افغانستان کی برقعہ پوش گلوکار بہنیں: ’ہم اپنے برقعوں کو بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتے تھے جو طالبان نے ہمارے خلاف استعمال کیے‘

سنہ 2021 کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے طالبان نے خواتین کی آزادی پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ دو بہنوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پیچھے ہٹ کر محض حالات کو نہیں دیکھ سکتیں اور انھوں نے خفیہ طور پر مزاحمت کرنے کے لیے اپنی آوازوں کی طاقت کا استعمال کرنا شروع کر دی۔
The sisters recording one of their latest songs on a mobile phone
Kawoon Khamoosh
برقع پوش بہنیں اپنا تازہ گانا ریکارڈ کرتے ہوئے

جب دنیا اگست 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے مناظر دیکھ رہی تھی، کابل میں دو بہنیں افغانستان کی ان لاکھوں خواتین میں شامل تھیں جو نئی حکومت کی خود پر گرفت کو سخت ہوتا محسوس کر سکتی تھیں۔

انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پیچھے ہٹ کر محض حالات کو بدلتے نہیں دیکھ سکتیں اس لیے انھوں نے خفیہ طور پر مزاحمت کے لیے اپنی آوازوں کی طاقت کا استعمال کرنا شروع کر دیا۔

خود کو سنگین خطرے میں ڈالتے ہوئے انھوں نے سوشل میڈیا پر گانے کی تحریک شروع کی جسے ’آخری مشعل‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ان میں سے ایک نے دھن شروع کرنے سے پہلے ایک ریکارڈ شدہ ویڈیو میں کہا: ’ہم یہ گانے جا رہے ہیں لیکن اس سے ہماری زندگیاں جا سکتی ہیں۔‘

یہ گانا اگست 2021 میں جاری کیا گیا تھا یعنی طالبان کے قبضے کے چند دن بعد اور جلد ہی فیس بک اور واٹس ایپ پر وائرل ہو گیا۔

بغیر کسی بیک گراؤنڈ موسیقی کے یہ برقعہ پوش بہنیں ایک موسیقی کا رجحان بن گئیں۔

دونوں بہنوں میں سے ایک نوجوان شقیق (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ ’ہماری لڑائی طالبان کے جھنڈے تلے ان ہی کے خلاف شروع ہوئی تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہم نے ایک بھی نظم نہیں لکھی تھی۔ یہ سب وہ ہے جو طالبان نے ہمارے ساتھ کیا۔‘

The two singers with burkas appear on a video
Last Torch
دونوں بہنیں طالبان کے خلاف گانے گاتی ہیں

اقتدار میں واپس آنے کے بعد طالبان کو افغانستان کے لیے اپنے ’منفرد وژن‘ کو عملی جامہ پہنانے میں 20 دن سے بھی کم وقت لگا۔

روزمرہ کی زندگی پر شریعت یعنی اسلامی مذہبی قانون کا نفاذ اور خواتین کی تعلیم تک رسائی کو محدود کرنا ان کی ترجیحات میں شامل تھے۔

اگرچہ افغان خواتین نے کابل اور دیگر بڑے شہروں کی سڑکوں پر نکل کر مزاحمت کی لیکن انھیں سخت کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا۔

شقیق کہتی ہیں کہ ’یہ خواتین امید کی آخری کرن تھیں جنھیں ہم دیکھ سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ان کے شانہ بشانہ اپنی لڑائی جاری رکھنے اور اپنے آپ کو ’آخری مشعل‘ کہنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سوچ کر کہ ہم کہیں نہیں جا سکیں گے، ہم نے گھر سے ایک خفیہ احتجاج شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

اس جوڑی نے جلد ہی نیلے برقعوں کے پیچھے سے گائے گئے دوسرے گانے بھی ریلیز کیے، بالکل اسی طرح جیسے پہلا گانا تھا۔

ان میں سے ایک نادیہ انجمن کی مشہور نظم تھی، انھوں نے یہ 1996 میں طالبان کے پہلے قبضے کے خلاف احتجاج کے طور پر لکھی تھی:

میرے منھ میں زہر بھرا ہے، میں شہد کیسے بولوں

افسوس ایک ظالم مکے نے میرا منھ ہی توڑ ڈالا

اوہ۔۔۔ وہ دن کہ جب میں پنجرے کو توڑ ڈالوں گی

اس تنہائی سےنکلوں گی اور خوشی سے گاؤں گی

Women protesting in front of Vice and Virtue Ministry, Sept 2021
Haroon Sabawoon/Anadolu/Getty Images
افغان خواتین طالبان کی جانب سے عائد پابندیوں کی خلاف احتجاج کرتے ہوئے

چونکہ طالبان نے خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی تھی، نادیہ انجمن اور ان کی دوستوں کی ملاقات ایک خفیہ سکول گولڈن نیڈل میں ہوتی تھی، جہاں وہ سلائی کرنے کا بہانہ کرتی تھیں لیکن اس کے بجائے وہ کتابیں پڑھتی تھیں۔

وہ بھی نیلے رنگ کا برقعے پہنتی تھیں جسے افغانستان میں ’چادری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

دونوں گلوکار بہنوں میں بڑی مشال (فرضی نام) برقعے کا موازنہ ’موبائل یعنی چلتے پھرتی پنجرے‘ سے کرتی ہیں۔

’یہ ایک قبرستان کی طرح ہے جہاں ہزاروں عورتوں اور لڑکیوں کے خواب دفن ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں ’یہ برقعہ ایک پتھر کیطرح ہے جسے طالبان نے 25 سال پہلے خواتین پر پھینکا تھا۔‘

شقیق کہتی ہیں ’جب وہ اقتدار میں واپس آئے تو انھوں نے دوبارہ ایسا ہی کیا۔‘

’ان کی پابندیوں کے خلاف لڑنے کے لیے ہم اس ہتھیار کو استعمال کرنا چاہتے تھے جو انھوں نے ہمارے خلاف استعمال کیا تھا۔‘

One of the sisters singing under a burka, with a microphone in front
BBC
بہنیں اپنی شناخت چھپانے کے لیے برقعہ استعمال کرتی ہیں

ان دونوں بہنوں نے اب تک صرف سات گانے جاری کیے ہیں لیکن ہر ایک نے ملک بھر کی خواتین کے ساتھ ایک مضبوط تعلق بنا لیا ہے۔

شقیق کہتی ہیں کہ ابتدا میں انھوں نے دوسرے لکھاریوں کے گیت استعمال کیے لیکن وہ ایک ایسے مقام پر پہنچ گئیں جہاں کوئی نظم اس بات کی وضاحت نہیں کر سکتی تھی کہ ہمیں کیسا محسوس ہوا۔

ان کے موضوعات میں خواتین کی روزمرہ زندگی پر عائد گھٹن بھری پابندیاں، کارکنوں کو قید کرنا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں شامل ہیں۔

ان کے مداحوں نے سوشل میڈیا پر ان ہیگانوں کی اپنی پرفارمنس پوسٹ کر کے ردعمل ظاہر کیا ہے۔

کچھ لوگوں نے ان ہی کی طرح برقعہ بھی پہنا ہے، جبکہ ملک سے باہر رہنے والے افغان طالب علموں کے ایک گروپ نے سکول آڈیٹوریم میں سٹیج پر اس کا ورژن ریکارڈ کیا ہے۔

یہ سب کچھاس کے برعکس ہے جو طالبان حاصل کرنا چاہتے تھے۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کے پہلے اقدامات میں سے ایک یہ تھا کہ خواتین کے امور کی وزارت کی جگہ نیکی کی ترویج اور برائی کی روک تھام (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کی وزارت قائم کی جائے۔

نئی وزارت نے نہ صرف برقعہ پہننے کی پابندی عائد کی ہے بلکہ موسیقی کی بھی مذمت کی جو ان کے بقول اسلام کی جڑوں کو تباہ کرتا ہے۔

وزارت کے ایک پروپیگنڈا ویڈیو میں نظر آنے والے ایک افسر ثواب گل نے کہا کہ ’گانا اور موسیقی سننا بہت نقصان دہ ہے۔ یہ لوگوں کو نماز سے غافل کر دیتا ہے۔۔۔ سب کو اس سے دور رہنا چاہیے۔‘

جلد ہی سوشل میڈیا پر طالبان کے سپاہیوں کی جانب سے موسیقی کے آلات جلانے اور موسیقاروں کی گرفتاری کی ویڈیوز سامنے آئیں۔

Foot soldiers were seen burning musical instruments
Bakhter News Agency
افغان طالبان نے موسیقی کے آلات جلا دیے

جب تک شقیق اور مشال افغانستان میں اپنے گھر سے گانے ریلیز کرتی رہیں وہ بہت بڑا خطرہ مول لے رہی تھیں۔

شقیق کہتی ہیں کہ وہ کئی راتوں تک یہ سوچ کر سو نہیں پائیں کہ طالبان ان کی شناخت کر سکتے ہیں۔

مشال کا کہنا ہے کہ ’ہم نے سوشل میڈیا پر ان کی دھمکیاں دیکھی ہیں کہ ایک بار جب ہم آپ کو تلاش کر لیں گے تو ہم جانتے ہیں کہ آپ کی زبان آپ کے حلق سے کیسے کھینچنی ہے۔‘

’ہمارے والدین جب بھی اس طرح کے تبصرے پڑھتے ہیں تو ڈر جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شاید اتنا کافی ہے اور ہمیں روکنا چاہتے ہیں لیکن ہم ان سے کہتے ہیں کہ ہم نہیں کر سکتے ہم صرف عام سی زندگی نہیں جی سکتے۔‘

اپنی حفاظت کے لیے دونوں بہنوں نے گذشتہ سال ملک چھوڑ دیا لیکن انھیں امید ہے کہ وہ جلد واپس آئیں گی۔

A woman protesting the Taliban's ban on education alone in front of Kabul University. Published on social media and shared with the BBC
BBC
افغان خواتین طالبان کی جانب سے تعلیم پر پابندی کے خلاف احتجاج کرتی ہیں

افغانستان سے تعلق رکھنے والی ایک پروفیشنل ریپر سونیتا علی زادہ، جو اب کینیڈا میں مقیم ہیں، ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے بیرون ملک سے لاسٹ ٹارچ کی ویڈیوز کو سراہا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں نے برقعے کے نیچے دو عورتوں کو گاتے دیکھا تو سچ کہوں تو میں رو رہی تھی۔‘

وہ 1996 میں پیدا ہوئی تھیں جس سال طالبان نے پہلی بار اقتدار سنبھالا تھا اور ان کا خاندان اس وقت ایران بھاگ گیا تھا جب وہ کم عمر تھیں۔

وہاں ان کی والدہ نے ان کی زبردستی شادی کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے موسیقی کے ذریعے اپنا راستہ تلاش کیا۔ لاسٹ ٹارچ کی دو بہنوں کی طرح، وہ طالبان کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین کو امید کی علامت کے طور پر دیکھتی ہیں۔

گلوکار بہنوں کے ایک گانے میں براہ راست مظاہرین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

آپ کی جنگ خوبصورت ہے، آپ کی عورتیں چلاتی ہیں

آپ کھڑکی میں میرا ٹوٹا ہوا منظر ہیں

سونیتا کہتی ہیں کہ ’افغانستان میں اس وقت صورتحال بہت مایوس کن ہے کیونکہ ہم کئی دہائیوں میں اٹھائے گئے قدم کھو چکے ہیں لیکن اس اندھیرے میں ایک روشنی اب بھی جل رہی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنی صلاحیتوں کے مطابق لڑ رہے ہیں۔‘

Farida Mahwash portrait
BBC
فریدہ ماہاش کہتی ہیں ’یہ گلوکارائیں دو سے چار ہو جائیں گے اور پھر 10 اور پھر 1000 ہو جائیں گے۔‘

بی بی سی نے ان بہنوں میں سے ایک کا تازہ ترین گانا افغانستان کی معروف ترین خاتون گلوکارہ فریدہ ماہاش کو بھی دکھایا جن کا کریئر ان کی حالیہ ریٹائرمنٹ تک نصف صدی سے زیادہ کا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ گلوکارائیں دو سے چار ہو جائیں گے اور پھر 10 اور پھر ایک ہزار ہو جائیں گے۔ جس دن وہ سٹیج پر جائیں گی، تو میں ان کے ساتھ چلوں گی، بھلے ہی مجھے لاٹھی کے سہارے جانا پڑے۔‘

کابل میں گذشتہ ایک سال کے دوران انسانی حقوق کی سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں مزید شدت آئی ہے اور حکام نے خواتین کے ریلیاں نکالنے پر پابندی عائد کی ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔

ان بہنوں کا تازہ ترین گانا ان خواتین کارکنوں کے بارے میں ہے جنھیں طالبان نے قید کر رکھا تھا اور ہیومن رائٹس واچ نے قید میں ان کی صورتحال کو بدترین قرار دیا۔ اس کے کچھ بول یوں تھے:

عورتوں کی آوازوں کی لہریں

جیل کے قفل اور زنجیریں توڑیں

یہ قلم ہمارے خون سے تر ہے

توڑ دو تیر اور اپنی تلواریں

شقیق کہتی ہیں ’یہ نظمیں ہمارے دلوں میں موجود غم اور درد کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’افغانستان کے عوام کا درد اور جدوجہد اور گذشتہ برسوں میں طالبان کے دور میں انھوں نے جو غم جھیلا ہے وہ کسی نظم میں شامل نہیں ہو سکتا۔ ‘

اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اگر طالبان اپنی موجودہ پالیسیوں کو جاری رکھتے ہیں تو وہ صنفی امتیاز کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔

طالبان نے جواب دیا ہے کہ وہ شریعت کا نفاذ کر رہے ہیں اور ملک کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کو قبول نہیں کریں گے۔

شقیق اور مشال اپنے اگلے گانوں پر کام کر رہی ہیں۔ وہ امید کرتی ہیں کہ آزادی اور تعلیم اور کام کرنے کے حق کی لڑائی میں افغانستان میں خواتین کی آواز سنائی دے گی۔

’ہماری آواز خاموش نہیں ہو گی۔ ہم تھکے ہوئے نہیں ہیں، یہ صرف ہماری لڑائی کا آغاز ہے۔‘

ان گلوکار بہنوں کے نام ان کی حفاظت کے لیے تبدیل کیے گئے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.