انڈیا میں سائیکل چلاتی طالبہ کو ’چھیڑنے‘ کا واقعہ جو جان لیوا ثابت ہوا

ایک سکول کی طالبہ کی افسوس ناک ہلاکت نے عوامی مقامات پر خواتین سے جنسی ہراسانی کے واقعات پر روشنی ڈالی ہے اور چند خواتین سماجی کارکنوں نے مقامی پریس کی جانب سے مقدمے کے لیے ’چھیڑنے‘ کے لفظ کے استعمال پر سوال اٹھایا ہے۔
انڈیا
Getty Images

انڈیا میں ایک سکول کی طالبہ کی ہلاکت نے لڑکیوں کو ’چھیڑنے‘ کے جان لیوا نتائج پر روشنی ڈالی ہے۔

لڑکیوں سے ’چھیڑ چھاڑ‘ کا لفظ اور رواج جنوبی ایشیا میں رائج ہے جس کی وجہ سے کئی افراد کا ماننا ہے کہ خواتین سے گلیوں میں ہونے والی ہراسانی کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔

یہ واقعہ ایک سی سی ٹی وی ویڈیو کی مدد سے منظر عام پر آیا جس میں دو لڑکیاں معصومانہ انداز میں سائیکل چلاتی جا رہی ہیں۔

سکول کا یونیفارم پہنے یہ نوجوان لڑکیاں ساتھ ساتھ سائیکل چلاتی ہوئی ایک خالی سڑک سے گزرتی دکھائی دیتی ہیں جب اچانک چند سیکنڈز میں سڑک کا پرسکون ماحول بگڑ جاتا ہے۔

موٹرسائیکل پر سوار دو افراد ان کے قریب سے گزرتے ہوئے ایک لڑکی کا سکارف کھینچتے ہیں۔ اچانک وہ لڑکی توازن کھو بیٹھتی ہے اور اس کی سائیکل دائیں جانب مڑ کر پیچھے سے آنے والے ایک دوسرے موٹر سائیکل سے ٹکرا جاتی ہے۔

یہ 17 سالہ لڑکی سڑک پر گرتی ہے تو مخالف سمت سے آنے والی ایک تیسری موٹر سائیکل اسے کچل دیتی ہے۔

سبھجیت ورما اس 17 سالہ لڑکی کے والد ہیں۔ ان کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو وہ منٹوں میں موقع پر پہنچے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے جیسے ہی اپنی بیٹی کو دیکھا، میں جان گیا کہ وہ مر چکی ہے۔‘

بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’کچھ لوگ جمع ہوئے اور ہم نے اسے ہسپتال پہنچایا۔‘

’ڈاکٹروں نے کہا اسے مردہ حالت میں لایا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اس کا جبڑا ٹوٹ چکا تھا اور وہ سر پر لگنے والے شدید چوٹوں کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔ وہ کوئی آخری الفاظ ادا نہیں کر پائی، خدا حافظ نہیں بول پائی۔‘

سبھجیت ورما کی اہلیہ کا آٹھ سال قبل انتقال ہو چکا ہے اور ان کی دو بڑی بیٹوں کی شادی کے بعد سب سے چھوٹی بیٹی ہی ان کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی بیٹی پڑھائی میں اچھی تھی اور ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ہلاکت سے دو دن قبل ان کی بیٹی نے ذکر کیا تھا کہ کچھ لڑکے سکول کے باہر اسے اور دیگر لڑکیوں کو چھیڑتے ہیں۔ ان کی بھتیجی اور دیگر طالبات نے پولیس کو بتایا ہے کہ نوجوان صبح اور چھٹی کے اوقات میں سکول کے گرد گھومتے رہتے تھے۔

بیٹی کی موت نے سبھجیت ورما کا دل توڑ دیا ہے اور وہ غصے میں ہیں۔ ’میری بیٹی کو قتل کیا گیا۔ جنھوں نے اس کا قتل کیا ان کو پھانسی دینی چاہیے۔‘

انڈیا
Getty Images

یہ واقعہ گزشتہ ماہ شمالی انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے امبیڈکر ناگر ضلع میں پیش آیا۔ پولیس نے تین ملزمان کو حراست میں لیا جبکہ رپورٹس کے مطابق ان میں سے ایک کم عمر ہے۔ پولیس کو ایک چوتھے شخص کی تلاش ہے۔

سبھجیت ورما کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد ایک وزیر سمیت ریاستی سرکاری اہلکار ان کے پاس آئے لیکن اب تک ان کو کسی قسم کا مالی معاوضہ نہیں دیا گیا۔

اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور شہ سرخیاں بنیں تو ریاست کے وزیر اعلی یوگی ادتیاناتھ نے خبردار کیا کہ ’سڑکوں پر خواتین کو ہراساں کرنے والوں کے انتظار میں اگلے ٹریفل سگنل پر یمراج (ہندو مذہب میں موت کے دیوتا) موجود ہوں گے۔‘

اس بیان کے چند ہی گھنٹوں کے اندر پولیس نے اعلان کیا کہ انھوں نے اس واقعے کے دو ملزمان کی ٹانگوں میں گولیاں مار کر انھیں اس وقت زخمی کیا جب وہ طبی معائنے کے لیے لے جا رہے تھے اور انھوں نے فرار ہونے کی کوشش کی۔ پولیس کے مطابق تیسرے شخص نے فرار ہونے کی کوشش میں اپنی ٹانگ تڑوا لی۔

گرفتار افراد کے اہلخانہ نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ یہ نوجوان جرم میں ملوث تھے۔ ان کا موقف ہے کہ سی سی ٹی وی ویڈیو میں نظر آنے والے نوجوان کوئی اور ہیں۔ انھوں نے الزام لگایا ہے کہ پولیس نے فرضی مقابلے میں ان نوجوانوں کو زخمی کیا تاہم پولیس کا موقف ہے کہ اس مقدمے پر تیزرفتاری سے کارروائی ہو رہی ہے اور ایک ماہ میں فیصلہ سنائے جانے کی توقع ہے۔

ایک سکول کی طالبہ کی افسوس ناک ہلاکت نے عوامی مقامات پر خواتین سے جنسی ہراسانی کے واقعات پر روشنی ڈالی اور چند خواتین سماجی کارکنوں نے مقامی پریس کی جانب سے مقدمے کے لیے ’چھیڑنے‘ کے لفظ کے استعمال پر سوال اٹھایا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ لفظ مسائل سے بھرپور ہے اور انھوں نے نشاندہی کی کہ حال ہی میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے بھی اس لفظ کی جگہ عدالتوں میں گلیوں میں جنسی ہراسانی کا لفظ استعمال کرنے کی ہدایت کی ہے۔

کلپنا وشواناتھ سیفٹی پن نامی سماجی تنظیم کی شریک بانی ہیں جو عوامی مقامات کو خواتین کے لیے محفوظ بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’چھیڑنے کا لفظ اتنا بے ضرر نہیں۔‘

انڈیا
Getty Images

’یہ بالی وڈ کا بیانیہ ہے کہ دو ہیرو عورت کا پیچھا کرتے ہیں جسے یہ پسند ہے لیکن یہ جرم ہے، جو پرتشدد ہے اور ہراسانی یا تشدد سے ہونے والے نقصان کو چھیڑ چھاڑ کا نام دے کر یوں غیر سنجیدہ نہیں بنانا چاہیے۔‘

انڈیا میں خواتین کی اکثریت گواہی دے گی کہ ایسا بہت عام ہے جو سڑک یا رش سے بھرپور عوامی ٹرانسپورٹ میں اکثر ہوتا ہے۔ اکثر خواتین کے پاس ایسی کہانی ہو گی جب ان کو چٹکی کاٹی گئی یا ان کی چھاتی پر کسی نے کہنی ماری۔

ہراسانی کے ایسے مقدمات زیادہ تر انڈین پینل کوڈ کے آرٹیکل 54 اے کے تحت رجسٹر ہوتے ہیں جو ’خواتین کی حیا‘ سے متعلق ہے تاہم امبیڈکر ناگر میں ہونے والے واقعے میں پولیس نے دیگر دفعات بھی شامل کی ہیں۔

2021 کے اعدادوشمار کے مطابق انڈیا میں پولیس نے اس نوعیت کے 90 ہزار مقدمات درج کیے جو اسی سال میں خواتین کے خلاف ہونے والے چار لاکھ 28 ہزار 278 مقدمات کا 13 عشاریہ چار فیصد بنتے ہیں۔

اعدادوشمار کے مطابق ماضی کے زیر التوا مقدمات کو شامل کریں تو ایسے تقریباً پانچ لاکھ مقدمات کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔

کلپنا وشواناتھ کہتی ہیں کہ زیادہ تر خواتین تو پولیس کے پاس جاتی ہی نہیں اس لیے یہ معاملہ اتنا زیادہ رپورٹ ہی نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اس واقعے کی خبر لڑکی کی ہلاکت کی وجہ سے بنی۔ اگر وہ نہ مرتی اور گرنے کے بعد اٹھ جاتی، کپڑے جھاڑتی اور گھر چلی جاتی تو کوئی اس کے بارے میں بات نہ کرتا۔‘

سماجی کارکنوں کا ماننا ہے کہ اس مسئلے کا حل صرف تب ممکن ہے جب لڑکوں کی پرورش اچھے طریقے سے کی جائے لیکن کلپنا وشواناتھ کا کہنا ہے کہ ’یہ طویل المدتی عمل ہے اور اس دوران میڈیا میں پیغام رسانی کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ نظام لڑکیوں کے خلاف ہے۔‘

’لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کون سا رویہ قابل قبول ہے، پولیس کو حساس ہونا ہو گا تاکہ خواتین کی شکایات کو سنجیدگی سے سنا جائے اور کیونکہ پولیس ہر جگہ موجود نہیں ہوتی تو عوام اور دیکھنے والوں کو آگے بڑھنا ہو گا۔‘

’ہم اپنا منھ موڑ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ لڑکے تو لڑکے ہی رہیں گے۔ ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.