مسلمان ووٹر بال ٹھاکرے کی شیو سینا کے حامی: ’جیسے ہماری دشمنی مشہور تھی ویسے دوستی بھی مشہور ہو گئی‘

بال ٹھاکرے کی جماعت شیو سینا کو سخت گیر ہندو قوم پرست جماعت کے طور پر جانا جاتا رہا ہے مگر اب اس جماعت کی قیادت کرنے والے ادھو ٹھاکرے مسلم ووٹرز سے ان کی جماعت کو ناصرف ووٹ دینے کی اپیلیں کرتے نظر آ رہے ہیں بلکہ بہت سے مسلم ووٹر ان کی جانب راغب بھی ہو رہے ہیں۔ کیا ادھو ٹھاکرے کو اس نئے سیاسی تجربے سے فائدہ ہو گا؟

یہ تقریباً ایک سال پہلے کی بات ہے۔

اپریل 2023 میں ایک پریس کانفرنس میں بال ٹھاکرے کے بیٹے ادھو ٹھاکرے نے کہا تھا ’جس دن بابری مسجد منہدم ہوئی اس روز میں بالا صاحب (بال ٹھاکرے) کے پاس گیا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ بابری مسجد گر گئی ہے۔ اس کے بعد مجھے سنجے راوت کا فون آیا، بالا صاحب نے ان سے کہا کہ اگر شیو سینکوں نے بابری مسجد کو گرایا ہے تو انھیں اُن پر فخر ہے۔‘

ادھو ٹھاکرے کے مطابق ’بالا صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ ان لوگوں کو بہادری دکھانی پڑے گی کیونکہ جب ممبئی میں فسادات ہوئے تو شیو سینکوں نے ان غداروں کو بچایا تھا۔‘

مگر اب وہی ادھو ٹھاکرے ریاست بھر کے مسلم ووٹروں سے اپیلیں کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کے جلسوں اور دوروں میں مسلم کمیونٹی کے ووٹروں کی بھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔

کیا ادھو ٹھاکرے کو نئے سیاسی تجربے سے فائدہ ہو گا؟

bbc
BBC

ایسے میں سوال یہ ہے کہ موجودہ لوک سبھا انتخابات میں ادھو ٹھاکرے کو اس نئے سیاسی تجربے سے کتنا فائدہ ہونے والا ہے؟ اور کیا کانگریس کا یہ روایتی ووٹ بینک ادھو ٹھاکرے کی طرف بڑھ رہا ہے؟

کچھ دن پہلے ادھو ٹھاکرے نے ممبئی کے شیوسینا بھون میں مہیم درگاہ کے کچھ عہدیداروں سے ملاقات کی تھی۔

ادھو ٹھاکرے نے مسلم کمیونٹی کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ آئین کو بچانا چاہتے ہیں۔ ماہم درگاہ کے ٹرسٹی شاہنواز خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انھوں نے کہا تھا کہ جس طرح ہماری دشمنی مشہور تھی، اسی طرح ہماری دوستی بھی مشہور رہے گی۔‘

2019، یعنی مہاوکاس اگھاڑی کے وجود میں آنے کے بعد، ادھو ٹھاکرے نے مسلمانوں کو اپنے ساتھ لانے کی کوششیں شروع کیں، یعنی اس ووٹر طبقے کو جو آج تک شیو سینا کے ساتھ نہیں دیکھا گیا۔

شیو سینا کو ہمیشہ سے ایک ایسی پارٹی کے طور پر جانا جاتا ہے جو بنیاد پرست ہندوتوا کی سیاست کرتی ہے۔ چند اسمبلی حلقوں کو چھوڑ کر شیوسینا کو کبھی بڑی تعداد میں مسلم ووٹ نہیں ملے۔

لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ موجودہ لوک سبھا انتخابات میں مسلم ووٹر ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا کا رخ کریں گے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟

امتِ مسلمہ سے اپیل

لوک سبھا انتخابات میں ووٹنگ جاری ہے اور انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ لوک سبھا سیٹ والے علاقوں میں مہاوکاس اگھاڑی اور مہاوتی کی انتخابی میٹنگز جاری ہیں۔ ہر کسی کی کوشش یہی ہے کہ کسی بھی برادری کے ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنا ہے۔

شیوسینا میں تقسیم کے بعد شیوسینا کا ایک دھڑا بی جے پی کے ساتھ ہے اور دوسرا دھڑا کانگریس اور پوار کی این سی پی کے ساتھ ہے۔ ایسے میں شیوسینا کے ووٹوں کا تقسیم ہونا یقینی ہے۔ ایسے میں ادھو ٹھاکرے ریاست کے مختلف حصوں میں مسلم ووٹروں سے بات کر رہے ہیں۔

اس سے قبل شیو سینا نے ریاست میں سخت گیر ہندوتوا نظریے کو بڑھاوا دیا تھا، خاص طور پر ممبئی اور مراٹھواڑہ میں۔ کہا جاتا تھا کہ اس کوشش کے ذریعے مراٹھی کے ساتھ ساتھ شیو سینا کا ہندوتوا ووٹ بینک بھی بنا، اب ادھو ٹھاکرے مسلم ووٹروں کو اپنی طرف سے منانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ماہم درگاہ ممبئی میں مشہور ہے۔ یہ جنوبی وسطی ممبئی حلقے کا حصہ ہے۔ شیوسینا کا سینا بھون دفتر بھی اسی علاقے میں ہے۔ کچھ دن پہلے ادھو ٹھاکرے نے سینا بھون میں ماہم کے کچھ مسلم ووٹروں سے بات کی تھی۔

مسلم کمیونٹی کی جانب سے ادھو ٹھاکرے کو مراٹھی زبان میں قرآن کا تحفہ

عقیل احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مسلم ووٹرز نے ہمیشہ سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دیا ہے۔ آج بھی مسلم ووٹر اسی کو ووٹ دیں گے جو سب کے فائدے کے لیے کام کرے گا۔ ہم سیاست نہیں کرتے۔ ہم ایک ایسا نمائندہ چاہتے ہیں جو پارلیمنٹ میں ہماری آواز اٹھا سکے۔‘

مہیم درگاہ کے کچھ عہدیداروں نے ادھو ٹھاکرے سے بھی ملاقات کی۔ ماہم درگاہ کے ٹرسٹی شاہنواز خان کہتے ہیں ’شیو سینا اب پہلے سے زیادہ لبرل ہے۔ اس لیے ہمیں ادھو ٹھاکرے کا ساتھ دینا ہو گا۔ ہم آئین کو بچانا چاہتے ہیں۔‘

شاہنواز خان یہ بھی بتاتے ہیں کہ ادھو ٹھاکرے نے مسلم کمیونٹی کو یقین دلایا ہے کہ ’جس طرح ہماری دشمنی بہت مشہور تھی، اسی طرح ہماری دوستی بھی مشہور رہے گی۔ میرا یقین کریں، یہ ہم سب کے حق میں ہو گا۔‘

قبل ازیں 5 فروری کو رائے گڑھ ضلع میں مسلم کمیونٹی کی جانب سے ادھو ٹھاکرے کو مراٹھی زبان میں قرآن تحفے میں دیا گیا تھا۔

اس موقع پر انھوں نے کہا تھا کہ ’مجھے مراٹھی میں قرآن دیا گیا، یہ ہماری ہندوتوا ہے اور کسی کو ہماری ہندوتوا پر شک نہیں کرنا چاہیے۔‘

اس کے علاوہ فروری میں ممبئی کے دھاراوی میں شیوسینا کے دورے کے دوران بڑی تعداد میں مسلم کمیونٹی کی موجودگی دیکھی گئی۔ اس پر کافی بحث ہوئی کیونکہ دھاراوی کو کانگریس کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

اس دوران شیو سینا کے رہنما سنجے راوت نے کہا کہ مسلم کمیونٹی بڑی تعداد میں ہماری پارٹی کے ساتھ ہے۔

پہلی بار ٹھاکرے خاندان اور ان کی شیوسینا کو مسلم ووٹروں کی حمایت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ایسے میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ یہ تبدیلی کیسے آئی یا ہو رہی ہے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہ حمایت واقعی ووٹوں میں ظاہر ہو گی؟

کیا شیوسینا کی ہندومت نظریے کی تعریف بدل گئی ہے؟

سنہ 2022 میں شیو سینا کی دسہرہ ریلی میں ادھو ٹھاکرے نے کہا تھا ’میرا ان سے ایک سوال ہے کہ آپ کا ہندوتوا اصل میں کیا ہے؟ باقی تمام مذاہب غدار ہیں اور آپ محب وطن ہے، کیا یہ آپ کا ہندوتوا ہے؟‘

یعنی ادھو ٹھاکرے پہلے ہی کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ ان کا ہندوتوا تنگ نظر ہندوتوا نہیں ہے۔

یہی نہیں بلکہ 2019 میں ادھو ٹھاکرے نے کانفرنس کے دوران بیان دیا تھا کہ انھوں نے مذہب کو سیاست کے ساتھ ملا کر غلطی کی ہے۔ اسی وجہ سے 2019 میں مہا وکاس اگھاڑی کا تجربہ صرف اقتدار قائم کرنے تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ شیوسینا میں بغاوت کے بعد ادھو ٹھاکرے نے پارٹی کو بڑھانے کے لیے کئی طرح کے سیاسی تجربات کرنے شروع کر دیے۔

تاہم شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے نے ہمیشہ اپنی تقاریر میں کٹر ہندو موقف پیش کیا۔ 1987 میں جب شیوسینا نے ممبئی کے وِلے پارلے کے ضمنی انتخاب میں ہندوتوا کا موقف اپنایا تو بال ٹھاکرے کے ایک ایسے ہی بیان نے تنازعہ کھڑا کر دیا۔

بال ٹھاکرے نے ایک میٹنگ میں کہا تھا ’ہم یہ الیکشن ہندوؤں کی حفاظت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ہمیں مسلمانوں کے ووٹوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ یہ ملک ہندوؤں کا ہے اور صرف ان کا ہی رہے گا۔‘

اس الیکشن میں شیو سینا کے امیدوار رمیش پربھو منتخب ہوئے لیکن یہ مقدمہ عدالت میں چلا گیا۔ بمبئی ہائی کورٹ نے بال ٹھاکرے اور رمیش پربھو دونوں کو قصوروار پایا اور نتیجہ منسوخ کر دیا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس جگدیش سرن ورما نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 29 نومبر، 9 دسمبر اور 10 دسمبر 1987 کو پربھو اور بال ٹھاکرے کی تقریروں کا جائزہ لیا۔ سزا کے طور پر 1995 سے 2001 تک بال ٹھاکرے سے ووٹ کا حق چھین لیا گیا۔

ادھو ٹھاکرے کی ’ہندوتوا‘ کی مختلف تعریف؟

مراٹھواڑہ میں شیوسینا نے سمبھاج نگر سمیت کچھ جگہوں پر اپنا دبدبہ برقرار رکھا ہے۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے شیوسینا کے ٹھاکرے دھڑے کے جنوبی ممبئی کے رہنما پانڈورنگ سکپال کہتے ہیں ’بالا صاحب ٹھاکرے مسلمانوں سے نفرت نہیں کرتے تھے۔ بالا صاحب کہتے تھے کہ ہم ہر مذہب سے پیار کرتے ہیں۔ اس میں قوم پرستی ہونی چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے شیو سینا کے سربراہ نے ایک مسلمان جوڑے کو ماتوشری پر نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی، آخر انسانیت مذہب ہے۔‘

ادھو ٹھاکرے نے بھی اپنا یہی کردار 2019 تک برقرار رکھا۔ لیکن شیوسینا، جو 30 سال سے بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں تھی، نے اتحاد توڑ کر کانگریس کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ بی جے پی نے ادھو ٹھاکرے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ شیوسینا نے ہندو مذہب چھوڑ دیا ہے۔

مزید یہ کہ شیو سینا کے ایم ایل ایز اور ایم پیز نے پارٹی میں یہ کہتے ہوئے بغاوت کردی کہ ادھو ٹھاکرے نے بالا صاحب کے نظریات کو ترک کردیا ہے۔ اور اس کے بعد ادھو ٹھاکرے نے یہ بیانیہ بنانا شروع کیا کہ انھوں نے ہندوتوا نہیں چھوڑا ہے لیکن ہم اور بی جے پی ہندوتوا کی مختلف تعریفیں ہیں۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے سینئر صحافی پرکاش اکولکر، جنھوں نے شیو سینا کی سوانح عمری ’جئے مہاراشٹرا‘ لکھی ہے، کہتے ہیں کہ ادھو ٹھاکرے ایک نئے ہندوتوا کی تجویز دے رہے ہیں۔

اکولکر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ادھو ٹھاکرے نے کھلے عام اعتراف کیا تھا کہ ’مذہب کو سیاست کے ساتھ ملانا ہماری غلطی تھی۔‘

2022 کے دسہرہ میلے میں ادھو ٹھاکرے نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ ان کا ہندوتوا کسی مذہب سے نفرت نہیں ہے۔

انھوں نے کہا ’اورنگزیب نامی شخص کشمیر میں فوج میں تھا، دو چار سال قبل اسے گھر جاتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا اور چند دنوں کے بعد اس کی لاش فوج کو ملی۔ واضح رہے کہ اسے مار پیٹ کر ہلاک کیا گیا تھا۔‘

’اسے کس نے مارا؟ دہشت گردوں نے؟ وہ مذہب کے اعتبار سے کون تھا؟ اغوا کار کون تھے، میں نے یہ بھی سنا ہے کہ اس کا بھائی اس کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے فوج میں بھرتی ہونے والا ہے۔ کیا آپ اسے اس لیے مسترد کریں گے کہ وہ مسلمان ہے؟‘

bbc
BBC

کیا ادھو ٹھاکرے کی سیاست بال ٹھاکرے سے مختلف ہے؟

شیو سینا کی ہندوتوا کی بدلتی ہوئی تعریف کے بارے میں بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی سندیپ پردھان کہتے ہیں ’اُدھو ٹھاکرے نے محسوس کیا کہ مودی ہندوتوا کی بنیاد پر کسی دوسرے لیڈر یا پارٹی کو بڑھنے نہیں دیں گے یا ہندوتوا کے معاملے پر کسی اور کو ووٹ نہیں دیں گے۔‘

اس وقت ادھو ٹھاکرے نے ہندوتوا کی اپنی تعریف بدل دی، انھوں نے لوگوں کے سامنے ایک مختلف ہندوتوا لانے کی کوشش کی۔

تو کیا ادھو ٹھاکرے کا یہ کردار بال ٹھاکرے سے مختلف ہے؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے سینئر صحافی پرکاش اکولکر کہتے ہیں ’بالا صاحب کا کردار مختلف تھا۔ مسلم ووٹروں اور ان کے درمیان کوئی رابطہ نہیں تھا۔ ادھو ٹھاکرے نے خود ناگپور کانفرنس میں اعتراف کیا کہ انھوں نے مذہب اور سیاست کو ملا کر غلطی کی ہے۔‘

’اور ایسا تب ہوا تھا جب مودی نے 2014 کے انتخاب میں اکثریت حاصل کی تھی اور بی جے پی کو احساس ہوا کہ اسے مہاراشٹر میں ہندو شہنشاہ کی ضرورت نہیں ہے اور ادھو ٹھاکرے نے اس کو تسلیم کیا ہے۔‘

کیا مسلم ووٹر ادھو ٹھاکرے کے حق میں مائل ہیں؟

مہاراشٹر میں تقریباً 12 فیصد مسلم ووٹر ہیں۔ ممبئی میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 22 فیصد ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ادھو ٹھاکرے مسلم ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان کا روایتی ’ہندو ووٹ‘ ان کے ساتھ ہی رہے گا۔ یہی نہیں، ادھو ٹھاکرے کو بی جے پی سے اتحاد توڑنے کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کی کوشش کرنا ہو گی اور یہ ان کے لیے ایک امتحان ہے۔

ممبئی میں جنوبی، جنوبی وسطی، شمال وسطی، شمال مغربی اور شمال مشرقی ممبئی میں مسلم ووٹروں کی خاصی تعداد ہے۔ ٹھاکرے کی شیوسینا کے پاس جنوبی ممبئی اور جنوبی وسطی ممبئی کے حلقے ہیں۔ اب تک شیو سینا - بی جے پی اتحاد کو اس سیٹ پر ووٹ ملتے رہے ہیں۔

لیکن اب جب بی جے پی اس کے ساتھ نہیں ہے اور شیوسینا کے دو دھڑے ہیں تو ادھو ٹھاکرے کو اتحاد میں شامل اتحادیوں کے ووٹوں کو توڑنے کا چیلنج درپیش ہے۔ مراٹھواڑہ کے اسمبلی حلقوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے سینئر صحافی ثمر کھڈسے کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ دس سالوں میں مرکزی حکومت جس طرح سے چل رہی تھی اور اس کے مقاصد اور پالیسیاں کیا تھیں، یہ الگ مسئلہ ہے۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں سوشل میڈیا پر ٹرولنگ، مہاوکاس اگھاڑی حکومت گائے کے گوشت اور موب لائنچنگ اور بلڈوزر پالیسی کے پس منظر میں حکومت آئی اور مسلم کمیونٹی کو راحت ملی۔‘

لیکن اس سے پہلے شیوسینا کو مسلم ووٹ بھی نہیں مل رہے تھے۔ شریکانت سرمالکر ممبئی کے بہرامپا باغ سے شیوسینا کے کارپوریٹر منتخب ہوئے تھے۔ رام داس کدم کو کھیڈ اسمبلی حلقے میں بھی مسلم ووٹ ملے۔

بائیکلہ سے یشونت جادھو اور پھر ایم ایل اے یامینی جادھو کو بھی مسلم ووٹ ملے۔ سمر کھڈسے کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقامی سطح پر شیوسینا کے نیٹ ورک اور کام کی وجہ سے شیو سینا کو مسلم ووٹ ملتے نظر آرہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’موجودہ صورت حال میں یہ ہے کہ مسلم ووٹروں کا جھکاؤ کانگریس اور این سی پی کے مقابلے مشعل کے انتخابی نشان کی طرف ہو گا کیونکہ ادھو ٹھاکرے کو بی جے پی کے خلاف جارحانہ سیاسی جنگ لڑنے والے چہرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘

ٹھاکرے کو کس کی حمایت مل رہی ہے؟

مہاویکاس اگھاڑی میں کانگریس، این سی پی (شرد پوار گروپ) اور شیو سینا ٹھاکرے گروپ بی جے پی کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں، ان تینوں پارٹیوں میں ادھو ٹھاکرے کی جارحیت نسبتاً نمایاں ہے۔

سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار پرکاش اکولکر کے مطابق یہی وجہ ہے کہ بی جے پی مخالف ووٹر ادھو ٹھاکرے کی حمایت کرتے نظر آ رہے ہیں۔

انھوں نے کہا ’مہاراشٹر میں اس وقت جو شخص مودی کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہے وہ ادھو ٹھاکرے ہیں۔ کئی بڑے لیڈر مودی کی حرکتوں سے ڈر کر رخ بدل رہے ہیں۔ لیکن ٹھاکرے اور پوار ان کے خلاف مضبوطی سے کھڑے ہیں۔‘

شیوسینا 12 سے 14 اسمبلی حلقوں میں مسلم ووٹ حاصل کرتی تھی، اس لیے یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ادھو ٹھاکرے کو یہ ووٹ ملیں گے، لیکن سینئر صحافی سندیپ پردھان کے مطابق، ادھو ٹھاکرے ضرور ایک نیا ووٹ بینک بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مسلم ووٹر فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ کس کو ووٹ دینا چاہتے ہیں اور کس کو ووٹ نہیں دینا چاہتے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ادھو ٹھاکرے بی جے پی پر تنقید کر رہے ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں ’ادھو ٹھاکرے کو لگتا ہے کہ بی جے پی کی جارحانہ بالادستی کی مخالفت کی جانی چاہیے۔ ترقی پسند سوچ کا ایک طبقہ آج ٹھاکرے کے پیچھے کھڑا ہوگا اور یہ بھی نظر آرہا ہے کہ اس سے رائے بدل جائے گی۔‘

کانگریس پر کیا اثر پڑے گا؟

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کانگریس کا روایتی ووٹ بینک ٹھاکرے کو جاتا ہے تو کیا اس کا اثر کانگریس پر پڑے گا؟ اس بارے میں بات کرتے ہوئے پردھان کہتے ہیں ’یہ واضح ہے کہ اس سے کانگریس پر اثر پڑے گا۔ ریاست میں کانگریس کمزور ہو گئی ہے۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان کا ووٹ بینک کبھی شیو سینا کے پاس آئے گا۔‘

کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ مسلم ووٹر اتنی بڑی تعداد میں شیوسینا یا ٹھاکرے خاندان کی حمایت کریں گے۔ لیکن سینئر صحافی مرنالنی نانی واڈیکر کا خیال ہے کہ اس میں کچھ بھی غیر فطری نہیں ہے۔

انھوں نے کہا ’مسلم ووٹر بہت سٹریٹجک ہیں۔ وہ جیتنے والے گھوڑے پر سوار دکھائی دے رہے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ مودی اقلیتوں کے دوست نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ، مسلم ووٹروں کو لگتا ہے کہ ادھو ٹھاکرے نے مہواکاس اگھاڑی کی حکومت بنا کر مودی کو کامیابی سے چیلنج کیا ہے۔‘

ادھو ٹھاکرے کوویڈ کے دور میں مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اس عرصے کے دوران ادھو ٹھاکرے نے کئی لوگوں سے رابطہ کیا اور ’خاندان کے سربراہ‘ کی شناخت حاصل کی۔

یہ شناخت اس الیکشن میں اقتدار میں تبدیل ہو گی یا نہیں اس کا فیصلہ ووٹنگ سے ہی ہو گا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.