ہنٹر والی: ہندوستانیوں کے دلوں پر راج کرنے والی آسٹریلوی سٹنٹ وومن نادیہ کی کہانی

اداکارہ اور سٹنٹ وومین میری این ایونز، جو اپنے سٹیج کے نام ’فیئرلیس نادیہ‘ کے نام سے مشہور تھیں، نے 1935 میں جب ہندی فلم ’ہنٹر والی‘ (دی وومن ود دا ووپ) میں جلو گر ہوئی تو اُس وقت کی ہندوستانی فلم انڈسٹری میں طوفان برپا ہوگیا۔

’میرے بچپن کی واحد سب سے یادگار آواز ’فیئیرلیس نادیہ‘ کی ہوا کرتی تھی کہ جس میں پُروقار انداز میں گھوڑے پر سوار جب وہ سین میں نظر آتیں اور فضا میں ہاتھ بلند کر کے کہتیں ’ہئے یے یے۔‘

یہ الفاظ ہیں انڈین ڈرامہ نگار اور ہدایت کار گریش کرناڈ کے ہیں جو انھوں نے 1980 میں کہے تھے۔

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’چالیس کی دہائی کے وسط کے سکول کے بچوں کے لیے، ’فیئرلیس نادیہ‘ کا مطلب ہمت، طاقت اور آئیڈیلزم ہوا کرتا تھا۔‘

اداکارہ اور سٹنٹ وومین میری این ایونز، جو اپنے سٹیج کے نام ’فیئرلیس نادیہ‘ کے نام سے مشہور تھیں، نے 1935 میں جب ہندی فلم ’ہنٹر والی‘ (دی وومن ود دا ووپ) میں جلو گر ہوئی تو اُس وقت کی ہندوستانی فلم انڈسٹری میں طوفان برپا ہوگیا۔

آسٹریلوی نژاد سنہرے بالوں، نیلی آنکھوں والی خاتون، جو سر پر ٹوپی پہنے، چمڑے کی شارٹس اور گھٹنوں تک لمبے جوتے، ہاتھ میں چابک لیے نہایت دلفریب انداز کے نمودار ہوتے ہی شائقین کے دل موہ لیتیں۔

بالی وڈ سے پہلے بمبئی کی مصنفہ روزی تھامس کے مطابق ایونز 1908 میں آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں ایک یونانی والدہ اور برطانوی والد کے ہاں پیدا ہوئیں۔ وہ 1911 میں اپنے والد کی آرمی یونٹ کے ساتھ ہندوستان پہنچیں لیکن ان کی موت کے بعد بمبئی (اب ممبئی) میں اپنے خاندان کے ساتھ آباد ہوگئیں۔

تھامس کے مطابق، ایونز، جو رقص اور گھڑ سواری سیکھ کر بڑے ہوئی تھیں، نے ایک روسی بیلے گروپ کے ساتھ ہندوستان کا دورہ کیا اور مختصر طور پر ایک سرکس کے لیے پرفارم کیا۔

نوجوان اداکارہ ایک گلوکارہ اور ڈانسر کے طور پر مشہور ہوئیں، جنھوں نے ملک بھر میں ہر قسم کے مقامات پر پرفارم کیا۔

وہ 1930 کی دہائی کے اوائل میں تھیٹر اور سرکس میں کام کر رہی تھیں جب انھیں بالی وڈ کے ممتاز فلم ڈائریکٹر جے بی ایچ واڈیا نے کھوج نکالا کہ وہ کوئی بڑی اداکارہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

واڈیا نے ابتدائی طور پر انھیں اپنے سٹوڈیو واڈیا مووی ٹون کی طرف سے تیار کردہ فلموں میں چھوٹے کرداروں میں کاسٹ کیا، جسے وہ اپنے بھائی ہومی کے ساتھ چلاتے تھے۔

جے بی ایچ واڈیا کے پوتے رائے واڈیا کا کہنا ہے کہ ایونز سٹنٹ کرنے میں بہت کمال رکھتی تھیں اور ’کچھ بھی کر کے دکھانے کی صلاحیت‘ رکھتی تھیں۔

چنانچہ واڈیا برادران نے انھیں فلم ’ہنٹر والی‘ میں ان کے پہلے مرکزی کردار میں کاسٹ کیا، جس میں انھوں نے ایک بدلہ لینے والی شہزادی کا کردار ادا کیا جو ایک نقاب پوش چوکیدار بن جاتی ہیں اور اس کے بعد وہ ایک بدعنوان عدالتی اہلکار سے اپنے والد کی موت کا بدلہ لینا چاہتی ہیں۔

تاہم جب وہ اپنی فلم میں اہم کردار ادا کرنے والی ایک نئی اور اُبھرتی ہوئی اداکارہ کے ساتھ کام کرنے کے لیے انتہائی پُر جوش تھے تو ایسے میں دوسری جانب ان کے حریف انھیں قبول کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔

رائے واڈیا کہتے ہیں کہ ’فلم کے فنانسرز اس بات سے کافی خوفزدہ تھے کہ یہ پارسی بھائی ایک سنہرے بالوں، نیلی آنکھوں اور سفید رنگت والی خاتون سے ایک فلم میں کام کروائیں گے کہ جہاں وہ گرم پتلون اور چمڑے کی واسکٹ پہنے ہوئے تھیں اور ایک کوڑا اٹھائے ہوئے تھیں اور بنیادی طور پر ان تمام برے لوگوں کو پیٹتی ہوئیں دکھائی دیں گی۔‘

چنانچہ فنائنسرز کو ایک جانب رکھتے ہوئے واڈیا برادران نے خود فلم ریلیز کی۔

تھامس کے مطابق، 1935 کی فلم ایک زبردست ہٹ تھی، جو تھیٹروں میں ہفتوں تک ہاؤس فل چلتی رہی، اور ایونز 1930 اور 1940 کی دہائی کی ٹاپ باکس آفس خاتون سٹار بن گئیں۔

فلم کی کامیابی نے واڈیا مووی ٹون کو بھی ایک سٹوڈیو میں تبدیل کر دیا جو شاندار سٹنٹ اور تھیٹرکس والی فلموں کے لیے جانا جاتا ہے۔ فلم ’ہنٹر والی‘ میں ایون کی مشہور چیخ ’ہئیےیے یے‘ ایک کیچ فریز بن گئی۔

رائے واڈیا کہتے ہیں کہ ’انھوں نے جو کردار ادا کیے، اور جو سکرین پلے میرے دادا نے ان کے لیے بنائے، وہ آزادی کے بارے میں، جدوجہد آزادی کے بارے میں، خواندگی کے بارے میں، انسداد بدعنوانی کے بارے میں تھے، وہ تمام موضوعات جو خاص طور پر اس وقت بہت زیادہ سماجی تبدیلی اور انتشار کے وقت متعلقہ تھے۔ ’ہندوستان کی آزادی کی تحریک‘ سے متعلق تھے۔

تھامس لکھتے ہیں کہ ’اگرچہ سخت برطانوی سنسرشپ نے تحریک آزادی کے واضح حوالہ جات سے منع کیا تھا۔‘

اداکارہ کے سٹنٹس کرنے میں مہارت نے ان کی آن سکرین شخصیت کو دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز بنایا، لیکن یہ سب ہمیشہ سے آسان نہیں تھا۔

کارناڈ کے ساتھ 1980 کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں، ایونز نے اپنے فلمی کیرئیر کے اپنے سب سے خوفناک لمحات میں سے ایک کے بارے میں بات کی۔ اداکارہ فلم جنگل کی شہزادی (1942) میں کام کر رہیں تھیں کہ جس میں شیر کے ساتھ اُن کا ایک سین تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے شوٹنگ شروع کی اور اچانک سندری نامی شیرنی نے ایک زبردست دھاڑ ماری اور چھلانگ لگا دی۔ وہ سیدھی میرے، ہومی کے، اور ہمارے فوٹوگرافر کے سر کے اُوپر سے چھلانگ لگا کر پنجرے سے باہر نکل آئی، اور پنجوں کے ساتھ ایسے جنگلے کے ساتھ لٹک گئیں کہ اُن کے جسم کا آدھا حصہ باہر اور آدھا اندر تھا۔‘

شیر ٹرینر نے بالآخر انھیں بغیر کسی نقصان کے باہر نکالا۔

رائے واڈیا کہتے ہیں کہ ’اپنی فلموں میں، ایونز اکثر مغربی لباس سے ہندوستانی لباس میں باآسانی اپنے آپ کو ڈھال لیتیں تھیں۔

ایونز بالآخر محبت میں گرفتار ہو گئیں اور ہومی واڈیا کی پارٹنر بن گئیں، ایسا رشتہ جو واڈیا خاندان میں بہت سے لوگوں کو منظور نہیں تھا۔ اس جوڑے کو اپنے بھائی جے بی ایچ واڈیا کی بھرپور حمایت حاصل تھی، لیکن انھوں نے واڈیا کی والدہ کے انتقال کے بعد ہی شادی کی۔

رائے واڈیا ایونز کو ایک عام سی خاتون کے طور پر یاد کرتے ہیں جن میں مزاح کا احساس ایسے ہوتا ہے کہ ’انتہائی پُرکشش شخصیت کی مالک تھیں اور ہسنی مزاق کرنے والی انتہائی شرارتی بھی۔‘

ہر سال ایونز اور ہومی واڈیا جوہو میں اپنے بڑے خیموں میں کرسمس پارٹی کا انعقاد کرواتے تھے، جہاں فلم انڈسٹری کے ساتھیوں، خاندان کے افراد سے لے کر دوستوں تک سب کا دل بہلایا جاتا اور خوب پُررونق محفل ہوتی۔

رائے واڈیا یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہومی سانتا کلاز کا لباس زیب تن کرتے اور ڈرامائی انداز میں اپنا روپ دھارتے۔‘

اس فلمی جوڑے کی اولاد نہیں تھی لیکن ہومی واڈیا نے سابقہ رشتے سے ایونز کے بیٹے کو گود لیا تھا۔ ایونز اپنی 88 ویں سالگرہ کے فوراً بعد 1996 میں وفات پا گئیں۔ وہ بالی وڈ میں مداحوں کی جانب سے شدید پسندیدگی کا درجہ حاصل کرنے والی شاید پہلی غیر ملکی خاتون تھیں۔

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.