نیوز کلک: چین سے فنڈز لینے کے الزام میں انڈین صحافیوں کے گھروں پر چھاپے

انڈیا کی پولیس نے منگل کی صبح مبینہ طور پر چین سے فنڈ حاصل کرنے کے الزام میں ’نیوز کلک‘ نامی خبر رساں پورٹل سے منسلک مختلف افراد کے گھروں میں چھاپے مارے ہیں۔
انڈیا
Getty Images

انڈیا کی پولیس نے منگل کی صبح مبینہ طور پر چین سے فنڈ حاصل کرنے کے الزام میں ’نیوز کلک‘ نامی خبر رساں پورٹل سے منسلک مختلف افراد کے گھروں میں چھاپے مارے ہیں۔

دلی اور ممبئی میں پولیس نے صبح چھ بجے کے قریب 35 مقامات پر چھاپے مارے جس کی اطلاعات اس پورٹل سے منسلک صحافیوں نے سوشل میڈیا پر دی۔

ابھیشار شرما، جو نیوز کلک کے لیے ’انڈیا کی بات‘ نامی ایک ٹاک شو میزبان ہیں، نے صبح تقریباً 8 بجے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ جسے پہلے ’ٹوئٹر‘ کہا جاتا تھا، کے ذریعے بتایا کہ ’دلی پولیس میرے گھر پر آئی ہے۔ میرا لیپ ٹاپ اور فون لے جا رہے ہیں۔‘

اس کے آدھے گھنٹے بعد نیوز کلک سے منسلک ایک اور صحافی بھاشا سنگھ نے سوشل میڈیا کے ہی ذریعے اطلاع دی کہ ’آخر کار اس فون سے آخری ٹویٹ۔۔۔ دلی پولیس نے میرا فون ضبط کر لیا۔‘

چند ہی منٹوں میں سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس میں مزید نام نظر آئے، جن میں ایک مورخ اور ایک ’سٹینڈ اپ کامیڈین‘ بھی شامل تھے۔ جن افراد کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، ان کے فون اور لیپ ٹاپ ضبط کیے گئے اور چند کو پولیس تھانے میں طلب کیا گیا۔

پولیس ذرائع کے مطابق یہ کاروائیاں انڈیا میں دہشت گردی کے خلاف سخت قانون ’یو ای پی اے‘ کے تحت کی جا رہی ہیں۔

’جواز پیش کرنے کی ضرورت نہیں‘

ایک جانب جہاں ناقدین نے ان چھاپوں کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا وہیں انڈین حکومت نے اس اقدام کا دفاع کیا ہے۔

انڈیا کے وزیر انوراگ ٹھاکر نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’مجھے جواز پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر کسی نے کچھ غلط کیا ہے، تو تلاشی ایجنسیاں مقررہ رہنما خطوط کے تحت ان کے خلاف تحقیقات کرنے کے لیے آزاد ہیں۔‘

واضح رہے کہ رواں سال اگست میں امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے ایک امریکی کروڑ پتی نویل رائے سنگھم کے چین سے تعلقات پر تحقیقات شائع کیں جن میں یہ الزام لگایا تھا کہ وہ ’چینی پروپیگنڈا پھیلانے میں مدد کرتے ہیں۔‘ ان پر یہ بھی الزام تھا کہ انھوں نے نیوز کلک پورٹل کو بھی فنڈز بھی فراہم کیے تھے۔

نیوز کلک پورٹل کیخلاف فنڈز کے معاملے پر 2021 سے تفتیش جاری تھی تاہم انڈین حکام نے نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ شائع ہونے کے بعد ایک اور کیس درج کیا۔

2021 میں دلی پولیس کے اقتصادی جرائم ونگ نے نیوز کلک کے آفس پر چھاپہ مارا تھا اور کچھ اثاثے ضبط کرنے کے ساتھ ایک مقدمہ بھی درج کیا تھا۔

تفتیشی ایجنسیوں کا مبینہ طور پر الزام تھا کہ نیوز پورٹل کو چین سے منسلک اداروں سے تقریباً 38 کروڑ روپے کی رقم ملی تاہم دلی ہائی کورٹ نے نیوز کلک کے پروموٹرز کو گرفتاری سے تحفظ دیا تھا اور یہ معاملہ فی الحال عدالت میں زیر سماعت ہے۔

نیوز کلک کا موقف ہے کہ ’یہ الزامات نئے نہیں‘ بلکہ ان کا ہر قدم قانونی دائرے میں ہے اور وہ عدالت میں ان کا جواب دیں گے کیونکہ یہ معاملات زیر سماعت ہیں۔

چھاپہ کن لوگوں کے گھروں پر مارا گیا؟

نیوز کلک کے ایڈیٹر کو بھی دہلی پولیس کے سپیشل سیل کے دفتر لے جایا گیا ہے جبکہ جن دیگر افراد کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ان میں مورخ، سماجی کارکن اور فلم ساز سہیل ہاشمی بھی شامل ہیں جو دلی کی تاریخ پر ایک دہائی سے کام کر رہے ہیں۔

سہیل ہاشمی کی بہن اور سماجی کارکن شبنم ہاشمی نے اعلان کیا کہ پولیس صبح چھ بجے کے قریب ان کے بھائی کے گھر پہنچی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے بھائی ان افراد میں سے ایک ہیں جن پر ’دلی پولیس کے سپیشل سیل نے آج صبح چھاپہ مارا۔‘

انھوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’چھ لوگ گھر اور سونے کے کمرے میں گھس گئے۔ دو گھنٹے تک ان سے پوچھ گچھ کی۔ پولیس نے اس کا کمپیوٹر، فون، ہارڈ ڈسک اور فلیش ڈرائیوز ضبط کر لی ہیں۔‘

طنز نگار سنجے راجورا، اسی پورٹل کے ’بھارت ایک موج‘ نامی شو کے میزبان ہیں اور ویب سائٹ کے مطابق انھوں نے آخری بار 21 جون 2021 کو یہ شو ٹیلی کاسٹ کیا تھا تاہم ان کے گھر پر بھی پولیس کا چھاپہ پڑا۔

دیگر افراد میں این ڈی ٹی وی نیوز چینل کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر انندوئے چکرورتی، تحقیقاتی صحافی پرنجوئے گوہا ٹھاکرتا اور سینئر صحافی ارملیش شامل ہیں جبکہ سماجی کارکن تیستا سیتلواد کے گھر پر بھی ممبئ میں چھاپے مارے گئے۔

پولیس کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤویسٹ) کے جنرل سکریٹری سیتارم یچوری کے گھر بھی گئی کیونکہ ان کے مطابق ان کے ساتھ رہنے والے ایک ساتھی کا بیٹا اس پورٹل کے ساتھ کام کرتا ہے۔

https://twitter.com/ShabnamHashmi/status/1709082145967452628?s=20

’حکومت کے من مانی اور دھمکی آمیز رویے کی ایک اور مثال‘

پریس کلب آف انڈیا نے پولیس کے ان چھاپوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم پیشرفت کی نگرانی کر رہے ہیں اور ایک تفصیلی بیان جاری کریں گے۔‘

نیٹ ورک آف ویمین ان میڈیا نے کہا ہے کہ حکومت کے ذریعے ’اختلاف رائے کو ختم کرنے کی اس مہم کا رکنا ضروری ہے۔‘

ڈیجیٹل میڈیا کی نمائندگی کرنے والے ایک گروپ ڈیجی پب نیوز انڈیا فاؤنڈیشننے کہا ہے کہ ’یہ حکومت کے من مانی اور دھمکی آمیز رویے کی ایک اور مثال ہے۔‘

رواں سال کے آغاز میں انڈین ٹیکس حکام نے بی بی سی کے دفاتر کی تلاشی بھی لی تھی اور ملک میں کاروباری معاملات کے بارے میں پوچھ گچھ کی تھی۔ دلی اور ممبئی میں ہونے والی اس کارروائی سے چند ہفتے قبل بی بی سی نے برطانیہ میں ایک ڈاکومینٹری جاری کی تھی جس میں موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے گجرات فسادات سے جڑے کردار پر بات کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ ٹیکس حکام نے 2021 میں ایک اخبار پر ٹیکس چوری کرنے کا الزام لگایا تھا جس میں کورونا وبا کے دوران حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی سالانہ درجہ بندی کے مطابق انڈیا عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں اب تک کی سب سے کم 150 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ گزشتہ سال یہ 140 ویں نمبر پر تھا تاہم انڈین حکومت نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اس کے طریقہ کار پر سوال کیا ہے۔

انڈیا اور چین کا تنازع

انڈیا اور چین کے تعلقات جون 2020 سے تلخ ہیں جب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں لداخ کی وادی گلوان میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جھڑپوں میں متعدد انڈین اور چینی فوجی ہلاک ہوئے۔

اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی نے کسی بھی قسم کی چینی دراندازی کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’نہ کوئی وہاں ہماری سرحد میں گھس آیا اور نہ ہی ہماری کوئی پوسٹ کسی دوسرے کے قبضے میں ہے۔‘

تاہم انڈیا میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کے مطالبے ہوئے تو چند ماہ بعد انڈیا نے قومی سلامتی کی بنا پر 200 سے زائد چینی ایپس پر پابندی لگا دی۔

اس کے بعد چینی کمپنیوں، جیسے کہ مشہور سمارٹ فون بنانے والی کمپنیاں ’شایومی‘ اور ’ویو‘ پر چھاپے مارے گئے اور شایومی کے 5 ہزار کروڑ سے زیادہ کے اثاثوں کو ضبط کر لیا گیا۔

حالیہ مہینوں میں دوسری چینی کمپنیوں پر بھی انڈین حکام نے چھاپے مارے ہیں یا ان کے دفاتر کا دورہ کیا ہے، مثلاً الیکٹرانک کمپنی ہائیر اور لیپ ٹاپ بنانے والی کمپنی لینووو۔

تاہم تلخیوں کے باوجود انڈیا اور چین کے باہمی تجارتی تعلقات میں کمی نہیں آئی۔ 2022 میں انڈیا اور چین کے درمیان 153 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی تجارت ہوئی تھی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.