سندھ کے سرکاری گوداموں سے چار ہزار ٹن گندم کیسے ’غائب‘ کی گئی؟

سندھ کے محکمہ خوراک کی ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں واقع سرکاری گوداموں سے سنہ 2022 سے 2024 کے دوران تقریباً چار ہزار ٹن گندم ’چوری‘ ہوئی تھی۔ مگر گندم کی یہ مبینہ چوری کیسے ہوئی اور پھر یہ افغانستان تک کیسے پہنچی؟
تصویر
BBC

سنہ 2022 کے دوران پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایک تباہ کن سیلاب آیا تھا جس کے بعد صوبے میں گندم کی پیداوار میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کئی لاکھ ٹن گندم درآمد کی گئی۔

اس سیلاب کے بعد سندھ کے چار شہروں میں خاص طور پر گندم کی کمی رپورٹ کی گئی تھی۔ تاہم سندھ کے محکمہ خوراک کی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں واقع سرکاری گوداموں سے سنہ 2022 سے 2024 کے دوران تقریباً چار ہزار ٹن گندم ’چوری‘ ہوئی تھی۔

بی بی سی کو دستیاب اس رپورٹ کے مطابق کروڑوں روپے مالیت کی گندم کی یہ مبینہ چوری ’محکمہ خوراک سندھ کے عملے کی ملی بھگت سے انجام پائی تھی۔‘

یاد رہے کہ وزارت داخلہ سندھ نے 8 اپریل کو سمگلنگ اور خراب گندم مارکیٹ میں فروخت کرنے کے الزام میں ملوث 12 صوبائی افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔

اُدھر صوبائی وزیر برائے خوراک جام خان شورو نے بی بی سی کو بتایا کہ مذکورہ رپورٹ ابھی اُن تک نہیں پہنچی اور جیسے ہی یہ دستیاب ہو گی تو وہ اس پر انکوائری آرڈر کر کے ذمہ داران کو سزائیں دلوائیں گے۔

اس معاملے کی ابتدا سنہ 2022 میں اُس وقت ہوئی تھی جب صوبہ سندھ کے متعدد شہر سیلابی پانی میں ڈوب گئے۔

رپورٹ کے مطابق سندھ کے جن چار مختلف شہروں میں 2022 سے لے کر 2023 تک گندم کی شدید کمی رپورٹ ہوئی اُن میں شہید بینظیر آباد، حیدر آباد، سکھر اور لاڑکانہ شامل ہیں۔ جب محکمہ خوراک سندھ نے اس معاملے پر انکوائری کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ گندم کی اس بڑی مقدار میں چوری میں محکمہ خوراک کے افسران ہی ملوث ہیں۔

تصویر
Getty Images
سندھ میں 2022 میں آنے والے سیلاب میں بڑے پیمانے پر کھڑی فصلیں بھی تباہ ہوئی تھیں

محکمہ خوراک سندھ کے افسران اس لیِک ہونے والی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ گندم نہ صرف ’چوری کی گئی بلکہ بعد ازاں اِسے خراب ظاہر کر کے مارکیٹ میں مہنگے داموں بیچا بھی گیا۔‘

دوسری جانب بلوچستان کے افغانستان سے متصل علاقے چمن میں موجود ایک سرکاری افسر نے بی بی سی کے استفسار پر دعویٰ کیا کہ ’سندھ سے چوری ہونے والی گندم کی بوریاں بلوچستان کے سمگلنگ روٹس سے ہوتے ہوئے افغانستان بھی پہنچائی گئی ہیں۔‘

اب پہلے کچھ سوالوں کے جواب جان لیتے ہیں تاکہ سمجھ آ سکے کہ اتنی بڑی مقدار میں گندم کب اور کہاں سے چوری کی گئی اور اسے مارکیٹ میں کس طرح سے بیچا گیا؟

اسی بات کی جانچ لگانے کے لیے ہم نے سندھ کے شہر حیدرآباد کا رُخ کیا جہاں گندم کے سرکاری اور پرائیوٹ گودام بھی موجود ہیں۔

وہاں موجود محکمہ خوراک سندھ کے دو افسران نے اپنا نام اور عہدہ ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی ہے۔

ایک افسر نے دعویٰ کیا کہ ’چار ہزار ٹن گندم تقریباً 3 لاکھ 79 ہزار بوریاں بنتی ہیں۔ گندم کو سرکاری گوداموں سے نکالنے کے لیے ادارے کے افسران نے 2022 میں سندھ میں آنے والے سیلاب کا بہانہ بنایا اور گندم کو محفوظ مقام پر پہنچانے کے جھوٹے دعوے کیے گئے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’اس گندم کو خراب ثابت کرنے کے لیے، اس کی ایک سے دوسری جگہ منتقلی کے دوران گندم کی بوریوں پر مٹی اور بجری ڈالی گئی۔‘

تصویر
BBC
گندم کو خراب ظاہر کرنے کے لیے مبینہ طور پر اس میں مٹی اور بجری ملائی گئی

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ان میں سے کچھ بوریاں پرائیوٹ گوداموں میں پہنچائی گئیں، جہاں یہ اگلے دو سال تک پڑی رہیں۔ جبکہ دیگر بوریوں کو دو سال بعد بجری اور مٹی کی ملاوٹ سمیت مارکیٹ میں بیچ دیا گیا۔‘

اسی بات کی تصدیق سندھ محکمہ خوراک کے ایک اور افسر نے کرتے ہوئے بتایا کہ ’ان تین لاکھ بوریوں میں سے بیچی جانے والی گندم جانوروں اور انسانوں کے کھانے کے لائق نہیں تھی۔ لیکن اس کے باوجود انھیں بیچ دیا گیا۔ یہ بات تفتیشی ٹیم سے چھپائی گئی کہ گوداموں سے بعد میں ملنے والی گندم دراصل کتنی خراب تھی۔‘

محکمہ خوراک سندھکے افسران ہوں یا کراچی کے کاروباری حلقے، سب اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ چوری شدہ گندم بلوچستان کے راستے افغانستان بھی پہنچائی گئی ہے۔

اس بات کی تصدیق بلوچستان کے علاقے چمن میں موجود ایک افسر نے بھی کی اور بتایا کہ ’پچھلے ڈیڑھ سال میں سندھ کے مختلف گوداموں سے کراچی پہنچنے والی گندم لیاری کے راستے بلوچستان اور پھر وہاں سے افغانستان پہنچائی گئی ہے۔ افغانستان تک پاکستانی اشیا خورد و نوش، خاص طور سے گندم اور چینی کی سمگلنگ کا کام اب بھی جاری ہے۔‘

محکمہ خوراک کی لیک ہونے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چوری ہونے والی گندم کی دو لاکھ بوریاں کراچی سے ’غائب‘ کی گئی تھیں۔

کراچی میں موجود ایک صحافی نے بتایا کہ اب بھی شہر میں سب سے بڑا گڈز ٹرانسپورٹ کا کام لیاری سے ہوتا ہے۔ ’یہاں سے گندم پانچ ہزار روپے (فی بوری) اور چینی 300 روپے (فی پیکٹ) کے حساب سے ٹرکوں میں بھری جاتی ہے۔ جس کے بعد یہ بلوچستان کے جنوبی علاقوں جیسا کہ جیونی، گوادر، تربت اور مند بُلو تک پہنچائی جاتی ہے۔ وہاں سے کوئٹہ تک کا سفر بھی کیا جاتا ہے، جدھر پہنچنے کے بعد یہ چمن کے راستے یا کسی بھی عام ٹریڈ رُوٹ کے راستے افغانستان پہنچائی جاتی ہے۔‘

حیدر آباد آٹا چکی ایسوسی ایشن کے صدر حاجی محمد میمن نے کہا کہ ’اس نوعیت کی چوری اور اس کے نتیجے میں ہونے والی سمگلنگ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عام عوام کو زیادہ پیسے بھر کر آٹا خریدنا پڑتا ہے۔ پچھلے چار سالوں سے آٹا لگاتار مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم جیسے چکی مالکان 5500 روپے میں گورنمنٹ سے آٹا خریدتے تھے، اب یہی ریٹ 10ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ تو کیوں اثر نہیں پڑتا۔ چوری کا بہت بڑا اثر پڑتا ہے۔‘

حیدر آباد میں فلور مِل کے مالک خرّم لودھی نے بتایا کہ ’گندم چوری ہونے کی صورت میں ہمارے پاس اس کی سپلائی کم آتی ہے جس کے نتیجے میں ہمیں سرکار سے مدد لینی پڑتی ہے۔ میرے پاس اس وقت 300 بوریاں گندم کی موجود ہیں، اور ایک بوری میں 100 کلوگرام گندم ہے۔ لیکن خدانخواستہ اگر سرکار کی مدد لینی پڑ جائے تو وہ صرف 300 کلوگرام گندم لا کر گزارا کرنے کو کہہ دیتے ہیں۔‘

گندم کو کیسے بچایا جائے؟

تصویر
BBC

اب سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں پہلے سے ہی گندم کا ہر دوسرے سال مسئلہ پیدا ہوتا ہے، وہاں گندم کی ’چوری‘ جیسے واقعات کو کیسے روکا جائے؟

محکمہ خوراک کے مطابق حکومتِ سندھ نے اس سال گندم کی خریداری کا ہدف نو لاکھ ٹن مقرر کیا ہے جس کی خریداری 20 مارچ سے شروع کر دی گئی ہے۔

صوبے بھر میں گندم کی خریداری کے لیے 363 مراکز قائم ہونا متوقع تھے۔ جبکہ محکمہ خوراک کے مطابق حکومت سندھ نے اس سال گندم کی سرکاری قیمت 4 ہزار روپے فی من مقرر کی ہے۔

مِل مالکان کہتے ہیں کہ حکومتِ سندھ ہر سال گندم کی خریداری کا ہدف 14 لاکھ رکھتی ہے لیکن آخر کار تقریباً 8 یا 9 لاکھ تک ہی پروڈیوس کر پاتی ہے۔

صوبائی وزیرِ خوراک جام خان شورو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کھلے گوداموں کا ہے جہاں سے اکثر گندم کے خراب ہونے کی خبر آتی ہے۔ ’ہمارے پاس بند گوداموں کی گنجائش 7 لاکھ ٹن ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ جو بھی پروڈیوس ہوتی ہے وہ کُھلے گوداموں میں رکھی جاتی ہے۔‘

لیکن جب ان سے ادارے کے اندر سے گندم کی چوری کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے لیک رپورٹ کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ ضرور ہوا تھا کہ 2022 کے سیلاب کے بعد ہمارے افسران نے خبر کی تھی کہ گندم خراب ہوئی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس سہولیات اس قسم کی نہیں ہے جو گندم سٹور کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ تو ہماری گندم ویسے بھی خراب ہوتی ہے کیونکہ ہمارے پاس سہولیات نہیں ہیں۔ وہ بہتر کی جائیں تو ایسا نہیں ہو گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب سیلاب کے دوران گندم کے خراب ہونے کی خبر وزیرِ اعلی مراد علی شاہ تک پہنچی تو انھوں نے دو کمیٹیاں قائم کر دیں۔ ایک کمیٹی وہ تھی جسے گندم کے خراب ہونے کی تفتیش کرنی تھی۔ اور دوسری وہ جسے خراب گندم کی نیلامی کا کام کرنا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ لیک ہونے والی رپورٹ غالباً وہ ہی ہے جو کمیٹی کو پیش کرنی تھی۔ اس پر جو بھی تحقیقات ہوں گی اس پر عمل کرتے ہوئے ملزمان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.