امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ میں عمران خان اور ان کی جماعت کے بارے میں کیا کہا گیا اور کیا یہ پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے؟

امریکی محکمہ خارجہ کے ذیلی ادارے ’بیورو آف ڈیموکریسی، ہیومن رائٹس اینڈ لیبر‘ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی جماعت کو سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنائے جانے، ان کی تقاریر نشر کیے جانے پر پابندی اور آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے میں مشکلات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے حامی مارچ 19، 2023 کو واشنگٹن میں وئٹ ہاؤس کے باہر احتجااج کر رہے ہیں
Getty Images
سابق وزیرِ اعظم عمران خان طویل عرصے تک امریکہ کو اپنی حکومت گرانے کا ذمہ دار قرار دیتے رہے

امریکی محکمہ خارجہ کے ذیلی ادارے ’بیورو آف ڈیموکریسی، ہیومن رائٹس اینڈ لیبر‘ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی جماعت کو سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنائے جانے، ان کی تقاریر نشر کیے جانے پر پابندی اور آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے میں مشکلات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس رپورٹ میں دنیا بھر کے تقریباً 200 ملکوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔

اس رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2023 کے دوران پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، تشدد، حکومت اور اس کے نمائندوں کی جانب سے لوگوں کے ساتھ غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک، آزادی اظہار اور میڈیا کی آزادی پر سنگین پابندیاں، صحافیوں کی بلا جواز گرفتاریاں اور گمشدگیاں، سینسرشپ، مجرمانہ ہتکِ عزت کے قوانین، توہینِ مذہب کے قوانین اور انٹرنیٹ پر پابندیوں جیسے سنگین مسائل موجود ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کے علاوہ سنہ 2023 کے دوران پُرامن اجتماع کی آزادی، سیاسی بنیادوں پر قید اور منصفانہ عدالتی کارروائی کا نہ ہونا بھی ملک کو درپیش اہم انسانی حقوق کے مسائل میں شامل ہیں۔

اس رپورٹ پر ردِعمل دیتے ہوئے پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ اس مِیں شامل مواد ’نامناسب، غلط معلومات پر مبنی اور مکمل طور پر زمینی حقائق کے منافی ہے۔‘

عمران خان
Getty Images

امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ عمران خان کے بارے میں کیا کہتی ہے؟

غیر منصفانہ عدالتی کارروائیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے رپورٹ میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف بنائے گئے کیسز کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں عدالتی کارروائیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا قانون حکومت کو دہشت گردوں اور فرقہ وارانہ تشدد کے الزام میں زیر حراست افراد کے کیسز انسداد دہشت گردی کی عدالتوں (اے ٹی سی) میں چلانے کی اجازت دیتا ہے۔

امریکی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے کارکنان الزام لگاتے ہیں کہ اکثر حکام ہائی پروفائل کیسز کو تیزی سے نمٹانے کی غرض سے انسدادِ دہشتگردی کی عدالتوں میں چلانے کی کوشش کرتے ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ آیا ان مقدمات کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں۔

رپورٹ کے مطابق جولائی 2023 میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت کی جانب سے پاکستان تحریکِ انصاف کے 22 رہنماؤں اور کارکنان بشمول سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی بہنوں کے خلاف لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کے الزام میں مجرم قرار دینے کا عمل شروع کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

ملک میں آن لائن میڈیا سمیت پریس پر پابندیوں سے متعلق صحافیوں کے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ٹیلی ویژن چینلز اور دیگر ذرائع ابلاغ کے اداروں کو ہدایات جاری کر کے ریاستی اداروں پر تنقیدی رپورٹنگ سے گریز کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

رپورت کے مطابق مارچ 2023 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی لاہور میں تقریر کے بعد ان کے میڈیا میں کوریج پر پابندی لگا دی گئی۔ اپنی تقریر میں عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ انھیں اقتدار سے ہٹائے جانے کے پیچھے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہاتھ تھا۔

رپورٹ میں قطری میڈیا گروپ ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پابندی عائد ہونے کے تقریباً دو گھنٹے بعد پیمرا نے عمران خان کی تقریر نشر کرنے پر اے آر وائی نیوز کا لائسنس معطل کر دیا۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگست 2023 میں پیمرا نے پی ٹی آئی کے حامیوں اور ہمدرد سمجھے جانے والے صحافیوں کے ٹی وی پر آنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

سیاسی جماعتوں پر پابندیوں سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد احتجاج کے بعد حکومت نے کریک ڈاؤن کا آغاز کرتے ہوئے ہزاروں مظاہرین بشمول پی ٹی آئی کارکنان اور صحافیوں کو گرفتار کیا۔

اس کے بعد، متعدد پی ٹی آئی رہنما پابندِ سلاسل رہے جبکہ حکومت اور فوج کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔

رپورٹ کے مطابق کئی پی ٹی آئی رہنماؤں کو عدالتوں سے ضمانت ملنے کے باوجود بارہا گرفتار کیا گیا اور عمران خان کی جماعت کو متعدد مواقع پر جلسوں کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔

پی ٹی آئی کریک ڈاؤن
Getty Images

’رپورٹ سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہونے کا خاص امکان نہیں‘

سابق سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ سمجھتے ہیں کہ سفارتی سطح پر اس رپورٹ سے پاکستانی ریاست کے لیے مشکلات پیدا ہونے کا کوئی خاص امکان نہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نجم الدین شیخ نے کہا کہ ’امریکی محکمہ خارجہ کی اس رپورٹ کا مقصد محض یہ ریکارڈ پر لانا ہے کہ کہاں کن حقوق کی پامالیاں ہو رہی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’تاہم یہ ضرور ہے کہ اس سے تحریکِ انصاف والوں کو ایک اور چیز ملی ہے جس کی بنا پر وہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کے خلاف اب دنیا بھر میں بات کی جا رہی ہے۔‘

نجم الدین شیخ کے مطابق بین الاقوامی طور پر یہ تاثر ضرور پایا جا تا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات آزادنہ نہیں تھے اور پی ٹی آئی کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی برتی گئی۔ ’یہ آپ کے امیج (تشخص) پر دھبہ ہے اور یہ دھبہ رہے گا۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کا باہمی تعلقات پر کس حد تک پڑتا ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کے کون سے پہلو زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔

نجم الدین شیخ کہتے ہیں کہ امریکہ اس وقت پاکستان میں استحکام چاہتا ہے۔ ’امریکہ کو اس وقت یوکرین کے معاملے میں پاکستان کی حمایت کی ضرورت ہے۔‘

’اس کے علاوہ امریکہ اس وقت جنوبی ایشیا میں استحکام دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ وہ انڈیا کو چین کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ نہیں چاہیں گے کہ کسی قسم کی کشیدگی اس پر اثر انداز ہو۔‘

یاد رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان طویل عرصے تک امریکہ کو اپنی حکومت گرانے کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔ بعد ازاں، وہ اپنے مؤقف میں تبدیلی لے آئے جبکہ ان کی جماعت بھی امریکہ میں اپنے قائد اور کارکنان کی رہائی کے لیے لابنگ کرتی آئی ہے۔

تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ پی ٹی آئی کی مؤثر لابنگ اور دباؤ کا نتیجہ تھا کہ امریکی وزیرِ خارجہ کے جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے معاون ڈونلڈ لو کو کانگریس کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کے سامنے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا دفاع کرنا پڑا تھا۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کے بطور وزیر اعظم روس کے دورے کے بعد امریکہ نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے اںھیں اقتدار سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

فروری 2024 میں پاکستات میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد امریکی کانگریس کے 31 ارکان نے صدر جو بائیڈن اور وزیرِ خارجہ انتھونی بلنکن کے نام ایک خط لکھا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ نئی پاکستانی حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کریں جب تک انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات نہ کی جائیں۔

خط میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستانی حکام پر زور دیا جائے کہ ایسے تمام افراد کو رہا کیا جائے جنھیں سیاسی تقاریر کرنے یا سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر حراست میں لیا گیا ہو۔

پاکستان نے رپورٹ کو مسترد کردیا

پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رپورٹ ’سیاسی تعصب‘ پر مبنی ہے۔

دفترِ خارجہ سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ان کے لیے یہ ایک باعثِ تشویش بات ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے جاری ہونے والی رپورٹ میں غزہ اور انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والی ’انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں‘ کو نظرانداز کیا گیا ہے۔

’صرف سیاسی مقاصد کے لیے بنائی گئی رپورٹ ہی غزہ کی تشویشناک صورتحال اور 33 ہزار افراد کے قتلِ عام کو کو نظر انداز کر سکتی ہے۔‘

پاکستان کے دفترِ خارجہ نے مزید کہا ہے کہ غزہ میں قتلِ عام پر امریکی خاموشی انسانی حقوق پر بنائی گئی رپورٹ کے مقاصد کو جھٹلاتی ہوئی نظر آتی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان انسانی حقوق کی حفاظت کرنے کے لیے اپنا نظام بہتر کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.