تھالر سے ڈالر تک: یورپ کے ایک گاؤں میں جنم لینے والا سکہ دنیا کی طاقتور کرنسی کیسے بنا؟

امریکی ڈالر دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسی ہے جسے دنیا میں غیر سرکاری طور پر سونے جیسا مقام حاصل ہے کیوں کہ بین ااقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے مطابق دنیا بھر میں 62 فیصد مالیاتی ذخائر اسی کرنسی میں محفوظ رکھے جاتے ہیں۔
امریکہ
Getty Images

امریکی ڈالر دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسی ہے جسے غیر سرکاری طور پر سونے جیسا مقام حاصل ہے کیوںکہ بین ااقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے مطابق دنیا بھر میں موجود 62 فیصد مالیاتی ذخائر اسی کرنسی میں محفوظ رکھے جاتے ہیں۔

دنیا کے تقریبا 31 ممالک میں یا تو امریکی ڈالر سرکاری کرنسی کے طور پر رائج ہے یا پھر ان ممالک میں سرکاری کرنسی کا نام بھی ڈالر ہے جبکہ دیگر 66 ممالک کی کرنسی کی قدر کا دارومدار امریکی ڈالر سے جڑا ہوا ہے۔

غرض یہ کہ شمالی کوریا سے لے کر سائبیریا جیسے دور دراز مقامات تک امریکی ڈالر بطور کرنسی استعمال ہوتا ہے، وہ ڈالر جس کا آغاز آج سے ٹھیک 232 سال قبل یعنی دو اپریل 1792 کو ہوا۔

لیکن دنیا کی سب سے طاقتور کرنسی کا نام ڈالر کیسے پڑا اور یورپ کے ایک دور دراز گاؤں سے اس کا آغاز کیسے ہوا؟ یہ ایک دلچسپ کہانی ہے جو پانچ سو سال قبل آج کے چیکوسلاویکیا نامی ملک سے شروع ہوئی اور جس کا کلائمیکس امریکہ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد ہونے والی ایک خفیہ ملاقات پر ہوا جس نے امریکی کرنسی کو دنیا کی سب سے طاقتور کرنسی بنا دیا۔

چاندی کی کان کی دریافت سے، پہلے ڈالر تک

بوہیمیا اور سیکسونی کو تقسیم کرنے والے پہاڑی جنگلات کبھی بھیڑیوں اور ریچھوں کی آماجگاہ ہوا کرتے تھے۔ لیکن سنہ 1516 میں جب یہاں چاندی کی موجودگی کا انکشاف ہوا تو اس علاقے کی قسمت بدل گئی جس کا نام ’جوخائم‘ رکھا گیا۔

مقامی مؤرخ یاروسلاو کے مطابق اس زمانے میں یورپ شہری ریاستوں میں بٹا ہوا تھا جن کے حکمران طاقت اور اقتدار کی جنگ میں مصروف تھے۔ ’اس وقت اپنے کنٹرول کو برقرار رکھنے کا سب سے بہترین طریقہ اپنی کرنسی بنانے کا تھا۔ جوخائم کے حکمران نے بھی ایسا ہی کیا اور مقامی چاندی سے سکے تیار کرنا شروع کر دیے جس کا نام ’جوخائمز تھالرز‘ پڑا۔ جلد ہی یہ نام مذید مختصر ہو کر صرف تھالرز یعنی سکے رہ گیا۔‘

سنہ 1566 میں جوخائم میں چاندی کے ذخائر ختم ہو گئے لیکن اس سکے کا نام اس وقت تک یورپ میں اتنا عام اور مشہور ہو چکا تھا کہ جب جرمنی کی سلطنت، جسے اس زمانے میں ’ہولی رومن ایمپائر‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا، نے مختلف مقامی کرنسیوں اور سکوں کے لیے ایک ہی مخصوص حجم اور چاندی کی قسم کو طے کرنے کا فیصلہ کیا تو قرعہ فال جوخائمز تھالر کے نام نکلا تاہم جرمن سلطنت میں اس سرکاری سکے کو ’ریخز تھالرز‘ کا نام دیا گیا۔

یورپ کے دیگر حکمرانوں نے بھی جرمن سلطنت کی نقل میں سکوں کا پیمانہ طے کرنا شروع کیا جنھیں مختلف زبانوں میں مختلف نام دیے گئے۔ ڈنمارک، ناروے اور سویڈن میں تھالر کا نام ’ڈالیر‘ پڑ گیا جبکہ آئس لینڈ میں یہ ’ڈالور‘ ہو گیا۔ لیکن ڈچ کرنسی کا جو نام پڑا وہ ادائیگی اور تلفظ میں موجودہ ڈالر سے سب سے قریب تھا اور یہی کرنسی جب 17ویں صدی میں نوآبادکاروں کے ساتھ شمالی امریکہ پہنچی تو سفید فام لوگوں نے جلد ہی تمام چاندی کے سکوں کو ’ڈالر‘ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔

ڈالر سے پہلے امریکہ میں کون سی کرنسی تھی؟

جب شمالی امریکہ میں یورپ سے لوگوں نے منتقل ہونا شروع کیا تو وہ اپنے ساتھ سونا اور انگلش سکے لے کر گئے۔ تاہم یہ لوگ بہت امیر نہ تھے اور ان کے پاس موجود سرمایہ جلد ختم ہو گیا۔

جیسن گوڈون نے اپنی کتاب ’آل مائٹی ڈالر اینڈ دی انونشن آف امریکا‘ میں لکھا ہے کہ ان لوگوں کے لیے مقامی آبادی سے لین دین ایک مسئلہ بن گیا۔ تاہم جلد ہی ان کو معلوم ہوا کہ مقامی لوگوں کے لیے ایک سیپ بہت قیمتی ہے جس کے بدلے وہ خوراک اور دیگر ضروریات زندگی جیسا کہ کھالیں ان سے خرید سکتے ہیں۔ یہ سیپ اتنی بیش قیمت ہو گئی کہ میسیچوسٹس کالونی نے 1637 میں اسے باقاعدہ کرنسی کا درجہ دے دیا۔ لین دین کے لیے تمباکو اور مکئی بھی استعمال ہوا کرتے تھے۔

تاہم خرید و فروخت کے لیے یہ پیچیدہ نظام کافی مشکلوں کا باعث بن رہا تھا۔ ان مسائل کے حل میں شمالی امریکہ پر حکومت کرنے والے برطانوی بھی ایک رکاوٹ تھے جنھوں نے سونے اور چاندی کے سکوں کی برآمد روک رکھی تھی اور مقامی لوگوں کو اپنے سکے تیار کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے۔ ایسے میں ہسپانوی سکے بھی بطور کرنسی استعمال ہوئے۔

برطانیہ کا یہی رویہ بعد میں ٹیکسوں کے نفاذ سمیت شمالی امریکہ میں بغاوت اور علیحدگی کی وجہ بنا اور 1783 میں امریکی کالونیوں نے برطانیہ کو شکست دے کر آزادی حاصل کر لی۔ تاہم اس جنگ کی وجہ سے تمام ریاستیں معاشی بحران کا شکار ہو گئیں کیوں یہ ایک طویل اور مہنگی جنگ تھی۔

ایسے میں امریکی کانگریس نے کاغذی کرنسی کا اجرا کیا لیکن جنگ کے بعد یہ کاغذی کرنسی بے وقعت تھی اور جلد سے جلد نئے ملک کی معیشت کو سنبھالنے کی ضرورت تھی۔ یوں 1785 میں امریکی کانگریس نے نیو یارک میں ایک اجلاس کے بعد ڈالر کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سرکاری کرنسی کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔

امریکہ
Getty Images
امریکی ڈالر کی علامت کو پہلی بار اس دستاویز میں استعمال کیا گیا

امریکی کانگریس نے طے کیا کہ ایک ڈالر میں 100 سینٹ ہوں گے لیکن مختلف ریاستوں کے درمیان یہ ایک متنازع معاملہ بن گیا کیوں کہ ریاستیں اس بات پر منقسم تھیں کہ وفاقی حکومت کو ریاستی معاملات میں کس حد تک مداخلت کی اجازت ہونی چاہیے۔ یوں کرنسی کے اعلان کے باوجود پہلا سرکاری ٹکسال 1792 میں قائم ہوا۔

مزید 70 سال بعد یعنی 1862 میں، جب امریکی خانہ جنگی اپنے عروج پر تھی، امریکی محکمہ خزانہ نے پہلی بار باقاعدہ کاغذی ڈالر چھاپا جو ایک جانب سے کالا اور دوسری جانب سبز تھا۔ اس رنگ کی وجہ وہ مخصوص کیمیکل تھے جنھیں جعل سازی کی روک تھام کے لیے چھپائی میں استعمال کیا گیا تھا۔

ڈالر پر موجود علامت کا کیا مطلب ہے؟

امریکہ
Getty Images

امریکی ڈالر پر موجود علامت کے بارے میں مصنف ایٹلس شرگڈ نے ایک ناول میں لکھا کہ ’یہ کامیابی، صلاحیت، انسانی تخیل کی علامت ہیں اور یونائیٹڈ سٹیٹس کا مخفف ہے۔‘

لیکن یہ واحد نظریہ نہیں۔ اس علامت کے حوالے سے ایک اور روایت یہ ہے کہ سب سے پہلے جب تھالر سکہ کا اجرا ہوا تو اس پر ایک مسیحی کراس پر بل کھاتا سانپ نظر آتا تھا جو ایک مذہبی کہانی کی جانب اشارہ تھا اور امریکی ڈالر کی علامت بھی اسی سکے سے اخذ کی گئی۔

ایک اور کہانی کے مطابق یہ علامت ہرکولیس کے ستونوں سے مستعار لی گئی جو قدیم یونانیوں کے دور میں ’سٹریٹ آف جبرالٹر‘ یا ’باب المغرب‘ کو بیان کرنے کے لیے بطور اصطلاح استعمال ہوتا تھا۔ 18ویں اور 19ویں صدی میں ہسپانوی ڈالر پر بھی یہ ستون استعمال کیے گئے تھے۔

تاہم جو کہانی سب سے زیادہ مشہور ہے اس کا تعلق ہسپانوی سکوں سے ہے۔ اس کہانی کے مطابق مقامی ہسپانویوں اور سفید فام امریکیوں کے درمیان تجارت میں 1857 تک پیسو استعمال ہوتا تھا جس کا پورا نام ’پیسو ڈی اوچو ریالز‘ تھا۔ تاہم وقت کے ساتھ اس پورے نام کی جگہ صرف انگریزی کا حرف ’پی‘ اور ’ایس‘ استعمال ہونا شروع ہوئے جو گزرتے وقت کے ساتھ موجودہ شکل اختیار کر گئے۔

ڈالر دنیا کی سب سے طاقتور کرنسی کیسے بنا؟

امریکہ
Getty Images

دوسری عالمی جنگ اختتام پذیر ہو رہی تھی کہ اتحادیوں کو یہ نظر آنا شروع ہوا کہ ان کی اپنی میعشت تباہ ہو چکی تھی۔ انھوں نے سوچنا شروع کیا کہ جب بحالی کا عمل شروع ہو گا تو بین الاقوامی تجارت کس کرنسی میں ہو گی۔

اس وقت 44 ممالک کے نمائندے 22 دن کے لیے امریکہ میں بریٹن وڈز قصبے کے ماوئنٹ واشنگٹن ہوٹل میں اکھٹے ہوئے۔

یہاں جنگ کے بعد عالمی معیشت اور تجارت کے مستقبل پر مذاکرات ہوئے۔

یورپی ممالک جنگ کے نیتجے میں تباہ حال تھے جب کہ امریکہ کے پاس دنیا میں سونے کے سب سے بڑے ذخائر تھے۔

ایڈ کونوے اپنی کتاب ’دی سمٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ 22 دن تک شدید سیاسی لڑائی اور بحث ہوئی۔

اس دوران دو شخصیات میں دو بدو لڑائی بھی ہوئی جس میں برطانوی جان کینز ایک عالمی کرنسی کا تصور لیے ہوئے تھے جبکہ دوسری جانب امریکی محکمہ خزانہ کے ہیری ڈیکسٹر تھے۔

اس کانفرنس کے بعد طے ہوا کہ امریکی ڈالر بین الاقوامی تجارت کے لیے استعمال کیا جائے گا اور اسی ملاقات میں بنائے جانے والے ادارے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، جنگ کے بعد معاشی مشکل کا سامنا کرتے ممالک کو امریکی ڈالر میں ہی قرض دیں گے۔

اس وقت کس نے سوچا ہو گا کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں جدید بین الاقوامی معیشت کا بنیادی ڈھانچہ قائم کیا جا رہا ہے جو آج تک قائم ہے۔

یہ تحریر اسلام آباد سے زبیر اعظم نے بی بی سی پر ماضی میں شائع ہونے والے متعدد مضامین کی مدد سے تیار کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.