دالیں اور کچی سبزیاں صحت کے لیے کتنی فائدہ مند ہیں

ان دنوں سوشل میڈیا پر ’نو بوائل نو آئل‘ یعنی ’نہ تلا ہوا نہ ابلا ہوا‘ کا شور سنائی دے رہا ہے اور لوگ طرح طرح کے فارمولے پیش کر رہے ہیں جن میں کیلے کے کٹلٹس، تیل کے بغیر تلے ہوئے چاول اور میدے کے بغیر نوڈلز کا ذکر عام ہے۔ لیکن اس بارے میں بہت سے سوالات بھی موجود ہیں جیسے یہ کھانے کیسے تیار ہوتے ہیں، کیا ہم بغیر پکائے سبزیاں کھا سکتے ہیں اور کیا یہ صحت کے لیے موزوں ہیں؟

ان دنوں سوشل میڈیا پر ’نو بوائل نو آئل‘ یعنی ’نہ تلا ہوا نہ ابلا ہوا‘ کا شور سنائی دے رہا ہے اور لوگ طرح طرح کے فارمولے پیش کر رہے ہیں جن میں کیلے کے کٹلٹس، تیل کے بغیر تلے ہوئے چاول اور میدے کے بغیر نوڈلز کا ذکر عام ہے۔

ان پکوانوں کے لیے تیل کے ایک قطرے کی بھی ضرورت نہیں اور ایسے پکوانوں کی کچھ خاص طریقوں سے تیار کی جانے والی ویڈیوز حالیہ دنوں میں وائرل ہو رہی ہیں۔

کھانا پکانے کے اس انداز کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ’ہم ابتدائی دنوں میں اس طرح کھاتے تھے‘ اور ’اگر آپ اس طرح کھائیں گے تو جسم کو کھانے کے تمام غذائی اجزاء مل جائیں گے۔‘

لیکن اس بارے میں بہت سے سوالات بھی موجود ہیں جیسے یہ کھانے کیسے تیار ہوتے ہیں، کیا ہم بغیر پکائے سبزیاں کھا سکتے ہیں اور کیا یہ صحت کے لیے موزوں ہیں؟

یہاں ہم اس بات کا ذکر کر رہے ہیں کہ کیا ایسی غذاؤں سے کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے۔

یہ کیسے تیار کی جاتی ہیں؟

انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے کوئمبٹور میں پٹیال ریستوران چلانے والے شیوکمار بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ انھوں نے تقریباً 15 سال تک تحقیق کی ہے اور تقریباً 2500 ڈشیں بنائی ہیں۔

وہ پچھلے 3 سال سے یہ ریستوران چلا رہے ہیں اور تمام سبزی خور یعنی ’ویگن‘ کھانا یہاں دستیاب ہے حتی کہ دودھ اور دہی بھی پودوں سے حاصل کیے جاتے ہیں۔

یہاں کاجو سے مایونیز بنائی جاتی ہے۔ چنئی سمیت تمل ناڈو کے کچھ حصوں میں اسی طریقے سے کھانا پیش کرنے والے کچھ ریستوران حال ہی میں شروع کیے گئے ہیں۔

شیو کمار کہتے ہیں کہ کھانا بنانے کے چند بنیادی طریقے ہیں یعنی ’کاٹنا، بھگونا اور مکس کرنا یا ملانا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سبزیوں کو کھانے کی قسم کے مطابق کاٹا جاتا ہے۔ پھر سبزیوں کی نوعیت کے مطابق انھیں پانی، ادرک اور لیموں کے رس، ناریل کے دودھ اور تازہ پانی میں بھگویا جاتا ہے۔‘

شیوکمار بتاتے ہیں کہ ’بھگونے کے 12 طریقے ہیں۔ اس کے بعد ہی یہ پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔‘

’جہاں تک چاول کا تعلق ہے تو چاول کی روایتی اقسام کا اولا بنایا جاتا ہے اور پھر چاول بنانے کے لیے بھگو دیا جاتا ہے۔ اس قسم کے کھانے غذائی اجزاء کو برقرار رکھتے ہیں۔ ہماری آنتوں کے جرثوموں کے لیے اچھا ہے۔‘

وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس قسم کا کھانا ہر کسی کے لیے موزوں ہے۔ تاہم چنئی سے تعلق رکھنے والی ماہر غذائیت دھرانی کرشنن کا کہنا ہے کہ ہر قسم کے کھانے کو اس طرح پکائے بغیر نہیں کھایا جا سکتا۔

کیا یہ صحت کے لیے اچھا ہے؟

چنئی میں مقیم ماہر غذائی امور دھرانی کرشنن نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کی۔ انھوں جو باتیں کہیں وہ نیچے پیش کی جا رہی ہیں۔

’سبزیوں کو پکاتے وقت پانی میں حل ہونے والے وٹامنز جیسے وٹامن سی (گوزبیری، لیموں، نارنگی وغیرہ) اور وٹامن بی (سبزیاں، سبز مٹر) اور بعض غذائی اجزاء قدرے کم ہو جاتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم بغیر پکائے کیا کھاتے ہیں۔‘

’پروٹین، چکنائی اور کاربوہائیڈریٹس سے بھرپور غذاؤں کو ابالنے سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن ہر چیز کو بغیر پکائے کھانے سے ہاضمے کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور غذائی قلت ہو سکتی ہے۔‘

’ہیموگلوبن کی کمی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ہیموگلوبن میں ’ہیم‘ آئرن اور ’گلوبن‘ پروٹین ہے اور اگر کھانا درست طور پر ہضم نہ ہو تو غذائیت کی کمی ہو سکتی ہے۔‘

کیا بغیر پکائے کھانا درست نہیں؟

ایک اور ماہر غذائیت بھونیشوری نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بغیر پکائے کھانا غلط نہیں ہے۔

’یقیناً کچھ قسم کی سبزیاں بغیر پکی کھانے کے فوائد ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایسی پھلیاں بھی ہیں جو سبزیوں کو پکانے پر بھی فائبر فراہم کرتی ہیں۔‘

’آپ چاول بھگو کر کھا سکتے ہیں۔ پوری دال کو بھگو کر سلاد میں شامل کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ غلط ہے کہ ہر کوئی ہر چیز بغیر پکائے کھانے لگے۔‘

بھونیشوری کا کہنا ہے کہ یہ کسی کے نظام ہاضمہ پر منحصر ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’سبزیوں کو کاٹنے کے بعد اگر کچھ وقت گزر جائے یا انھیں رکھ دیا جائے تو جراثیم اور بیکٹیریل انفیکشن ہونے کا خدشہ ہے۔‘ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ گوبھی، بروکولی اور بند گوبھی جیسی سبزیاں بغیر پکائے نہ کھائیں۔

کے شو رمن
BBC
کے شو رمن

’ٹرینڈنگ کے پیچھے نہ جائیں‘

ڈاکٹر کے شیو رمن کا کہنا ہے کہ تیل کے بغیر پکائے جانے والے اس قسم کے کھانے کے بہت سے فائدے ہی لیکن احتیاط بھی لازم ہے۔

’تیل کے بغیر کھانے کے بہت سے فائدے ہیں۔ تیل کے بغیر چکنائی حاصل ہوتی ہے۔ تاہم کچھ وٹامنز صرف تیل میں جذب ہوتے ہیں۔ تیل میں وٹامن اے اور وٹامن ڈی موجود ہوتا ہے۔ تیل کو اوپر سے سیزننگ کے لیے کھانے میں شامل کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ لیکن اگر صاف تیل نہیں تو اس سے مذکورہ وٹامنز کی کمی واقع ہونے کا امکان ہے۔‘

اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ ’کوئی غذا کا منصوبہ سب کے لیے عام نہیں ہے۔ ہر فرد کی ضروریات کے مطابق ان کی غذا کا منصوبہ مختلف ہوتا ہے۔ ٹرینڈنگ (چلن) کی پیروی نہ کریں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جسم کو کیا ضرورت ہے اور کیا کھانا چاہیے۔‘

انھوں نے کہا کہ آگ کی ایجاد کے بعد سے کھانا پکنا شروع ہوا ہے۔ کے شو کمار کا کہنا ہے کہ ’بہت سے کھانے طویل عرصے سے تمل کھانے کے نظام میں موجود ہیں۔‘

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جسم کے اندر کی گرمی سے بھی جسم کے اندر خوراک پک جاتی ہے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’آپ ان کھانوں کا مجموعہ لے سکتے ہیں اور انھیں ہفتے میں ایک یا دو بار کھا سکتے ہیں لیکن ہر وقت ایک ہی خوراک لینا اچھا نہیں ہے۔‘

اس طرح کی خوراک میں مسائل کی وضاحت کرتے ہوئےشیوکمار نے کہا: ’ان میں سے کوئی بھی غذا کچی نہیں ہے۔ سبزیاں ہوں یا چاول، ہم اسے ایک مخصوص طریقے سے پروسیس کریں گے۔ لیکن یہ پکائے نہیں جاتے۔ گاجر، چقندر، پیاز، ٹماٹر وغیرہ بغیر پکائے کھائے جا سکتے ہیں۔‘

’لیکن بعض قسم کے سبزیوں جیسے زمین کے نیچے اگنے والی سبزیوں کو کچا نہیں کھایا جا سکتا۔ ہم انھیں نرم کرنے اور ان میں سے جراثیم کو دور کرنے کے لیے کچھ طریقے استعمال کرتے ہیں۔‘

کے شیوکمار کہتے ہیں کہ ’جب ہم کھانے کے اجزاء کو اپنے ہاتھوں سے ملاتے ہیں تو ہمارے جسم کی حرارت ان پر کام کرتی ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’گرمی مونگ پھلی اور گری دار میوے وغیرہ سے تیل کو الگ کرتی ہے، اور یہاں تک کہ ان سے وڈا اور کٹلیٹ بھی بن سکتے ہیں۔‘

شیوکمار نے کہا کہ ’تیل کا براہ راست استعمال کرنے کے بجائے اس قسم کے کھانے میں تیل کے بیج جیسے مونگ پھلی، تل اور ناریل کا استعمال کیا جاتا ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.