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ انڈین قوانین کے تحت بچے کی پیدائش کے بعد ایک خاص مدت تک نام کے بغیر سرٹیفیکیٹ جاری ہو سکتا ہے لیکن جب بچے کی والدہ نے نام رجسٹر کروانے کی کوشش کی تو پیدائش اور اموات کا ریکارڈ رکھنے والے رجسٹرار نے اصرار کیا کہ نام کے اندراج کے لیے دونوں والدین کو درخواست دینا ہوگی۔
تاہم عدالت نے رجسٹرار کے اصرار سے اتفاق نہیں کیا۔
پیدائش اور اموات کے اندراج سے متعلق قوانین، حکومتی سرکلر اور ماضی کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے جج نے فیصلہ دیا کہ ماں کے تجویز کردہ نام کو مناسب اہمیت دی جانی چاہیے۔
عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ سرٹیفیکیٹ میں تبدیلیاں 15 دن کے اندر درج کروا کر بچے کو پیدائشی سرٹیفکیٹ دیا جائے۔
اسی عدالت نے اس سے قبل ایک نابالغ طالب علم کے حق میں فیصلہ سنایا تھا جس نے اپنا نام تبدیل کر لیا تھا لیکن سکول کی مارک شیٹ میں اس کا پرانا نام ہی درج تھا۔
طالب علم نے اپنے امتحانات سے قبل حکام کو نام کی تبدیلی کے لیے درخواست دی تھی لیکن یہ تبدیلی امتحان سے متعلق حکام کے ریکارڈ میں ظاہر نہیں ہوئی اور انھیں نئے نام کے ساتھ مارک شیٹ نہیں دی گئی۔
اس طالب علم نے عدالت کا رخ کیا جس نے حکام کو نام کی تبدیلی کے لیے ان کی درخواست قبول کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہر شخص کو اپنے نام کا اظہار اپنے طریقے سے کرنے کا بنیادی حق ہے۔
2022 میں کیرالہ ہائیکورٹ میں زیر سماعت ایک اور مقدمے میں جج نے پیدائش کے سرٹیفکیٹ اور دیگر دستاویزات میں ماں کا نام شامل کرنے کے حق کو تسلیم کیا تھا۔
اس مقدمے میں درخواست گزار، جن کی پیدائش کے وقت انکی والدہ غیر شادی شدہ تھیں، اور ان کی والدہ نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ نیوز پورٹل ’بار اینڈ بنچ‘ کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ’اس ملک میں عصمت دری کا شکار ہونے والے بچے اور غیر شادی شدہ ماؤں کے بچے ہیں۔ ان کی پرائیویسی، وقار اور آزادی کے حق کو کسی بھی اتھارٹی کے ذریعہ کم نہیں کیا جا سکتا۔‘
واضح کر دیں کہ 2015 میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے میونسپل اداروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ شادی سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کے لیے پیدائش کا سرٹیفکیٹ جاری کرتے وقت باپ کے نام پر اصرار نہ کریں بلکہ صرف ماں کا نام درج کریں۔