سکرنڈ میں ہلاکتوں پر سرکاری مؤقف تبدیل: ’چاروں شہری اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے‘

گذشتہ ماہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے سکرنڈ میں چار افراد کے قتل کے بعد پولیس نے اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہوئے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چاروں افراد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ میں ہلاک ہوئے تھے۔
سندھ
Getty Images

گذشتہ ماہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے سکرنڈ میں چار افراد کے قتل کے بعد پولیس نے اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہوئے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چاروں افراد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔

اس سے قبل 28 ستمبر کو سکرنڈ سے 12 کلومیٹر دور کچے کے قصبے ماڑی جلبانی میں ہونے والے اس واقعے کے بارے میں پولیس اور رینجرز اعتراف کر چکے ہیں کہ یہ ہلاکتیں دراصل ان کی جوابی فائرنگ کے باعث ہوئی تھیں۔

نواب شاہ پولیس کی جانب سے گاؤں کے لوگوں پر دائر مقدمے کا انکشاف اس وقت ہوا جب ابتدائی رپورٹ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کی گئی۔

پولیس کی جانب سے ملزمان پر اس ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی، فائرنگ اور سرکاری کام میں مداخلت کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں۔

ماڑی جلبانی میں گذشتہ جمعرات کی دوپہر کو پیش آنے والے اس واقعے کے بارے میں، مقامی افراد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا موقف بالکل مختلف ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے ایس ایس پی نواب شاہ کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک ملزم کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی تھی جس کے دوران دیہاتیوں نے پولیس اور رینجرز پر حملہ کر دیا جس میں تین رینجرز اہلکار زخمی ہوئے اور پھر پولیس اور رینجرز کی جوابی فائرنگ میں تین افراد ہلاک اور پانچ شدید زخمی ہوئے۔‘

رینجرز کے ترجمان کی جانب سے بھی اس واقعے پر اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ سندھ رینجرز اور پولیس نے خفیہ ادارے کی اطلاع پر شرپسند اور جرائم پیشہ افراد کے موجودگی پر آپریشن کیا تھا۔

رینجرز کے بیان کے مطابق ’خفیہ ادارے کی جانب سے ہائی ویلیو ملزمان کی موجودگی کی اطلاع تھی اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ان ملزمان کے پاس دھماکہ خیز مواد اور اسلحہ ہے۔‘

ترجمان نے دعویٰ کیا تھا کہ ’رینجرز اور پولیس کو دیکھتے ہی شرپسند عناصر نے حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں رینجرز کے چار جوان زخمی ہو گئے جبکہ پولیس اور رینجرز کی جوابی کارروائی میں تین حملہ آور ہلاک ہو گئے تھے۔‘

تاہم پاکستان کے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق صوبائی وزیر داخلہ حارث نواز نے بتایا تھا کہ رینجرز اور پولیس نے ’ایک خودکش حملہ آور کی موجودگی کی اطلاع پر کارروائی کی تھی جس میں دو مشتبہ افراد مارے گئے اور چار رینجرز اہلکار زخمی ہوئے۔‘

واضح رہے کہ سندھ میں کچے کے علاقے میں رینجرز اور پولیس کی جانب سے جرائم پیشہ عناصرکے خلاف آپریشن کچھ عرصہ سے جاری ہے۔

تاہم متاثرین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ رینجرز نے نہتے افراد پر فائرنگ کی۔

سندھ
AFP

سرکار کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں کیا کہا گیا ہے؟

مدعی ایس ایچ او مقصود رضا کی مدعیت میں دائر ایف آئی آر میں ایلفا ون اور ایلفا ٹو کے کوڈ ورڈز کا ذکر ہے، یعنی ان اہلکاروں یا اشخاص کی شناخت چھپائی گئی ہے۔

ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’ایس ایچ او مقصود رضا کو ایس ایس پی شہید بینظیر آباد نے انھیں آگاہ کیا کہ ایلفا ون رابطہ کرے گا اور جس کے بعد ایلفا ون نے انھیں کہا کہ انھیں کل پانچ پولیس موبائلیں اور پولیس نفری مدد کے لیے درکار ہے لہٰذا 28 ستمبر کو سی آئی اے سینٹر پر ایلفا ون اور ایلفا ٹو سمیت رینجرز کی تین گاڑیاں سٹاف سمیت موجود تھیں جس کی قیادت ڈی ایس آر ضیا اور انسپیکٹر آصف کر رہے تھے۔

’انھوں نے آگاہ کیا کہ وٹھ ماڑی جلبانی میں ملزمان نے دھماکہ خیز مواد چھپا رکھا ہے اور اپنے ساتھ کالعدم تنظیم کے لوگوں کو بھی رہائش فراہم کی ہے جو دہشت گردی کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔‘

ایف آئی آر کے مطابق ’ایلفا ون اور الفا ٹو کی نشاندہی پر ملزم کے گھر کی تلاشی لینا شروع کی تو اتنے میں دو ڈھائی سو لوگ ہاتھوں میں کلاشنکوف لیے جمع ہوئے اور ان کے ساتھ گاؤں کے دیگر لوگ بھی تھے جنھوں نے ہاتھوں میں سلاخیں اٹھا رکھی تھیں اور انھیں گھیر لیا گیا۔‘

ایف آر کے مطابق ’جب وہ اپنے ساتھیوں کی مدد سے لاٹھی چارج کر کے باہر نکلے تو ایلفا ون اور ایلفا ٹو کی گاڑیوں سے رینجرز کے ایک ایک اہلکار کو اتار لیا گیا اور جب رینجرز کے دیگر اہلکاروں نے ساتھیوں کو چھڑوانے کی کوشش کی تو اسی دوران چھت پر موجود ملزمان دو دیگر نامعلوم افراد نے فائرنگ کر دی جو ان کی اپنے ہی گلی میں موجود لوگوں کو لگی۔

ایف آئی آر کے مطابق ’وہاں موجود لوگوں نے رینجرز اہلکاروں پر تشدد کر کےانھیں زخمی کیا اور رینجرز اہلکاروں نے لوگوں کو منشتر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی جس میں ایک شخص کو ٹانگ پر گولی لگی۔‘

رینجرز اہلکاروں نے اپنے ساتھیوں کوبازیاب کروا لیا جس کے بعد وہ ماڑی جلبانی تھانے پر پہنچے جہاں سے رینجرز کے زخمی اہلکاروں کو علاجکے لیے روانہ کیا گیا۔

’پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فائرنگ کی‘

خیال رہے کہ ماڑی جلبانی میں فائرنگ اور چار افراد کی ہلاکت کا مقامی لوگوں کی مدعیت میں بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

جس میں فریادی راہب علی جلبانی نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ’28 ستمبر کو وہ اور ان کا بھائی اور ان کے رشتے دارعلی نواز جلبانی کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے تو تقریباً پونے تین بجے گھر کے دروازے کے باہر پانچ پولیس موبائلیں ایک سفید رنگ کی کار ایک سیاہ رنگ کی ویگو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی گاڑیاں پہنچیں جن میں 40 سے 45 اہلکار مختلف وردیوں میں ملبوس تھے۔

مدعی کا دعویٰ ہے کہ ’اہلکاروں نے اترتے ہی کہا کہ تم دہشت گرد ہو تمھیں نہیں چھوڑیں گے اور یہ کہہ کر فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ میں ان کا بھائی سجاول، رشتے دار نظام الدین موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ امام بخش جلبانی، میہار، الھداد، سارنگ، علی نواز، اور لیاقت جلبانی زخمی ہو گئے۔

ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ ’شدید فائرنگ کی وجہ سے گاؤں کے لوگ جمع ہو گئے اور لوگوں کی مدد سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو لے کر تحصیل ہسپتال سکرنڈ روانہ ہوئے۔

’راستے میں میہار اور امام بخش بھی ہلاک ہو گئے اور انھوں نے چاروں مقتولین کے لاش قومی شاہراہ پر رکھ کر احتجاج کیا۔‘

’رینجرز کے ساتھ ایک لڑکا تھا جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی‘

حاجی گل جلبانی سندھ میں کچے کے قریب ماڑی جلبانی کے رہائشی ہیں۔

انھوں نے جمعرات کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’دوپہر تقریباً دو بجے کا وقت تھا جب رینجرز اور پولیس کی وردیوں میں ملبوس اہلکار سات آٹھ گاڑیوں میں گاؤں پہنچے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے تو لوگ یہ سمجھے کہ بجلی چوری کے خلاف آپریشن جاری ہے اور شاید یہ اہلکار اسی سلسلے میں آئے ہیں۔ لیکن بعد میں ان کا دوسرا روپ سامنے آیا۔‘

حاجی گل جلبانی نے بتایا کہ ’رینجرز اور پولیس اہلکار گلیوں اور محلوں میں جانے لگے اور ان کے ساتھ ایک نوجوان لڑکا تھا جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ وہ اس نوجوان کو گھروں کی نشاندہی کرنے کے لیے کہہ رہے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس موقع پر ’مقامی لوگوں نے کہا کہ وہ پردہ دار ہیں اور اپنے گھروں میں پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کو اس طرح داخل ہونے نہیں دیں گے۔‘

اسی موقع پر حاجی گل جلبانی کے مطابق مقامی افراد اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ اہلکاروں نے فائرنگ شروع کر دی جس میں ان کے چار لوگ ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔

حاجی گل جلبانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں سارے لوگ چھوٹے کاشت کار اور کسان ہیں۔‘

انھوں نے دعوی کیا کہ ’ہلاک یا زخمی ہونے والے کسی ایک بندے پر بھی ایف آئی آر تو دور کی بات کسی تھانے میں کوئی شکایت کی درخواست بھی نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر گاؤں میں جرائم پیشہ افراد ہوتے تو کم از کم پولیس کے پاس کوئی ریکارڈ تو موجود ہوتا۔‘

ادھر قوم پرست جماعت سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر سید زین شاہ نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کے ’ووٹروں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‘

انھوں نے ایس ایس پی نواب شاہ کے بیان کو مسترد کیا ہے اور مطالبہ کیا کہ ’بے قصور لوگوں کے قتل میں ملوث اہلکاروں کو گرفتار کیا جائے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.