پرجول ریوننا: رکن پارلیمان کی مبینہ جنسی تشدد کی ویڈیوز نے انڈین الیکشن کو ہلا کر رکھ دیا

33 سالہ پرجول ریوننا کے خلاف ان کی گھریلو ملازمہ نے جنسی ہراسانی کا الزام لگایا ہے اور اس متعلق پولیس میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

انڈیا میں جاری پارلیمانی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے جمعہ کو بھی پولنگ جاری تھی مگر اس دوران سوشل میڈیا پر ایک سیاسی رہنما کا نام مستقل ٹرینڈ کر رہا ہے۔

یہ نام 33 سالہ پرجول ریوننا کا ہے جو انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک سے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اتحادی پارٹی جنتا دل سیکولر (جے ڈی ایس) کے نامزد امیدوار ہیں۔

33 سالہ پرجول ریوننا کے خلاف ان کی گھریلو ملازمہ نے جنسی ہراسانی کا الزام لگایا ہے اور اس متعلق پولیس میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ اس میں ان کے والد ایچ ڈی ریوننا کے خلاف بھی شکایت درج کی گئی ہے۔

پولیس نے اس معاملے میں تعزیرات ہند کی 354 اے (جنسی ہراسانی)، 354 ڈی (پیچھا کرنا)، 506 (دھمکی) اور 509 (خواتین کی حرمت کی پامالی) دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا۔

ادھر پرجول ریوننا کے دفتر نے اِن الزامات کو مسترد کیا ہے اور ان ویڈیوز کو جعلی قرار دیا ہے۔

اِن ویڈیو کے معاملے پر خبر رساں ادارے اے این آئی سے بات کرتے ہوئے انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ نے منگل کو کہا کہ ’بی جے پی کا موقف واضح ہے کہ ہم ملک کی ’ماتر شکتی (وومن پاور) کے ساتھ کھڑے ہیں۔ میں کانگریس سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہاں کس کی حکومت ہے؟ حکومت کانگریس پارٹی کی ہے۔‘

’انھوں نے اب تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ ہم اس پر ایکشن نہیں لے سکتے کیونکہ امن و امان ریاست کا مسئلہ ہے، ریاستی حکومت کو اس پر کارروائی کرنی ہوگی۔۔۔ ہم تحقیقات کے حق میں ہیں اور ہماری پارٹنر جے ڈی (ایس) نے بھی اس پر کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آج شاید ان کی کور کمیٹی کی میٹنگ ہے اور اقدامات کیے بھی جائیں گے۔‘

کرناٹک کے سابق وزیر اعلی کمارا سوامی نے بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ ایک شرمناک واقعہ ہے۔ ہم کسی کا بچاؤ نہیں کریں گے۔ ہم اخلاقی بنیاد پر سخت اقدام کریں گے۔'

جنسی تشدد کی ویڈیوز جو ’پین ڈرائیو سے پھیلائی گئیں‘

26 اپریل کو پرجول ریوننا کے حلقے میں پولنگ ہوئی اور یہ ویڈیوز اس سے ایک دن بعد منظر عام پر آئیں۔

28 اپریل کو درج کی جانے والی ایف آئی آر میں شکایت کنّڑ زبان میں درج کی گئی ہے۔ اس میں شکایت کرنے والی خاتون نے بتایا کہ انھیں اور ان کی بیٹی کو مستقل طور پر جنسی طور پر ہراسانی کا شکار بنایا گیا۔

گھریلو ملازمہ نے اپنی شکایت میں کہا کہ ’جب میں نے کام کرنا شروع کیا تو وہاں کام کرنے والے دیگر چھ گھریلو ملازموں نے مجھے بتایا کہ وہ پرجول سے ڈرتے ہیں۔ وہاں کام کرنے والے مرد معاونوں نے بھی کہا کہ انھیں ریوننا اور پرجول سے ڈرنا چاہیے۔

’جب بھی ان کی بیوی بھوانی گھر پر نہیں ہوتی تھی ریوننا مجھے نامناسب طریقے سے چھوتے تھے۔ انھوں نے مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ وہ دوسرے لوگوں سے کہتے تھے کہ وہ میری بیٹی کو لے آئیں تاکہ وہ اس سے تیل کی مالش کروا سکیں۔ پرجول میری بیٹی کو ویڈیو کال کرتا اور اس سے فحش باتیں کرتا تھا۔‘

خاتون نے کہا کہ ان کی بیٹی نے پرجول کا نمبر بلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔

مسٹر ریوننا سابق انڈین وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا کے پوتے ہیں جبکہ سابق وزیر اعلی ایچ ڈی کماراسوامی کے بھتیجے ہیں۔

یہ الزامات گذشتہ ہفتے اس وقت سامنے آئے جب انڈیا کے سات مرحلوں میں ہونے والے عام انتخابات میں آدھی ریاست نے ووٹ ڈالے اور ریوننا اپنی پارٹی جے ڈی ایس سے دوسری مدت کے لیے امیدوار تھے۔

کانگریس پارٹی کے رہنما اور کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارامیا نے اس معاملے میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

پرجول ریوننا کے والد نے گذشتہ روز سوموار کو صحافیوں کو بتایا کہ چونکہ یہ معاملہ سپیشل جانچ ٹیم کے سامنے ہے اس لیے ’میں کسی بھی چیز کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا‘ لیکن انھوں نے اتنا ضرور کہا کہ ان کا بیٹا ضرورت پڑنے پر واپس آجائے گا۔

ایچ ڈی ریوننا نے مزید کہا کہ ’اسے ٹرپ پر جانا تھا اور وہ جا چکا ہے۔۔۔ جب اسے تفتیش میں شامل ہونے کے لیے بلایا جائے گا تو وہ آئے گا۔‘

اخبار انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ ویڈیوز خود ملزم نے بنائیں اور اس میں اِن خواتین کے چہرے دیکھے جاسکتے ہیں جنھیں مبینہ طور پر جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

کرناٹک پولیس کے مطابق اس پین ڈرائیو میں 2,976 فحش ویڈیوز ہیں جن کا دورانیہ چند سیکنڈ سے لے کر چند منٹ تک ہے اور انھیں انتخابی حلقے میں پھیلایا گیا۔

یہ واضح نہیں کہ ویڈیوز کس نے لیک کی ہیں تاہم الیکشن سے قبل ’دو ہزار سے زیادہ پین ڈرائیوز تقسیم کی گئیں۔‘

ایک اہلکار نے بتایا کہ ’پین ڈرائیوز بس سیٹوں پر، بس سٹینڈز پر رکھی گئی تھیں اور لوگوں کو پارکوں جیسے عوامی مقامات پر دی گئی تھیں۔‘

’ان پین ڈرائیوز میں 2,000 سے زیادہ فائلیں تھیں جن میں ویڈیوز اور تصاویر شامل تھیں۔ چند گھنٹوں کے بعد ہم نے دیکھا کہ انھیں واٹس ایپ پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا جا رہا ہے۔‘

اس واقعے کے بعد کرناٹک کے خواتین کمیشن کی سربراہ ناگلکشمی چوہدری نے ریاستی پولیس سربراہ کو خط لکھ کر قصورواروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب آپ کچھ ویڈیوز دیکھتے ہیں تو آپ کا خون کھولتا ہے۔ ایک عورت مدد کی بھیک مانگتی ہے۔‘

دوسری طرف ریوننا کی انتخابی مہم کے ایجنٹ پورن چندر تیجسوی ایم جی نے نوین گوڈا نامی ایک شخص کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی جس میں ریوننا کو بدنام کرنے کے لیے ویڈیوز کو گردش کرنے کا الزام لگایا گیا۔

شکایت میں کہا گیا ہے کہ ’نوین گوڑا اور دیگر نے ویڈیوز اور تصاویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور انھیں پین ڈرائیوز، سی ڈیز اور واٹس ایپ کا استعمال کرتے ہوئے ہاسن لوک سبھا انتخابی حلقہ کے ووٹروں تک پہنچایا۔

’اس کا مقصد پرجول ریوننا کی ساکھ کو نقصان پہنچانا اور لوگوں کو انھیں ووٹ دینے سے باز رکھنا تھا۔‘

پرجول ریوننا
Getty Images

پرجول ریوننا کون ہیں؟

انڈین میڈیا کے مطابق وہ گوڈا خاندان کی تیسری نسل کے پہلے شخص ہیں جو سیاست میں سرگرم ہیں۔

وہ 33 سال کے ہیں اور ان کے والد ایچ ڈی ریوننا سابق پی ڈبلیو ڈی وزیر ہیں۔ وہ کرناٹک کے سابق وزیر اعلی ایچ ڈی کمارا سوامی کے بھتیجے اور انڈیا کے سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا کے پوتے ہیں۔

ریوننا نے سنہ 2014 میں بنگلور انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے میکینیکل انجینیئرنگ میں ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد سے سیاست میں سرگرم ہیں۔

سنہ 2019 میں انھیں 29 سال کی عمر میں جنتا دل سیکولر کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا۔

ہاسن سیٹ سے انھیں دوسری بار امیدوار بنایا گيا اور ان کا مقابلہ کانگریس کے نوجوان رہنما شریاس پٹیل سے ہے اور وہ پٹٹا سوامی گوڈا کے پوتے ہیں۔

انڈیا میں سات مرحلوں میں نئی پارلیمان کے لیے انتخاب ہو رہے ہیں۔ پہلے دو مرحلوں کے لیے ووٹ ڈالے جا چکے ہیں جبکہ تیسرے مرحلے کے لیے سات مئی کو ووٹ ڈالے جائيں گے جبکہ آخری مرحلے میں یکم جون کو ووٹ ڈالے جائيں گے اور ووٹوں کی گنتی چار جون کو ہو گی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.