نجف حمید: چکوال میں اراکین اسمبلی سے بھی زیادہ طاقتور سمجھے جانے والے سابق نائب تحصیلدار کون ہیں؟

پنجاب کے محمکہ اینٹی کرپشن نے یکم اگست 2023 کو ماضی میں پاکستان مسلم لیگ (ق) پرویز الٰہی گروپ سے تعلق رکھنے والے صوبہ پنجاب کے سابق وزیر برائے معدنیات کے خلاف ایک کرپشن اور بینامی جائیدادیں بنانے کا مقدمہ درج کیا اور اسی مقدمے میں نجف حمید بھی ایک درجن سے زائد ملزمان کی فہرست میں شامل ہیں۔

’نائب تحصیلدار سڑکوں اور پارکوں کا افتتاح کر رہے ہوتے تھے اور پیچھے علاقے سے منتخب ہونے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے تھے۔‘

یہ الفاظ ہیں پنجاب کے ضلع چکوال کے مقامی صحافی نبیل انور کے جنھوں نے تحصیل بلکسر کے نائب تحصیلدار نجف حمید کے کیریئر کو قریب سے دیکھا۔

نجف حمید گذشتہ دنوں پاکستانی میڈیا چینلز میں خبروں کی زینت بنے ہوئے تھے جس کا سبب ’اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ‘ کی جانب سے درج کیا گیا بدعنوانی کا ایک مقدمہ ہے جس میں وہ شریک ملزم ہیں۔

اسی مقدمے میں نجف حمید کو انسداد کرپشن کی عدالت کے باہر سے گرفتار بھی کیا گیا تھا لیکن اُسی روز انھیں ضمانت مل گئی اور انھیں رہا کردیا گیا۔

ضلع چکوال کے علاقے لطیفال میں پیدا ہونے والے محکمہ ریونیو کے ملازم نجف حمید کی وجہ شہرت ایک اور بھی ہے۔

ان کے بھائی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کا شمار تقریباً ڈھائی برس قبل تک پاکستان کی سب سے طاقتور شخصیات میں ہوتا تھا کیونکہ وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں ملک کے خفیہ ادارے انٹرسروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ رہے تھے۔

نجف حمید کے خلاف بدعنوانی کے الزامات

پنجاب کے محمکہ اینٹی کرپشن نے یکم اگست 2023 کو ماضی میں پاکستان مسلم لیگ (ق) پرویز الٰہی گروپ سے تعلق رکھنے والے صوبہ پنجاب کے سابق وزیر برائے معدنیات کے خلاف ایک کرپشن اور بینامی جائیدادیں بنانے کا مقدمہ درج کیا اور اسی مقدمے میں نجف حمید بھی ایک درجن سے زائد ملزمان کی فہرست میں شامل ہیں۔

بی بی سی کو میسر ’ایف آئی آر‘ کی کاپی کے مطابق گذشتہ انتخابات میں پی پی 24 تلہ گنگ سے رُکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے حافظ عمار یاسر نے دھرابی کے علاقے میں درجنوں کنال پر محیط دو زمینیں مارکیٹ ویلیو سے کم قیمت میں خریدیں۔

حافظ عمار یاسر پر یہ بھی الزام ہے کہ انھوں نے اپنے رشتہ داروں کے نام پر تلہ گنگ میں متعدد ’ناجائز اثاثہ جات‘ بنائے۔

اسی مقدمے میں نجف حمید کو ایک درجن سے زائد افراد کے ساتھ شریک ملزمان میں شامل کیا گیا۔ ان تمام افراد پر الزام ہے کہ انھوں نے سابق صوبائی وزیر برائے معدنیات حافظ عمار یاسر کی ’ناجائز اثاثہ جات‘ بنانے میں مدد کی۔

حافط عمار یاسر پر لگنے والے الزامات کے حوالے سے ان سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی اور انھیں پیغامات بھی چھوڑے گئے لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

تاہم بی بی سی کے رابطہ کرنے پر نجف حمید نے خود پر لگنے والے الزامات کی تردید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی کیس ہی نہیں، بے بنیاد ایک ایشو بنایا جا رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے اس مقدمے میں ان کو ضمانت بھی دے دی ہے۔

’سرکاری محکمے میں ترقی پانے کے لیے اثر و رسوخ کا استعمال‘

بقول نجف حمید کے انھوں نے ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں نوکری کا آغاز 36 سال پہلے کیا تھا۔ ان کی فیس بُک پروفائل دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ضلع چکوال اور خصوصاً اپنے علاقے لطیفال میں ایک متحرک شخصیت ہیں۔

ان کی فیس بُک پروفائل پر ایسی بہت سی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں جن میں انھیں سڑکوں کا افتتاح اور سکولوں میں تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

نجف حمید نے ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں پٹواری کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا تھا جس کے بعد وہ پہلے گرداور بنے اور پھر نائب تحصیلدار کے عہدے پر فائز رہے۔

کچھ مہینے قبل انھیں ’مس کنڈکٹ‘ کے الزام پر ملازمت سے معطل بھی کر دیا گیا تھا۔

ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرنے والے اختر عباس نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے نجف حمید پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے نائب تحصیلدار کے عہدے تک ترقی پائی۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’نجف حمید بھی گرداور کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔ جب پروموشن کا وقت آیا تو محکمے میں موجود تمام گرداوروں کو کہا گیا کہ وہ ترقی لینے سے انکار کر دیں اور پھر نجف حمید کو نائب تحصیلدار کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے جب اس کے خلاف آواز اُٹھائی تو ان کی گرداور کے عہدے سے تنزلی کی گئی اور دوبارہ پٹواری بنا دیا گیا۔

چکوال کے مقامی صحافی نبیل اختر بھی نجف حمید کے کیریئر کے حوالے سے کچھ ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ جب لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید آئی ایس آئی میں ڈائریکٹر جنرل انٹرنل سکیورٹی (ڈی جی سی) تعینات ہوئے تو وہ (نجف حمید) گرداور کے عہدے پر فائز تھے۔

’اس کے بعد تو ان (نجف حمید) کی چاندی ہو گئی۔ ان کو نائب تحصیلدار بننا تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کے محکمے میں دیگر گرداور بھی موجود تھے۔ اس وقت ان تمام لوگوں سے کاغذ پر لکھوا لیا گیا کہ ہم پروموشن نہیں چاہتے، نجف حمید کو ترقی دے دی جائے۔‘

بی بی سی سے گفتگو کے دوران نجف حمید نے ان تمام الزامات کو ’جھوٹ‘ قرار دیا اور موقف اپنایا کہ ’میں ان تمام لوگوں سے سینیئر تھا۔‘

پاکستان میں سرکاری افسران کے خلاف کارروائیوں کا کلچر

ملک میں گورننس کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ڈاکٹر الہان نیاز کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک کلچر بن چکا ہے کہ جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے تو وہ پچھلی حکومت سے قریب سمجھے جانے والے افسران کے خلاف ’احتساب‘ کے نام پر کارروائی شروع کر دیتی ہے۔

وہ کہتے ہیں پاکستان میں ’ملک میں احتساب کا استعمال کرپشن کو روکنے کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جب کسی سرکاری افسر یا بیوروکریٹ پر کسی سیاسی جماعت سے قریب ہونے کا ٹیگ لگ جاتا ہے تو وہ کوشش کرتا ہے کہ اس کی پسندیدہ جماعت ہی حکومت میں رہے کیونکہ اس ہی میں اس کی بقا ہے۔‘

ڈاکٹر الہان نیاز کے مطابق سرکاری افسران کی طاقتور اداروں سے راہ و رسم بڑھانا یا سیاسی جماعتوں کے قریب ہو جانا صرف کرپشن کی وجہ سے ہی نہیں ہوتا بلکہ افسران میں ’مرکزیت یا اہمیت حاصل کرنے کی لالچ‘ بھی ہوتی ہے۔

’یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو حکومت کے تبدیل ہوتے ہی اعتاب میں آ جاتے ہیں۔‘

ان کے مطابق سالانہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے پاس کرپشن کی ہزاروں شکایات آتی ہیں لیکن ریفرنس کی شکل صرف 40 یا 50 ہی اختیار کرتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں محکمہ جاتی احتساب نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شاید کرپشن ہو رہی ہے یا وسائل ضائع ہو رہے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.