ابراہیم رئیسی کی ہلاکت کے بعد ان کی جگہ کون لے گا اور ان کے ممکنہ ’جانشین‘ کون ہیں؟

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کے بعد رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کی منظوری کے نتیجے میں ان کے معاون اول محمد مخبر دزفولی صدارتی انتخاب تک ملک کی صدارت کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے اور کم از کم 50 دن اس عہدے پر فائز رہیں گے۔

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاکت کے بعد ملکی آئین کے مطابق 50 دن میں نئے صدر کا انتخاب لازم ہے اور اس وقت تک ملک کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کی منظوری کے بعد اول نائب صدر محمد مخبر دزفولی ملک کے عبوری صدر ہوں گے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کے آرٹیکل 131 کے مطابق صدر کی موت کی صورت میں ان کا نائب یا معاون اول ’قیادت کی منظوری سے اپنا عہدہ اور ذمہ داریاں سنبھالتا ہے اور مجلس کے سپیکر، عدلیہ کے سربراہ اور نائب صدر اول پر مشتمل ایک کونسل اس بات کی پابند ہوتی ہے صدر کی موت کے بعد زیادہ سے زیادہ 50 دن کے اندر نئے صدر کے انتخاب کو ممکن بنائے۔‘

ابراہیم رئیسی کے نائب اول بننے سے پہلے محمد مخبر دزفولی تقریباً 15 سال تک اسلامی جمہوریہ کے امیر ترین اقتصادی گروپوں میں سے ایک کے سربراہ تھے۔ یہ ادارہ براہ راست اسلامی جمہوریہ کے رہبرِ اعلیٰ کی زیرِ نگرانی کام کرتا ہے اور کسی بھی ادارے کو جوابدہ نہیں ہے۔

محمد مخبر کا سفر

محمد مخبر دزفولی جولائی سنہ 1955 میں دزفول میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان مذہبی تھا اور ان کے والد شیخ عباس مخبر ایک مبلغ اور عالم تھے اور کسی زمانے میں دزفول کے عارضی امام بھی رہے تھے۔

محمد مخبر نے ابتدائی اور ہائی اسکول کی تعلیم دزفول اور اہواز میں مکمل کی۔ ایرانی میڈیا کے مطابق انھوں نے الیکٹریکل انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی تھی جبکہ مینجمنٹ میں ماسٹر ڈگری، اور مینجمنٹ اور اقتصادی ترقی کی منصوبہ بندی میں ڈاکٹریٹ کی تھی۔ اس کے ساتھ ان کے پاس بین الاقوامی قانون میں ڈاکٹریٹ کی بھی ڈگری ہے۔

1979 کے انقلاب سے پہلے ان کی سرگرمیوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں لیکن روزنامہ ہم میہن نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ وہ محمد جہاں آرا، علی شمخانی، محسن رضائی، محمد فروزندہ اور محمد باقر ذوالقدر جیسے لوگوں کے ساتھ منصورون گروپ کے رکن تھے۔ یہ گروپ خوزستان میں قائم ہوا تھا اور 1960 اور 1970 کی دہائی میں ایران کی پہلوی حکومت کے خلاف سرگرم تھا۔

خوزستان میں آئی آر جی سی یا پاسداران انقلاب گروپ کے قیام کے بعد وہ دزفول میں آئی آر جی سی کے ہیلتھ آفیسر کے طور پر مقرر ہوئے اور ایران عراق جنگ کے دوران اس عہدے پر فائز رہے۔

جنگ کے خاتمے کے بعد محمد مخبر ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے سی ای او بنے اور پھر صوبہ خوزستان کی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے ایگزیکٹو نائب صدر اور پھر اسی کمپنی کے سی ای او بن گئے۔

وہ ایک مدت تک خوزستان کے نائب گورنر بھی رہے۔

اس کے بعد وہ تہران چلے گئے اور ٹرانسپورٹ اور کامرس کے نائب جیسے اہم عہدوں پر فائز رہے۔ بعد میں انھیں ایران سیل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا وائس چیئرمین مقرر کیا گیا۔

چیف آف سٹاف

ایرانی حکومت کی بنیادوں اور مالیاتی اور اقتصادی ہیڈ کوارٹرز کی بھول بھلیوں میں مخبر کی عظیم اور فیصلہ کن ترقی اس وقت سامنے آئی جب اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر علی خامنہ ای نے انھیں جولائی 2006 میں فرمان امام کے ایگزیکٹو ہیڈ کوارٹر کا سربراہ مقرر کیا۔

یہ ہیڈکوارٹر اس وقت کے رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی کے حکم سے مئی 1989 میں ان کی وفات سے ایک ماہ قبل قائم کیا گیا تھا۔ ایگزیکٹو ہیڈکوارٹر نے اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر کے اختیار میں موجود جائیدادوں کا انتظام سنبھال لیا جس میں وہ جائیدادیں بھی شامل تھیں جو اسلامی انقلاب کے بعد ضبط کی گئی تھیں۔

یہ ہیڈکوارٹر جو اسلامی جمہوریہ کے رہبر کی نگرانی میں چل رہا ہے اور کسی اور کے سامنے جوابدہ نہیں، بے انتہا دولت کے ساتھ ایک بہت بڑا اقتصادی ادارہ بن گیا اور اس کی سرگرمیوں کا دائرہ تمام ممکنہ شعبوں تک پھیل گیا۔

جنوری سنہ 2021 میں امریکی محکمہ خارجہ نے جب فرمان امام اور اس کے اس وقت کے سربراہ محمد مخبر کے ایگزیکٹو ہیڈ کوارٹر پر پابندی لگائی تو اس نے کہا کہ یہ ’ایران کی معیشت کے تقریباً تمام شعبوں بشمول توانائی، ٹیلی کمیونیکیشن، اور مالیاتی خدمات‘ میں تعاون کرتی ہے۔

ایگزیکٹو کمانڈ ہیڈ کوارٹرز کے اثاثوں کے بارے میں مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں۔ سنہ 2013 میں خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک تحقیقاتی رپورٹ میں ایگزیکٹو ہیڈ کوارٹر کو ایک ’بڑی اقتصادی سلطنت‘ قرار دیا اور اس وقت اس کے اثاثوں کی مالیت تقریباً 95 ارب ڈالر بتائی۔

ایگزیکٹو ہیڈکوارٹر کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اسے ایک ’مافیا نظام‘ کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ یہ اس وقت تیل، گیس، پیٹرو کیمیکل، زراعت، صنعت، کان کنی، ادویات اور تعمیرات جیسے کئی شعبوں میں درجنوں کمپنیوں کا مالک ہے، اور اس کے تحت ’برکت فاؤنڈیشن‘ بھی کام کرتی ہے۔

’برکت نالج فاؤنڈیشن اینڈ انسٹی ٹیوٹ‘ ہیڈ کوارٹر کے اہم ذیلی شعبوں میں سے ایک ہے جو محمد مخبر کی صدارت کے دوران قائم کیا گیا تھا۔

امریکی وزارت خارجہ نے برکت نالج فاؤنڈیشن کے تحت قائم انسٹی ٹیوٹ کو ’سائبر اسپیس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں فرمان امام کے ایگزیکٹو ہیڈکوارٹر کے سرمایہ کاری کے ستون‘ کے طور پر شناخت کیا ہے۔

ہیڈ کوارٹر میں اپنے دور اقتدار کے آخری سالوں میں میڈیا میں محمد مخبر کا نام کورونا کی وبا کے دوران سامنے آیا تھا کیونکہ وہ ایک ویکسین کی تیاری کا منصوبہ بنا رہے تھے جسے برکت فاؤنڈیشن کی نگرانی میں نافذ کیا گیا تھا۔ فاؤنڈیشن اس وقت تک ایرانی حکومت کے طاقتور ترین مالیاتی اور اقتصادی اداروں میں سے ایک تھا۔ تاہم اس کے سربراہ ہونے کے باوجود عوام میں ان کا نام کم ہی جانا جاتا تھا۔

پس پردہ کام کرنے والے

اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر معظم کی حمایت سے ویکسین کی تیاری کا منصوبہ ایک اہم اور باوقار منصوبہ بن گیا لیکن اس کے ساتھ یہ متنازع بھی رہا۔ لیکن آخر کار اس ویکسین کی رونمائی کی گئی اور محمد مخبر کی بیٹی یہ ویکسین لینے والی پہلی شخصیت کے طور پر متعارف ہوئيں۔

محمد مخبر نے پہلے نائب صدر کے عہدے کے لیے سعید جلیلی جیسے معروف ناموں سے مقابلہ جیت لیا اور ابراہیم رئیسی کے مواخذے کے پانچ دن بعد 17 اگست کو اس عہدے پر تعینات ہوئے۔

انھوں نے فرمان امام کے ایگزیکٹو ہیڈکوارٹر میں جس مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں کو اپنی سرگرمیوں کے لیے ایک نمونہ بنایا تھا، حکومت میں آتے ہی انھوں نے اسی نظریے کے ساتھ معیشت کی قیادت سنبھالی اور اس کے سربراہ بن گئے۔

ابتدائی چند مہینوں میں انھوں اپنی طاقت اور معاشی فیصلوں سے حریفوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ ان میں سب سے معروف محسن رضائی تھے۔ محسن انتخابات میں ابراہیم رئیسی کے مخالف تھے اور انھوں نے ایران کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے نظریاتی اور معاشی حل پیش کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

نئے صدر نے مسٹر رضائی کو حکومت کا اقتصادی نائب مقرر کیا لیکن جلد ہی انھیں نائب کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور عملی طور پر فیصلہ سازی کے میدان سے بھی ہٹا دیا گیا۔

بہت سے لوگوں نے اس کہانی اور اسی طرح کے واقعات کو محمد مخبر کی پس پردہ لابنگ کا نتیجہ سمجھا، جنھوں نے ایگزیکٹو سٹاف کے سربراہ کے طور پر اقتدار کی اعلیٰ ترین سطحوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے تھے۔

تاہم ابراہیم رئیسی کی حکومت کو شروع ہوئے ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ سیاسی بیان بازی شروع ہو گئی اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انتخابی وعدوں کے باوجود معاشی صورتحال بگڑتی گئی جس نے مخالفت کی ہوا کو بلند کر دیا۔

11ویں پارلیمنٹ کے رکن اور استحکام محاذ کے رکن جاوید کریمی قدوسی نے جولائی 2022 میں اپنے ٹوئٹر پر لکھا: ’مسٹر مخبر میں اس عہدے کے لیے ضروری اہلیت نہیں ہے‘ اور متنبہ کیا کہ ’ان کا رہنا ایک دن تو کیا ایک گھنٹہ بھی نقصاندہ ہے۔‘

ستمبر سنہ 2022 میں محمد مخبر کو اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر کے حکم سے ایکسپیڈنسی کونسل کا رکن بنا دیا گیا۔

اسی سال جنوری میں تینوں طاقتوں کے سربراہان کے اجلاس میں ایک نادر تقریب میں شرکت کرنے والے محمد مخبر کی تصاویر شائع کی گئیں۔ بہت سے لوگوں نے اس ملاقات میں ان کی تصویروں کی اشاعت کو ان کے ناقدین کے لیے ایک پیغام کے طور پر دیکھا۔

اس کے بعد سے پہلے نائب صدر ایران کی معیشت میں ابتری کے باوجود اپنے عہدے پر برقرار ہیں۔

جمہوریہ ایران کے صدر کی وفات سے محمد مخبر کو ایک نیا اور غیر متوقع موقع ملا ہے جو قبل از وقت انتخابات کے انعقاد اور اگلے صدر کی تقرری تک جاری رہے گا۔ اب وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے عبوری سربراہ ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.