چکوال کے مدرسے میں بچوں سے ریپ کے الزام میں دو اساتذہ گرفتار: ’کیس دبانے والوں کو بھی شامل تفتیش کریں گے‘

پنجاب کے ضلع چکوال کی پولیس نے بچوں سے ریپ کے الزام میں مقامی مدرسے کے دو اساتذہ کے خلاف مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کر لیا ہے۔ متاثرہ بچوں کے والدین کے مطابق ملزمان میں سے ایک استاد بچوں کے جسموں پر ’زیڈ‘ کا نشان بناتا تھا۔ مدرسے کی انتظامیہ نے بچوں پر تشدد کا اعتراف کیا ہے تاہم ریپ کے الزام کی تردید کی ہے۔
 بچوں کے ساتھ بد عفعلی
Getty Images
فائل فوٹو

’میں اپنے بیٹے سے ملنے گیا تو وہ بہت پریشان تھا۔ میں نے کافی تسلی دے کر پوچھا تو اس نے بتایا کہ میرے استادنے میرے ساتھ غلط حرکات کیں اور وہ مجھے چاقو سے ڈراتے بھی ہیں۔‘

پنجاب کے ضلع چکوال کے ایک مدرسے کے ایک 12 سالہ طالب علم نے یہ تفصیلات اپنے والد کو بتائیں جس کے بعد مقامی پولیس نے ریپ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا اور پھر دو اساتذہ کو گرفتار کیا۔

ضلعی ہسپتال میں جامعہ المصطفیٰ نامی ایک مقامی مدرسے میں پڑھنے والے 15 بچوں کو طبی معائنے کے لیے لایا گیا جنھیں مبینہ طور پر ریپ اور جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

چکوال پولیس کے مطابق ’واقعے کی تفتیش جاری ہے اور مدرسے کے پرنسپل اور ایڈمن انچارج گرفتار کر لیے گئے ہیں۔‘ تاہم اب تک اس مدرسے کو سیل نہیں کیا گیا ہے۔

بی بی سی کو معلوم ہونے والی تفصیلات کے مطابق ان متاثرہ بچوں کے جسموں پر دانتوں کے نشانات ہیں اور کئی روز قبل ان کے جسموں پر تیز دھار چاقو سے کچھ لکھا گیا۔

نگران وزیراعلی پنجاب محسن نقوی نے اس واقعے کا نوٹس لیا ہے اور تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

’بچوں کے جسم پر چاقو سے انگریزی کا حرف زیڈ کندہ کیا گیا‘

اس واقعے سے متعلق پولیس میں درخواست ایک متاثرہ بچے کے والد کی جانب سے درج کروائی گئی ہے۔

درخواست گزار والد کے مطابق ’میں اپنے بیٹے سے ملنے گیا تو وہ کافی پریشان تھا جس کو میں نے کافی تسلی دے کر پوچھا تو اس نے بتایا کہ میرے استاد نے میرے ساتھ بدفعلی کی ہے اور چاقو سے ڈراتے ہیں۔‘

ایف آئی آر میں درخواست گزار نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ ’میرے بچے نے بتایا ہے کہ ان کے علاوہ چھ اور بچوں کے جسموں پر بھی وہ چاقو سے ’زیڈ‘ لکھتے رہے ہیں جو نشانات اب بھی موجود ہیں۔‘

درخواست کے مطابق ’بچے نے اپنے والد کو مزید بتایا کہ دونوں اساتذہ نے کئی بچوں کے ساتھ نازیبا حرکات کی اور ان کے جسم پر بھی چھری سے انگریزی کا حرف زیڈ لکھا۔‘

ڈی پی او چکوال نے بی بی سی کو بتایا کہ بچوں سے ریپ کی اطلاع ملتے ہی وہ جمعے کو کھلی کچہری سے اٹھ کر مذکورہ مدرسے میں چلے گئے اور تمام بچوں سے اساتذہ کو باہر بھیج کر علیحدگی میں گفتگو کی۔

ایک متاثرہ بچے کے ماموں نے بی بی سی کو بتایا کہ بچہ جب چھٹی پر گھر آیا تو اس نے اپنی والدہ سے کہا کہ ’میں مدرسے نہیں جاؤں گا۔‘

مذکوہ رشتے دار کا نام بچے کے تحفظ کی خاطر یہاں درج نہیں کیا جا رہا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’بچہ اس سے پہلے بھی دو بار بیمار ہوا تھا اور اس نے کہا تھا کہ میں مدرسے نہیں جاؤں گا اور گھر والے اسے معمول سمجھ رہے تھے کہ یہ پڑھائی سے جی چُرا رہا تھا۔‘

ان کے مطابق طبی معائنے کا عمل جمعے کی شب تک جاری رہا جہاں پولیس اور والدین موجود تھے۔

بچوں کے ساتھ بدفعلی
Getty Images

مدرسے کے سات طلبہ کے جسموں پر ’زخموں کے نشان‘

بچوں کے طبی معائنے سے چند گھنٹے پہلے کھلی کچہری کے دوران پولیس حکام کے سامنے اس مقامی مدرسے کا معاملہ آیا جو بچوں پر جنسی حملوں کے ایک ایسے کیس کو سامنے لایا جسے پولیس حکام ’کلسٹر حملے‘ کا نام دے رہے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ یہ مدرسہ رجسٹرڈ نہیں تھا لیکن شہر کی حدود میں تھانے سے پانچ کلومیٹر کی دوری پر گذشتہ 12 سال سے قائم تھا اور اس سے پہلے کبھی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔

ڈی پی او چکوال واحد محمود نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دونوں ملزمان کو جمعے کو ہی میانوالی اورراولپنڈی کے علاقے جاتلی سے گرفتار کر لیا گیا تھا جبکہ مدرسے کی انتظامیہ نے پولیس کو مذکورہ ملزمان کی سرگرمیوں سے باخبر نہیں کیا، اس لیے ان کی گرفتاری بھی ڈالی جائے گی ۔‘

’اس مدرسے میں 38 بچے رہائش پذیر ہیں جن میں سے سات کے جسم پر زخموں کے نشانات ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ بچوں نے اپنے ویڈیو بیانات میں خود پر ہونے والے جنسی تشدد کی تصدیق کی ہے۔

ڈی پی او چکوال کا کہنا تھا کہ ’جب میں مدرسے گیا تو میں نے بچوں کو الگ الگ کیا۔ میری ٹیم اور ایس ایچ او میرے ساتھ تھے، ایک بچے نے کہا کہ میرے ساتھ یہ ہوا۔ دوسرے نے کہا میرے ساتھ بھی یہ ہوا۔ ایک بچے نے ہاتھ اٹھایا اور کہا یہ دیکھیں اس کے بازو پر زیڈ کا نشان ہے۔ وہ ایک پکا نشان تھا۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ یہ تعزیرات پاکستان کے تحت دفعہ 377 کا کیس ہے اور سب بچوں سے قانون کی دفعہ 161 کے تحت بیانات لیے جا رہے ہیں۔

پولیس کے مطابق مدرسے کی انتظامیہ کا موقف ہے کہ ’مذکورہ اساتذہ کو تین ماہ پہلے رکھا تھا اور پولیس تک خبر جانے سے 20 دن پہلے انھیں مدرسے سے نکال دیا گیا تھا۔‘

ڈی پی او چکوال کے مطابق مدرسے کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ’ملزمان قاریوں کو مدرسے سے چند روز قبل نکال دیا تھا۔ استادوں نے کیس کو دبانے کی کوشش کی، ہم ان کو بھی شامل تفتیش کر رہے ہیں۔‘

ڈی پی او کا کہنا ہے کہ ایک ملزم اپنے نام کا پہلا لیٹر زیڈ بچوں کے جسم پر لکھتا تھا۔

بی بی سی کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بچوں پر جنسی حملوں میں ملوث دونوں ملزمان چار روزہ ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں۔

کیس کی ابتدائی رپورٹ پولیس کے پاس ہے لیکن پولیس میڈیا سے بچوں کے بیانات یا طبی رپورٹ شیئر کرنے سے انکاری ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے چھان بین کی جا رہی ہے اور یہ دیکھا جا رہا ہے کہ مدرسے کی انتظامیہ نے معاملے کی پردہ پوشی کیوں کی۔

مدرسے کی انتظامیہ کی ریپ کے الزام کی تردید

مدرسے کے ایک منتظم کی جانب سے ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مبینہ طور پر متاثرہ بچے کی شکایت کے بعد مذکورہ قاریوں کو مدرسے سے نکال دیا گیا تھا تاہم وہ ریپ کے الزام کو مسترد کرتے ہیں۔

مدرسے کے مہتمم نوید حیدری بچوں پر تشدد کا تو اعتراف کرتے ہیں تاہم وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’بچوں کے ساتھ کوئی بدفعلی نہیں ہوئی۔‘

پاکستان کے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’10 نومبر کو ہمارے ایڈمن آفس میں تین چار بچوں کی شکایت آئی کہ اساتذہ نے ہم پر تشدد کیا ہے تو ہم نے فوری طور پر اساتذہ کو فارغ کر دیا تھا۔‘

بچوں کے ساتھ بدفعلی
Getty Images

ضلعی ہسپتال کے ترجمان ڈاکٹر حلیم کا کہنا ہے کہ ’والدین کی موجودگی میں اور ان کی رضامندی سے بچوں کا طبی معائنہ ہوا لیکن 15 میں سے پانچ بچوں کے والدین نے میڈیکولیگل یعنی تفصیلی طبی معائنے اور جنسی زیادتی کے لیے نمونے دینے کی اجازت دی۔‘

دوسری جانب چکوال ڈی ایچ کیو کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ڈاکٹر انجم قدیر نے بی بی سی کو بتایا کہ وقت گزرنے کے بعد طبی ٹیسٹ کے نتائج میں ایک فیصد امکان ہے کہ پتا چل سکے کہ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد ہوا ہے۔

’اگر تشدد ہوا ہے اور یہ 10 دن پرانی بات ہے اور خاص طور پر اس طرح کا کیس تو اس میں شواہد ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس وقت ہم نے کیمیکل سواب بھجوائے ہیں اور ایک فیصد فائدہ ہو سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’فرانزک کے نتائج میں کم سے کم ایک مہینہ لگتا ہے۔ اگر وزیر اعلیٰ حکم دیں تو بھی کم سے کم دو ہفتے لگیں گے۔‘

پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کو ایک ٹیسٹ کیس بنائیں گے تاکہ پھر کبھی مسجد اور مدرسے کے اندر ’اس قسم کے کام کی کوئی جرات نہ کر سکے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.