ٹیکس دہندگان کو سہولیات کی فراہمی اور غریب آدمی کی بہتری کیلئے ٹیکس کے قانون میں تبدیلیاں کی گئی ہیں،بجلی چوری کی روک تھام اور ٹیکس کی ادائیگی ہمارا قومی فرض ہے،وفاقی وزیر قانون و انصاف کی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کے ہمراہ پریس کانفرنس

image

اسلام آباد۔2مئی (اے پی پی):وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ٹیکس محصولات میں اضافہ ، ٹیکس دہندگان کو سہولیات کی فراہمی اور غریب آدمی کی بہتری کیلئے ٹیکس کے قانون میں تبدیلیاں کی گئی ہیں،بجلی چوری کی روک تھام اور ٹیکس کی ادائیگی ہمارا قومی فرض ہے،زیراعظم اوروفاقہ کابینہ ٹیکس دہندگان کی سہولیات میں اضافہ کیلئے پرعزم ہیں، محصولات میں اضافے سے پاکستان کے غریب اور ضرورت مند افراد کو فائدہ ہو گا۔

ایف بی آر میں سارے تبادلے اور تقرریاں خالصتاً کارکردگی کی بنیاد پر ہیں۔ان خیالات کا ا ظہار انہوں نے جمعرات کو یہاں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا وغیرہ پر جو چیز حکومتی اقدمات کے حوالہ سے زیر بحث ہو تو اس پر میڈیا کی تجاویز لی جائیں اور اپنا موقف بھی پیش کیاجائے ۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی اصلاحات کے ایجنڈا کے حوالے سے وزیرقانون نے کہا کہ ایف بی آر کی ریفارمز کا ایجنڈا وزیراعظم کی ترجیحات میں سے ایک تھا۔پاکستان جس معاشی بحران سے گزر رہا ہےاس سے نکلنے کے بہت سارے طریقے ہیں لیکن اس میں سب سے زیادہ ضروری چیز اقدامات ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ٹیکس چوری روکی جائے، ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھایا جائے، جو لوگ کروڑوں کما رہے ہیں ٹیکس نہیں دے رہے، انہیں ٹیکس دینا چاہیے، وہ ٹیکس کے دائرہ کار میں موجود ہی نہیں ہیں، آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ان سے ٹیکس وصول کیا جائے تاکہ غریب آدمی پر خرچ ہوسکے، بجلی چوری روکی جائے تاکہ عام آدمی پر بجلی کے بلزکا بوجھ کم ہو کیونکہ لائن لاسز کے نام پر یہ بوجھ عام آدمی کو منتقل ہو جاتا ہے،آئی ایم ایف محکموں کی گورننس کی بہتری کی بات کرتا ہے تاکہ عوامی تک خدمات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے، اسی طرح غیر ضروری اخراجات پر کنٹرول کی بات کی جاتی ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ میرے خیال میں یہ سب اقدامات ہم کو بحیثیت قوم اور حکومت خود کرنے چاہیئں۔ وزیراعظم نے اس پروگرام کو سامنے رکھتے ہوئے ایف بی آر میں اصلاحات کا بیڑہ اٹھایا اور میں سمجھتا ہوں کہ پچھلے سات ہفتوں میں جب سے انہوں نے حکومت سنبھالی ہے، اس وقت سے لے کر اب تک وزیراعظم نے انفرادی طور پر جس محکمہ کی میٹنگز میں سب سے زیادہ شرکت کی ہے وہ ایف بی آر سے متعلق ہے۔

وزیر قانون نے کہا کہ ایف بی آر میں موجودہ ڈھانچہ میں گورننس کی بہتری اور لیگل ایشوز کے خاتمہ سے اس کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2700 ارب روپے سے زیادہ کے ٹیکس کے کیسز زیر التوا ہیں جبکہ ہم 50، 50 ارب روپے کے لئے بڑی مشکلات سے گزرتے ہیں تاکہ فنانشل سپیس نکالی جا ئے۔ انہوں نے کہا کہ کمشنر ان لینڈ ریونیو ، ٹیکس ٹربیونلز اور اعلیٰ عدالتوں میں یہ کیسز سٹے آرڈر ز کی نذر ہیں، ریکوری رکی پڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے سارے کیسز ایسے نہیں ہوں گے جو فوری طور پر حل طلب ہیں۔ بعض کیسز پیچیدہ ہوتے ہیں، بعض اسیسمنٹ بھی درست نہیں ہوتیں۔

وزیر قانون نے کہا کہ وزیراعظم کا موقف یہ ہے کہ جو بھی صورتحال ہو ان کیسز کے فیصلے ہونے چاہئیں۔ فیصلوں کے لئے ایک میکنزم کی ضرورت ہے، کہا جا تا تھا کہ قانون میں بعض ایسی موشگافیاں ہیں جس کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہو پاتے۔ وزیرقانون نے کہا کہ پارلیمان نے جو پہلا قانون پاس کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے وہ اسی بابت تھاکہ جو ٹیکس ٹربیونلز اور ٹیکس کے حوالے سے قانونی چارہ جوئی (عدالتی چارہ جوئی) میں ترامیم کی گئی ہیں۔

قبل ازیں سارے کیسز اسیسمنٹ کے بعد کمشنر اپیلز کے پاس جاتے تھے ، پھر وہاں سے ایک اور اپیل ان لینڈ ریونیو ٹربیونلز میں جاتی تھی، اس کے بعد ہائی کورٹ میں (قانونی سوال پر) ایک ریفرنس دائر ہوتا تھا۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس حوالہ سے پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی جس میں تمام اتحادی جماعتوں نمائندگی تھی اور اس میں اعلیٰ قانون دان بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان ٹیکس بار کونسل کو بھی اس میں شامل کیا گیا تھا اور ہم نے چار ہفتے کے قلیل وقت میں ترامیم تیار کیں جن کو پارلیمان نے منظور کیا ہے۔

وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تقریباً 2 کروڑ روپے کی ٹیکس ادائیگی کی اپیلیں کمشنر انکم ٹیکس کے پاس جائیں گی، سیلز ٹیکس کے معاملات کمشنر کے پاس جائیں گے۔ اس سے زیادہ رقم کے ٹیکس معاملات ٹربیونلز میں جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ٹربیونلز میں جوڈیشنل ممبر کی تعیناتی وزیراعظم کاکلی اختیار تھا، نئے قانون میں وزیر اعظم اس اختیار سے دستبردار ہو گئے ہیں اور وزیراعظم نے کہا کہ یہ تقرری اوپن میرٹ کے ذریعے ہونی چاہیے جس کے کے لئے قواعد و ضوابط طے کئے گئے ہیں کہ کسی بھی یونیورسٹی یا ادارے سے کریں گے۔

اسی طرح وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک خود مختا ر کمیٹی کانظر یہ بھی پیش کیا تاکہ اس میں وزیراعظم کا سیاسی حوالہ سے کوئی سیاسی عمل دخل نہ ہو۔ پہلے تین سال کے لئے تقرریاں سیاسی بن جاتی تھیں، پھر دوبار ہ تقرری کے لئے بھاگ دوڑ ہوتی تھی، اس کو عمر کی حد کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہے جو 60، 62 سال ہے۔اس کے علاوہ کارکردگی کا جائزہ لینے کے حوالہ سے کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہو گی کہ ہر ممبر کے عدالتی کام کی کارکردگی کے پیش نظر مدت میں توسیع کی رپورٹ تیار کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے خزانہ پر بوجھ کو کم کیاجاسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اچھی شروعات ہیں اور میں پاکستان کی پارلیمان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے تعاون کیا ۔ انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے لئے 10 دن دیئے گئے تھے بل کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے بعد یہ سینیٹ میں گیا۔ کمپنی کے اراکین کے پاس کاپی بھیجی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے تجاویز آئیں۔ سینیٹ سے فاروق نائیک اور علی ظفر نے تجاویز بھی دیں، ان پر غور کیا گیا اور ان کو بھی شامل کیا ہے۔ یہ قانون سازی کے حوالے سے پس منظر ہے ۔

دوسرا ایشو ایف بی آر کی گورننس کے حوالہ سے تھا۔وہاں تقرریوں اور تبادلوں پر کچھ سوالات اٹھائے گئے ۔ اس حوالے سے وزیرقانون نے واضح کیا کہ تبادلے اور تقرریاں کسی االزام پر نہیں کی گئیں بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر کی گئی ہیں۔ کسٹمز سروس میں بڑے پیمانے پرتبادلے ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ اوپر سے شروع ہوا ہے جو نیچے تک جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کارکردگی میں بہتری کی مہم کے تحت یہ اقدامات کئے گئے تاکہ لوگوں کی استعداد کے پیش نظر ان میں تقرریاں کی جائیں۔محکمہ سے یہ جامع اقدامات وزیراعظم نے کرائے ہیں۔

وزیراعظم نے اپنی حکمت عملی ، محکموں کی تجاویز اور لوگوں کی شکایات اور بعض رپورٹس کو بھی مد نظر رکھا گیا تاہم اس پر انضباطی کارروائی نہیں کی گئی ہے اور یہ تبادلے حکومت اور ایف بی آر کےدائرہ اختیار میں ہیں کہ سرکاری ملازمین کی تعیناتی کا اختیار اس کےمحکمہ کے پاس ہوتا ہے۔ایف بی آر میں سارے تبادلے اور تقرریاں خالصتاً کارکردگی کی بنیاد پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ماضی میں اچھا کام کرتے آ رہے ہیں اور ان کو سائیڈ لائن رکھاگیا۔انہوں نے کہا کہ ایسے ملازمین کو موقع دیا گیاہے ، اس حوالہ سے کوئی سفارش نہیں تھی۔ ایف بی آر کو فری ہینڈ دیاگیا ہے کہ میرٹ کی بنیاد پر تقررو تبادلے کریں۔

وزیراعظم نے کہا کہ مجھے ایف بی آر سے کارکردگی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیوٹی کے اوقات کار میں ہیراپھیری ، سمگلنگ اور انڈر ایویلیوایشن سمیت دیگر مسائل ہمارے ہیں اور ہم نے ہی حل کرنا ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس چوری ہمارا مسئلہ ہے ۔ انکم ٹیکس نہ دیناہمارا ایشو ہے۔ اسی طرح کم انکم ٹیکس کی ادائیگی بھی ہمارا مسئلہ ہے۔ یہ سارے مسائل متعلقہ محکموں نے خود ہی ختم کرنے ہیں۔ اس کے لئے بیک جنبش قلم کلریکل سٹاف سے لے کر ڈائریکٹر جنرل یا چیف کلیکٹر تک تو تبدیل نہیں کئے جاتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اوپر سے شروع کریں گے تو نیت بھی نظر آئے گی کہ آپ اصلاح چاہتے ہیں ۔

اگر اوپر ٹھیک بندہ ہوگا تو یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اس کا اثر نیچے تک جائے گا ، اسی لئے کام اوپر سے شروع کیا ہے، یہ سلسلہ جاری رہے گا، کسی سے زیادتی نہیں ہوگی، تقرری و تبادلے کوئی بنیادی حق نہیں ہیں۔ وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حتیٰ کہ قانون کے مطابق ترقیاں بھی کارکردگی کی بنیاد پر ہی ہوتی ہیں۔ وزیر قانون نے کہا کہ کل اخبارات کے ذریعے معلوم ہوا کہ آفیسر ایسوسی ایشن نے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے، اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو تو اس کا جائزہ محکمہ لے سکتا ہے لیکن اس قسم کی ایکٹویٹی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پورے عمل میں کوئی ایسا ایکشن جو کسی کو داغدار کرتا ہو، وزیراعظم بغیر شفاف ٹرائل کے کسی بات پر یقین نہیں رکھتے۔

انہوں نے کہا کہ کسی شخص کو کرپٹ ڈیکلیئر کرنا، قانونی عمل کےذریعے ہی ممکن ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف کہہ دینے سے نہیں ہوتا۔ وزیر قانون نے کہا کہ قانون کے تحت پوسٹنگ اور ٹرانسفر حکومت اور محکموں کا یہ اختیار ہے اور رہے گا ، پالیسی کے تحت اس پر عمل کیا جاتا ہے، ٹیکس وصولیوں میں ایف بی اآر کا بڑا کردار ہے ، قانون میں ترامیم اسی لئے کی گئی ہیں، آئندہ معاشی سال پاکستان میں ٹیکس کے نظام میں بہتری، وصولیوں میں اضافہ، ٹیکس کے دائرہ کار میں توسیع کے حوالہ سے مشکلات ختم کرنے اور ٹیکس دہندگان کی سہولیات میں بہتری کیلئے بہترین سال ثابت ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور کابینہ ٹیکس دہندگان کی سہولیات میں اضافہ کیلئے پرعزم ہے، اگر ٹیکس نیٹ اور وصولیاں بڑھیں گی تو ٹیکس کی شرح میں کمی ہو سکتی ہے، ٹیکس وصولیوں میں اضافہ سے یہ پیسہ پاکستان کے غریب اور ضرورت مند افراد تک پہنچے گا۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.