سعودی عرب کا پہلا اوپرا: ’یہ سوچ کر نیند نہیں آتی تھی کہ عربی میں گانا پڑے گا‘

’زرقا الیماما‘ کے عنوان سے بنایا گیا اوپرا ایک ایسی عربی خاتون رہنما کی کہانی ہے جنھیں قدرت نے مستقبل دیکھنے کی صلاحیت عطا کی تھی۔

سعودی عرب میں بنایا گیا پہلا اوپرا ریاض میں شائقین کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔

سعودی عرب میں حالیہ دور میں تیزی سے تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں جس کی وجہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پالیسیاں ہیں جن کا مقصد مملکت کو اقتصادی اور معاشی طور پر بہتر کرنا ہے۔

’زرقا الیماما‘ کے عنوان سے بنایا گیا اوپرا ایک ایسی عربی خاتون رہنما کی کہانی ہے جنھیں قدرت نے مستقبل دیکھ لینے کی صلاحیت عطا کی تھی۔

عربی اوپرا کے سربراہ ایون وکچیوک کے مطابق عرب قبائل زرقا کی پیشگوئی اور ممکنہ خطرات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

ایون کا کہنا ہے کہ اوپرا کی کہانی ایسی ہے جسے پوری دُنیا کے سامنے بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ ایون کی کمپنی عربی اوپرا سوئٹزرلینڈ میں بنائی گئی تھی جس کا مقصد مشرقِ وسطیٰ میں کلاسیکل موسیقی کی تعلیم دینا تھا۔

ایون اس اوپرا کی کہانی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کہانی کا مرکزی کردار ایک ایسی ہیروئن ہیں جن کے پاس مستقبل دیکھ لینے کی صلاحیت ہے، وہ دشمنی کے دور میں بھی محبت کا پرچار کرتی ہیں اور اس سلسلے میں اپنی جان خطرے میں ڈالنے سے بھی دریغ نہیں کرتیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسی داستان ہے جس سے عرب دُنیا کی بڑی آبادی آشنا ہے۔

جب دو سال قبل ایک نئے عربی اوپرا کا آئیڈیا منظرِ عام پر آیا تھا تو ایون اور ان کی کمپنی تھوڑی گھبراہٹ کا شکار ہو گئے تھے۔

وہ یہ سوچ رہے تھے کہ عربی زبان کا مزاج مختلف ہے اور کلاسیکل مغربی میوزک کو اس میں جذب کرنا مشکل ہوگا لیکن انھوں نے وقت کے ساتھ اس گھبراہٹ پر قابو پالیا۔

اس اوپرا کے لیے عربی شاعری سعودی شاعر صالح زمانان نے لکھی ہے جبکہ اس میں موسیقی آسٹریلوی موسیقار لی بریڈشا نے دی ہے۔

لی بریڈشا کہتے ہیں کہ ’شروع میں جو بات مجھے سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کہ یہ ایک مغربی اوپرا ہوگا جس پر عربی زبان اور موسیقی کا اثر ہوگا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی موسیقی کو روانی بخشنے کے لیے شاعر صالح زمانان کی شاعری کا سہارا لیا۔

برطانوی گلوکارہ ڈیم سارہ نے زرقا الیماما کا مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں یہ سوچ کر نیند نہیں آتی تھی کہ انھیں عربی میں گانا ہے۔

دبئی اوپرا کے سربراہ پاولو پیٹروشیلی کہتے ہیں کہ ’زرقا الیماما‘ کی تخلیق پورے مشرقِ وسطیٰ میں اس آرٹ کی فروغ کا باعث بنے گی۔

ان کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں ’اوپرا ٹھیٹر ایک شاندار تبدیلی سے گزر رہا ہے‘ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں آرٹس کو سراہا جاتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ آرٹس اور کلچر میں بڑی سرمایہ کاری کے سبب سٹیج اور پروڈکشن میں نہ صرف لوگوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے بلکہ نیا ٹیلنٹ بھی سامنے آ رہا ہے۔

قاہرہ، دمشق، مسقط اور دبئی مین اوپرا ہاؤسز موجود ہیں اور اب سعودی عرب بھی ریاض میں ایک اوپرا کے لیے ایک شاندار عمارت تعمیر کر رہا ہے۔

سعودی عرب کے آرٹس اور کلچر کے شعبوں میں بڑی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے اور ایسی ہی کوششیں کھیل اور دیگر شعبوں کو فروغ دینے کے لیے بھی کی جا رہی ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہاں روز مرہ زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تمام سعودی شہری ان تبدیلیوں سے خوش ہیں۔

درسگاہوں، تفریحی مقامات اور دفاتر میں مرد اور خواتین اب باآسانی گُھل مِل رہے ہوتے ہیں اور وہاں کوئی اخلاقی پولیس بھی نہیں جو خواتین اور مردوں کو ساتھ بیٹھنے سے روکے۔

دارالحکومت ریاض میں اب مہینوں تفریحی میلے جاری رہتے ہیں، جن میں دنیا کی مشہور ترین شخصیات شرکت کرتی ہیں۔

سعودی معاشرے میں موجود قدامت پسند عناصر ان تبدیلیوں کو قبول نہیں کر رہے اور کچھ ایسے افراد بھی ہیں جنھیں ان تفریحی میلوں میں دلچسپی تو ہے لیکن ٹکٹ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب وہ ان پروگرامز میں شریک نہیں ہو سکتے۔

سعودی عرب میں قدیم روایات آج بھی مضبوط ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں مرد اور خواتین اب بھی جدید مملکت کے خدوخال سے آگاہ نہیں۔

ریاض، اوپرا، سعودی عرب
Reuters

اس نئے سعودی عرب میں حکومت مخالف آوازوں کو آج بھی دبایا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والے افراد کو اکثر قید کی طویل سزائیں سُنائی جاتی ہیں۔

سنہ 2018 میں جمال خاشقجی کے قتل کے سبب بھی سعودی عرب اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر کڑی تنقید ہوتی رہی ہے۔

فُٹ بال کی دُنیا کے بڑے نام کرسٹیانو رونالڈو نے جب سعودی کلب جوائن کیا تو ان پر بھی تنقید کی گئی۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں نے سعودی عرب پر الزام لگایا تھا کہ وہ کھیلوں کا استعمال کرکے دنیا کی توجہ اپنی حرکتوں سے ہٹانا چاہتے ہیں۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سعودی کارکن مریم الدوسیری کہتی ہیں کہ ’اگر سعودی عرب واقعی تبدیلی لانے میں دلچپسی رکھتا ہے تو انھیں تعلیم، سکولوں، صحت اور بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔‘

’اوپرا، سنیما اور میوزیکل فیسٹیولز کو بھی ہم خوش آمدید کہتے ہیں لیکن مغرب کی توجہ حاصل کرنے کے لیےصرف ان ہی چیزوں پر توجہ دینا بھی ٹھیک نہیں۔‘

’ڈان‘ نامی ہیومن رائٹس گروپ کی ڈائریکٹر سارہ لی وِٹسن کہتی ہیں کہ ’سعودی عرب دنیا کے سامنے خود کو ایک ترقی پسند ریاست کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے لیکن اس کا برتاؤ ایک ترقی پسند ریاست جیسا نہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.