’جج صاحب جلدی آپ کو ہے، مجھے تو جیل میں ہی رہنا ہے‘: اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت اور سزا سنائے جانے کا احوال

تحریکِ انصاف کے رہنما عمران خان کے خلاف سائفر کیس کے دوران منگل کو دورانِ سماعت کمرہِ عدالت میں موجود جیل کے ایک اہلکار کے مطابق 342 کا بیان ریکارڈ کروانے کے بعد عدالت نے عمران خان سے پوچھا ’خان صاحب، آپ سے آسان سا سوال ہے، سائفر کہاں ہے؟‘

منگل کے روز سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا تو اڈیالہ جیل میں واقع کمرہِ عدالت میں موجود افراد کو یہ یقین نہیں تھا کہ اس کیس کا مختصر فیصلہ کچھ ہی دیر میں سُنا دیا جائے گا۔

اور اس ’گمان‘ کی وجہ 36 سوالات پر مشتمل وہ سوالنامہ تھا جو منگل کی صبح ہی سماعت کے آغاز پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے حوالے کیا گیا تھا۔

عدالتی کارروائی کے مطابق کسی بھی کیس میں فیصلہ سنائے جانے سے قبل ملزمان کو ضابطہِ فوجداری کی شق 342کے تحت آخری مرتبہ اپنا جواب جمع کروائے جانے کی مہلت دی جاتی ہے جبکہ اس کے بعد وکلاِ صفائی اور استغاثہ کو بھی بات کرنے کا آخری موقع دیا جاتا ہے۔

عدالت میں موجود افراد کا خیال تھا کہ اگر ملزمان باری باری بھی ان 36 سوالوں کا جواب دیتے ہیں اور اس کے بعد فریقین کے وکلا کو بھی حتمی دلائل کا موقع دیا جاتا ہے تو اس پوری کارروائی میں کافی وقت صرف ہو گا۔

کمرہِ عدالت میں موجود صحافی رضوان قاضی اور وہاں موجود ایک جیل اہلکار کے مطابق ابھی عدالتی کارروائی شروع ہوئی ہی تھی کہ خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ملزمان کو سوالنامے کی کاپیاں فراہم کرنے کی ہدایت کی اور اس کیس میں مرکزی ملزم عمران خان کو روسٹرم پر بلاتے ہوئے ہدایت کی کہ ’جلدی آئیں۔‘

جج کی اس ہدایت پر عمران خان نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جج صاحب، جلدی تو آپ کو ہے۔ میں نے جیل میں ہی رہنا ہے۔‘

اس پر جج نے ان سے استفسار کیا کہ کیا وہ 342 کے بیان پر دستخط کریں گے؟ جس پر عمران خان نے جج وضاحت طلب کی کہ ’پہلے آپ مجھے یہ بتائیں کہ 342 ہوتا کیا ہے؟‘ اس پر خصوصی عدالت کے جج کا کہنا تھا کہ قانون کو مدِّنظر رکھتے ہوئے عدالت آپ کو سوالوں کے جواب دینے کا موقع دے رہی ہے۔

عدالت میں موجود صحافی اور جیل اہلکار کے مطابق اس کے بعد عمران خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ اپنا جواب خود لکھوانا چاہتے ہیں جس پر انھیں ہدایت کی گئی کہ وہ کمرہِ عدالت میں موجود کمپیوٹر آپریٹر کو اپنا بیان ڈکٹیٹ کروا دیں۔

عمران خان نے 342 کا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ سائفر ان کے آفس میں تھا اور اس کی ذمہ داری اُن کے پرنسپل سیکریٹری اور ملٹری سیکریٹری کی تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد کے جلسے میں انھوں نے جو کاغذ لہرایا تھا وہ سائفر کی ’پیرا فریز‘ کاپی تھی۔

رضوان قاضی کے بقول عمران خان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ سائفر گمشدگی کے معاملے پر انھوں نے اپنے ملٹری سیکریٹری سے کہا کہ وہ اس معاملے کی انکوائری کروائیں جس پر انکوائری ہوئی لیکن سائفر کا کوئی سراغ نہ ملا۔

عمران خان، شاہ محمود قریشی
Getty Images
سائفر کیس میں عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی دونوں کو 10 ، 10 سال قید کی سزا سنائی ہے

عمران خان نے عدالت کے روبرو ایک مرتبہ پھر اپنے الزامات کو دہرایا کہ اُن کی حکومت کے خلافسازش میں اس وقت کے آرمی چیفجنرل قمر جاوید باجوہ اورامریکی سفارتکار ڈونلڈ لو شامل تھے۔

رضوان قاضی اور جیل اہلکار کے مطابق عمران خان نے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے مزید کہا کہ انھوں نے ان معاملات پر جنرل باجوہ سے ملاقات کےلیے تین رکنی کمیٹی بنائی جس میں اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک شامل تھے۔عمران خان نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے مزید دعویٰ کیا کہ 22 اگست کو ایوان صدر میں اُن کی جنرل باجوہ سے پھر ملاقات ہوئی جس میں جنرل باجوہ نے کہا سائفر پر بات نہ کرو۔

کمرہِ عدالت میں موجود جیل کے ایک اہلکار کے مطابق 342 کا بیان ریکارڈ کروانے کے بعد عدالت نے عمران خان سے پوچھا ’خان صاحب، آپ سے آسان سا سوال ہے، سائفر کہاں ہے؟‘ جس پر عمران خان نے کہا کہ انھیں نے اپنے بیان میں یہی کہا ہے کہ انھیں نہیں معلوم کہ سائفر کہاں ہے۔

صحافی رضوان قاضی اور جیل اہلکار کے مطابق یہ جواب دینے کے بعد جب عمران خان واپس جانے لگے تو عدالت نے انھیں رُکنے کا اشارہ کیا اور اس مقدمے کے دوسرے ملزم شاہ محمود قریشی کو بھی روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ عدالت آپ دونوں کو اس مقدمے میں دس سال قید کی سزا سناتی ہے۔

رضوان قاضی کے مطابق اس کے فوراً بعد خصوصی عدالت کے جج اٹھ کر جانے لگے تو پیچھے سے شاہ محمود قریشی نے آواز لگائی کہ ابھی تو اُن کا 342 کا بیان بھی ریکارڈ نہیں ہوا۔

رضوان قاضی کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے بعد عمران خان مسکراتے رہے جبکہ شاہ محمود قریشی کچھ پریشان دکھائی دے رہے تھے۔

جب رضوان قاضی سے پوچھا گیا کہ شاہ محمود قریشی کا342 کا بیان ریکارڈ نہ ہونے پر ان کو فراہم کیے گئے سرکاری وکیلوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا جس پر انھوں نے کہا کہ وہ بھی اسی طرح خاموش کھڑے تھے جس طرح پراسیکوشن کے وکلا۔

انھوں نے کہا کہ عدالت کے فیصلہ سنائے جانے کے بعد جیل کے حکام عمران خان اور شاہ محمود کو کمرہ عدالت سے باہر لے گئے۔

جیل کے اہلکار کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد عمران خان کو توشہ خانہ اور 190 ملین پاؤنڈ کے مقدمات کے لیے جیل میں ہی قائم احتساب عدالتمیں پہنچا دیا گیا۔

اڈیالہ جیل
Getty Images
سائفر کیس کی سماعت خصوصی عدالت کے جج راولپنڈی کی خصوصی عدالت میں کرتے رہے

اس مقدمے میں پراسیکیویشن ٹیم کے سربراہ راجہ رضوان عباسی کا کہنا ہے کہ بحثیت وکیل انھیں اس بات پر افسوس ہے کہ کس طرح ایک سابق وزیر اعظم کے مقدمے کو ہینڈل کیا گیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ یہ چاہتے تھے کہ ملزمان کی وکلا ٹیم تیاری کرکے آتی تاکہ ان کے ساتھ اچھا مقابلہ ہوتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

راجہ رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ ملزمان کے وکلا کی جانب سے گواہوں پر جرح نہ کرنے کی وجہ سے عدالت کو ملزمان کے لیے سرکاری وکیلوں کو تعینات کرنا پڑا۔

عدالت کی طرف سےجن وکلا کو ملزمان کا وکیل نامزد کیا گیا ان میں عبدالرحمان ایڈووکیٹ بھی شامل تھے جو کہ عمران خان کے وکیل تھےاور انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعوی کیا کہ جن 20 پراسیکوشن کے گواہوں جن میں سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے علاوہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید اور سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود بھی شامل تھے، پر جرح کرتے وقت عمران خان کی مشاورت شامل تھی اور وہ انھیں اس بارے میں ہدایات بھی دیتے تھے تاہم مذکورہ وکیل کے دعوے کے برعکس کمرہ عدالت میں موجود صحافی رضوان قاضی اور جیل حکام کے مطابق عمران خان نے انھیں کمرہ عدالت میں پہچاننے سے ہی انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ’آپ میرے وکیل نہیں ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ پیر کو رات گئے تک جب اس مقدمے کی سماعت جاری رہی تو عمران خان صرف ایک منٹ کے لیے کمرہ عدالت میں آئے اور جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آپ میری حاضری لگائیں، میں یہاں نہیں بیٹھوں گا۔‘

رضوان قاضی کے بقول عمران خان نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس لیے اس عدالت میں نہیں بیٹھیں گے کیونکہ یہاں پر ’فکسڈ میچ‘ چل رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ منگل کو جب اس مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا تو تب بھی عمران خان نے سٹیٹ کونسل کو اپنے پاس کھڑا نہیں ہونے دیا۔

اس کیس کے اختتام کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنے وکیل حامد خان کے توسط سے سائفر کیس میں سرکاری وکیل صفائی کی تقرری کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔

درخواست میں سرکاری وکیل صفائی کی تقرری اور اس کے بعد سائفر کیس میں ہونے والی خصوصی عدالت کی کارروائی کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی گئی ہے۔’


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.