عامر خان کی سابقہ اہلیہ کرن راؤ: ’ہمیں کبھی ایسا نہیں لگا کہ ہمارا رشتہ ختم ہو چُکا ہے‘

کرن راؤ کہا کہنا تھا کہ ہمیں کبھی ایسا لگا ہی نہیں کہ اگر ہمارے درمیان یہ رشتہ نہیں رہا تو ہم دونوں کا تعلق بدل جائے گا، ہم نے ایک لمبا عرصہ ایک ساتھ گُزارا چاہ وہ فلمی دُنیا میں ہو یا ذاتی زندگی کی بات ہو۔
کرن راؤ
Getty Images

1992 میں کلکتہ سے نکل کر پہلے ممبئی اور پھر وہاں سے دلّی پہنچ اپنی زندگی اپنے بل بوتے پر جینے اور شروع کرنے والی کرن راؤ نے انڈین فلم انڈسٹری کو ایک نیا انداز دیا اور اُن کی بنائی فلموں کے بارے میں سُن کر اُن کے فینز یہ جانتے ہیں کہ کرن کی فلم ایک میں اس مرتبہ بھی یقیناً کُچھ نہ کُچھ خاص ہی ہوگا۔

بی بی سی کے وکاس ترویدی سے کرن راؤ کی ہونے والی گفتگو کے بارے میں بھی آپکو بتائیں گے مگر پہلے بالی وڈ کے مشہور اور مسٹر پرفیکٹ کہلانے والے اداکار عامر خان اور کرن راؤکے رشتے کا ذکر کر لیتے ہیں۔

اداکار عامر خان اور معروف فلم ساز کرن راؤ کے درمیان 15 سال کی رفاقت 2021 میں اُس وقت ختم ہوئی جب دونوں نے مل بیٹھ کر راستے جُدا کرنے کا فیصلہ کیا۔

بی بی سی کے مطابق اُس وقت دونوں کی جانب سے طلاق کے بعد مشترکہ بیان بھی سامنے آیا تھا۔ جسے اُس وقت فلمی نقاد ترن آدرش نے اپنے ایکس کے اکاؤنٹ پر شئیر کیا تھا۔

اس بیان میں دونوں کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ’ان 15 خوبصورت سال میں ایک ساتھ، ہم نے زندگی بھر کے تجربات، مسرت اور ہنسی کو شیئر کیا اور ہمارا رشتہ اعتماد، احترام اور محبت کے طور پر پروان چڑھا۔ اب ہم ایک نئے باب کا آغاز کر رہے ہیں۔ ہم اپنی زندگی شوہر اور بیوی کی حیثیت سے نہیں بلکہ بچے کے والدین اور ایک خاندان کے طور پر شروع کرنا چاہیں گے۔‘

اس بیان میں اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ اب الگ رہیں گے لیکن ایک خاندان کی مانند زندگی شئیر بھی کریں گے۔ ہم اپنے بیٹے آزاد کے والدین رہیں گے جس کی ہم مل کر پرورش کریں گے۔‘

یاد رہے کہ عامر خان اور کرن راؤ کی فلم لگان کے سیٹ پر ملاقات ہوئی تھی۔ کرن اس فلم میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ جس کے بعد 28 دسمبر 2005 کو دونوں شادی کے بندھن میں بندھے تھے اور 2011 میں دونوں کے ہاں سیروگیسی کے ذریعے ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی جس کا نام آزاد راؤ ہے۔

کرن
BBC

’ہمیں کبھی ایسا لگا ہی نہیں کہ ہم دور ہو گئے ہیں‘

وکاس ترویدی نے حال ہی میں بی بی سی کے لیے ایک انٹرویو میں کرن راؤ سے جب یہ سوال کیا کہ ہمارے معاشرے میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب دو لوگوں کے جُدا ہونے کی بات سامنے آتی ہے تو طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں مگر عامر خان اور کرن راؤ نے کو علیحدگی کے بعد اب بھی ایک دوست کی طرح دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، رشتے میں جو ذہنی ہم آہنگی ہے اس کا راز کیا ہے؟

کرن راؤ وکاس کے اس سوال پر مُسکرائیں اور پھر بولیں ’کہ ہمیں کبھی ایسا لگا ہی نہیں کہ اگر ہمارے درمیان یہ رشتہ نہیں رہا تو ہم دونوں کا تعلق بدل جائے گا، ہم نے ایک لمبا عرصہ ایک ساتھ گُزارا چاہ وہ فلمی دُنیا میں ہو یا ذاتی زندگی کی بات ہو۔‘

ہمارا رشتہ اب بھی بہت گہرا ہے، احساسات ایک دوسرے کے لیے جذبات اب بھی ہیں، ہم اب بھی ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں، ہم کام بھی ایک ساتھ ہی کرتے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ ہمارا ایک بچہ ہے۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’ہمیں کبھی یہ سوچنا ہی نہیں پڑا کہ کیسے آگے بڑھیں کے کیا ہوگا اور کیسے سب چلے گا ہم اب بھی ایک فیملی کی ہی طرح ہیں۔‘

کرن راؤ کہ کہنا تھا کہ ’ہم نے یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا کیونکہ ہم یہ جانتے تھے کہ ہمارا ایک بچہ ہے اور ہماری فیملیز بھی ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں اور ہم بھی ایک دوسرے کی فیملیز کے بہت قریب ہیں، تو ہمیں کبھی یہ سوچنا نہیں پڑا کے کیا کرنا ہے۔ ہم نے مل بیٹھ کر بات کر کے سب فیصلے کیے اور اب ہم اپنے فیصلے سے خوش ہیں۔‘

kiran
Getty Images

اگر کرن راؤ کے ساتھ کوئی کام کرنا چاہے تو وہ اُس میں کیا دیکھتی ہیں؟

ترویدی کے اس سوال پر کرن راؤ نے ایک گہری سانس لی اور پھر کہا ’دلچسپ سوال ہے،‘ انھوں نے کہا کہ میں یہ نہیں سوچتی کہ کسی کردار کے لیے کسی فرد میں کیا چاہیے میں بس یہ کہتی ہوں کہ جو بھی فلم انڈسٹری میں آئے وہ اپنی آواز لے کر آئے، جو بھی آئے اُس کی اپنی سوچ ہو اپنا انداز ہو۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’کام تو سب ہی سیکھ لیتے ہیں جب کوئی کام کرنے کی خواہش اپنے اندر رکھتا ہو تو لوگ شوق سے کام کرتے اور سیکھ بھی لیتے ہیں، مگر اپنی شناخت اور اپنی آواز کے ساتھ اگر لوگ آئیں تو پھر میرے لیے دلچسپی کی بات ہوتی ہے، اور مجھے اچھا لگتا ہے ایسے لوگوں کے ساتھ کام کر کے۔‘

انڈین میڈیا کے بارے میں کرن راؤ کیا کہتی اور کیا سوچتی ہیں؟

کرن راؤ نے ترویدی کے اس سوال پر بھی کہا واہ دلچسپ سوال ہے، اب جواب میں کرن کا کہنا تھا کہ ’انڈیا میں سوشل میڈیا کی وجہ سے میڈیا بہت بدل گیا ہے۔ میڈیا میں بھی اب جمہوریت دکھائی دینے لگے ہے اب اس میں سب کی بات ہونے لگی ہے۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’اب کوئی بھی میڈیا بن سکتا ہے میں بھی اور آپ بھی، اب تو ایکس دُنیا میں خبریں دینے کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا ہے، لوگ آزادی سے جو بھی کہنا ہو بس براہِ راست کہ دیتے ہیں اپنے فینز اور فالوورز سے۔‘

تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’میڈیا یہ یہاں پہنچنے تک ایک تکلیف دہ سفر کیا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ کیسے کیسے میڈیا پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں آواز کو دبایا جاتا ہے، اور اُنھیں وہ نہیں کہنے دیا جاتا جو اُن کو کہنا چاہیے، حتیٰ کے میڈیا کو تو ریاست کا چوتھا ستون تک بننے کے اجازت نہیں دی جاتی۔‘

kiran
Getty Images

فلم بناتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اُس کے بائیکاٹ کی بات نہ ہونے لگے؟

کرن راؤ نے کہا کہ ’انڈیا جیسے بڑے مُلک میں جب بھی ہم فلم بنانے کا سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ ہماری فلم یا اس میں کہی ہوئی کسی بات کی وجہ سے کسی کو تکلیف نا پہنچے، کیونکہ انڈیا میں متعداد ثقافتیں ہیں، رسم و رواج ہیں، اور لوگوں کی سوچ اور نظریے مختلاف ہیں، تو کہیں نا کہیں آپ کو یہ سب ذہن میں رکھنا پڑتا ہے، کوشش تو نہیں ہوتی کہ کسی کی دل آزاری ہو کسی کو کوئی بات بُری لگے۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’ہر فلم بنانے والے کے ذہن میں ایک خود احتسابی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے کہ اُس کی لکھی، بنائی یا کہی ہوئی کسی بات سے کسی کو تکلیف نا پہنچے، اور ہر ایک لکھے جانے والے سکرٹپ کو ہم بھی ٹٹول کر دیکھتے ہیں کہ اس میں کوئی ایسی بات تو نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔‘

ایک خاتون فلم ساز کو اس دور میں کن مُشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

کرن راؤ کا کہنا تھا کہ ’ہماری فلم انڈسٹری میں ایسا نہیں ہے کہ یہاں لوگ ایسا کہیں یا چاہیں کہ یہاں خواتین نہ آئیں اور اپنی کہانی نہ سُنائیں تاہم اس فلم انڈسٹری میں مُشکلات کا سامنا سب کو ہی کرنا پڑتا ہے، کہ وہ کیسے اُس مقام کو حاصل کریں کہ جس کا خواب وہ گھر سے دیکھ کر نکلے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اب یہاں ضروری یہ ہوتا ہے کہ وہ مقام حال کر لینے کے بعد اب کوئی اپنی کہانی کیسے بتائے، اب ضروری یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی کہانی خود سُنائے مثال کے طور پر ایک خاتون اپنی کہانی سُنائے، اگر کوئی ایل جی بی ٹی ہے تو وہ اپنی بات خود کرے، ایسا کیوں؟ اس لیے کہ اب تک ہوتا یہ رہا ہے کہ ایک مرد ہی سب کی کہانیاں سُناتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری فلمیں بھی اب سب کی سب ایک ہی جیسی لگنے لگیں ہیں۔‘

کرن راؤ نے کہا کہ ’اس لیے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر کوئی اپنی بات کرے اپنی کہانی خود سُنائے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.