مصر کے ساتھ 40 سال پرانا امن معاہدہ کیسے رفح میں اسرائیلی فوجی کارروائی سے متاثر ہوا؟

اسرائیل اور مصر کے درمیان امن معاہدے کو مشرق وسطیٰ کا سب سے اہم معاہدہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے اس پر دستخط کرنے والوں کو امن کا نوبیل انعام دیا گیا جبکہ ان میں سے ایک کو اس کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کرنی پڑی۔
اسرائیل رفح کراسنگ
Getty Images
اسرائیلی ٹینک مصر کی سرحد پر رفح کراسنگ پر موجود ہیں

اسرائیل اور مصر کے درمیان امن معاہدے کو مشرق وسطیٰ کا سب سے اہم معاہدہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے اس پر دستخط کرنے والوں کو امن کا نوبیل انعام دیا گیا جبکہ ان میں سے ایک کو اس کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کرنی پڑی۔

یہ معاہدہ مصر اور اسرائیل کے درمیان سنہ 1979 میں طے پایا اور سنہ 1980 میں نافذ ہوا۔ اس معاہدے نے دونوں ملکوں کے درمیان دو دہائی سے زائد چلنے والی دشمنی کا خاتمہ کیا اور تقریباً 45 سال تک دو ہمسایہ فوجی طاقتوں کے درمیان امن قائم رکھنے میں کامیاب رہا۔

لیکن غزہ جنگ اور رفح بارڈر کراسنگ پر اسرائیلی فوج کی موجودگی کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں۔

حالیہ مہینوں میں دونوں جانب سے ایک دوسرے پر تواتر سے الزامات لگائے گئے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ ایک دوسرے پر رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ تک انسانی امداد تک پہنچانے میں مشکلات پیدا کرنے جیسے الزامات عائد کیے ہیں۔

کشیدگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ مصر نے اعلان کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف (آئی سی جے) میں جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف دائر نسل کشی کی شکایت میں باضابطہ طور پر شامل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مصر کے اس اعلان نے اسرائیلی حکومت کو حیران کر دیا ہے۔

پچھلے سال دسمبر میں، جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام لگایا ہے۔ اسرائیل ان الزامات کو رد کرتا آیا ہے۔

مصر کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے جنوبی افریقہ کی حمایت کا فیصلہ غزہ میں فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیلی حملوں کی بڑھتی ہوئی شدت اور دائرہ کار کی روشنی میں کیا گیا ہے۔

مصر میں فیصلہ ساز حلقوں کے قریبی ذرائع نے بی بی سی عربی سروس کو بتایا ہے کہ رفح میں فوجی کارروائیوں اور سرحدی کراسنگ پر اسرائیلی کنٹرول کے خلاف احتجاج کے طور پر مصر اسرائیل میں اپنی سفارتی نمائندگی کو کم کرنے پر بھی غور کر رہا ہے۔

تاہم مصر کا کہنا ہے کہ فی الحال امن معاہدے کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

محقق گیل تالشیر یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں۔ بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مصر اور اسرائیل کے درمیان سرد امن معاہدے کی بنیاد محبت نہیں بلکہ مشترکہ قومی اور سلامتی کے مفادات ہیں۔

تاہم دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور غزہ جنگ دونوں پڑوسیوں کے مستقبل کے تعلقات پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔

مصر اور اسرائیل امن معاہدہ کیا ہے؟

سنہ 1948 سے 1973 کے درمیان، اسرائیل اور مصر کے درمیان چار جنگیں لڑی گئیں۔ ان جنگوں کے نتیجے میں سرحدوں میں کئی بار تبدیلی آئیں۔

بالآخر سنہ 1973 میں یوم کپور جنگ کے بعد اسرائیل اور مصر کے مابین امن معاہدے پر بات چیت شروع ہوئی۔ اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کی ثالثی سے سنہ 1978 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے طے پائے۔

مصر
Getty Images
بائیں سے دائیں، میناجم بیگن، جمی کارٹر اور انور السادات کیمپ ڈیوڈ میں، امریکی صدر کی چھٹیاں گزارنے والی رہائش گاہ جہاں امن کے لیے بات چیت ہوئی تھی

اس ہی سال اس وقت کے مصری صدر انور السادات اور اسرائیل کے وزیر اعظم میناہم بیگن کو مصر اور اسرائیل کے درمیان کامیاب امن مذاکرات پر امن کا نوبل انعام بھی ملا۔

سنہ 1979 میں امن معاہدے دستخط ہوئے جو جنوری 1980 میں نافذ ہو گیا۔

امن معاہدے کے ایک سال بعد انور السادات کو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کرنے پر مصری فوجیوں کے ایک گروپ نے قتل کر دیا۔ اس گروپ کی کی سربراہی اسلام خالد الاسلامبولی کر رہے تھے۔

اس معاہدے نے اسرائیل کے خلاف قائم عرب ممالک کے متحدہ محاذ کو بھی توڑ دیا۔ مصر جو جمال عبدالناصر کی زیر قیادت ایک وقت میں اسرائیل مخالف محاذ کے کے طور پر جانا جاتا تھا اس کو عرب مملک کی طرف سے تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔ مصر کے سابقہ اتحادیوں نے اس کی عرب لیگ میں رکنیت کو سنہ 1989 تک ویٹو کیے رکھا۔

اس معاہدے سے منسلک پروٹوکول نے ان ممالک میں ایک نازک توازن کو قائم کیا۔

اس نے دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں کی حد بندی کی اور جزیرہ نما سینائی کو تین اہم زونز۔۔ اے بی سی۔۔ میں تقسیم کیا۔ ہر زون کے لیے مختلف سطح کے فوجی اور ہتھیار رکھنے کی ضرورت ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر تقریباً 2.5 کلومیٹر گہرائی میں ایک زون ڈی بھی ہے، جو بفر زون کے طور پر کام کرتا ہے۔

یہ معاہدہ زون ڈی میں ایک محدود اسرائیلی عسکری قوت کی موجودگی کی اجازت دیتا ہے، جہاں کثیر القومی افواج اور اقوام متحدہ کے مبصرین بشمول کولمبیا کے فوجی بھی تعینات ہیں۔

ان اسرائیلی افواج نے غزہ اور مصر کے درمیان سرحد کے اس حصے کو بھی کنٹرول کیا، جسے ’فلاڈیلفی کوریڈور‘ کہا جاتا ہے، جو 14 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے اور اسے دونوں ممالک کے درمیان ’غیر فوجی بفر زون‘ سمجھا جاتا تھا۔

مصر
Getty Images

سنہ 2005 میں غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے یکطرفہ انخلا کے بعد، اسرائیل نے مصر کے ساتھ ’فلاڈیلفی پروٹوکول‘ کے نام سے ایک پروٹوکول پر دستخط کیے، جو امن معاہدے سے منسلک تھا اور جس نے مصر کو ایریا سی نامی علاقے میں 750 فوجی تعینات کرنے کی اجازت دی۔

دہشت گردی، سرحد پار سے دراندازی اور ہتھیاروں کی سمگلنگ سے نمٹنے کے لیے اس کی سرحد غزہ کے ساتھ اور علاقے ڈی سے ملحق ہے۔

اسرائیل طویل عرصے سے دعویٰ کرتا رہا ہے کہ حماس کے زیر استعمال زیادہ تر ہتھیار غزہ میں سرنگوں کے ذریعے داخل ہوتے ہیں جو مصر کی سرزمین میں داخل ہوتے ہیں۔

مصر کو اب کیا خطرہ لاحق ہے؟

رفح بارڈر کراسنگ پر اسرائیلی فوجیوں کی تعیناتی نے ایک بار پھر تاریخ کا دھار موڑا ہے۔

بین الاقوامی قانون کے پروفیسر اور مصری خارجہ امور کی کونسل کے رکن ایمن سلامہ نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ اسرائیل بغیر مصر کی اجازت کے زون ڈی میں اضافی فوجی تعینات کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

ان کی رائے میں مصر کے ساتھ بین الاقوامی سرحد پر فوجی دستوں کی اسرائیلی تعیناتی امن معاہدے کی شرائط اور اس کے حفاظتی ضابطوں کی خلاف ورزی ہے کیونکہ یہ ایک دشمنی پر مبنی عمل ہے جس سے مصر کی قومی خودمختاری کو خطرہ ہے۔

لیکن اس کے علاوہ مصر کو جنگ کے آغاز سے ہی یہ خدشہ ہے کہ اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں یہاں کے لوگوں کا رخ سینا کی طرف ہو گا۔

اسرائیلی فوج کی ان کارروائیوں میں اب تک تقریباً 35,000 غزہ کے افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں تقریباً 20 لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

غزہ میں جاری جنگ کے دوران اسرائیلی حکومت کے ارکان کے متعدد بیانات میں غزہ سے فلسطینیوں کے سینائی کی طرف منتقل ہونے کے امکان کا ذکر کیا گیا ہے۔

قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں عالمی سیاسیات کے ماہر مصطفیٰ کامل السید نے کہا ہے کہ اس طرح کے ذکر نے مصری حکومت کو نہ صرف مشکوک بنا دیا ہے بلکہ اس بات پر یقین کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت غزہ میں فلسطینیوں کو مصر کی طرف دھکیل کر ان کی موجودگی کو ختم کرنا چاہتی ہے اور یہ قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اس سے فلسطین کی سالمیت کا خاتمہ تصور کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ اب تک غزہ شہر سے خان یونس اور بعد میں رفح کی طرف آبادی کو آگے بڑھنے پر مجبور کرنے کے بعد اور سرحدی گزرگاہ کے فلسطینی حصے کو کنٹرول کرنے کے باوجود اسرائیل نے غزہ کے باشندوں کو باہر سینائی کی طرف جانے پر مجبور نہیں کیا۔

غزہ میں بسنے والے فلسطینی جو انتہائی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور قحط اور بیماری کا شکار ہیں نے بھی مصری سرزمین پر حملہ نہیں کیا، جیسا کہ انھوں نے سنہ 2008 میں عارضی طور پر اسرائیل کی طرف سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کے بعد کیا تھا۔

تاہم یہاں کے باشندوں کو جنوبی غزہ کی چھوٹی ساحلی پٹی کی طرف جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے جسے ’المواسی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے اسرائیل نے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر زون‘ قرار دیا ہے اور یہاں تک کہ انھیں کچھ اور جنوب کے علاقوں میں واپس جانے کی اجازت بھی دی ہے۔

خان یونس کے مغربی حصے میں دیر البلاح جیسے شہروں میں شاید ہی کوئی کھنڈرات باقی رہ گئے ہوں۔

اقوام متحدہ کے مطابق صرف گذشتہ ہفتے میں تقریباً 450,000 افراد کو رفح سے فرار ہونا پڑا ہے۔

خان یونس
Getty Images

اسرائیلی یہ سمجھتے ہیں کہ حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر جو حملہ کیا تھا اس کے لیے اس گروپ کے پاس اسلحہ سینائی سے غیرقانونی سرنگوں کے ذریعے آیا تھا۔ حماس کے اس حملے میں 1200 افراد ہلاک جبکہ 200 سے زائد یرغمال بنا لیے گئے۔

گیل تاشیر کی رائے میں ’اسرائیل اب کم از کم عارضی طور پر غزہ اور مصر کے درمیان سرحد کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’یہ واضح ہے کہ مصر کو زیادہ کیوں فکر لاحق ہے۔ مصر نہیں چاہتا کہ یہ مصر اور اسرائیل کے درمیان تصادم کے امکانات کے ساتھ ساتھ ایک جنگی سرحد بن جائے اور اسی لیے وہ اس قسم کے خطرات کا سبب بن رہا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اسرائیل کو روکا جائے۔

ان کے مطابق ایسے میں مصر بین الاقوامی عدالت انصاف کے سامنے اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمے سے متعلق جنوبی افریقہ کی شکایت میں شامل ہونے کے حوالے سے عندیہ دے رہا ہے۔‘

مصر کیا کر سکتا ہے؟

مصر نہ صرف اپنی سرحدی صورتحال کی وجہ سے غزہ کی جنگ میں پیش پیش ہے بلکہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی اور ملیشیا کے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے قطر کے ساتھ اہم مذاکرات کاروں میں سے ایک فریق ہے۔

یہ وہ کردار ہے جو اس نے روایتی طور پر کئی دہائیوں سے پٹی میں مسلسل جنگوں اور تنازعات میں ادا کیا ہے۔

قاہرہ میں غزہ سے پانچ سال تک حماس کے ہاتھوں اغوا کیے گئے اسرائیلی فوجی ’گیلاد شالیت‘ کی رہائی کے لیے سنہ 2011 میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں بات چیت ہوئی۔

اس سے مصر کو اسرائیل کی نظر میں ایک سٹریٹجک قدر ملتی ہے، جو قاہرہ کو ان دشمنوں کے ساتھ ایک ثالث کے طور پر شمار کر سکتا ہے جن کے ساتھ بصورت دیگر بات چیت کرنا ناممکن ہو گا۔

پروفیسر گیل تالشیر کی رائے میں مصر ’ایران کا سب سے بڑا دشمن‘ بھی ہے، جو اسے اسرائیل کا قریبی ساتھی بنا دیتا ہے۔ مصری حکومت مشرق وسطیٰ میں واشنگٹن کے اہم اتحادیوں میں سے ایک ہے۔

یہ بھی پڑھیے

مصر
Getty Images
مصر مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اہم اتحادیوں میں سے ایک ہے۔ تصویر میں، امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے مصری ہم منصب عبد الفتح السیسی۔

اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے بعد سے مصر کو امریکہ سے سالانہ اچھی خاصی فوجی امداد ملتی رہی ہے۔ 2023 میں یہ امداد 1.3 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔اس اتحاد کی شرط میں یہ شامل ہے کہ مصر کو اسرائیل کے خلاف کسی بھی ممکنہ کشیدگی سے دور رکھا جا سکے۔

واشنگٹن ویسے تو اسرائیل کا قابل اعتماد اتحادی ہے مگر غزہ میں اسرائیل کی طرف سے جاری جنگ پر امریکہ نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کی باز پرس بھی کی ہے۔ اس ماہ کے آغاز میں امریکہ نے اسرائیل جانے والے بموں کی کھیپ روک دی۔

کچھبعد مصر نے عالمی عدالت انصاف کے سامنے اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی شکایت میں شامل ہونے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔

مصری وزارت خارجہ نے اب دعویٰ کیا ہے کہ شہریوں کے خلاف منظم حملے، بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور غزہ کے باشندوں پر اپنے گھروں اور زمینوں کو چھوڑنے کے لیے دباؤ نے ’بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی‘ کی وجہ سے ایک غیر معمولی انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔ جنگ کے وقت شہری افراد کے تحفظ کے لیے سنہ 1949 کے چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

مصر نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’ایک قابض طاقت کے طور پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرے‘ اور آئی سی جے کے عارضی اقدامات پر عمل درآمد کرے، جس میں اسرائیل کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انسانی امداد کی خاطر خواہ رسائی کو یقینی بنائے اور فلسطینی عوام کے خلاف سنہ 1948 کے نسل کشی کنونشن کی کوئی خلاف ورزی نہ کرے۔

قاہرہ یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر احمد ابو الوفا نے بی بی سی عربی سروس کو بتایا کہ یہ قدم اٹھانے سے مصر جنوبی افریقہ کو قانونی اور تکنیکی مدد فراہم کر سکے گا۔

مصری پارلیمنٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کے سربراہ رکن پارلیمنٹ طارق رضوان کے مطابق، ان کے پاس آئی سی جے کے سامنے کیس میں مصر کی شرکت کی حمایت کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں۔

لیکن کیا قاہرہ اس اعلان سے آگے بڑھ سکتا ہے؟

عبرانی یونیورسٹی کے محقق کا کہنا ہے کہ کشیدگی کے باوجود ’مصر اور اسرائیل حماس کو روکنے میں باہمی دلچسپی رکھتے ہیں۔‘

گیل تالشیر کے مطابق ’دونوں کو اس بات کی فکر ہے کہ جنگ کے اگلے روز کیا ہو گا، اگر غزہ پر حکومت کرنے کا کوئی فلسطینی متبادل نہیں ہے، تو یہ ایک بار پھر حماس یا کوئی اور جہادی تحریک ہو گی، جو ان میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.