کیا رام مندر والی ریاست اترپردیش مودی کو تیسری بار وزیراعظم بنا سکے گی؟

اتر پردیش یعنی یوپی انڈیا کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ پارلیمنٹ کی 544 میں سے 80 سیٹیں یہاں سے ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں پارلیمانی سیٹوں کے ساتھ یہ ریاست کسی جماعت کو اقتدار میں لانے یا اسے ہٹانے میں سب سے اہم کردار کرتی ہے۔۔۔ انڈیا میں یہ عام کہاوت ہے کہ جو یو پی سے جیتتا ہے دلی میں حکومت اسی کی بنتی ہے۔
انڈیا انتخابات
Getty Images
انڈیا میں سات مرحلوں میں انتخابات ہو رہے ہیں اور نتائج 4 جون کو آئيں گے

انڈیا میں ایک کہاوت عام ہے۔ ’جو یو پی سے جیتا، دلی میں حکومت اسی کی بنتی ہے۔‘

اتر پردیش یعنی یوپی انڈیا کی سب سے بڑی ریاست ہے جس کی انتخابی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملکی پارلیمنٹ کی 544 میں سے 80 سیٹیں یو پی سے ہیں اور اتنی بڑی تعداد کسی بھی جماعت کو اقتدار میں لانے یا اسے ہٹانے میں سب سے اہم کردار کرتی ہے۔

انڈیا کے انتخابی معرکے کے تین مرحلے مکمل ہو چکے ہیں تاہم یو پی میں لوگوں کا رجحان کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے اس ریاست کے اہم شہروں ایودھیا، بنارس اور لکھنؤ کا سفر کیا۔

ہماری پہلی منزل ایودھیا تھی جہاں دو مہینے پہلے ہی رام مندر کا افتتاح کیا گیا۔ تب سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ پورے ملک سے اس مندر کے درشن یا زیارت کرنے کےلیے آ رہے ہیں۔ رام مندر کی تعمیر برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے تین بڑے وعدوں میں سے ایک تھا اور الیکشن میں اسے وزیر اعظم نریندر مودی کی بڑی کامیابیوں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

ایودھیا کی سنیتا پانڈے کہتی ہیں کہ ’مندر کا انتظار پانچ سو برس سے تھا۔ مودی نے رام مندر بنوا کر ہندوؤں کے لیے بہت بڑا کام کیا ہے۔' لیکن وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ’بے روزگاری بہت بڑا مسئلہ ہے، حکومت کو اس کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے۔‘

رام مندر سے دور ایودھیا کی بیشتر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور یہاں ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی بھی خاصی آبادی ہے۔

سوہاول کے ایک دیہی باشندے التفات خان اپنا ٹن اور پولیتھین کا بنا ہوا مکان دکھاتے ہوئے کہتے ہیں ’زندگی ٹھیک نہیں چل رہی لیکن زندہ رہنا ہے تو کسی طرح کٹ رہی ہے۔‘

وہ شکوہ کرتے ہیں کہ ’نریندر مودی نے مہنگائی اور بے روزگاری کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ وہ صرف پیسے والوں کو دیکھتے ہیں، غریبوں کے لیے کچھ نہیں کر رہے ہیں۔‘

تھوڑی ہی دوری ایک کھیت میں 12ویں جماعت کی طالبہ، 17 سالہ کرانتی راوت گیہوں کی فصل کی کٹائی کر رہی ہیں۔ انھیں اجرت میں گیہوں ہی ملے گا جس سے کچھ دنوں کے لیے کھانے کا انتظام ہو جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں ’کسی کو بھی ووٹ دو، کوئی بھی جیتے لیکن جیتنے کے بعد غریبوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔‘

کرانتی راوت
BBC
کرانتی راوت کا کہنا ہے کہ کوئی بھی غریبوں کی نہیں سنتا

ایودھیا اور اس کے آس پاس کے اضلاع کا شمار انڈیا کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جو ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔ یہاں کے بیشتر لوگ زرعی زمینوں پر کام کرتے ہیں اور چھوٹے درجے کے کسان ہیں۔

یہاں سے بڑی تعداد میں نوجوان روزگار کی تلاش میں گجرات، مہاراشٹر اور دلی جیسی ریاستوں کا رخ کرتے ہیں۔ غربت، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل روزمرہ کا چیلنج ہیں لیکن یہاں کی سیاست کئی عشروں سے ان بنیادی سوالوں کے بجائے مذہب کی سیاست میں الجھی ہوئی ہے۔

اس بار انڈیا میں بی جے پی کی اپوزیشن نے ایک گرینڈ الائنس بنایا ہے اور ایودھیا سے اودھیش پرساد ان کے امیدوار ہیں۔ وہ پرامید ہیں کہ اس بار معاملہ الٹ ہو گا۔

بی بی سی بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہاں لوگ مذہب کے نام پر نہیں زندگی کے بنیادی مسائل پر اپنے ووٹ کا فیصلہ کریں گے، یہاں مندر کا ایشو نہیں چلے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’مہنگائی اور بے روزگاری سے لوگ بے انتہا پریشان ہیں۔ یہ لوگ اب مودی کے وعدوں میں یقین نہیں رکھتے۔‘

اودھیش پرساد
BBC
اودھیش پرساد ایودھیا سے حزب اختلاف کے امیدوار ہیں

وزیراعظم مودی نے گذشتہ اتوار کو ایودھیا میں انتخابی روڈ شو کیا تھا۔ ایودھیا سے جیتنا ان کے وقار کے ساتھ ساتھ نظریے کے لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اسی رام مندر کی تحریک نے بی جے پی کو اقتدار تک پہنچایا۔

ایودھیا سے تقریباً 200 کلومیٹر مشرق میں بنارس شہر ہے۔

ہم نے ایودھیا سے بنارس کا رخ کیا کیوں کہ وزیر اعظم نریندر مودی اس حلقے سے تیسری بار انتخابات لڑ رہے ہیں اور مودی کی قیادت میں یوپی میں بی جے پی اپنے عروج پر پہنچی ہے۔

اس ریاست میں بھی بی جے پی کی ہی حکومت ہے۔ بنارس یا وارانسی انڈیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ شمالی انڈیا میں یہ ہندو مذہب کا سب سے اہم مقام ہے۔ شام کو سورج غروب ہوتے وقت دریائے گنگا کے گھاٹ کے کنارے ہونے والی ہندو دیوی دیوتاؤں کی پوجا کو دیکھنے کے لیے لاکھوں لوگ پورے ملک سے یہاں آتے ہیں۔ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بعد بنارس آنے والے ہندو عقیدت مندوں کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی ہے۔

عقیدت مند خاتون
BBC
ایک ہندو عقیدت مند خاتون

لیکن صرف مذہب اور تاریخ کے اعتبار سے ہی نہیں، سیاست کے اعتبار سے بھی بنارس اتر پردیش کا ایک اہم شہر ہے ۔ ماضی میں یہاں سے کئی بڑے رہنما الیکشن لڑ چکے ہیں۔ لیکن جب سے وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ کا الیکشن یہاں سے لڑنا شروع کیا اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔

یہاں سے منتخب ہونے کے بعد مودی نےایم پی کے طور پر نہ صرف مندروں اور گھاٹ کے راستوں کو بہتر بنوایا بلکہ شہر میں نئی سڑکیں، کئی سرکاری عمارتیں، سٹیڈیم اور دوسرے ڈھانچے تعمیر ہوئے اور یہاں کے بہت سے شہری ان تبدیلیوں سےخوش ہیں۔

نیہا ککڑایک ٹیچر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا ’مودی جی نے بنارس کو فرش سے عرش پر پہنچا دیا ہے لیکن سب سے بڑا کام انھوں نے خواتین کے تحفظ کا کیا ہے۔ آج کام کرنے والی عورتیں بے خوف وخطر دیر رات تک کہیں بھی جا سکتی ہیں۔‘

شیوانگی مشرا بھی نیہا سے اتفاق کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’مودی نے سبھی کی ترقی کے لیے کام کیا ہے۔ خواتین ان کی بہت بڑی حمایتی ہیں۔ ہم انھیں پھر جتائیں گے۔‘

لیکن بعض افراد ایسے بھی ہیں جو مودی سے خوش نہیں ہیں۔

اجے رائے
BBC
اجے رائے کانگریس کے ریاستی صدر ہیں اور وہ نریندر مودی کے خلاف بنارس میں متحدہ اپوزیشن کے امیدورار ہیں

ایسے ہی ایک شہری دیپک کا کہنا ہے کہ ’جب جب انتخاب آتا ہے تب تب مودی جی کچھ نئی چیز لے کر آتے ہیں۔ لیکن زمین پر کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔‘

’یہاں تک کہ جو پانچ کلو مفت راشن بھی ملتا ہے وہ بھی انتہائی خراب کوالٹی کا ہوتا ہے۔ اور وہ بھی پانچ کلو میں سے صرف تین کلو ہی ملتا ہے، باقی دو کلو دکاندار لے لیتا ہے۔‘

اس شہر میں مسلمانوں کی خاصی آبادی ہے اور یہاں بھی ایک تاریخی مسجد کا تنازع چل رہا ہے۔

شاکر حسین کہتے ہیں کہ ’مسلمان شہر کی ترقی سے خوش ہیں لیکن مذہب کے معاملے میں وہ بیک فٹ پر ہیں۔ انھیں، مدرسوں، این آر سی اور سیاےاے ، مسجدوں اور نماز کے تنازع پر بی جے پی سے تھوڑی سی ناراضگی ہے۔‘

جب سے نریندر مودی نے یہاں سے انتخاب لڑنا شروع کیا بی جے پی اتر پردیش میں اپنے عروج پر پہنچ گئی اور اسی وجہ سے یہاں پر بی جے پی کے مقامی رہنما بھی اعتماد سے بھرے ہوئے ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ مودی تیسری بار بھی وزیر اعظم بنیں گے۔

پرینکا موریہ
BBC
پرینکا موریہ بی جے پی کی ترجمان ہیں

بی جے پی کے مقامی رہنما ھرمیندر رائے نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ مودی جی کی قیادت کا کرشمہ ہے ۔ لوگوں کا اعتماد ان کے تئیں پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ انھوں نے بہتر گورننس کا جو وعدہ کیا تھا وہ کرکے دکھایا ہے۔ یوپی میں ہمارا ہدف 80 میں سے 75 پلس سیٹیں حاصل کرنا ہے۔‘

اجے رائے کانگریس کے ریاستی صدر ہیں۔ وہ نریندر مودی کے خلاف بنارس میں متحدہ اپوزیشن کے امیدورار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مودی حکومت مذہب کے نام پر سیاست کرتی رہی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’آج ہر شخص مہنگائی سے پریشان ہے، بے روزگاری سے پریشان ہے، ان کے بلڈوزر سے پریشان ہے۔ مودی کے جھوٹے وعدوں سے پریشان ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم ہر سیٹ پر مضبوطی سے لڑ رہے ہیں اور ہمارا نیچرل الائنس ہے، نیچرل لوگ اس سے جڑے ہیں۔‘

انتخابی مہم اب اس خطے میں زور پکڑ رہی ہے۔ رائے بریلی حلقے سے کانگریس کے راہل گاندھی کے کھڑے ہونے سے فضا اور بھی گرم ہو گئی ہے۔ پچھلی بار بی جے پی اور اس کے اتحاد نے یہاں 80 میں سے 64 سیٹیں جیتی تھیں۔ اب لکھنؤ بی جے پی اور اپوزیشن دونوں کی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔

ہندوؤں کے بھگوان شیو جی کا مجسمہ
BBC
ہندوؤں کے بھگوان شیو جی کا مجسمہ

یوپی میں یہ ہماری آخری منزل تھی۔ لکھنؤ یوپی کا دارالحکومت ہے جو کبھی اپنی تہذیب و تمدن کے لیے مشہور تھا لیکن اب یہ شہر یو پی کی سیاست کی شہ رگ ہے۔

سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی یہاں سے کئی بار منتخب ہوئے تھے اور اب وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ یہاں سے الیکشن لڑتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہاں ہندوؤں کے ساتھ ساتھ بہت سے مسلمان بھی بی جے پی کو ووٹ دیتے آئے ہیں۔

محمد عباس نے بتایا کہ ’میں بی جے پی کو ووٹ دیتا آیا ہوں اور اس بار بھی دوں گا۔ یہاں اٹل جی کے وقت سے ہی ہم نے بی جے پی کو ووٹ دینا شروع کیا تھا۔‘

ریسرچ سکالر کاجل شرما کا کہنا ہے کہ ’انڈیا میں اس وقت بے روزگاری بہت زیادہ ہے اور جو پڑھے لکھے نوجوان ہیں وہ مایوس ہو رہے ہیں۔ پڑھ لکھ کر انھیں کوئی موقع نہیں مل رہا ہے۔ گورنمنٹ اور پرائیویٹ ہر جگہ نوکریاں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ میں چاہتی ہوں اس بار جو بھی حکومت آئے وہ اس پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔‘

اہم اپوزیشن جماعت سماجوادی پارٹی کی رہنما ناہید لاری
BBC
اہم اپوزیشن جماعت سماجوادی پارٹی کی رہنما ناہید لاری

ونایک دویدی شہر کے ایک پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں فضا مذہبی بنیادوں پر بٹی ہوئی ہے۔ بہت سارے لوگ اس بنیاد پر ووٹ کرتے ہیں کہ میری برادری کے لوگ جیتیں گے تو مجھے فائدہ ہوگا۔‘

بی جے پی کی ترجمان ڈاکٹر پرینکا موریہ کا کہنا ہے کہ متحدہ اپوزیشن سے بی جے پی کو کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ بی جے پی کی حکومت نے جس طرح کام کیا ہے اس کے سامنے کوئی جیلنج نہیں ہے۔

انھوں نے بی بی سے بات کرتے ہوئے کہا ’ڈرنا تو اپوزیشن الائنس کو ہے کیونکہ انھوں نے ایسا ایک کام بھی نہیں کیا ہے جسے وہ گنوا سکیں اوراسی لیے یہ سبھی مل گئے ہیں۔‘

لکھنؤ
BBC
لکھنؤ

یو پی میں اصل مقابلہ بی جے پی اور انڈیا الائنس کے درمیان ہے۔ یہاں الائنس کی بڑی جماعت سماجوادی پارٹی ہے جو اپوزیشن کی جانب سے سب سے زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے۔

سماجوادی پارٹی کی رہنما ناہید لاری کہتی ہیں کہ ’اپوزیشن کے لیے یو پی سے جیتنا بہت ضروری ہے، یہیں سے مستقبل کا فیصلہ ہو گا۔‘

ناہید لاری کہتی ہیں ’اتر پردیش ہی دلی کا راستہ ہے۔ یہاں بی جے پی سے لوگ ناراض ہیں۔ خواہ وہ نوجوان ہوں، خواتین ہوں، کسان ہوں، دلت ہوں یا مزدور۔۔ سب تباہ ہیں اور یہ سبھی ناراض ہیں۔‘ ان کا دعویٰ ہے کہ 'انڈیا الائنس بی جے پی کو بھاری شکست دے گا۔‘

کانگریس اس اتحاد میں جونئیر پارٹنر ہے اور وہ 80 میں سے صرف 17 سیٹوں پر بی جے پی کے مقابل ہے تاہم اہم بات یہ ہے کہ اپوزیشن الائنس نے سبھی 80 سیٹوں پر متحدہ امیدوار کھڑے کر رکھے ہیں۔

اس ماحول میں الیکشن شروع ہونے کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کے مسلم مخالف بیانات میں شدت آئی تو پاکستان کا بھی ذکر آنے لگا اور ترقی کے نعرے یہاں تک کہ مندر بھی کہیں پیچھے چلے گئے ہیں۔

لکھنؤ کے سیاسی تجزیہ کار شرت پردھان کا خیال ہے کہ ’یہ وزیر اعظم نریندر مودی کی گھبراہٹ کا پتہ دیتی ہے۔ انھیں خطرہ محسوس ہو رہا ہے لیکن اپوزیشن کےلیے راستہ آسان نہیں ہے۔‘

شرت پردھان، سینیئر صحافی
BBC
شرت پردھان، سینیئر صحافی

وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں لوگوں کے ذہن ماؤف کر دیے گئے ہیں۔ بی جے پی اب پارٹی نہیں ہے اسے مودی نے کلٹ بنا دیا ہے۔ ایسے میں لوگوں کو راضی کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ کیونکہ کوئی جوابی بیانیہ سامنے نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو اتنا کمزور ہے کہ اس سے لوگ راضی نہیں ہو پا رہے ہیں۔‘

الیکشن کا نتیجہ تو 4 جون کو آئے گا لیکن الیکشن اب دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گیا ہے اور بظاہر یوپی میں بی جے بہت مضبوط پوزیشن میں ہے۔ سات برس سے یہاں اس کی حکومت ہے لیکن اپوزیشن جماعتیں اس بار متحد ہیں۔

بی جے پی نے سب سے زیادہ سیٹیں یہیں سے جیتی تھیں اور حکومت میں دوبارہآنے کے لیے اس بار بھی اسے یہاں سے سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنا ہوں گی کیونکہ جو یو پی سے جیتتا ہے دلی میں حکومت اسی کی بنتی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.