ترکی کے ڈرون نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کا ملبہ کیسے تلاش کیا؟

یہ ترکی کا بیراکتر اکنسی ڈرون تھا جس نے کئی گھنٹے کی تلاش کے بعد پیر کی صبح ایران کے شمال مغرب میں ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے ملبے کی نشاندہی کی۔ یہ بنا پائلٹ کے چلنے والا مسلح ڈرون ہے جس میں 40 ہزار فٹ کی بلندی تک پرواز کی صلاحیت موجود ہے۔

اتوار کی رات سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کی ’ہارڈ لینڈنگ‘ کی خبریں آنے کے بعد کئی گھنٹے تک متعدد سرچ اور ریسکیو ٹیمیں جائے حادثہ اور ہیلی کاپٹر کی تلاش میں جنگلات اور پہاڑوں سے گھرے علاقے کا چپہ چپہ چھان رہی تھیں۔ تاہم شدید دھند اور بارش کے باعث امدادی ٹیموں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ حدِ نگاہ صرف پانچ میٹر رہ گئی تھی۔

ایرانی حکام کے مطابق یہ حادثہ اتوار کو صوبہ مشرقی آذربائیجان کے علاقے جلفا میں اس وقت پیش آیا جب صدر رئیسی آذربائیجان اور ایران کی سرحد پر ایک ڈیم کا افتتاح کرنے کے بعد تبریز واپس جا رہے تھے۔ حادثے کا شکار ہونے والے ہیلی کاپٹر پر ایرانی صدر کے ہمراہ ملک کے وزیرِ خارجہ بھی سوار تھے۔

ٹیک آف کے چند منٹ بعد یہ ہیلی کاپٹر شدید دھند اور بارش کے دوران جوفا میں گر کر تباہ ہو گیا۔ ہارڈ لینڈنگ کی خبریں آنے کے ساتھ ہی ایران نے ہمسائیہ ممالک ترکی، عراق اور آذربائیجان کی مدد سے ایک بڑے سرچ آپریشن کا آغاز کیا۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق ہلالِ احمر کی ہیڈ آف آپریشنز رضیہ علیشوندی نے بیان دیا کہ خراب موسم کی وجہ سے ٹیموں کو مزید آگے بڑھنے میں دشواری کا سامنا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سرچ آپریشن میں ڈرون اور ہیلی کاپٹروں کا استعمال بھی ناممکن ہے۔

bbc
BBC

اس دوران یورپی یونین نے اعلان کیا کہ اس نے ایران کی درخواست پر صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کی تلاش میں مدد کے لیے اپنی میپنگ سروس، جسے ’کوپرنیکس‘ پکارا جاتا ہے، کو فعال کر دیا ہے۔ کوپرنیکس سسٹم ’سیٹلائٹ امیجری‘ کے ذریعے میپنگ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

رات گئے ہلالِ احمر ہیڈکوارٹر نے اعلان کیا کہ ترکی کے ڈرون نے دو ’ہاٹ سپاٹس‘ کا پتا لگایا ہے۔ پاسدارانِ انقلاب کے ایک کمانڈر نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔

ترکی کی طرف سے بھیجا گیا یہ ڈرون ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے کے مقام کو ڈھونڈ رہا تھا۔ علاقے کو سکین کرنے کے بعد اس ڈرون نے ’تھرمل سورس‘ معلوم کیا اور اس مقام کی معلومات ایرانی حکام کے ساتھ شیئر کی گئیں۔

یہ ترکی کا بیراکتر اکنسی ڈرون تھا جس نے کئی گھنٹے کی تلاش کے بعد پیر کی صبح ایران کے شمال مغرب میں ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے ملبے کی نشاندہی کی۔ یہ بنا پائلٹ کے چلنے والا مسلح ڈرون ہے جس میں 40 ہزار فٹ کی بلندی تک پرواز کی صلاحیت موجود ہے۔

گذشتہ شب ترکی کی وزارتِ دفاع نے بتایا کہایرانی حکام کی طرف سے ہماری وزارت خارجہ کے ذریعے کی گئی درخواست کی بنیاد پر، ایک اکنسی یو اے وی اور ایک نائٹ ویژن کوگر ہیلی کاپٹر کو ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کی تلاش میں حصہ لینے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تلاش میں مدد کے لیے 32 کوہ پیماؤں پر مشتمل ٹیم اور چھ امدادی گاڑیاں بھی بھیجی گئیں۔

ترکی کے وزیر ٹرانسپورٹ عبدالقادر یورا اوغلو کا کہنا ہے کہ ’جس ہیلی کاپٹر میں ایران کے صدر اور وزیر خارجہ سفر کر رہے تھے، اس کا سگنل سسٹم آن نہیں تھا یا اس کے پاس ایسا نظام نہیں تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ فضائی حادثات کے حوالے سے ترکی میں ایک ہنگامی ریسرچ اور کوآرڈینیشن سینٹر قائم ہے اور ایرانی حدود اس کے دائرہ کار میں آتی ہے۔

انھوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم نے ہیلی کاپٹر کو سگنل کے لیے چیک کیا، لیکن بدقسمتی سے غالباً سگنل سسٹم بند تھا یا ہیلی کاپٹر میں وہ سگنل سسٹم تھا ہی نہیں۔ ہم ان کا پتہ نہیں لگا سکے۔‘

وزارت کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ گزشتہ رات انھیں ایران سے ایک کال موصول ہوئی تھی، جس میں سگنل کا پتہ لگانے میں مدد کی درخواست کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے سگنل تلاش کرنے کی کوشش کی (جیسا کہ ہم ہر درخواست کے جواب میں کرتے ہیں) لیکن ہمیں کوئی سگنل نہیں ملا۔‘

بیراکتر اکنسی ڈرون کی خصوصیات کیا ہیں اور اس نے ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کا ملبہ کیسے ڈھونڈا؟

بیراکتر اکنسی نے ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کا سراغ کیسے لگایا یہ جاننے کے لیے اس جدید ڈرون کی خصوصیات جاننا ضروری ہیں:

  • بیراکتر اکنسی ایک بنا پائلٹ کے چلنے والا جدید ترین مسلح ڈرون ہے جسے ترکی کی دفاعی کمپنی بائیکر ڈیفینس نے بنایا ہے۔
  • بیراکتر ڈرون بنانے والی کمپنی بائیکر کی سربراہی دو بھائی کر رہے ہیں- چیف ایگزیکٹو حلوک بیراکتر اور ان کے بھائی سیلکوک، چیف ٹیکنالوجی آفیسر، جن کی شادی صدر اردوگان کی بیٹی سے ہوئی ہے۔
  • دفاعی کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق بیراکتر اکنسی ایک سٹریٹجک کلاس پلیٹ فارم ہے جو اپنی منفرد ساخت اور ونگ ڈیزائن کے ساتھ مختلف پے لوڈ لیجانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
  • بیراکتر اکنسی دوہری مصنوعی ذہانت کے avionics سے لیس ہے جو سگنل پروسیسنگ، سینسر فیوژن اور حقیقی وقت میں حالات سے متعلق آگاہی کے لیے معاون ہے۔
  • یہ ڈرون بیراکتر ٹی بی 2 ڈرون ٹیکٹیکل یو اے وی کا دوسرا ورژن ہے مگر اپنی کلاس کے سب سے زیادہ طاقتور یو اے ویز میں سے ایک ہے۔ اس کا ٹیک آف وزن چھ ہزار کلوگرام تک ہے اور یہ بیک وقت24 گھنٹے اور 40 ہزار فٹ کی بلندی تک پرواز کر سکتا ہے۔
  • اس ڈرون میں دو ٹربو پروپ انجن ہیں اور اس کے پروں کا پھیلاؤ 20 میٹر تک ہے جو اسے وسیع پیمانے پر کارروائیوں کے لیے ضروری طاقت اور برداشت فراہم کرتا ہے۔
  • اس ڈرون کو ائیر ٹو گراؤنڈ اور ائیر ٹو ایئر حملوں کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

https://twitter.com/anadoluagency/status/1792348729858768951

  • اس ہائی ٹیک بنا پائلٹ والے ڈرون کو لڑاکا طیاروں کی مدد اور مختلف آپریشنز کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
  • یہ ڈوئل یا دوہری سیٹلائٹ کمیونیکیشن سسٹم، ایئر ٹو ایئر ریڈار، الیکٹرانک سپورٹ سسٹم، تصادم سے بچانے والے ریڈار اور مصنوعی یپرچر ریڈار سے لیسڈرون ہے۔
  • اسے بنانے والی کمپنی کے مطابق یہ ڈرون ہر وہ کام کر سکتا ہے جو ایک لڑاکا طیارہ کر سکتا ہے۔
  • اس کا نیویگیشن سسٹم اندرونی سینسر فیوژن کو استعمال کرتا ہے لہذا اسے کام کرنے کے لیے جی پی ایس کی ضرورت نہیں ہے۔
  • بیراکتر اکنسی ڈرون ترکی کی ڈرون ٹیکنالوجی کی صلاحیتوں میں ایک بڑی پیش رفت کی نشاندہی کرتا ہے۔

اسے بنانے والی کمپنی کے ایک اہلکار نے مڈل ایسٹ آئی کو بتایا کہ اکنسی اونچائی پر پرواز کرنے کی صلاحیتوں اور تھرمل ٹیکنالوجی کی بدولت سخت موسم والے خطوں اور شدید دھند والے موسم میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ترکی کی انادلو ایجنسی کے مطابق ایران کی جانب سے رات 8 بجے مدد کی درخواست موصول ہوئی جسے وزارت دفاع کو بھیجا گیا۔ اس کے بعد کوگر ہیلی کاپٹر فوری طور پر ترکی کے مشرقی صوبے دیار باقر سے ایران کی سرحد سے متصل وان صوبے کی طرف چلا گیا۔

وزارت دفاع نے بیرون ملک ڈرون کے استعمال کے لیے صدارتی دفتر سے رات 10:20 پر منظوری حاصل کی۔ ایران کی جانب سے اس پیشکش کو قبول کرنے پر ترک ڈرون نے رات 11:30 پرترکی کے مشرقی بیٹ مین صوبے سے اڑان بھری۔

یہ ڈرون جو کم از کم 361 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچنے اور کم رفتار سے علاقے کو مؤثر طریقے سے سکین کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ترکی کے شہر وان سے ایرانی سرحد عبور کر کے پیر کی شب 12:45 پر جائے حادثہ پر پہنچا۔

مقامی وقت کے مطابق صبح تقریباً 2:36 پر اکنسی نے پہلے ہیٹ سگنل کی اطلاع دی اور یہ معلومات فوری طور پر ایرانی حکام کے ساتھ شئیر کی گئیں جس کے بعد امدادی کارکن صبح تقریباً 6 بجے ملبے تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکے۔

ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے اے اے کا کہنا ہے کہ لاکھوں افراد نے فلائٹ راڈار 24 ایپلی کیشن پر ڈرون کے روٹ کو براہ راست دیکھا۔ اسی ایجنسی نے ’ڈرائنگ‘ کی ایک ویڈیو جاری کی جس کے ساتھ ایک تصویر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

ترکی کے ڈرون دنیا بھر کے فوجی تنازعات میں ’گیم چینجر‘

ترکی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ڈرون کی پیداوار میں ایک خاص مقام رکھتا ہے اور اپنی اس صنعت پر خاصی توجہ دے رہا ہے۔ صدر رجب طیب اردوان کے داماد ڈرون بنانے والی اس صنعت سے وابستہ ہیں، جو دفاعی شعبے کے لیے کام کرتی ہے۔

ترکی سنہ 2019 سے ہی یوکرین کو درجنوں بیراکتر ٹی بی 2 مسلح ڈرونز فروخت کر چکا ہے۔ درحقیقت، دنیا بھر میں ہونے والے کئی دوسرے تنازعات کے دوران بھی ترکی کے ڈرونز کی اہمیت رہی ہے۔

ترکی میں مقیم ایک آزاد دفاعی تجزیہ کار اردا مولودوغلوکا کہنا ہے کہ ’انقرہ کی حکومت نے گذشتہ 20 برسوں کے دوران ایک اہم ڈرون فورس تیار کی ہے۔‘

’وہ ترکی کے اندر اور سرحد پار (کرد علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کے خلاف سنہ 1990 کی دہائی کے وسط سے) سکیورٹی آپریشنز میں مؤثر طریقے سے اپنے ڈرونز کا استعمال کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ملک کی دفاعی صنعت کو ترقی دینے میں ڈرون ٹیکنالوجی کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔ آپریشنل اور پیداواری صلاحیت کے لحاظ سے، ترکی اسرائیل کو چھوڑ کر خطے میں بہترین پوزیشن میں ہے۔‘

ہم ترکی کے ڈرون بنانے والوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

ترکی میں ڈرونز (UAVs) کے دو اہم مینوفیکچررز ہیں۔ بیکر ڈیفنس کمپنی بیراکتر ٹی بی 2 اور بیراکتر اکنجی ڈرون تیار کرتی ہے جن کی مانگ زیادہ ہے۔

کمپنی کے چیف ٹیکنیکل آفیسر سلجوق بیراکتر کے ترک صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ قریبی خاندانی تعلقات ہیں کیونکہ وہ ترک صدر کے داماد بھی ہیں۔

ڈررون بنانے والی دوسری بڑی کمپنی ترکش ایرو سپیس انڈسٹریز ہے، جو ’ٹی اے آئی انکا‘ اور ’ٹی اے آئی اکسنگور‘ بناتی ہے۔

اردا مولودوغلو کے مطابق، ترکی کی مسلح افواج اور سکیورٹی ایجنسیاں ان کے تیار کردہ 150 سے زیادہ ڈرونز چلاتی ہیں۔ ان کے علاوہ وہ بڑی تعداد میں چھوٹے نگرانی کرنے والے ڈرونز‘ کا بھی استعمال کرتے ہیں۔

کن ممالک کے پاس ترک ساختہ ڈرونز ہیں؟

ڈرون کی فروخت کے معاملے میں ترکی کے گاہکوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کے برآمدی اعداد و شمار میں اس کے تجارتی سودوں میں فروخت ہونے والے ڈرونز کی صحیح تعداد کا کوئی خاص حوالہ شامل نہیں ہے۔

لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ 15 سے زیادہ ممالک نے ترک ساختہ بیراکتر اور ٹی آے آئی ڈرونز کا آرڈر دیا ہے۔ بیراکتر ٹی بی 2 ڈرونز شام اور لیبیا کے تنازعات کے ساتھ حال ہی میں ناگورنو قرہباخ میں مؤثر اور کارگر ثابت ہوئے ہیں۔ اور اس کے بعد سے خاص طور پر ان کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔

مؤخر الذکر لڑائی آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان کئی روز تک جاری رہی اور آذربائیجان کی افواج نے ترک ساختہ ڈرونز کے ذریعے آرمینیا کے فوجیوں، فوجی گاڑیوں، توپ خانے اور فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنایا، جس سے انھیں کچھ متنازع علاقے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے میں مدد ملی۔

سنہ 2021 میں پولینڈ کے وزیر دفاع نے کہا تھا کہ وہ ترکی سے 24 مسلح ڈرونز خریدیں گے، اس طرح پولینڈ ایسا کرنے والا نیٹو کا پہلا رکن ملک بن گیا۔

افریقہ بھی ترک ڈرونز کے لیے ایک بڑی منڈی ہے۔

اردا میولودوغلوکہتے ہیں: ’ایسا لگتا ہے کہ چینی مینوفیکچررز کے مقابلے کے لیے ترکی خاص طور پر افریقی مارکیٹ میں اہم مدمقابل ہے۔ ترکی کے کم قیمت والے ڈرونز نیٹو کی معیاری کارکردگی اور اس کے مسلح ڈرونز کے معیار کے ساتھ آتے ہیں۔‘

مراکش، الجزائر، روانڈا، نائیجیریا اور ایتھوپیا نے ترک ساختہ ڈرونز میں دلچسپی ظاہر کی۔ امریکی حکام نے ترکی کی جانب سے ایتھوپیا کو ڈرونز فروخت کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

لیکن ترکی اس سے قطع نظر اپنے فوجی ہارڈویئر کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش کا انتخاب کر سکتا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار مولودوغلو کا کہنا ہے کہ ’ڈرون کی فروخت (ترکی کو) مسلسل فوجی اور صنعتی تعلقات کو قائم کرنے کے قابل بنائے گی، جس کے نتیجے میں ترکی کو اس سے ڈرونز حاصل کرنے والے ملک میں اور اس کے ارد گرد اپنا فوجی، سفارتی اور اقتصادی اثر و رسوخ بڑھانے میں مدد ملے گی۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.