آنتاریز: پراسرار فرقے کا رہنما جس نے ایک نوزائیدہ بچے کو ’دجال‘ قرار دے کر زندہ جلا ڈالا

سنہ 2012 میں آنتاریز کی مخلص ترین خاتون پیروکار نتالیا گویرا حاملہ ہو گئیں۔ ویرونیکا کی تحقیق کے مطابق حمل کے دوران اس عورت کے ایک دور دراز علاقے میں ایک چھوٹے سے کیبن میں تنہا رکھا گیا کیونکہ آنتاریز کو لگا کہ اس کی کوکھ میں ’دجّال‘ پل رہا ہے جس سے پورے فرقے کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

اس کا اصل نام رامون گُستاوو کاسٹیلو گائٹے تھا لیکن اسے پسند تھا کہ لوگ اُسے ’آنتاریز دے لا لُز‘ کے نام سے پکاریں۔

لمبی داڑھی، چھوٹے بال اور دراز قد۔۔۔ اس کی شخصیت ایسی تھی جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آنتاریز کی شخصیت نے اُسے اس مقام پر پہنچنے میں مدد دی جہاں وہ ایک فرقے کا رہنما بن گیا اور اپنے پیروکاروں کے سامنے دعویٰ کرنے لگا کہ وہ زمین پر ’خُدا کا روپ‘ ہے۔

آنتاریز کے پیروکار صرف اُسے پسند نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے فرمابردار بھی تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ان کے رہنما کا مقصد دُنیا کو تباہی سے بچانا ہے۔

اور ان کے نزدیک دنیا کو بچانے کے لیے بھینٹ چڑھانا ضروری تھا۔ نومبر 2013 میں آنتاریز کے گروہ نے ایک زندہ نوزائیدہ بچے کو آگ میں ڈال کر جلا دیا۔

اس فرقے کے رہنما آنتاریز کے مطابق یہ بچہ دراصل ’دجال‘ تھا۔ اس واقعے نے پورے چلّی کو ہلا کر رکھا دیا اور لوگوں میں غم و غصہ اتنا بڑھ گیا کہ آنتاریز کو اپنا ملک چھوڑ کر پڑوسی ملک پیرو فرار ہونا پڑا۔

چلّی میں آنتاریز کو اشتہاری مجرم قرار دے دیا گیا اور پولیس نے اُسے ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ کچھ مہینوں بعد پیرو کے شہر کوزکو میں آنتاریز کی لاش برآمد ہوئی۔

موت کے وقت آنتاریز کی عمر صرف 35 برس تھی۔ حقیقت پر مبنی اس کہانی پر نیٹ فلکس نے ایک ڈاکیومینٹری بنائی ہے جو اپریل 25 کو ریلیز کر دی گئی ہے۔

یہ ڈاکیومینٹری فلم مشہور ہدایتکار سینٹیاگو کوریا اور چلّی کے پروڈکشن ہاؤس فیبیولا نے بنائی ہے۔ اس ڈاکیومینٹری میں پہلی مرتبہ آنتاریز کے حوالے سے دستاویز اورانٹرویوز کی شکل میں ایسی معلومات پیش کی جا رہی ہیں جو اس سے قبل پہلے کبھی منظرِ عام پر نہ آئیں۔

اب آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ آنتاریز کون تھا، اس کا فرقہ کیسے کام کرتا تھا اور ایک نوزائیدہ بچے کو زندہ جلانا کے پیچھے کیا اصل کہانی کیا تھی۔

ابتدائی پیروکار

آنتاریز چلّی کے دارالحکومت سینٹیاگو کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ سکول چھوڑنے کے بعد اس نے موسیقی سیکھی اور ضرورت مند بچوں کے ایک سکول میں موسیقی کی تعلیم بھی دینا شروع کر دی۔

اس زمانے میں آنتاریز ناصرف فُٹ بال کھیلتا تھا بلکہ اس کے کافی دوست بھی تھے۔

کچھ وقت کے بعد آنتاریز نے ’امارو‘ نامی ایک میوزک گروپ جوائن کر لیا جہاں وہ بین، بانسری اور موسیقی کے دیگر آلات بجاتا تھا۔

آنتاریز کی زندگی اور اس کے گروہ پر کتاب لکھنے والی صحافی ویرونیکا فاکسلی نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ آنتاریز اپنے میوزک گروپ کے ساتھ چین گیا تھا اور وہیں اس کی شخصیت میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔

’جیسے وہ بالکل بے نیاز ہوگیا ہے اور اس کے بعد اس نے تنہا لاطینی امریکہ کے مختلف مقامات کے دورے کرنا شروع کردیے۔‘

ویرونیکا کہتی ہیں کہ ’آنتاریز ایکواڈور چلا گیا اور کہا جاتا ہے کہ وہیں اُسے پہلی مرتبہ یہ غلط فہمی ہوئی کہ وہ کوئی روحانی شخصیت ہے۔ جب وہ واپس چلّی آیا تو وہ بہت بدلا ہوا تھا۔‘

اسی وقت سنہ 2009 میں متعدد روحانی گروہوں کے توسط سے آنتاریز کو پیروکار ملنا شروع ہوگئے۔

ان پیروکاروں میں ایک پابلو اُندراگا بھی تھے۔ نیٹ فلکس کی ڈاکیومینٹری میں وہ خود کہتے ہیں کہ ان کا بچپن کافی مشکل تھا جہاں انھیں تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

وہ کہتے ہیں کہ آنتاریر کے گروپ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد وہ خود کو محفوظ تصور کرنے لگے تھے۔

اس حوالے سے صحافی و محقق ویرونیکا کہتی ہیں کہ ’اس فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت جذباتی زخموں سے چور تھی، حساس تھی اور ان کے بچپن بھی کافی مشکل تھے۔‘

’وہ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا تھے، جیسے کہ موڈ کا خراب ہونا اور انا پرستی وغیرہ۔‘

ویرونیکا مزید کہتی ہیں کہ ’وہ جس ماحول میں رہ رہے تھے وہ اس سے غیر مطمئن تھے۔ انھیں لگا کہ آنتاریز ایک خاص، طلسماتی اورخداداد صلاحیتوں کے مالک شخص ہیں۔‘

جلد ہی وہ وقت بھی آگیا جب آنتاریز اور ان کے پیروکار ساتھ رہنے لگے۔ پہلے وہ سینٹیاگو میں رہتے تھے اور پھر وسطی چلّی کے مختلف مقامات پر گھومتے پھرتے آخر کار بالپارایسو شہر میں واقع علاقے کولیگوئے منتقل ہو گئے۔

پہلے پہل تو انھوں نے وہاں مراقبے اور روحانیت پرسیمینار منعقد کروائے جس کا مقصد ’اپنے اندر کے شخص‘ کو پہچاننا تھا۔

اس فرقے کا رہنما سفید لباس میں ملبوس ہوتا تھا اور کسی کو بھی اسے ہاتھ لگانے یا اس کی آنکھوں میں دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔

ویرونیکا کہتی ہیں کہ اس بعد پھر مزید ’پابندیاں‘ دیکھنے میں آئیں۔

عقیدے کا پرچار

ویرونیکا کہتی ہیں کہ ’جب آنتاریز کے پیروکاروں کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ وہ نجات دہندہ ہیں تو پھر مستقل بنیادوں پر عقیدے کا پرچار شروع ہو گیا اور آنتاریز بھی مزید سخت گیر ہوگیا۔‘

’آنتاریز نے نئے قواعد و ضوابط بنا دیے جن کے تحت پیروکاروں پر لازم تھا کہ وہ اس کا خیال رکھیں۔‘

ویرونیکا کے مطابق آنتاریز نے اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ ’کس وقت سیکس کر سکتے ہیں اور کس وقت نہیں، وہ کیا کھا سکتے ہیں اور انھیں دن میں کتنا سونا ہے۔‘

ان تمام پیروکاروں کو بتایا گیا تھا کہ وہ دنیا کو تبدیل نہیں کریں گے بلکہ وہ اس دُنیا کو بچانے والوں میں شامل ہوں گے۔

انھیں بتایا گیا تھا کہ یہ سب 21 دسمبر 2012 کو ہوگا جب ایک پیش گوئی کے مطابق ’قیامت آ رہی ہوگی۔‘

اس گروہ کے افراد مختلف رسومات کی ادائیگی کے دوران جنوبی امریکہ میں پائے جانے والے ایک نشہ آور پودے کے پتے کھاتے تھے۔ صحافی و محقق ویرونیکا کے مطابق آنتاریز یہ پتے روزانہ کھایا کرتا تھا۔

’امکان یہی ہے کہ آنتاریز ریشے کی بیماری میں مبتلا تھا جس کے سبب اس کے جسم میں درد رہتے تھا۔ ایسے میں یہ نشہ آور پودہ ہی تھا جسے کھانے سے اسے آرام ملتا تھا۔‘

’وہ اس پودے کے پتے ایسے کھاتا تھا جیسے کوئی پانی پیتا ہے اور اسی وجہ سے وہ ایک نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہو گئے تھے۔‘

آہستہ آہستہ آنتاریز اپنے پیروکاروں پر اپنی گرفت مضبوط کر رہا تھا، یہ سب کچھ اتنا بڑھ گیا کہ وہ جب چاہتا اپنی خواتین پیروکاروں کے ساتھ سیکس کرتا۔

ویرونیکا کے مطابق ’شروع میں تو وہ خواتین اپنی مرضی سے سیکس کرتی تھیں لیکن بعد میں یہ سب ریپ میں بدل گیا۔‘

اس نے اپنے پیروکاروں کو سزائیں بھی دینا شروع کردیں اور ایک شخص کو تو اس نے اتنا مارا کہ اس کی کلائی ہی ٹوٹ گئی۔

یہ بھی پڑھیے

جُرم

سنہ 2012 میں آنتاریز کی مخلص ترین خاتون پیروکار نتالیا گویرا حاملہ ہو گئیں۔ ویرونیکا کی تحقیق کے مطابق حمل کے دوران اس عورت کو ایک دور دراز علاقے میں ایک چھوٹے سے کیبن میں تنہا رکھا گیا کیونکہ آنتاریز کو لگا کہ اس کی کوکھ میں ’دجال‘ پل رہا ہے جس سے پورے فرقے کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

یہ بچہ نومبر 2012 میں ایک ہسپتال میں پیدا ہوا، جس کا نام ’جیسس‘ رکھا گیا۔ آنتاریز نے دعویٰ کیا کہ یہ بچہ اپنے وقت سے پہلے پیدا ہوا ہے اور یہ نشانی ہے کہ وہ ایک ’سیاہ شخصیت‘ ہے۔

اس لیے بچے کی پیدائش کے دو دنوں بعد آنتاریز نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ وہ پہاڑی پر ایک گڑھا بنائیں اور پھر یہیں اس بچے کو زندہ جلا دیا گیا۔

ویرونیکا کہتی ہیں کہ ’اس وقت فرقے سے منسلک تمام لوگ وہاں موجود نہیں تھے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں سُنا کے بچہ رو رہا تھا اور کچھ نے کہا کہ وہ چیخ رہا تھا۔ لیکن بہت سارے دیکھ ہی نہیں پائے کہ وہاں ہو کیا رہا تھا۔‘

وہ لکھتی ہیں کہ توقع کے برعکس بچے کو زندہ جلانے کے واقعے سے یہ فرقہ کمزور نہیں ہوا بلکہ مزید مضبوط ہوگیا۔

’انھیں لگا کہ وہ اپنے مقصد کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں، آنتاریز کے اطراف میں موجود لوگوں نے اس بچے کی موت کو دجال کے خلاف ایک بھینٹ کے طور پر دیکھا۔‘

اس قرقے کے خلاف تحقیقات

اس گروہ میں جلد ہی دراڑیں پڑنے لگیں اور اختلافات میں شدت اس وقت آئی جب 21 دسمبر 2012 کو دُنیا کی تباہی کی پیش گوئی غلط ثابت ہو گئی۔

ویرونیکا کہتی ہیں کہ ’21 دسمبر کو وہ سب نروس تھے اور توقع کر رہے تھے کہ وہ ہوگا جو انھوں نے اپنے رہنما سے سُن رکھا ہے۔‘

’جب وقت گزر گیا اور کچھ نہ ہوا تو آنتاریز نے اپنے پیروکاروں کو کہا کہ اسے کچھ نظر نہیں آ رہا اور انھیں اب مزید تیاری کرنی پڑے گی کیونکہ اب اگلے برس مارچ میں ایکواڈور میں قیامت آئے گی۔‘

اس وقت آنتاریز کے پیروکار پابلو اُندراگا نے اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ وہاں سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ پابلو ہی گروہ کی مالی ضروریات پوری کرتا تھا۔

ویرونیکا کے مطابق ’جب پابلو انھیں چھوڑ کر چلا گیا تو وہاں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں اور سب کے ذہنوں میں شکوک و شبہات بھی پیدا ہونے لگے اور انھیں بچے کو جلانے والا واقعہ بھی یاد آنے لگا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب فراد ہونے لگے۔‘

اس فرقے اور اس کے رہنما کے خلاف چلّی کی پولیس کے تحقیقاتی یونٹ نے 2013 کے اوائل میں تحقیقات شروع کیں۔ انھیں بچے کو جلائے جانے کے واقعے کی اطلاع کسی گُمنام مخبر نے دی تھی۔

اس برس اپریل میں چلّی کے میڈیا کو اس واقعے کی بھنک پڑ گئی اور پھر آنتاریز کے گروہ کے لوگوں نے بھی خود کو پولیس کے حوالے کرنا شروع کردیا۔

جب تک تحقیقات جاری رہیں ان تمام افراد کو پولیس کی حراست میں ہی رکھا گیا۔

عدالتی کارروائی میں صرف پابلو اور آنتاریز کے ساتھ جسمانی رشتے میں منسلک خاتون نتالیا گویرا کو ہی پانچ، پانچ برس قید کی سزائیں سنائی گئیں۔

اس وقت تک آنتاریز پیرو فرار ہوگیا تھا اور اس کے خلاف ایک سرچ آپریشن جاری تھا۔

ویرونیکا کہتی ہیں کہ ’اُسے ہر طرف سے گھیر لیا گیا تھا اور پھر یکم مئی کو کوزکو شہر کے ایک گھر میں اس کی لاش چھت سے لٹکی ہوئی ملی۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.