اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کا خط: عدلیہ پر اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے الزامات کی حقیقت کیا ہے؟

اس خط کے منظر عام پر آنے کے بعد بدھ کو پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس بھی منعقد ہوا، جس کے بعد وزیر قانون کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ جمعرات کو وزیر اعظم شہباز شریف چیف جسٹس سے سپریم کورٹ میں ملاقات کریں گے جس میں یہ معاملہ بھی زیر بحث آ سکتا ہے۔
Islamabad High Court
BBC

پاکستان میں یہ بحث اکثر ہوتی رہی ہے کہ عدالتوں کے متنازع سیاسی فیصلے کس حد تک قانونی اور کس حد تک بیرونی یا اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے تحت سنائے جاتے ہیں تاہم چند دن قبل ہی اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے تحریر کردہ ایک خط کے بعد اس بحث نے ایک نیا جنم لیا ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے 25 مارچ کو سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے اپنے خط میں عدالتی امور میں آئی ایس آئی اور دیگر انٹیلیجنس اداروں کی طرف سے براہ راست مداخلت اور ججوں کو ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے تھے، جنھیں موجودہ سیاسی تناظر میں غیر معمولی سمجھا جا رہا ہے۔

اس خط کے منظر عام پر آنے کے بعد گذشتہ روز پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس بھی منعقد ہوا، جس کے بعد وزیر قانون کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ جمعرات کو وزیر اعظم شہباز شریف چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے سپریم کورٹ میں ملاقات کریں گے جس میں یہ معاملہ بھی زیر بحث آ سکتا ہے۔

پاکستان میں عدالتی امور میں بیرونی مداخلت کی تاریخ نئی نہیں ہے۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ نسیم حسن شاہ کا ایک انٹرویو حال ہی میں ایک بار پھر مقبول ہوا، جس میں انھوں نے پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کے فیصلے میں ججز پر دباؤ کو تسلیم کیا۔

حالیہ تاریخ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی اور اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے خلاف پانامہ مقدمے سے متعلق جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے آئی ایس آئی پر مداخلت کے الزامات ہوں یا ’واٹس ایپ‘ کے ذریعے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کی خبریں، ٹرائل کورٹ کے جج سے ملاقات کر کے کیمروں کی نظر میں آنے والے ایک ’کرنل صاحب‘ ہوں یا پھر خود چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس یہ سب وہ واقعات ہیں جن سے عدالتی امور میں غیرضروری مداخلت کی بحث کو جنم دیا ہے۔

شوکت عزیز صدیقی کی حال ہی میں بحالی کے فیصلے کو نظیر بنا کر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے آئی ایس آئی کے دباؤ سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو تفصیلی خط لکھا ہے، جس کے ذریعے آئی ایس آئی سمیت انٹیلیجنس ایجنسیوں اور انتظامیہ کی عدالتی امور میں مداخلت سے متعلق تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

بی بی سی نے اس خط پر سابق چیف جسٹس، سابق ججز اور سینیئر وکلا سے تفصیل سے بات کی ہے۔ مگر پہلے ایک نظر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط پر کہ انھوں نے اس میں کیا لکھا اور اس پر ابھی تک کیا ردعمل سامنے آیا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں کیا کہا گیا ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے 25 مارچ کو عدلیہ پر ’دباؤ‘ سے متعلق خط میں سپریم جوڈیشل کونسل سے مطالبہ کیا کہ آئی ایس آئی کے نمائندوں کی عدالتی امور میں مسلسل مداخلت پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔

یہ خط میڈیا پر 26 مارچ کی شام کو سامنے آیا، جس میں نچلی عدالتوں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز پر دباؤ کے بارے میں چند واقعات کا ذکر شامل کیا گیا ہے۔ اس خط میں نچلی عدالت کے ایک جج کی شکایت کا بھی قصہ شامل ہے جس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے آئی ایس آئی اہلکاروں کی شکایت لگائی اور پھر بعد میں اس سیشن جج کو او سی ڈی بنا دیا گیا۔

خط میں ججز نے لکھا کہ جوڈیشل کنونشن سے پتا چلے گا کہ کیا ملک کی دیگر ہائیکورٹ کے ججز کو بھی اس صورتحال کا سامنا ہے۔

اس خط میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں رہنمائی نہیں دی گئی ہے کہ ایسی صورتحال میں ججز کیسے رد عمل دیں؟ اور اس کے علاوہ یہ بھی واضح نہیں کہ ججز اس طرح کی مداخلت کو کیسے ثابت کریں۔

اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ادارہ جاتی ’رسپانس‘ کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ دس مئی سنہ 2023 کو ہائیکورٹ ججز نے چیف جسٹس کو خط لکھا کہ آئی ایس آئی والوں کی مداخلت پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔

اس خط میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو انٹیلی جنس ادارے کی مداخلت کا بتانے پر 11 اکتوبر 2018 کوعہدے سے برطرف کیے جانے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے 22 مارچ کے فیصلے میں جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کو غلط قرار دیا اور انھیں ریٹائرڈ جج کہا۔

اس خط میں جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے عائد کردہ الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئیں، ہائیکورٹ ججز کا خط میں جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے تحقیقات کرانے کے موقف کی مکمل حمائت کا اعادہ کیا گیا۔

خط میں کہا گیا کہ اگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو ’انڈرمائن‘ کرنے والے کون تھے؟ اور ان کی معاونت کس نے کی؟ اس خط میں کہا گیا ہے سب کو جوابدہ کیا جائے تا کہ یہ عمل دہرایا نا جا سکے۔ اس کے علاوہ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں کوئی رہنمائی نہیں کہ ایسی صورتحال کو کیسے رپورٹ کریں۔

خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس سلسلے میں تحقیقات کا دائرہ وسیع ہونا چاہیے کہ کہیں اب بھی تو اس طرح کی مداخلت جاری نہیں؟ اس خط میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ کہیں کیسز کی سماعت کے لیے مارکنگ اور بینچز کی تشکیل میں اب بھی تو مداخلت جاری نہیں؟

ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انکوائری ہونی چاہیے کہ کیا سیاسی کیسز میں عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونا ریاستی پالیسی تو نہیں؟ اور کہیں انٹیلی جنس اداروں کے ذریعے ججز کو دھمکا کر اس پالیسی کا نفاذ تو نہیں کیا جا رہا ہے۔

اس خط میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے آپریٹوز نے پٹیشن ناقابل سماعت قرار دینے والے ججز پر دوستوں، رشتہ داروں کے ذریعے دباؤ ڈالا اور جج شدید ذہنی دباؤ کے باعث ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہو کر ہسپتال داخل ہوئے اور یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور چیف جسٹس پاکستان کے علم میں لایا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا ان کی آئی ایس آئی کے ڈی جی سی سے بات ہو گئی ہے اور چیف جسٹس نے کہا یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ آئی ایس آئی کا کوئی آفیشل ہائیکورٹ کے کسی جج کو ’اپروچ‘ نہیں کرے گا، لیکن اس کے باوجود آئی ایس آئی کے آپریٹوز کی مداخلت جاری رہی۔

ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ مئی 2023 میں ہائیکورٹ کے ایک جج کے برادر نسبتی کو مسلح افراد نے اغوا کیا اور 24 گھنٹے بعد چھوڑا۔

خط میں جج کا نام تو نہیں لکھا گیا تاہم یہ کہا گیا ہے کہ جج کے بیٹے اور فیملی کے لوگوں کی سرویلنس کی گئی جس کے بعد برادر نسبتی کو اغوا کرنے کا فیصلہ ہوا۔

خط میں الزام عائد کیا گیا کہ جج کے برادر نسبتی کو حراست کے دوران الیکٹرک شاک لگائے گئے اور وڈیو بیان ریکارڈ کرنے پر مجبور کیا گیا۔

خط میں ایک ہائیکورٹ جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے استعفی دینے پر دباؤ ڈالا گیا۔ اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک جج سرکاری گھر میں شفٹ ہوئے تو ان کے ڈرائنگ روم اور ماسٹر بیڈ روم میں کیمرے نصب تھے اورکیمرے کے ساتھ سم کارڈ بھی موجود تھا، جو آڈیو وڈیو ریکارڈنگ کسی جگہ ٹرانسمٹ کر رہا تھا۔

خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جج کے ماسٹر بیڈ روم میں بھی کیمرا لگا تھا، جج اور اس کی فیملی کی پرائیویٹ وڈیو اور یو ایس بھی ریکور ہوئی۔

ججز کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ بارہ فروری 2024 کو پانچ ججز نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو فل کورٹ میٹنگ بلانے کے لیے لکھا جو تاحال نہیں بلائی گئی۔

عدالتی امور میں مداخلت

سپریم کورٹ سے حال ہی میں دوبارہ بحال ہونے والے جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کوئی ایڈوائزری فورم نہیں ہے بلکہ یہاں تو ججز کے کنڈکٹ کے خلاف امور زیر غور لائے جاتے ہیں۔

عدالت میں مداخلت پر جج کو کیا کرنا چاہیے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ ’یہ جج کو خود پتا ہونا چاہیے کہ اس نے کیا کرنا ہے۔‘ شوکت صدیقی کے مطابق ’اب یہ اہم ہو گیا ہے کہ اب سپریم جوڈیشل کونسل اس پر کیا ردعمل دیتی ہے۔‘

واضح رہے کہ شوکت عزیز صدیقی نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید سمیت آئی ایس آئی کے سینیئر افسران پر یہ الزامات عائد کیے تھے کہ وہ پانامہ مقدمات میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف فیصلہ دینے کے لیے ان سے گھر آ کر ملاقاتیں کیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی پیشکش بھی کی تھی۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ جسٹس شوکت صدیقی سمیت پانامہ مقدمات اور کسی بھی معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔ ان کے مطابق اگرچہ اب وہ وضاحت دے سکتے ہیں مگر اپنی ’پرائیویسی‘ کے حق کو استعمال کرتے ہوئے وہ میڈیا سے بات نہیں کرتے۔

تاہم انھوں نے یہ ضرور کہا ہے کہ ان کے دور میں ان پر یا عدلیہپر کسی بھی قسم کا کوئی دباؤ نہیں تھا۔

لاہور ہائیکورٹ کی سابق جج ناصرہ اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ لاہور ہائیکورٹ کی جج رہ چکی ہیں۔ ان سے قبل ان کے شوہر بھی جاوید اقبال بھی جج رہ چکے تھے۔ ان کے مطابق ان کے پاس کبھی کوئی آئی ایس آئی یا خفیہ ایجنسی کا اہلکار نہیں آیا اور نہ کبھی انھوں نے ایسا کوئی واقعہ اپنے شوہر سے گھر پر سنا ہے۔

ان کے مطابق جب ججز خود کوئی ’فیورز‘ نہ مانگیں تو دوسری طرف سے بھی کسی کو جرات نہیں ہوتی کہ وہ جج کو دباؤ میں لائے۔ تاہم ان کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے ٹھیک رستہ چنا ہے اور اب چیف جسٹس کو اس پر تحقیقات کرنا ہوں گی۔

ایک سوال کے جواب میں جسٹس ناصرہ جاوید نے کہا کہ جب جج پر فیصلے کے لیے کوئی دباؤ ڈالے تو ایسے میں جج کو توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لانی چاہیے۔ ان کی رائے میں جب جج یہ ظاہر کریں گے کہ وہ دلیر ہیں اور انھیں کوئی لالچ نہیں ہے تو پھر کوئی ان کے قریب بھی نہیں آئے گا۔

ایک سینیئر وکیل نے جسٹس ناصرہ اقبال کے موقف کی تائید کرتے ہوئے دعوی کیا کہ چند جج فرمائشیں کرتے ہیں اور اپنے خاندان والوں تک کے لیے بھی پروٹوکول مانگتے ہیں اور مرضی کے تبادلے اور تقرریاں تک کراتے ہیں، جس کے بعد دوسری طرف سے بھی فرمائشیں آنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سیاسی مقدمات میں خود جـجز کو بھی ایک ’گاڈ کمپلیکس‘ ہے اور انھیں یہ لگتا ہے کہ وہ وزرائے اعظموں کو بھی گھر بھیج سکتے ہیں اور انھوں نے ماضی میں ایسا کیا بھی ہے۔

سابق اٹارنی جنرل جسٹس ریٹائرڈ مولوی انوارالحق نے بی بی سی کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا خط بہت سنگین معاملہ ہے اور اب پاکستان کے چیف جسٹس نے اس کی تحقیقات کےلیے کمیٹی بنا دی ہے، جو ان معاملات کی چھان بین کرے گی۔

فواد حسن فواد سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اپنے دور میں ایسی کوئی عدالتی مداخلت دیکھی ہے اور نہ ہی وہ ان معاملات پر کسی قسم کا کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں۔

خیال رہے کہ فواد حسن فواد نگراں حکومت میں وفاقی وزیر بھی تھے۔

اس خط کی اہمیت کیا ہے؟

سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بی بی سی کو بتایا کہ اس خط میں ججز کا اپنا ذاتی مقصد بھی شامل ہو گیا ہے۔ ان کی رائے میں سپریم جوڈیشل کونسل وہ فورم ہی نہیں جسے یہ خط لکھا جاتا۔ اشتر اوصاف کی رائے میں اب یہ معاملہ سامنے آ گیا ہے اور چیف جسٹس کو اس پر از خود نوٹس لے لینا چاہیے۔

لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق سیکریٹری صباحت رضوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ججز نے یہ خط لکھ کر بہت اچھا کیا ہے۔ ان کی رائے میں چیزیں بہت واضح تھیں مگر اب اس خط نے ان پر مہر ثبت کر دی ہے۔

صباحت رضوی کے مطابق ججز عام طور پر ملازمت کے بعد تو انٹرویوز میں ایسے اعتراف کرتے ہیں مگر دوران ملازمت ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے۔ ان کی رائے میں ’اب بال چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی کورٹ میں ہے۔‘ ان کے مطابق ’اب بار کونسل کو ججز کی حمایت کرنی چاہیے۔‘

وکیل عمر گیلانی کا کہنا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں تو عام طور پر ججز کے خلاف لکھا جاتا ہے۔ مگر یہاں ججز نے خود لکھ دیا ہے۔ ان کی رائے میں ’مجھے لگتا ہے بار اور بینچ میں بہت خلیج ہے۔‘

ان کے مطابق ایک طرف جج اپنے گھر کے حصول کے لیے درخواست پر خود ہی سماعت کر رہے ہوتے ہیں تو پھر ان کے لکھے گئے خط کو بھی زیادہ اہمیت نہیں مل سکتی۔ ان کے مطابق جب ہائیکورٹ کے ججز نے اپنی عدالت کے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا تو پھر اس وقت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بھی دستخط کیے تھے مگر اب جو خط کونسل کو لکھا گیا ہے اس میں وہ شامل نہیں ہیں۔

ان کی رائے میں یہ مہم وکلا کے ذریعے سے چلنی چاہتی ہیں۔ عمر گیلانی کے مطابق اس خط کے ذریعے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف محاذ آرائی نظر آتی ہے کہ یا وہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کے خلاف لڑیں یا پھر اپنے ججز کو ناراض کر دیں۔

انھوں نے کہا کہ اس خط میں کہا گیا ہے کہ ایک جج کے خلاف ریفرنس دائر کر کے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ ان کے مطابق اب خط کے ذریعے تو معاملہ حل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ بات تو تحقیق طلب ہے کہ جج کے ’لینڈ مافیا‘ سے تعلقات ہیں یا نہیں ہیں۔

بار ایسوسی ایشنز کا تحقیقات کا مطالبہ

اسلام آباد ہائی کورٹ ججز خط سے پیدا صورتحال پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ بار قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے اور ججز کے خط میں مذکورہ واقعے پر سخت ناپسندیدیگی کا اظہار کرتی ہے۔

اعلامیے کے مطابق ’سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے کہا ہے کہ عدلیہ اور ججوں کی نجی زندگی میں مداخلت کی نہ صرف مذمت ہونی چاہیئے بلکہ اس کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہیئے۔‘

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتی ہے اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف کوئی ایکشن برداشت نہیں کرے گی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر اسلام آباد بار ایسوسی ایشن اور سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ بار کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ بار ایسوسی ایشن کے ہنگامی اجلاس میں ہائیکورٹ کے ججز کا چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گئے خط کا جائزہ لیا گیا۔

اعلامیہ کے مطابق سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کا عدالتی معاملات میں مداخلت پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ بار نے ججز کے خط پر تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے اور کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔

دوسری جانب اس خط کے معاملے پر اسلام آباد بار کونسل، اسلام آباد ہائی کورٹ بار اور اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار نے بھی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اس معاملے کی شفاف انکوائری کروائی جائے اور جو لوگ اس معاملے میں ملوث ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔

پی ٹی آئی کا ہائی کورٹ ججز کے خط کے معاملے پر سپریم کورٹ سے کارروائی کا مطالبہ، ’یہ خط نہیں چارج شیٹ ہے‘

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط پر سپریم کورٹ لارجر بینچ تشکیل دے کر سماعت کرے، یہ ججز کے خط نہیں، چارج شیٹ ہے۔

اسلام آباد میں رہنما پی ٹی آئی عمر ایوب کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب میں چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے خط میں مداخلت سے آگاہ کیا، ہائی کورٹ کے چھ ججز دباؤ سے متاثر ہوئے، ججز کو پریشر میں لانے کا ایک ہی مقصد تھا جو ججز نے خط میں لکھا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ججز نے خط میں لکھا کہ سیاسی مقدمات میں مداخلت کی گئی، عمران خان کے خلاف جتنے کیسز کے فیصلے آئے وہ اس خط کے بعد ختم ہوگئی۔ یہ پی ڈی ایم حکومت کا کارنامہ تھا ان ہی حالات میں دو سو مقدمات بنائے گئے۔ عمران خان کے خلاف جو ٹرائل ہوئے ہیں، وہ متاثر ہوئے ہیں، تمام فیصلے کالعدم ہیں عدلیہ عمران خان کے خلاف تمام فیصلے کالعدم قرار دیے جائیں، اور عمران خان کو فوری رہا کیا جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’وکلا تنظیمیں ہمییشہ ججز کے تحفظ اور عدلیہ کی آزادی کے لیے برسر پیکار رہتی تھیں، گذشتہ دو برس سے وکلا سیاست بھی متاثر نظر آئی۔‘

انھوں نے زور دیا کہ ’اپنے سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر عدلیہ کی آزادی کے لیے ایک ہو جائیں ہم عدلیہ کو یقین دلاتے ہیں کہ پوری قوم آپ کے پیچھے کھڑی ہو گی، تحریک انصاف کا ہر کارکن آپ کے پیچھے کھڑا ہوگا لارجر بینچ آج ہی تشکیل دیا جائے، اور اس خط پر سماعت کی جائے۔‘

بیرسٹر گوہر نے مطالبہ کیا کہ جن ججز نے خط لکھا ہے ان کی اوران کے اہل خانہ کی حفاظت کی جائے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.