قیمتی دھاتوں کے حصول کی دوڑ میں چین کیسے عالمی طاقتوں پر سبقت لیے ہوئے ہے؟

بی بی سی کے تخمینوں کے مطابق چینی کمپنیاں اب مجموعی طور پر لیتھیئم کے ذخائر سے جڑے منصوبوں میں اندازہ 38 فیصد کا کنٹرول رکھتی ہیں۔ تاہم چینی کاروبار پھیلنے کے ساتھ ساتھ ان کمپنیوں کو الزامات کا بھی سامنا ہے۔
علامتی تصویر
Getty Images

رواں سال کے آغاز پر شمالی ارجنٹائن کی رہائشی آئی چنگ آدھی رات کو مسلسل بلند ہوتے نعروں کی آواز سُن کر جاگ گئی تھیں۔ انھوں نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو دیکھا کہ مقامی مزدوروں نے اُن کے کمپاؤنڈ کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور داخلی دروازے کے ارد گرد ٹائر جلا کر راستہ روکا ہوا ہے۔

انڈیز پہاڑوں سے بیٹریوں کے لیے لیتھیئم نکالنے والی چینی کمپنی کے لیے کام کرنے والی آئی چنگ (فرضی نام) کہتی ہیں کہ ’میں آگ سے روشن آسمان دیکھ کر خوفزدہ ہو گئی تھی اور باہر فساد کا ماحول تھا۔‘

یہ احتجاج چینی کمپنی کے لیے کام کرنے والے ارجنٹائن کے مقامی ملازمین کی نوکری سے برطرفیوں کے خلاف شروع ہوا تھا۔ یہ احتجاج مقامی آبادیوں اور چینی کاروباری کمپنیوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کی صرف ایک مثال ہے۔ اور اس کی وجہ چین کی جانب سے قیمتی معدنیات نکالنے کی کوششوں میں وسعت ہے جو دنیا میں قیمتی معدنیات کی منڈی کا سب سے بڑا کھلاڑی ہے۔

صرف 10 سال قبل چین کی ایک کمپنی نے ارجنٹائن، بولیویا اور چلی کی سرحدوں پر موجود ’لیتھیئم تکون‘ (وہ علاقے جہاں دنیا میں لیتھیئم کے سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں) میں ایک منصوبے کے جملہ حقوق خریدے تھے۔ میڈیا کی خبروں، مقامی حکومتوں اور معدنیات سے جڑی تحقیقات کے مطابق اس کے بعد دیگر چینی کمپنیاں بھی مقامی طور پر معدنیات کی کان کنی میں ملوث ہو گئیں۔

بی بی سی کے اندازوں کے مطابق چینی کمپنیاں اب مجموعی طور پر لیتھیئم کے ذخائر سے جڑے منصوبوں میں اندازاً 38 فیصد کا کنٹرول رکھتی ہیں۔ تاہم چینی کاروبار پھیلنے کے ساتھ ساتھ ان کمپنیوں کو الزامات کا بھی سامنا ہے۔

آئی چنگ کے لیے یہ احتجاج حیران کن تھا۔ ان کو ایک پُرسکون زندگی کی توقع تھی لیکن ہسپانوی زبان جاننے کی وجہ سے وہ اس تنازع کو سلجھانے کی کوششوں کا حصہ بنیں تو انھوں نے بتایا کہ ’یہ آسان نہ تھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں بہت سی چیزوں پر توجہ دینا پڑی جیسا کہ انتظامیہ کی یہ سوچ کہ ملازمین کاہل ہیں اور دوسری جانب مقامی لوگوں کا خیال تھا کہ چینی مالکان اُن کا استحصال کر رہے ہیں۔‘

بی بی سی گلوبل چائنہ یونٹ نے دنیا بھر میں پھیلے 62 ایسے منصوبوں کی شناخت کی ہے جن میں چینی کمپنیوں کا بڑا حصہ ہے اور یہ لیتھیئم یا تین دیگر اہم قیمتی دھاتوں کی کان کنی میں مصروف ہیں جن میں کوبالٹ، نکل اور میگنیشیئم شامل ہیں۔

یہ تمام معدنیات لیتھیئم ایون بیٹریاں بنانے میں کام آتے ہیں جو الیکٹرک گاڑیوں میں لگتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سولر پینل بھی ان سے بنتے ہیں۔ چیٹم ہاؤس تھنک ٹینک کے مطابق لیتھیئم اور کوبالٹ کی عالمی رسد میں چین بالترتیب 72 اور 68 فیصد حصہ رکھتا ہے۔

لیتھیئم سمیت دیگر اہم خام دھاتوں کی صفائی میں چین کی صلاحیت نے اسے ایک ایسے مقام پر پہنچنے میں مدد دی ہے جہاں 2023 میں دنیا بھر میں فروخت ہونے والی نصف الیکٹرک گاڑیاں چین میں تیار ہوئیں۔ اس کے علاوہ ونڈ ٹربائن (پن چکی) کی عالمی سطح پر تیاری میں چین 60 فیصد حصہ رکھتا ہے اور سولر پینل کی عالمی رسد کے ہر مرحلے میں 80 فیصد تک کو کنٹرول کرتا ہے۔ چین کے کردار کی ہی بدولت دنیا میں یہ اشیا سستی ہیں اور باآسانی دستیاب بھی ہیں۔

لیکن صرف چین واحد ملک نہیں جو ’گرین اکانومی‘ کے تصور کے تحت ایسی معدنیات کی کان کنی اور ان کی صفائی کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگر دنیا کو 2050 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو صفر کرنے کے ہدف کو حاصل کرنا ہے تو اس نوعیت کی دھاتوں کا استعمال 2040 تک چھ گنا تک بڑھانا ہو گا۔ دوسری جانب امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین چینی مصنوعات پر انحصار کم کرنے کی حکمت عملی تیار کر چکے ہیں۔

اُدھر چینی کمپنیوں کی جانب سے بین الاقوامی آپریشن بڑھانے کے ساتھ ساتھ مسائل اور الزامات بھی بڑھ رہے ہیں۔

علامتی تصویر
Getty Images
لاطینی امریکہ میں معدنیات کی زیادہ مقدار دنیا کے کسی بھی جگہ سے زیادہ ہے

بزنس اینڈ ہیومن رائٹس ریسورس سینٹر نامی غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ مسائل چینی کمپنیوں تک محدود نہیں۔ گذشتہ سال اس تنظیم نے 102 الزامات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی تھی جن میں کہا گیا کہ ’چینی کمپنیاں مقامی آبادیوں کے حقوق کی خلاف ورزی سے لے کر کام کرنے کے محفوظ حالات فراہم کرنے میں ناکامی اور ماحولیاتی تباہی کا باعث بن رہی ہیں۔‘

یہ الزامات سنہ 2021 سے 2022 تک کی مدت پر محیط ہیں۔ بی بی سی نے 2023 میں دیگر غیر سرکاری تنظیموں یا میڈیا میں آنے والی خبروں کی مدد سے 40 اور الزامات کا بھی پتہ لگایا ہے جبکہ دو ممالک کے شہریوں نے بھی ہمیں اپنی کہانیاں سنائی ہیں۔

افریقی ملک کانگو کے جنوب میں واقع لبمباشی سے تعلق رکھنے والے کرسٹوفر کابویٹا 2011 سے چینی کمپنی جنشوان گروپ کی رواشی کوبالٹ کان کے خلاف جاری مزاحمتی تحریک کی سربراہی کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے دروازے سے 500 میٹر دوری پر واقع کھلی کان میں ہفتے میں دو سے تین بار دھماکہ خیز مواد سے پتھر توڑے جاتے ہیں جس سے مقامی لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔

ان کے مطابق دھماکوں سے قبل لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے خطرے کے سائرن بجائے جاتے ہیں تاکہ ہر کوئی اپنا کام چھوڑ کر پناہ لے سکے۔

’درجہ حرارت جیسا بھی ہو، بارش ہو یا آندھی، ہمیں اپنا گھر چھوڑ کر کان کے قریب ایک پناہ گاہ میں جانا پڑتا ہے۔ اور اس اصول کا اطلاق سب پر ہوتا ہے جس میں بیمار افراد سمیت ایسی خواتین بھی شامل ہوتی ہیں جن کے ہاں حال ہی میں بچے کی پیدائش ہوئی ہوتی ہے کیوں کہ کوئی اور جگہ محفوظ نہیں ہوتی۔‘

سنہ 2017میں کیٹی کبازو نامی ایک نوجوان لڑکی گھر سے سکول جاتے ہوئے ایک اُڑتا ہوا بڑا پتھر لگنے سے ہلاک ہو گئی تھی جبکہ ایسے ہی دیگر پتھروں نے لوگوں کی گھروں کی دیواروں اور چھتوں میں سوراخ کر دیے تھے۔

علامتی تصویر
BBC

رواشی کان کی ترجمان الیزا کلاسا نے اعتراف کیا ہے کہ ’اس علاقے میں ایک نوجوان بچی موجود تھی جسے وہاں نہیں ہونا چاہیے تھا اور وہ پتھروں سے متاثر ہوئی۔ ان کے مطابق اس کے بعد ٹیکنالوجی بہتر کی گئی اور دھماکوں میں ایسی تکنیک استعمال ہوتی ہے جس میں پتھروں کے ادھر ادھر اڑنے کا خطرہ نہیں ہوتا۔‘

تاہم بی بی سی نے اسی کمپنی کے ایک مینیجر، پیٹرک شائی سینڈ، سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ ’کان کنی میں دھماکہ خیز مواد ہی استعمال ہوتا ہے اور دھماکوں سے پتھر اڑ کر مقامی آبادی میں جا سکتے ہیں کیوں کہ وہ کان کے بہت قریب ہیں اور اسی لیے بہت سے ایسے حادثات ہو چکے ہیں۔‘

رواشی کان کی ترجمان الیزا کلاسا نے یہ بھی بتایا کہ 2006 سے 2012 کے درمیان ان کی کمپنی نے 300 خاندانوں کو کان سے دور منتقل ہونے کے لیے مالی مدد فراہم کی۔

انڈونیشیا کے دور دراز اوبی جزیرے میں ایک چینی کمپنی لائگینڈ ریسورسز اینڈ ٹیکنالوجی انڈونیشیا کے ہریٹا گروپ سے اشتراک میں ایک کان کا منصوبہ چلا رہی ہے جو کاواسی گاؤں کے گرد موجود جنگلات کو تیزی سے ختم کر رہا ہے۔

جاٹام کا تعلق اسی گاؤں سے ہے، جن کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں پر حکومت کی جانب سے مالی مدد وصول کرنے اور اپنی آبائی جگہوں سے منتقل ہونے کا دباؤ ہے۔ تاہم درجنوں خاندان اس پیشکش اور دباؤ کو مسترد کر چکے ہیں جن کا کہنا ہے کہ حکومتی پیشکش اصل مالیت سے بہت کم ہے۔ اسی وجہ سے ان میں سے چند کا دعویٰ ہے کہ ان کے خلاف قومی سلامتی کے لیے اہم منصوبے کو خطرے میں ڈالنے کے الزام میں قانونی کارروائی کرنے کی دھمکی بھی دی گئی۔

جاٹام کا کہنا ہے کہ ’پرانے جنگلات کو اس لیے کاٹا گیا کہ کان کے لیے جگہ بنائی جا سکے‘ اور ان کے پاس اس بات کے بھی شواہد ہیں کہ دریا اور سمندر بھی آلودہ ہوئے ہیں۔ کاواسی گاؤں میں بسنے والی استانی نور حیاتی کا کہنا ہے کہ ’دریا کا پانی اب پینے کے قابل نہیں رہا اور سمندر، جو شفاف نیلا ہوا کرتا تھا، بارش میں لال ہو جاتا ہے۔‘

انڈونیشیا کی حکومت نے کان کی حفاظت کے لیے فوجی تعینات کر رکھے ہیں اور جب بی بی سی نے حال ہی میں اس جزیرے کا دورہ کیا تو ان کی تعداد میں کافی اضافہ ہو چکا تھا۔ جاٹام کا دعویٰ ہے کہ یہ فوجی مقامی لوگوں کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں جو کان کے خلاف بات کرتے ہیں۔

علامتی تصویر
BBC

نور کہتی ہیں کہ ان کے لوگوں کا خیال ہے کہ ’فوج کان کی حفاظت کے لیے موجود ہے، لوگوں کی فلاح کے لیے نہیں۔‘

جکارتہ میں فوج کے ترجمان نے جواب دیا کہ ’ان الزامات کو ثابت نہیں کیا جا سکتا اور اگرچہ فوجی کان کی حفاظت کے لیے ہی موجود ہیں انھیں مقامی آبادی سے براہ راست رابطے کی اجازت نہیں ہے۔‘

فوج کے ترجمان نے کہا کہ مقامی دیہات کی آبادی کو منتقل کرنے کا منصوبہ پولیس کی سرپرستی میں پرامن طریقے سے ہوا۔

نور ان افراد میں شامل تھیں جنھوں نے جون 2018 میں دارالحکومت جکارتہ کا سفر کیا تاکہ کان کے اثرات کے خلاف احتجاج میں شامل ہو سکیں۔ لیکن مقامی حکومت کے نمائندے شمس ابوبکر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کوئی عوامی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔‘

انھوں نے بی بی سی کو ایک سرکاری رپورٹ بھی دکھائی جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ہریٹا گروپ نے تمام قواعد و ضوابط پر عمل کیا ہے۔

ہریٹا گروپ کے مطابق انھوں نے ’مقامی قوانین اور شفاف کاروباری طریقوں پر سختی سے عمل کیا اور مسلسل کسی قسم کے منفی اثرات کی روک تھام کے لیے کام کر رہی ہے۔‘

گروپ کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے بڑے پیمانے پر جنگلات کا خاتمہ نہیں کیا گیا اور ’مقامی پانی کا جائزہ لینے کے بعد آزادانہ ٹیسٹ نے ثابت کیا کہ پانی حکومتی معیار پر پورا اترتا ہے۔‘ کمپنی کا یہ بھی دعوی ہے کہ انھوں نے نہ تو کسی سے زبردستی گھر خالی کروایا اور نہ ہی کسی کو ڈرایا یا دھمکایا یا غیر منصفانہ طریقے سے زمین ہتھیائی۔

ایک سال قبل چین کی سرکاری معدنیاتی تنظیم سی سی سی ایم سی نامی نے چینی کمپنیوں کے خلاف شکایات کو حل کرنے کا ایک ضابطہ کار بنایا تھا۔

اس تنظیم کی ترجمان لیلی لی کا کہنا ہے کہ یہ کمپنیاں ’ثقافتی اور زبان کی وجہ سے خود مقامی آبادیوں یا سول سوسائٹی تنظیموں سے رابطوں کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔‘

علامتی تصویر
BBC

تاہم یہ ضابطہ کار ابھی تک مکمل طور پر کام نہیں کر رہا جبکہ دوسری جانب معدنیات کے شعبے میں چین کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے۔

ادتیا لولا برطانوی ماحولیاتی تھنک ٹینک ایمبر میں ایشیا پروگرام ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’چین ایک اہم منڈی کو کنٹرول کرنے کی ہی کوشش نہیں کر رہا بلکہ اس کے کاروباری فوائد بھی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’چینی کمپنیاں کانوں میں اس لیے سرمایہ لگا رہی ہیں کیوں کہ ان کے لیے منافع ہی سب کچھ ہے۔‘ اس کے نتیجے میں چینی شہری دنیا بھر میں کان کنی کے منصوبوں میں کام کرنے جا رہے ہیں جن کے لیے یہ پیسہ کمانے کا اچھا موقع ہے۔

وانگ گانگ نے 10 سال تک کانگو میں چین کے لیے کوبالٹ کی کانوں میں کام کیا۔ 48 سالہ وانگ، جن کا فرضی نام استعمال کیا گیا ہے، کو اس دوران خوراک اور رہائش کی سہولت کمپنی نے فراہم کیں اور وہ ہفتے کے سات دن روزانہ 10 گھنٹے کام کرتے تھے۔ ان کو ایک مہینے میں چار دن کی چھٹی ملتی تھی۔

علامتی تصویر
BBC

وانگ کے مطابق انھوں نے چین میں اپنے خاندان سے جدائی اس لیے برداشت کی کیوں کہ وہ یہاں زیادہ کما سکتے تھے۔ ان کو کانگو کے طویل قامت جنگلات اور صاف آسمان بھی پسند آیا۔ مقامی مزدوروں سے بات چیت کے لیے وہ فرانسیسی، سواہلی اور انگریزی ملا جلا کر استعمال کرتے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’ہماری کام کے علاوہ شازونادر ہی بات ہوتی تھی۔‘

آئی چنگ، جو مقامی آبادی کی زبان پر عبور رکھتی تھیں، کا بھی ارجنٹائن میں کام کے علاوہ کسی سے زیادہ رابطہ نہیں ہوا۔ انھوں نے ایک ساتھی چینی سے ہی دوستی قائم کی کیوں کہ گھر سے ہزاروں میل دور وہ ایک ہی جیسے مسائل کا سامنا کر رہے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ارجنٹائن میں زندگی بہت آرام دہ ہے۔‘ وہ جگہ جہاں لیتھیئم کی کان کنی ہوتی ہے کافی بلند مقام پر ہے اور وہ کہتی ہیں کہ ’وہاں میں سو نہیں سکتی، اور نہ کھا سکتی ہوں کیوں کہ اونچائی کی وجہ سے میں بیمار ہو جاتی ہوں لیکن مجھے وہاں تک جانا اس لیے اچھا لگتا ہے کیوں کہ چیزیں بہت سادہ ہیں اور وہاں دفتری سیاست نہیں ہوتی۔‘

ایمری ماکومینو، بیوبی ملینگا اور لوشیئن کاہوزی کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.