’عشق مرشد‘ میں وائرل ڈائیلاگ والے علی ملاح : ’بیٹے نے مشورہ دیا کہ اگر کاسٹ میں بلال عباس ہیں تو ڈرامہ ضرور کریں‘

پاکستانی اداکار علی گُل ملاح کا، جو ہم ٹی وی کے مقبول ڈرامہ سیریل ’عشق مُرشد‘ کی تقریباً ہر قسط میں صرف ایک سین میں نظر آتے ہیں لیکن اُن کا کردار سوشل میڈیا پہ وائرل ہے۔ مقبولیت کے بعد لوگ اُنھیں ’بھلے‘ کہہ کر بھی مخاطب کرتے ہیں۔ بی بی سی اردو کے ساتھ انٹرویو میں اُن کا کہنا تھا کہ اُن کا اپنا اور کردار کا بھولا پن لوگوں کو بھا گیا ہے۔
علی گُل ملاح
BBC
علی گُل ملاح

’بلال عباس کی وجہ سے ہی مجھے یہ شہرت ملی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی اور اداکار ہوتا تو میں بھی اتنا مقبول نہ ہوپاتا۔‘

یہ کہنا ہے کہ پاکستانی اداکار علی گُل ملاح کا، جو ہم ٹی وی کے مقبول ڈرامہ سیریل ’عشق مُرشد‘ کی تقریباً ہر قسط میں صرف ایک سین میں نظر آتے ہیں لیکن اُن کا کردار سوشل میڈیا پہ وائرل ہے۔

مقبولیت کے بعد لوگ اُنھیں ’بھلے‘ کہہ کر بھی مخاطب کرتے ہیں۔ بی بی سی اردو کے ساتھ انٹرویو میں اُن کا کہنا تھا کہ اُن کا اپنا اور کردار کا بھولا پن لوگوں کو بھا گیا ہے۔

ڈرامہ سیریل ’عشق مُرشد‘ میں علی گُل ملاح نے فضل بخش کا مزاحیہ کردار نبھایا ہے جس کا روپ مرکزی کردار شاہ میر سکندر دھارتا ہے۔ کاسٹ میں بلال عباس خان، دُرِ فشاں سلیم، نور الحسن، سلمی حسن، رابعہ نورین، سمعیہ ممتاز، عمیر رانا، حرا ترین، اور عدنان جعفر وغیرہ شامل ہیں۔

ٹی وی پر شاندار ریٹنگ اور یوٹیوب پر اربوں ویوز حاصل کرنے والے ڈرامہ سیریل ’عشق مرشد‘ کی کہانی ڈرامہ نگار عبدالخالق خان نے تحریر کی ہے جبکہ اسے فاروق رند نے ڈائریکٹ کیا ہے۔

’بے ہودگی نہیں تھی اور لفظوں کا اچھا چناؤ تھا‘

اداکار علی گُل ملاحڈرامہ سیریل’عشق مُرشد‘ میں اپنے کردار فضل بخش کی کامیابی کا سارا کریڈٹ ڈائریکٹر فاروق رند کو دیتے ہیں۔ بی بی سی اردو کے ساتھ انٹرویو میں اُنھوں نے بتایا کہ ڈرامے میں اُن کا کردار لکھا ہوا نہیں تھا، فاروق رند خود اُن کے لیے دو سین لکھے تھے۔

’انھوں نے کہا کہ کیریکٹر ڈرامہ میں نہیں ہے لیکن اگر چل گیا تو اس کو آگے بڑھائیں گے۔ فی الحال یہ دو سین میں آپ کے لیے لکھ رہا ہوں۔ ایک ہیرو ہے وہ اپنا روپ تبدیل کرے گا تو میں چاہ رہا ہوں کہ وہ کوئی زندہ کیریکٹر ہو، ایسے ہی روپ تبدیل کرکے غریب نہ بنے۔‘

اپنے کردار کی مقبولیت پر وہ کہتے ہیں کہ ’بڑے عرصے کے بعد ڈرامے میں ایک ایسا کیریکٹر آیا، ایسی کامیڈی ہوئی، جو آپ بہو بیٹیوں کے ساتھ دیکھ سکیں، جس میں بے ہودگی نہیں تھی اور لفظوں کا اچھا چناؤ تھا۔ تو اِس وجہ سے بھی اس کامیڈی کو پسند کیا گیا۔‘

فضل بخش کے کردار کا منفرد انداز میں بولا گیا لفظ ’بھلے‘ بے حد وائرل ہوا۔ جس کے بارے میں اُن کا کہنا ہےکہ وہ اسے پہلے بھی اپنی یوٹیوب وڈیوز کے خاکوں میں استعمال کرچکے تھے۔ فاروق رند نے لفظ ’بھلے‘ مستعار لیا البتہ بقایا سکرپٹ اُن کا اپنا تھا۔

علی گُل ملاح کے بقول ’بھلے کا مطلب ہے اوکے۔ یس، بھلے، ٹھیک ہے۔اس کا مطلب ایسے ہے سندھی میں۔‘

ایک حالیہ قسط میں فضل بخش کے کردار نے جب بھلےکا لفظ استعمال کیاتو سوشل میڈیا پہ کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی۔ علی بتاتے ہیں کہ ’وہ ایک معنی خیز لفظ تھا۔ تو لوگوں نے وائرل کیاکہ یہ کہہ رہا ہے کہ بلے کو ووٹ دے دو۔ مگر ایسا نہیں تھا۔‘

علی گُل ملاح کے بقول چونکہ وہ سندھی میڈیا میں مصروف ہوتے ہیں اس لیے اُنھیں معلوم نہیں تھا کہ بلال عباس خان کون ہیں۔ اُن کے بیٹے نے اُنھیں مشورہ دیاکہ اگرکاسٹ میں بلال موجود ہیں تو وہ یہ ڈرامہ ضرور کریں۔

’ہیروئن اتنی خوبصورت تھی کہ میں اُس کے حُسن کی تاب سہہ نہیں پایا‘

علی گُل ملاح کا ماننا ہے کہ اُن کے کردار کا بلال عباس خان کے کردار سے جُڑ جانا ہی کامیابی کی کنجی ثابت ہوا۔اسی لیے اُنھیں ڈرامے میں اصلی اور نقلی دونوں فضل بخش پسند ہیں۔

بلال عباس خان کے ساتھ کام کے تجربے پر بولے کہ اردو انڈسٹری میں وہ بلال کے مقابلے بہت نئے ہیں۔ بلال بہت منجھے ہوئے اداکار ہیں۔

’لیکن مجھے ایسے لگا کہ وہ میرا پرانا دوست ہے۔میں بہت پرسکون تھا کام کرتے ہوئے۔ وہ ویسے بہت شرمیلا ہے، لوگوں سے بہت کم اُن کا ملنا جُلنا ہوتا ہے لیکن مجھے انھوں نے بہت پیار دیا، پیار لیا میرے سے، انجوائے کیا۔‘

سیٹ سے ایک قصہ شیئر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ سی ویو پر بلال عباس اور دُرِ فشاں کے ساتھ اُن کا ایک سین تھا۔ اُنھوں نے اپنے دوست سے کہا کہ موبائیل کیمرہ سے ذرا دور کچھ شوٹس بنائے جسے وہ اپنے وی لاگ میں لگاسکیں لیکن اُن کا دوست ریکارڈنگ کیے بغیر غائب ہوگیا۔

انتہائی سادہ انداز میں بتانے لگے کہ ’سین ہوگیا تو میں نے کہا کہ تم نے ریکارڈ کیوں نہیں کیا؟ کہتا ہے کہ ہیروئن اتنی خوبصورت تھی کہ میں اُس کے حُسن کی تاب سہہ نہیں پایا اور واقعی دُرفشان بہت حسین ہے، اللہ اُن کو نظرِ بد سے بچائے، اداکارہ بھی اچھی ہے لیکن حسین بھی بہت ہے۔‘

علی نے بتایا کہ اسی طرح ایک پارک میں شوٹ کے دوران ایک خاتون اپنے شوہر اور بچوں سمیت آئیں اور کہنے لگیں کہ ’بھلے‘ کے ساتھ تصویر کھنچوانی ہے، پھر بلال عباس کو دیکھ کر خوشی سے کپکپاتے ہوئے ہولیں کہ ’آپ کتنےخوبصورت ہیں، کتنے حسین ہیں‘علی گُل ملاح کا ماننا ہے کہ اُن کے کردار کا بلال عباس خان کے کردار سے جُڑ جانا ہی کامیابی کی کنجی ثابت ہوا۔اسی لیے اُنھیں ڈرامے میں اصلی اور نقلی دونوں فضل بخش پسند ہیں۔

بلال عباس خان کے ساتھ کام کے تجربے پر بولے کہ اردو انڈسٹری میں وہ بلال کے مقابلے بہت نئے ہیں۔ بلال بہت منجھے ہوئے اداکار ہیں۔

’لیکن مجھے ایسے لگا کہ وہ میرا پرانا دوست ہے۔میں بہت پرسکون تھا کام کرتے ہوئے۔ وہ ویسے بہت شرمیلا ہے، لوگوں سے بہت کم اُن کا ملنا جُلنا ہوتا ہے لیکن مجھے انھوں نے بہت پیار دیا، پیار لیا میرے سے، انجوائے کیا۔‘

سیٹ سے ایک قصہ شیئر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ سی ویو پر بلال عباس اور دُرِ فشاں کے ساتھ اُن کا ایک سین تھا۔ اُنھوں نے اپنے دوست سے کہا کہ موبائیل کیمرہ سے ذرا دور کچھ شوٹس بنائے جسے وہ اپنے وی لاگ میں لگاسکیں لیکن اُن کا دوست ریکارڈنگ کیے بغیر غائب ہوگیا۔

انتہائی سادہ انداز میں بتانے لگے کہ ’سین ہوگیا تو میں نے کہا کہ تم نے ریکارڈ کیوں نہیں کیا؟ کہتا ہے کہ ہیروئن اتنی خوبصورت تھی کہ میں اُس کے حُسن کی تاب سہہ نہیں پایا اور واقعی دُرفشان بہت حسین ہے، اللہ اُن کو نظرِ بد سے بچائے، اداکارہ بھی اچھی ہے لیکن حسین بھی بہت ہے۔‘

علی نے بتایا کہ اسی طرح ایک پارک میں شوٹ کے دوران ایک خاتون اپنے شوہر اور بچوں سمیت آئیں اور کہنے لگیں کہ ’بھلے‘ کے ساتھ تصویر کھنچوانی ہے، پھر بلال عباس کو دیکھ کر خوشی سے کپکپاتے ہوئے ہولیں کہ ’آپ کتنےخوبصورت ہیں، کتنے حسین ہیں‘۔

’میرے تو آنسو نکل آتے ہیں ، اتنا پیار دیتے ہیں‘

علی گُل ملاح ایک بہت ہی منکسر المزاج طبیعت کے مالک ہیں۔ کئی دہائیوں بعد ملنے والے اس ایک موقعے نے اُنھیں جو شہرت دی اُس کو وہ بھر پور انداز میں منارہے ہیں۔ عام لوگوں سے ملنے والے فیڈ بیک کی بات ہوئی تو بتانے لگے کہ ’لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ڈرامے دیکھنے چھوڑ دیے تھے۔ یہی ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ بہت سارے جو ہمارے سندھی کمیونٹی کے ہیں، وہ تو کہتے ہیں کہ بھئی آپ کی وجہ سے ہم دیکھ رہے ہیں۔ مجھے وائرل بھی سندھی کمیونٹی کے لوگوں نے بہت کیا۔ تو اُن کی بہت مہربانی ہے۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’جتنے لوگ ملتے ہیں میرے تو آنسو نکل جاتے ہیں، اتنی خوشی دیتے ہیں، اتنا پیار دیتے ہیں، بہت بڑے شاپنگ مالز میں جاتا ہوں اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں جب جاتا ہوں وہاں بڑی بڑی فیملیز ہوتی ہیں۔ جو خواب ہوتا ہے ایک آرٹسٹ کا۔‘

’میرے والد نے دیکھا تو اُس نے بوٹ اتار کے مجھے مارا ‘

پاکستانی اداکار علی گُل ملاح انڈسٹری میں اپنی قسمت آزمانے قریباً تیس سال پہلے سندھ کے پسماندہ ضلع کندھ کوٹ کے ایک دیہات سے کراچی آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ندیم بیگ جیسا فلم سٹار بننے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔

علی گُل ملاح کی والدہ اُن کے بچپن میں ہی چل بسی تھیں، والد ایک ماہی گیر ہیں اور اُنھوں نے ہی اُنھیں پالا پوسا۔ چائلڈ ایکٹر، سائیڈ ایکٹر، تھیٹر، کامیڈی اور نجانے کیا کیا کرنے والے علی گل ملاح نے اپنی نوجوانی کی کہانیاں سنائیں کہ وہ صرف فلمی رسالے خریدنے کے لیے ہر پندرہ روز میں کندھ کوٹ سے سکھر تک دوسو کلومیٹر کا سفر کیاکرتے تھے۔

’میں وہ رسالے لے جاتا تھا اور پڑھتا تھا کہ ٹی وی میں کیا ہوا، فلموں میں کون سے اداکار کی کون سی فلم آرہی ہے، پھر ان کی سٹوریز، اُن کی زندگی کے بارے میں پڑھنا، پھر ان کی پینٹنگ کرنا۔ بڑے مجھے ڈانٹتے تھے کہ کیا کر رہے ہو، آؤ ادھر مچھلی پکڑو، یا کام کرو۔‘

اپنے دیہات اور والد کی باتیں کرتے ہوئے ایک قصہ سنایا کہ ایک دفعہ سٹیج پر مورت کے کردار کےلیے اُنھیں اپنی مونچھیں صاف کروانی پڑیں، پھر کسی رشتہ دار کی شادی میں جانا پڑا تو وہ منہ چھپا کے گھوم رہے تھے۔

’میرے والد نے دیکھا تو اُس نے بوٹ اتار کے مجھے مارا کہ یہ تو نے کیا کردیا ہے، سارے لوگ ہنس رہے ہیں کہ یہ تو مورت بن گیا ہے۔‘

بعد میں وہ اپنے والد کو تھیٹر دکھانے لےگئے جہاں کسی عہدیدار نے تعریف کرتے ہوئے کہا کہ علی گل ملاح تھیٹر کے آرٹسٹ ہیں، ہمارے کندھ کوٹ کی عزت ہیں۔

’میرے ابو نے اس دن مجھےگلے لگا کے کہا کہ بھئی تیری تو بڑی عزت ہے، میں نے کہا ہاں ابو یہ اور فیلڈ ہے۔‘

عل گل ملاح سن چھیانوے میں کندھ کوٹ سے کراچی شفٹ ہوئے اور کئی سال تک پی ٹی وی کے ساتھ چھوٹے موٹے رول کرتے رہے۔

سن 2002میں ایک پرائیویٹ چینل کے ساتھ تھوڑا بہت کام کیا۔ سن 2003 میں ایک دوسرا پرائیویٹ چینل کھلا جس نے اُنھیں اور اُن کے دوست سہراب سومرو کو پیسوں کی ادائیگی کے یقین کے ساتھ کسی پروگرام کا پائلٹ ریکارڈ کرنے کے لیے بُلایا لیکن صبح گیارہ سے رات گیارہ تک اُس کی ریکارڈنگ نہیں ہوسکی۔

’گیارہ بجے سے رات کے گیارہ بجے تک اُن کی کوئی ان بن تھی، ڈائریکٹر نے غصہ سے بولا کہ بھئی پیک اپ ہے، نہیں کریں گے، آپ لوگ جاؤ، سارے جاؤ۔ ہم نے کہا کہ ہم تو اس کے آسرے پہ آئے تھے، کھانا بھی نہیں کھایا، ابھی پیسے بھی انھوں نے نہیں دیے، نہ ہی کام کرایا، اب کیا ہوگا۔‘

مسکراتے ہوئے بتانے لگے بارہ بج گئے اور رکشہ میں واپسی کے پیسے نہیں تھے تو آئی آئی چندریگر سے پیدل نکل چلے اور صبح چار بجے حسن سکوائر آکے رُکے۔ جو چند پیسے جیب میں تھے اُس سے چائے پراٹھا کھایا اور ایک بار پھر حسن سکوائر سے گلستانِ جوہر میں بھٹائی کالونی تک کا پیدل سفر کیا۔

’کچھ انرجی آئی تو ہم نے باقی سفر کیا آگے۔ لیکن خوشی تھی ہمیں، باتیں کررہے ہیں کہ یہ کام کریں گے، پھر ہم ایسے بنیں گے جیسے جاوید شیخ ہے، ندیم بیگ صاحب کا میں بہت پرستار تھا، میں تو ندیم بیگ تھا اور میرے دوست کو عمر شریف اور معین اختر بننے کا شوق ہوتا تھا۔ تو ایسے ہمارے خواب تھے۔‘

’اُدھر تو ہم خود ہیروئن کے کپڑے استری کرلیتے تھے‘

علی گل ملاحنے اپنے کریئر کا بیشتر کام سندھی میڈیا کے ساتھ ہی کیا ہے۔ وہ اب بھی اپنے دوست سہراب سومرو کے ہمراہ سندھی چینل پر ایک کامیڈی شو کرتے ہیں اور اُن کے بقول اُس شو سے اُنھیں اچھا معاوضہ ملتا ہے۔

میں نے اردو اور سندھی انڈسٹری کے کام اور سہولیات کا فرق سمجھنا چاہا تو بولےکہ ’ایسے ہے جیسے کہ کام کا جہاد ہوتا ہے۔جس میں پیسے کم ہوں اور آپ مسلسل جدوجہد کررہے ہیں، کام کررہے ہیں، اب تو یوٹیوب وغیرہ آگئے ہیں اور ہماری زندگیاں اچھی ہوگئیں ہیں۔لیکن جب پرانے ساتھی ملتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہم جیل کے ساتھی ہیں۔جیسے جیل میں وقت گزارتے ہیں تو سندھی میڈیا کا ایسا تجربہ بھی ہے ہمارا۔‘

علی گُل ملاح اپنے وی لاگز اور چھوٹے چھوٹے سکٹس کی ویڈیوز کی وجہ سے سوشل میڈیا پہ بھی کافی مقبول ہیں۔ دس لاکھ سے زیادہ لوگ انھیں فیس بُک پر اور 94 ہزار سے زیادہ یوٹیوب پہ فالو کرتی ہے۔ اُن کے بقول ٹی وی اور یوٹیوب کےمعاوضہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ سندھی انڈسٹری کے مقابلے اُنھیں اردو انڈسٹری میں پروفیشنل ازم محسوس ہوا اور فنکاروں کے پروٹوکول اور سہولیات کا فرق نظر آیا۔

’جیسے وینیٹی وین ہے اُس میں بیٹھے ہوئے ہیں، سین ہورہا ہے پھر بُلا رہے ہیں آپ کو، منرل واٹر کی بوتل مل رہی ہے، کپڑے استری ہورہے ہیں۔‘ زور سے ہنستے ہوئے بولے کہ ’اُدھر (سندھی میڈیا) تو ہم خود ہیروئن کے کپڑے استری کرلیتے تھے۔‘

انھوں نے خوشی سے بتایا کہ ’عشق مرشد‘ کے بعد انھیں کافی کام مل رہا ہے جس میں ڈرامے اور فلمیں دونوں شامل ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.