محمد علی: جب عالمی چیمپیئن نے ’ویتنام جنگ لڑنے پر جیل‘ کو ترجیح دی اور ان کا باکسنگ لائسنس چھین لیا گیا

محمد علی نے ویتنام میں جاری جنگ کے حوالے سے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میرا ضمیر مجھے اپنے بھائی کو، کچھ گندمی رنگت والے یا پھر غریب اور بھوکے لوگوں کو طاقتور امریکہ کی ایما پر گولی مارنے کی اجازت نہیں دے گا۔‘
محمد علی
Getty Images

28 اپریل 1967 کا دن تھا اور صبح آٹھ بجنے سے کچھ لمحے قبل باکسر محمد علی امریکی فوج کے بھرتی کے مرکز پہنچے۔

ویتنام جنگ اپنے عروج پر تھی اور امریکی فوج کے سینکڑوں اہلکار مارے جا چکے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سڑکوں پر مشتعل مظاہرین امریکی فوج میں بھرتی سے متعلق بھیجے گئے خطوط کو آگ لگا رہے تھے، جبکہ اس بھرتی کے مخالف بہت سارے افراد کینیڈا بھی فرار ہو رہے تھے۔

باکسر محمد علی کینیڈا فرار ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی وہ امریکی فوج میں بھرتی ہونے کے خواہاں تھے۔

اس سے دو برس قبل محمد علی نے ویتنام میں جاری جنگ کے حوالے سے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میرا ضمیر مجھے اپنے گندمی رنگت والے غریب اور بھوکے بھائیوں کو طاقتور امریکہ کی ایما پر گولی مارنے کی اجازت نہیں دے گا۔‘

’اور میں انھیں گولی کس لیے ماروں؟ انھوں نے مجھے کبھی نِگر (سیاہ فام افراد کے لیے استعمال ہونے والا تضحیک آمیز لفظ) کہہ کر نہیں پکارا، مجھے کبھی پیٹا نہیں، کبھی میرے پیچھے کتے نہیں چھوڑے، کبھی مجھے میری شہریت سے محروم نہیں کیا، کبھی میری ماں کا ریپ نہیں کیا، کبھی میرے باپ کو قتل نہیں کیا۔۔۔ میں انھیں کس لیے گولی ماروں؟ میں کیسے غریب لوگوں کو گولی مار سکتا ہوں؟ مجھے جیل لے چلیں۔‘

لیکن اپنے انٹرویو کے دو سال بعد باکسنگ کے ہیوی ویٹ چیمپیئن آسمانی رنگ کا لباس زیبِ تن کیے ایک ٹیکسی میں امریکی فوج کے بھرتی کے مرکز پہنچے اور انھیں صحافیوں نے گھیر لیا۔

محمد علی ایک دلچسپ شخصیت تھے، چلتے پھرتے کہاوتیں دُہرایا کرتے تھے، کبھی باتیں بھی گُنگُنانے کے انداز میں کیا کرتے تھے اور اپنے خاص انداز میں اکثر باکسنگ رنگ میں مخالف باکسروں کو یہ بتا کر تنگ کیا کرتے تھے کہ وہ انھیں کیسے شکست دینے والے ہیں۔

سنہ 1964 میں ہیوی ویٹ چیمپیئن شپ کے میچ سے قبل محمد علی نے کچھ اس طرح اپنی جیت کا اعلان پہلے ہی کر دیا تھا: ’یہ کیسیس کلے ہے، آج کی دُنیا کا سب سے خوبصورت باکسر۔ اس نوجوان باکسر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور ہیوی ویٹ چیمپیئن شپ اس کا مقدر ہے۔‘

محمد علی
Getty Images
25 فروری 1964 کو انھوں نے سونی لسٹن کو ناک آؤٹ کر کے پہلی مرتبہ عالمی ہیوی ویٹ ٹائٹل جیتا

محمد علی امریکی فوج کے بھرتی کے مرکز کے باہر کھڑے تھے اور ان کے سامنے مشہور سپورٹس میزبان نے مائیک رکھ دیا اور پوچھا کہ وہ (محمد علی) کیا کرنے والے ہیں؟

کیمرے کے سامنے محمد علی مسکرائے اور کہا: ’نو کمنٹ۔‘

امریکی شہر ہیوسٹن میں قائم امریکی فوج کی بھرتی کے مرکز میں حال ہی میں مسلمان ہوئے محمد علی داخل ہوئے۔ محمد علی کا پیدائشی نام یعنی ’کیسیس کلے‘ پکارا گیا لیکن اس نام کو سُن کر انھوں نے کوئی ردِعمل نہیں دیا اور نہ آگے آئے۔

محمد علی کی اپنی بائیوگرافی کے مطابق امریکی فوج کے ایک سینیئر اہلکار نے وہاں لوگوں کی لائن میں سے محمد علی کو نکالا اور انھیں وہیں موجود ایک دفتر میں لے گیا اور پوچھا کہ کیا انھیں اپنے ’عمل کی سنگینی‘ کا اندازہ ہے؟

محمد علی نے کہا کہ وہ یہ سب سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد وہاں موجود لیفٹننٹ نے ایک بار پھر آواز لگائی: ’کیسیس کلے، برائے مہربانی آگے آئیں اور امریکی فوج کا حصہ بنیں۔‘

محمد علی نے انکار کر دیا۔ کچھ لمحوں بعد محمد علی امریکی فوج کی بھرتی کے مرکز کے باہر آئے اور صحافیوں کے ہاتھ میں اپنا بیان تھما دیا۔

اس بیان میں کہا گیا تھا کہ: ’بطور مسلمان میں اپنے ضمیر کی روشنی اور اپنے نظریات کے تحت امریکی فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرتا ہوں۔‘

انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ اس بھرتی کو تسلیم کرلینا اپنی مذہبی اقدار کے خلاف جانے کے مترادف ہوگا۔ میں اللہ کو اپنے ضمیر کی روشنی میں کیے گئے اعمال کا حتمی جج تصور کرتا ہوں۔‘

اسی دن محمد علی سے ان کا باکسنگ کا لائسنس چھین لیا گیا تھا۔

محمد علی نے اپنی کتاب میں اس واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’جب میں ہیوسٹن سے جاؤں گا تو جلاوطنی میں جا رہا ہوں گا اور وہی کھاؤں گا جو ماہرین کے مطابق میں نے بطور فائٹر اپنی زندگی میں کمایا ہے۔‘

محمد علی
Getty Images
سنہ 1964 میں ہیوی ویٹ چیمپیئن شپ کے میچ سے قبل محمد علی نے کچھ اس طرح اپنی جیت کا اعلان پہلے ہی کر دیا تھا ’یہ کیسیس کلے ہے، آج کی دُنیا کا سب سے خوبصورت باکسر اور ہیوی ویٹ چیمپیئن شپ اس کا مقدر ہے‘

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق 20 جون 1967 میں ہیوسٹن کی ایک عدالت نے محمد علی کو ’یونیورسل ملٹری ٹریننگ اینڈ سروس ایکٹ‘ کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا۔ جج نے انھیں پانچ سال قید اور 10 ہزار ڈالر جُرمانے کی سزا سُنائی۔

محمد علی نے جج سے درخواست کی تھی کہ ان کے خلاف مقدمے کا فیصلہ بغیر انتظار کیے سُنایا جائے اور جج نے ان کی درخواست فوراً ہی مان لی۔

امریکی اخبار کے مطابق اس وقت 25 برس کے محمد علی نے کہا تھا کہ ’میں شکرگزار رہوں گا اگر عدالت انتظار کرنے کے بجائے مجھے ابھی سزا سنا دے۔‘

اس کے بعد محمد علی کے باکسنگ کے مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی اور اگلے چار برسوں تک وہ اور ان کے وکیل اعلیٰ عدالتوں میں اس سزا کے خلاف اپیلیں دائر کرتے رہے۔

جیسے جیسے ویتنام کی جنگ پر تنقید بڑھنے لگی، محمد علی بھی جامعات میں اس کے خلاف تقریریں کرتے رہے اور ایک جنگ مخالف ہیرو بن کر سامنے آئے۔

ایسے ہی ایک تقریر میں محمد علی نے وہاں موجود لوگوں کو بتایا: ’مجھے بتایا گیا کہ میرے پاس دو آپشنز ہیں، جیل جاؤ یا پھر فوج میں بھرتی ہو جاؤ۔ لیکن میں یہ کہوں گا کہ یہاں ایک اور راستہ بھی ہے اور وہ ہے انصاف۔‘

’نہ میں فوج میں بھرتی ہوں گا اور نہ جیل جاؤں گا۔‘

مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں محمد علی کے فیصلے کو سراہا تھا۔

’میری اس حوالے سے محمد علی سے بات ہوئی ہے اور میرا خیال میں وہ بہت مخلص ہے، مخالفت کرنا قانونی طور پر جائز ہے اور میں ان کے عمل کی بھرپور توثیق کرتا ہوں۔‘

محمد علی کا باکسنگ لائسنس 1970 میں بحال کر دیا گیا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ’اپنی واپسی کے بعد صرف دو ہی مقابلوں میں حصہ لینے کے بعد 29 سالہ محمد علی نے اعلان کیا کہ نیویارک کے میڈیسن سکوائر گارڈن میں 8 مارچ 1971 کو نئے چیمپیئن جو فریزر کا مقابلہ کریں گے اور اپنا ہیوی ویٹ ٹائٹل واپس لیں گے۔‘

تاہم جو فریزر نے محمد علی کو 15ویں اور آخری راؤنڈ میں ناک آوٹ کر دیا۔

محمد علی
Getty Images
مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں محمد علی کے فیصلے کو سراہا تھا

سنہ 1971 میں امریکی سپریم کورٹ نے متفقہ فیصلے میں محمد علی کو دی جانے والی سزا ختم کر دی۔ اس دن عدالت میں جو ہوا وہ بھی نہایت ڈرامائی تھا۔

باب وڈورڈ اور سکاٹ آرم سٹرانگ کی کتاب ’دی بریدرن‘ کے مطابق 23 اپریل 1971 کو امریکی سپریم کورٹ کے ججوں نے خفیہ کانفرنس کی اور اکثریت نے فیصلہ کیا کہ محمد علی کو جیل بھجوانے کی سزا دی جائے۔

اس کے بعد چیف جسٹس وارن برجر نے جسٹس جان ہارلن کو اکثریتی فیصلہ تحریر کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ لیکن جسٹس جان ہارلن کے کلرک، جو یہ فیصلہ ڈرافٹ کر رہے تھے، کو ایک دوسرے کلرک نے اس فیصلے پر نظر ثانی کے لیے آمادہ کیا تو انھوں نے دوبارہ جسٹس ہارلن سے بات کی۔

اس رات جسٹس ہارلن نے مقدمہ کے تمام کاغذات کا ازسرنو جائزہ لیا اور اگلی صبح اعلان کیا کہ ان کے مطابق محکمہ انصاف سے غلطی ہوئی تھی۔ جسٹس ہارلن نے عدالت کو تجویز دی کہ فیصلے کو بدلا جائے۔

’دی بریدرن‘ میں لکھا گیا کہ عدالت میں تہلکہ مچ گیا۔ اب جسٹس پوٹر سٹیورٹ نے بھی تجویز دی کہ محمد علی کو محکمہ انصاف کی ایک تکنیکی غلطی کی بنیاد پر رہا کر دیا جائے۔ ایک ایک کر کے تمام جج اس بات پر متفق ہوئے اور 28 جون کو متفقہ فیصلہ سنا دیا گیا۔

اخباری رپورٹس کے مطابق محمد علی نے شکاگو میں یہ فیصلہ سنا تو کہا کہ ’میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور سپریم کورٹ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے میری نئی مذہبی تعلیمات کو سمجھا۔‘

محمد علی
Getty Images
30 اکتوبر 1974 کو محمد علی اور جارج فورمین کے درمیان زائر( موجودہ کانگو) کے شہر کنشاسا میں ہونے والی فائٹ کو ہیوی ویٹ باکسنگ کی تاریخ کی سب سے بڑی فائٹ سمجھا جاتا ہے

جنوری 1974 میں محمد علی نے جارج فورمین کو کانگو میں ہونے والے ایک مقابلے کے دوران آٹھویں راؤنڈ میں مات دے دی اور پھر سے عالمی چیمپیئن بن گئے۔

امریکی اخبار پوسٹ نے لکھا کہ ’اس فتح کو ایک معجزہ ہی سمجھا گیا اور افریقہ میں ہونے کی وجہ سے اس جیت کی علامتی اہمیت بڑھ گئی۔‘

اخبار نے لکھا کہ ’محمد علی نے سات سال بعد اپنا ٹائٹل جس ڈرامائی انداز میں واپس لیا، اسے تاریخ میں باکسنگ کی مہارت کا اعلی مظاہرہ مانا گیا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.