وکیل، سپر ماڈل اور اب اداکارہ ماہا طاہرانی: ’الزام لگانا، سکینڈل بنانا سوشل میڈیا پر بہت عام ہے، اس لیے دور رہتی ہوں‘

مختصر دورانیے کی پاکستانی فلم ’جامن کا درخت‘ نے حال ہی میں کانز ورلڈ فلم فیسٹول میں سوشل جسٹس فلمکی کیٹیگری میں بہترین فلم کا ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ اس فلم میں ماڈل ماہا طاہرانی نے عدنان صدیقیکے ساتھ مرکزی کردار نبھایا ہے۔
ماہا طاہرانی
BBC

’میں ہمیشہ کہتی ہوں مجھے جیتنا بہت پسند ہے کیونکہ میرے ابو نے مجھے ہمیشہ یہ سبق دیا تھا کہ جو کرنا ہے کرو زندگی میں لیکن کبھی اوسط درجے کا کام مت کرنا ہمیشہ جیتنا۔‘

یہ الفاظ پاکستان کی سپر ماڈل اور اداکارہ ماہا طاہرانی کے ہیں جو اپنی پہلی ہی فلم ’جامن کا درخت‘ کی کانز فلم فیسٹول میں کامیابی پر بے حد خوش ہیں۔

واضح رہے کہ مختصر دورانیے کی پاکستانی فلم ’جامن کا درخت‘ نے حال ہی میں کانز ورلڈ فلم فیسٹول میں سوشل جسٹس فلم کی کیٹیگری میں بہترین فلم کا ایوارڈ حاصل کیا ہے۔

’جامن کا درخت‘ کی کہانی بی گل نے تحریر کی ہے جس میں ہراسانی، جنسی حملے، جنسی ہوس، طاقت کے بے جا استعمال اور رضامندی جیسے حساس موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

اس فلم کو رافع راشدی نے ڈائریکٹ کیا ہے۔ اس فلم میں ماہا طاہرانی کے ساتھ عدنان صدیقی نے مرکزی کردار نبھائے ہیں جبکہ دیگر اداکاروں میں فوزیہ امان، ثمن انصاری، سیدہ رمشا نوال، احد توقیر، زارا عثمان، یوگیشور کریرہ اور عرفان موتی والا شامل ہیں۔

’آپ ایک ماڈل کو ایکٹر کیوں بنانا چاہتے ہیں؟‘

اداکاری کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے ماہا طاہرانی ماڈلنگ کی دنیا میں اپنا نام بنا چکی ہیں۔ وہ پچھلے لکس سٹائل ایوارڈز کی طرف سے سال کی بہترین ماڈل کا ایوارڈ جیتنے کے علاوہ کئی نامور ایوارڈز اور نامزدگیاں حاصل کر چکی ہیں۔

بی بی سی اردو کے ساتھ خصوصی گفتگو میں ماہا طاہرانی نے اپنی پہلی فلم ’جامن کا درخت‘ میں اپنے کردار کے بارے میں بتایا کہ ’یہ کردار ایک لڑکی کا ہے جو ایک متوسط طبقے کے گھرانے سے تعلق رکھتی ہے لیکن وہ بڑے خواب رکھتی ہے کہیں پہنچنا چاہتی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ کردار ہمارے معاشرے کی خواتین کی زندگی کی اس ایک لڑائی کے بارے میں ہے جسے شاید ہر عورت سمجھے گی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس فلم میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی عورت کا کوئی نہ کوئی احساس یا مسئلہ اجاگر کیا گیا ہے جس کا زندگی میں کبھی نہ کبھی اسے سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

ماہا کے بقول وہ اس فلم کو سائن کرنے کے بارے میں کشمکش میں تھیں لیکن ان کے والدین نے انھیں مشورہ دیا کہ اُنھیں یہ فلم کرنی چاہیے۔ آڈیشن سے پہلے بھی وہ اس شش و پنج میں مبتلا تھیں کہ آخر وہ ہی کیوں؟ جس پر ان کے استاد اور فلم کے پروڈیوسرز میں سے ایک فیصل کپاڈیا نے اُنھیں سمجھایا۔

وہ فلم ’جامن کا درخت‘ کرنے سے متعلق اپنے فیصلے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں نے ان سے کہا کہ آپ ایک ماڈل کو ایکٹر کیوں بنانا چاہتے ہیں؟ جس کو اداکاری کا کوئی تجربہ نہیں ہے! اُن کا جواب بڑا خوبصورت تھا کہ لوگ کچھ دیکھتے ہیں تو آفر کرتے ہیں۔ اب تم اس بارے میں کیا کرتی ہو یہ تم پر منحصر ہے۔‘

’عورتوں کی زندگی کی حقیقت دکھائی ہے‘

فلم ’جامن کا درخت‘ کی کہانی فیشن انڈسٹری کے کرداروں کے گرد گھومتی ہے لیکن ماہا نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’فیشن انڈسٹری کو ہم نےایک مثال کے طور پر لیا ہے لیکن یہ کہانی مکمل فکشنل ہے۔ بالکل ہماری انڈسٹری میں طاقت کا غلط استعمال ہوتا ہے، لیکن وہ ہر فیلڈ میں ہوتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس کہانی کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ کہانی ایک عورت کے بارے میں ہے جو فیشن انڈسٹری میں ضرور آ جاتی ہے لیکن وہ عورت ایک بینک میں بھی ہو سکتی ہے، کورٹ میں بھی ہو سکتی ہے، ہم نے خواتین کی زندگی کی حقیقت دِکھائی ہے۔‘

ماڈل ماہا طاہرانی نے بتایا کہ فلم میں انھوں نے سب سے زیادہ کام اداکار عدنان صدیقی کے ساتھ کیا جن سے انھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ان کے بقول عدنان صدیقی نے اُنھیں مشورہ دیا کہ وہ جیسی ہیں ویسی رہیں اور اس بات کو انھوں نے بہت سنجیدگی سے لیا۔

ماہا نے بتایا کہ عدنان صدیقی نے اُنھیں کہا کہ ’جتنا زیادہ نیچرل رہو گی، اتنا لوگ تم سے جڑیں گے کیونکہ ہمیں جو کردار دیا جاتا ہے لوگوں کے لیے وہ کردار نہیں ہوتا بلکہ ایک حقیقت ہوتی ہے، وہ کہیں نہ کہیں ہم میں اپنی کہانی ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔‘

ماہا طاہرانی
BBC

’ہر عورت سے ریلیٹ کر پاتی ہوں‘

ماہا طاہرانی وکیل بھی ہیں۔ انھوں نے یونیورسٹی آف لندن سے وکالت کی ڈگری حاصل کی ہے اور پاکستان میں اپنی ایک لا فرم بھی چلاتی ہیں لیکن اب ان کا زیادہ وقت ماڈلنگ اور اداکاری میں گزرتا ہے۔

رافع راشدی کی فلم کے بعد وہ نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے ڈرامہ سیریل ’تیرا وعدہ‘ میں ایک سائیڈ کیریکٹر میں بھی نظر آرہی ہیں۔

اس ڈرامہ میں اُن کا کردار ’ہانیہ‘ کافی حد تک قدامت پسند ہے۔ ڈراموں میں روتی دھوتی اور بے بس عورتوں کے ایسے کرداروں پر کافی بحث رہی ہے۔ صرف 24 سال کی عمر میں وکالت، ماڈلنگ اور اب اداکاری کے میدان میں پنجہ آزمائی کرنے والی ماہا طاہرانی کہتی ہیں کہ وہ ان کرداروں سے ریلیٹ کر پاتی ہیں۔

’ہر گھر میں اس طرح کے جملے سننے کو ملتے ہیں کہ اچھا اتنی پڑھائی کافی ہے، اس سے زیادہ پڑھنے کی کیا ضرورت ہے یا اس طرح چلو پھرو، یہ اوڑھو اور یہ پہنو، یہ پیشہ اختیار کرو گی تو تمھاری شادی نہیں ہو پائے گی۔‘

انھوں نے کافی جذباتی انداز میں کہا کہ وہ خود تو ایسی لڑکی نہیں ہیں لیکن بطور وکیل اُنھوں نے بہت سی لڑکیوں کی کہانیاں سنی ہیں اور کچھ کے مسئلے حل بھی کیے ہیں۔

’اُن سب کی کہانیاں مجھے ایک جیسی لگتی ہیں۔ بینک میں بیٹھنے والی عورت کی، ایک لڑکی جو ماڈلنگ کرنا چاہتی ہے لیکن اس کا خاندان قدامت پسند ہے، ایک لڑکی جو شادی کرنا چاہتی ہے اور اُس پر ہم نے عمر کی قدغن لگا دی ہے کہ 26 سے پہلے کرنی ہے۔ اور اُس کے بعد ہمارے ہاں بڑے مسئلے آتے ہیں جیسے کہ ریپ، میریٹل ریپ، ہراساں کرنا، تشدد کرنا، تو میں اس طرح ہر عورت سے ریلیٹ کر پاتی ہوں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’عورتوں کو اپنی غلطیاں کرکے اپنے تجربات سے سیکھنے کا موقع دینا چاہیے‘

ماہا کہتی ہیں کہ عورتوں کو اپنی غلطیاں کرکے اپنے تجربات سے سیکھنے کا موقع دینا چاہیے۔ اُن کے خیال میں معاشرے کو عورت سے جو توقعات ہوتی ہیں اُس کی وجہ سے وہ ایک مخصوص تصور میں پھنس گئی ہے۔

عورتوں کے لیے طے کردہ پرفیکٹ امیج پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’مجھے اُس پرفیکٹ لڑکی سے مسئلہ نہیں ہے۔ مجھے مسئلہ ہے کہ وہ 15 سال کی لڑکی جب 26 کی ہوتی ہے وہ اپنے آپ کو نہیں ڈھونڈ پاتی۔

’اُس کے خواب کیا ہیں، وہ کون ہے، اُس کو کیا کام کرنے سے خوشی ملتی ہے وہ اِن چیزوں میں پھنسی رہتی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کی والدہ پاکستان کی پہلی انٹرنیشنل ایئر ہوسٹس تھیں اور صرف 26 سال کی عمر میں پورا گھر سنبھالتی تھیں۔

’ہماری زندگیوں کے درمیان میں یہ سوال کیوں آ جاتا ہے کہ اب اگر تم کام کر رہی ہو اور بچے سنبھال رہی ہو ساتھ میں تو تم پرفیکٹ ماں نہیں ہو، مجھے لگتا ہے میری ماں پرفیکٹ تھی، اُس نے مجھے کلچر بھی سکھایا، دین بھی سیکھایا، اُس نے مجھے چلنا پھرنا بھی سکھایا، سب کچھ سکھایا لیکن اُس کو کام کیوں چھوڑنا پڑا اس سب کے لیے۔‘

’الزام لگانا، سکینڈل بنانا سوشل میڈیا پر بہت عام ہے‘

موجودہ دور میں سوشل میڈیا ایک ضرورت بن کے ابھرا ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مشہور شخصیات کی جتنی زیادہ سوشل میڈیا فالوؤنگ اور پوسٹنگ ہوتی ہے اُنھیں اتنا ہی زیادہ کام ملتا ہے۔ لیکن ماہا طاہرانی میڈیا اور فیشن کی دیگر شخصیات کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر ذرا کم ہی پوسٹنگز کرتی نظر آتی ہیں۔

اُن کے خیال میں مشہور شخصیات کو سوشل میڈیا پر پوسٹنگ کے معاملے میں محتاط رہنے اور اپنی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ہر بات پر رائے دینا ضروری نہیں سمجھتیں۔

’میں کسی بھی مدعے کو اُس وقت بتانا ضروری نہیں سمجھتی جب تک میں مجھے دوطرفہ بات نہ پتا ہو۔ الزام لگانا، سکینڈل وغیرہ یہ سب سوشل میڈیا پہ بہت عام ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’میں یقینی بناتی ہوں کہ میں کچھ بھی غلط نہ کروں، کوئی بھی ایسا ایکشن نہ کروں جس سے میرا کلچر اور میرے لوگوں کو تکلیف ہو، یا میں کوئی ایسا مدعا نہ اٹھاؤں جو غیر ضروری ہے۔ میں فلسطین پر بہت کھل کے بات کرتی ہوں کیونکہ وہ مسئلہ ہے اور میرا بات کرنا فرض بنتا ہے۔

’لیکن میرا ایک اور فرض بنتا ہے کہ میں محتاط رہوں۔ میں کبھی اپنی آڈیئنس کو غلط معلومات، غلط رائے اور غلط ایکشن نہیں دوں کیونکہ بہت چھوٹی عمر کے لوگ بھی آپ سے متاثر ہوتے ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.