خیوا: قرون وسطیٰ کی مساجد اور شاندار محلات کے ساتھ شاہراہ ریشم پر آباد ایک قدیم شہر

اپنے ’سلک روڈ پروگرام‘ ذریعے یونیسکو نے کھیوا کو ’تعلیم، سائنس اور ثقافت کا مرکز، اور صدیوں پر محیط تہذیبوں کے گہوارہ کے طور پر متعارف کرایا ہے۔‘

خیوا ازبکستان کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ یہ قراقرم اور قزلقۇم کے صحراؤں میں گھرا ہوا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہاں آپ کس راستے سے آتے ہیں کیونکہ تمام راستے ’ایچھان قلعہ‘ کی فصیل کی طرف جاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خیوا میں تمام دیکھنے کے قابل جگہیں اس قلعے کی اندر ہی ہیں۔

یہ جگہ 60 سے زیادہ ثقافتی مقامات، قرون وسطی کی مساجد اور شاندار محلات کے ساتھ ساتھ متعدد عجائب گھر، یادگاری دکانوں اور کرافٹ سٹوڈیوز سے بھری ہوئی ہے۔

’ایچھان قلعہ‘ کے مغربی دروازے (جسے اوٹا دروازہ بھی کہا جاتا ہے) کے قریب ہی ٹکٹ گھر موجود ہے۔ جب میں اس دروازے سے قلعے میں داخل ہوا تو بازار اُس وقت کُھلا تھا۔بھیڑ کی کھال سے تیار کردہ ٹوپیاں ’چُوگِرما‘ کہلاتی ہیں جنھیں یہاں کے مقامی لوگ سخت سردیوں میں اپنے سروں کو گرم رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب میں بازار میں داخل ہوا تو ایک چُوگِرما فروش اپنی دکان میں ٹوپیاں سجا رہا تھا۔

تھورا آگے ہی، ایک خاتون کوٹ فروخت کر رہی تھیں۔ میری نظر اُن کے پاس موجود روایتی ’اِکت پرنٹ‘ والے سیاہ سفید رنگ کی ایک جیکٹ پر ٹھہر گئی۔

دوسری جانب، لکڑی پر کندَہ کاری کے ایک ماہِر اپنی کرسی پر بیٹھے لکڑی کی بنی ہوئی خوبصورت شطرنج کی بساط پر کام کرنے میں مشغول تھے۔ قالین بننے میں مصروف خاتون نے ایک لمحے کے لیے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور پھر دوبارہ اپنے کام میں مگن ہو گئیں۔

مگر حیران کن طور پر بازار تقریباً خالی تھا اور میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ یہاں کوئی سیاح کیوں نہیں؟

مقامی لوگ اس شہر کو ’حیوا‘ کو پکارتے ہیں۔ ازبکستان میں شاہراہ ریشم پر تین شہر آباد ہیں: بخارا، سمرقند اور خیوا۔

لیکن دارالحکومت تاشقند سے قربت کی وجہ سے بخارا اور سمرقند سیاحوں میں زیادہ مقبول ہیں۔ ان ناموں کا صرف ذکر ہی ان کے شاندار ماضی کی عکاسی کے لیے کافی ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ شہر چین سے لے کر روم اور وینس تک پھیلے ہوئے تجارتی راستوں کے بااثر نیٹ ورک کے مراکز تھے۔

130 قبل مسیح سے لے کر 1453 عیسوی تک تقریباً 1,500 سالوں تک اس وسطی ایشیائی خطے نے نہ صرف ریشم اور مسالوں کے تجارت کے لیے بلکہ ہر قسم کے نظریات اور فلسفے کے لیے بھی شہرت پائی۔

آثار قدیمہ کے شواہد سے ٰثابت ہوتا ہے کہ خیوا چھٹی صدی عیسوی سے موجود ہے۔ ایک زمانے میں یہ شہر شاہراہ ریشم کی تجارتی راہداری کا اہم مرکز تھا۔ 16ویں صدی عیسوی میں خیوا کی اہمیت میں اُس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب اس شہر کو خانیت یعنی ’خان حکمرانوں کی بادشاہی‘ کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔

اس دور میں خیوا غلاموں کی تجارت کے لیے کافی بدنام تھا۔ تاہم، اس کے باوجود بخارا سے سامانِ تجارت لے کر نکلے مسافروں کے لیے یہ ایک جنت نظیر شہر کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ تاجر صحرائے قزلقۇم عبور کرنے کے بعد جب خیوا پہنچتے تو اکثر یہاں قیام کرتے اور فارس کے کٹھن سفر پر روانہ ہونے سے قبل اپنے قافلوں کے لیے ضروری سامان جمع کرتے۔

یونیسکو نے اپنے ’سلک روڈ پروگرام‘ میں خیوا کو ’تعلیم، سائنس اور ثقافت کے مرکز کے علاوہ صدیوں پر محیط تہذیبوں کے گہوارے‘ کے طور پر متعارف کرواتا ہے۔

اس شہر کی وسیع تاریخ کو دیکھتے ہوئے میں حیران تھا کہ آج کے دور میں سمرقند اور بخارا کی مقابلے میں چند ہی سیاح خیوا کا رُخ کرتے ہیں۔ اس بات کا مقصد شکایت کرنا نہیں، بلکہ میں تو خوش تھا کہ زیادہ سیاح نہ ہونے کی بدولت میں ان خوبصورت مقامات کو بڑے پرسکون انداز میں دیکھ پا رہا تھا۔

یونیسکو نے ایچھان قلعہ کو سنہ 1990 میں عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔ تاہم، اس سے پہلے ہی ازبک حکومت نے یہاں کے رہائشیوں کو قلعے کی دیواروں سے باہر منتقل کر دیا تھا تاکہ اس ثقافتی ورثے کو محفوظ بنا کر اس کی اصل شکل میں بحال کیا جا سکے۔

آج یہ قلعہ شہر کے اندر ایک الگ پُررونق شہر بن چکا ہے۔ یہ ایک جیتا جاگتا میوزیم بن چکا ہے۔

بہزاد لیری ’ویجر اکسپیڈیشن‘ کے سی ای او ہیں جو سیاحوں کو وسطی ایشیا کے سفر پر لے جاتی ہے۔ لیری نے خیوا کو ’صحرا میں موجود ماضی کا آثار‘ اور ایک ایسے قدیم شہر کے طور پر بیان کیا جو مسافروں کو ماضی میں واپس جانے پر مجبور کر دیتا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ایچھان قلعہ زائرین کو اس کے تاریخی مقامات کو قریب سے دیکھنے مواقع کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی سے بامعنی بات چیت کا موقع فراہم کرتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ خیوا شاہراہ ریشم کے دیگر مشہور شہروں سے یکسر مختلف ہے۔ بخارا اور سمرقند کے برعکس جو ماضی اور حال کا ایک امتزاج پیش کرتے ہیں، خیوا وقت میں قید ایک قدیم شہر کی یاد دلاتا ہے۔

بخارا اور سمرقند کا دورہ کرنے کے بعد میں سمجھ سکتا تھا کہ ان کا کیا مطلب ہے۔

اگرچہ مقامی لوگ قلعے کے اندر نہیں رہتے لیکن وہ روزانہ اپنے سٹوڈیوز ، دکانوں ، ریستورانوں اور چائے خانوں میں کام کرنے آتے ہیں۔

خیوا کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے مجھے بہت کچھ دیکھنے کو ملا۔ایک ٹائلوں والا محل، ایک کثیر ستونوں والی مسجد، سڑک پر لگا ایک مجسمہ جس میں دو آدمی خوشی سے باتیں کر رہے ہیں، سیرامک سٹوڈیو اور اس کے بغل میں بنی قالین سازی کی ورکشاپ۔

کنیا آرک قلعے میں بنے عجائب گھر جائیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے الجبرا اور الگورتھم جیسے تصورات کی جڑیں دنیا کے اس حصے سے ملتی ہیں۔ خیوا میں پیدا ہونے والے ریاضی دان محمد بن موسی الخوارزمی کو اس کا سہرا جاتا ہے۔

انیتا سیٹھی رام کرشنا ایک انڈین ہیں جو پچھلے کچھ سالوں سے تاشقند میں رہ رہی ہیں اور ازبکستان کے کافی حصوں کا سفر کر چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ خیوا میں گھومتے وہ ایک چھوٹے بچے کی طرح محسوس کرتی ہیں۔ ’میں بالکل ایلس ان ونڈر لینڈ جیسا محسوس کرتی ہوں، چھوٹی گلیوں کی بھول بھلیوں میں گھوم رہی ہوں جو اچانک وسیع چوراہوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں جہاں کاریگر اور تاجر اپنا سامان فروخت کرتے دیکھتے ہیں۔‘

26 ہیکٹر رقبے پر پھیلے ہونے کے باوجود، آپ ایچھان قلعے کو باآسانی پیدل دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں ہر موڑ پر آپ کو ایک نئی یادگار یا مقبرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

مگر میری سب سے پسندیدہ جگہ فصیل کے شمالی دروازے کی جانب واقع توش ہولی یا پتھر کا محل ہے جسے سنہ 1830 کی دہائی کے وسط میں علی قلی خان نے تعمیر کروایا تھا۔

میں بارہا دیدہ زیب رنگوں کی ٹائلوں سے مزین اس قلعے کی جانب کھنچا چلا جاتا جہاں کسی زمانے میں خان اپنی چار بیویوں اور 40 کنیزوں کے ساتھ رہتے تھے۔

کنیا آرک قلعہ یہاں کا ایک اور اہم محل ہے۔ 12ویں صدی کے اس محل کے قابلِ ذکر حصوں میں تخت کا کمرہ، خزانے کا کمرہ، اصطبل اور نیلی دیواروں اور رنگ برنگی چھت والی مسجد شامل ہے۔ میں دیر شام آرک گیا اور اس کے مینار پر چڑھ گیا تاکہ وہاں سے غروبِ آفتاب کا منظر دیکھ سکوں۔

لیری کہتے ہیں کہ خیوا میں شام ان کا پسندیدہ وقت ہے۔ یہاں ڈوبتا سورج سنہری رنگ میں نہائے قدیم آسمان کا ایک دلکش نظارہ پیش کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ چوٹی تک پہنچ کر انھیں نہ صرف قلعے بلکہ اس کی دیواروں سے باہر واقع قصبے کا نظارہ دیکھنے کو ملا۔ یہاں سے صحرا میں غروب آفتاب کا منظر واقعی شاندار تھا۔

اگرچہ قلعہ کے زیادہ تر حصوں کو ان کی سابقہ شان و شوکت کے ساتھ بحال کر دیا گیا ہے، لیکن سابقہ مدرسوں کو دستکاری ورکشاپوں یا یادگار بازاروں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

میں وہاں جب بھی کچھ دیکھنے گیا یا تصاویر لینے کے لیے کہیں رکتا، تو میں نے دکانداروں میں نہ کسی طرح کی اکتاہٹ محسوس کی نہ ہی ان کی جانب سے لین دین کے معاملے میں جارحیت دیکھی۔ یہاں سب کچھ بہت آہستہ اور اور ہر کوئی بہت پرسکون دکھا۔

یہاں آنے کے بعد میں نے ذہنی طور پر اس فہرست کو ترک کر دیا جو پہلے بنائی تھی اور خود کو قسمت کے دھارے پر چھوڑ دیا۔

جیسا کہ سیٹھی رام کرشن نے کہا ’بڑے شہروں کی طرح یہاں کوئی دباؤ نہیں ہے، آپ اپنا وقت لیں اور آرام سے بیٹھ کر ازبک لیموں کی چائے کی چسکی لیتے ہوئے دکانداروں کو خرید و فروخت کرتے اور نوجوان جوڑوں کو فوٹو شوٹ کرواتے دیکھیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ انھیں آج بھی حیرت ہوتی ہے کہ زمانہ قدیم میں قافلوں نے شاہراہ ریشم پر واقع اس خوبصورت جگہ تک اپنا راستہ کیسے تلاش کیا۔

میں اُن کی بات مانتے ہوئے کلٹا منار کے سامنے واقع ایک چائے خانے پر بیٹھ کر لوگوں کا مشاہدہ کرنے لگا۔ زیادہ آسان سمندری راستوں کی آمد سے شاہراہ ریشم کی اہمیت تو اب ختم ہو گئی ہے، لیکن یہاں خیوا کے ایک کونے میں بیٹھ کر، مجھے لگتا ہے کہ اس شہر کی وراثت آج بھی زندہ ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.