عالمی فوجداری عدالت سے اسرائیلی وزیراعظم اور حماس کے رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کا کیا مطلب ہو گا؟

اس وارنٹ کی وجہ سے نتن یاہو ان سربراہان میں شامل ہو جائیں گے جن میں روسی صدر ولادیمیر پوتن اور لیبیا کے سابق سربراہ معمر قذافی کا نام بھی آتا ہے۔ روسی صدر پوتن پر یوکرینی شہریت رکھںے والے بچوں کو غیر قانونی طور پر روس بھجوانے کے الزام کے تحت وارنٹ گرفتاری کا سامنا ہے جبکہ کرنل قذافی کی ہلاکت سے پہلے عام شہریوں کے قتل کے الزام میں ان کے گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری ہوئے تھے۔
نتن یاہو
Reuters

اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی جانب سے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں ممکنہ طور پر وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کی خبر پر سخت ردعمل دیا ہے۔

اسرائیل کے سب سے زیادہ اقتدار میں رہنے والے وزیر اعظم نے اپنی گرفتاری کے لیے دائر درخواست کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’ایک غیر منطقی اور غلط فیصلہ‘ قرار دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ ’جمہوری اسرائیل‘ کا موازانہ ’قتل عام کرنے والی تنظیم حماس سے کیا جا رہا ہے۔‘

عبرانی میں جاری ایک بیان میں انھوں نے سوال کیا کہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی ’اسرائیل اور حماس کا موازنہ کرنے کی جرات کیسے ہوئی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ یہ موازنہ کرنا ’حقائق کو مسخ کرنے کے برابر ہے۔‘

آئی سی سی کے چیف پراسیکوٹر کریم خان پر ایک سخت حملے میں اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے چیف پراسکیوٹر جدید دور کے سخت یہود مخالف ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کریم خان اس نازی جرمنی کے جج کی طرح ہیں جس نے یہودیوں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا اور ہولوکاسٹ ہونے دیا۔ ان کا اسرائیل کے وزیر اعظم اور وزیر دفاع کے خلاف وارنٹ گرفتاری حاصل کرنے کا فیصلہ ’بے دردی سے دنیا بھر میں موجود یہود مخالفت کی آگ پر تیل چھڑکنے‘ کے مترادف ہے۔

ان کے انگریزی زبان میں جاری اس ویڈیو بیان کو ان کی دفتر سے جاری کیا گیا اور وہ انگریزی زبان میں ایسے بیانات اس وقت دیتے ہیں جب وہ چاہتے ہیں کہ یہ امریکہ میںمتعلقہ لوگوں تک پہنچے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے بیان کو امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی دہراتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کا کوئی موازانہ نہیں کیا جا سکتا۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وارنٹ گرفتاری کے لیے درخواست دینا ’اشتعال انگیز ہے۔ اسرائیل اور حماس میں کوئی برابری نہیں۔‘

اسرائیلی وزیر اعظم کی طرف سے جس غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور جو ردعمل اسرائیلی سیاسی قیادت کی طرف سے آیا ہے اس کی وجہ برطانوی کنگز کونسل کے وکیل اور آئی سی سی کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان کے احتیاط سے مرتب کردہ ایک قانونی بیان ہے۔

انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) کے چیف پراسیکوٹر کریم خان کا کہنا ہے کہ بنیامن نیتن یاہو اور ان کے وزیر دفاع یوو گالانٹ نے غزہ میں مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم سرزد کیے ہیں اور اس بات پر یقین کرنے کی معقول وجوہات ہیں۔

اس بیان کے ہر لفظ اور سطر میں انھوں نے حماس کے تین اہم رہنماؤں اور اسرائیلی وزیر اعظم اور وزیر دفاع پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔

کریم خان کی جانب سے وارنٹ گرفتاری کی درخواست کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ بین الاقوامی قوانین اور مسلح تصادم کے قوانین کا اطلاق تمام فریقوں پر ہوں، چاہے وہ کوئی بھی ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’نہ کوئی سپاہی، نہ کمانڈر اور نہ ہی سویلین رہنما، کوئی بھی بنا کسی روک ٹوک کے کام نہیں کر سکتا۔ قانون لوگوں کے لیے مختلف نہیں ہو سکتا، اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم خود اس کی تباہی کے ذمہ دار ہوں گے۔‘

حماس
Getty Images

یہ دونوں فریقوں کے طرز عمل کو بین الاقوامی قانون کے مطابق پرکھنے کا فیصلہ ہے جس سے نہ صرف اسرائیل بلکہ حماس میں بھی بہت غصہ پایا جا رہا ہے۔

حماس نے بھی ان الزامات کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی سی سی کے پراسیکوٹر ’مظلوم کا موازانہ ظالم سے کر رہے ہیں۔‘ اس کا کہنا ہے کہ ’ہزاروں جرائم کر گزرنے کے بعد اسرائیلی قیادت کے وارنٹ گرفتاری کی درخواست سات ماہ تاخیر سے آئی ہے۔‘

آئی سی سی کے پراسیکوٹر کریم خان نے سوائے یہ کہنے کے کہ دونوں فریقوں نے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے، دونوں فریقوں کا کوئی براہ راست موازنہ نہیں کیا ہے۔

وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ حالیہ جنگ ’اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ایک بین الاقوامی مسلح تصادم، اور اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک غیر بین الاقوامی مسلح تصادم‘ کے تناظر میں ہے۔

عالمی عدالت فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر دیکھتی ہیں کیونکہ اقوام متحدہ میں اس کی ایک مبصر کی حیثیت ہے۔ جس کا مطلب ے کہ وہ آئی سی سی کو بنانے والی روم قانون پر دستخط کرنے کا اہل ہے۔

اسرائیل کی مرکزی انسانی حقوق کی تنظیم بسلم کا کہنا ہے کہ یہ وارنٹ اسرائیل کی تیزی سے اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کرتا ہے۔

اس کا مزید کہنا ہےکہ ’بین الاقوامی برادری بھی اسرائیل کو یہ عندیہ دے رہی کہ وہ اب مزید اپنی تشدد، قتل و غارت اور تباہی کی پالیسی جاری نہیں رکھ سکتا‘

انسانی حقوق کے کارکن بہت عرصے سے اس بات کی شکایت کر رہے ہیں کہ امریکہ کے زیر قیادت طاقتور مغربی ممالک نے اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور یہ ان ممالک پر پابندی لگاتے اور مذمت کرتے ہیں جو ان کا ساتھ نہیں دیتے۔

ان کا ماننا ہے کہ آئی سی سی پراسیکوٹر اور ان کی ٹیم کی جانب سے جو قدم اٹھایا گیا ہے بہت عرصے سے اس کی ضرورت تھی۔

کریم خان کا کہنا ہے کہ حماس کے تین مرکزی رہنماؤں نے بھی جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن میں ’قتل، اغوا، ریپ اور تشدد شامل ہے۔‘

ان میں غزہ میں حماس کے رہنما یحیی سنوار، القسام بریگیڈ کے کمانڈر محمد دیف اور حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ شامل ہیں۔

اس کی تحقیقات کے حصے کے طور پر کریم خان اور ان کے ٹیم نے سات اکتوبر کے حملے کے متاثرین سے انٹرویو کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس نے خاندان، والدین اور اولاد کے رشتہ کو ظلم اور بربریت کا نشانہ بنا کر بنیادی انسانی اقدار پر حملہ کیا ہے۔

کریم خان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے پاس دفاع کا حق ہے لیکن یہ جرائم اس کو یہ حق نہیں دیتے کہ وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی پاسداری نہ کرے۔

انھوں نے کہا کہ ایسا کرنے میں ناکامی نتن یاہو اور اسرائیلی وزیر دفاع کے گرفتاری وارنٹ کا جواز ہیں جن کے جرائم میں جنگی ہتھیار کے طور پر عام شہریوں کو بھوکا رکھنا، قتل اور عام شہریوں پر جان بوجھ کر حملے شامل ہیں۔

حماس کی جانب سے سات اکتوبر کو ہونے والے حملے کے ردعمل میں اسرائیلی کارروائی کے آغاز سے ہی امریکی صدر جو بائیڈن نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ بہت بڑی تعداد میں فلسطینی شہری ہلاک ہو رہے ہیں اور انفراسٹرکچر تباہ کیا جا رہا ہے۔

تاہم ایک قریبی اتحادی، جس کی ہمیشہ بائیڈن نے حمایت کی ہے، کے ساتھ تعلقات کو قائم رکھنے کی کوشش میں امریکی صدر اور ان کی انتظامیہ نے کھل کر عوامی سطح پر بات نہیں کی۔

کریم خان نے لیکن اپنی بات کھل کر کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگی مقاصد حاصل کرنے کے لیے مجرمانہ طریقے اپنائے جن میں جان بوجھ کر موت، قحط اور عام شہریوں کو سنجیدہ طریقے سے زخمی کرنا شامل ہیں۔

آئی سی سی کے جج اب اس بات پر غور کریں گے کہ آیا گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا جائے یا نہیں۔ ایسا ہونے کی صورت میں آئی سی سی کے روم قوانین پر دستخط کرنے والی ریاستوں پر لازمی ہو گا کہ وہ موقع ملنے پر ان افراد کو گرفتار کریں۔ تاہم اسرائیل سمیت روس، چین اور امریکہ اس قانون پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل نہیں ہیں۔

GAZA
Getty Images

آئی سی سی کی جانب سے ماضی میں یہ فیصلہ دیا جا چکا ہے کہ اس کے پاس جنگی جرائم میں ملوث افراد کو سزا دینے کا قانونی اختیار موجود ہے کیوں کہ فلسطینی اتھارٹی اس قانون پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہے۔

اگر گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے گئے تو اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو گرفتاری کا خطرہ مول لیے بغیر مغربی ممالک نہیں جا پائیں گے۔

ادھر برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک نے کہا ہے کہ ’آئی سی سی کا عمل لڑائی میں وقفہ حاصل کرنے۔ یرغمالیوں کو رہا کروانے اور مدد پہنچانے کی کوششوں میں مددگار نہیں ہے۔‘ لیکن اگر گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوتے ہیں تو پھر برطانیہ ان پر عملدرآمد کرنے کا پابند ہو گا۔ برطانیہ یہ کوشش کر سکتا ہے کہ اس بات کا دعوی کرے کا نتن یاہو کو سفارتی استثنی حاصل ہے۔

نتن یاہو اور اسرائیلی وزیر دفاع کے لیے امریکہ ایک الگ معاملہ ہو گا کیوں وائٹ ہاوس کا ماننا ہے کہ آئی سی سی کو اس تنازعے میں فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے لیکن یہ موقف جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی میں غزہ جنگ سے جڑے اختلافات کو مذید گہرا کر سکتا ہے۔

پروگریسو اراکین پہلے ہی آئی سی سی کی کارروائی کا خیر مقدم کر چکے ہیں۔ ڈیموکریٹ پارٹی میں اسرائیل کے حامی ریپبلکن جماعت کی ایسی کوششوں کی حمایت کر سکتے ہیں کہ آئی سی سی حکام پر پابندیاں عائد کرنے یا انھیں امریکہ میں داخل ہونے سے روکنے کا قانون منظور کیا جائے۔

جب ممکنہ فیصلے کی افواہوں کا آغاز ہوا تو ریپبلکن جماعت کے اراکین سینیٹ نے کریم خان اور ان کے عملے کو اس طرح کی دھمکی دی جیسی کسی مافیا پر بنی فلم میں ہی سننے کو ملتی ہے۔

’اسرائیل کو ہدف بنایا تو ہم تمھیں ہدف بنائیں گے۔۔۔ تمھیں خبردار کر دیا گیا ہے۔‘

اسرائیلی وزیر دفاع گالانٹ بھی مرضی سے سفر نہیں کر سکیں گے۔ انھوں نے غزہ کے محاصرے کا اعلان کرتے ہوئے جن الفاظ کا استعمال کیا تھا انھیں اسرائیلی کارروائی کے ناقدین بار بار دہراتے ہیں۔

گالانٹ نے کہا تھا کہ ’میں نے غزہ کے مکمل محاصرے کا حکم دیا ہے۔ بجلی، خوراک، ایندھن، سب بند کر دیا گیا ہے۔۔۔ ہم انسانی جانوروں سے لڑ رہے ہیں اور ہم اس کو ذہن نشین کرتے ہوئے عمل کریں گے۔‘

کریم خان نے اپنے بیان میں لکھا کہ ’اسرائیل نے جان بوجھ کر منظم طریقے سے غزہ کے تمام حصوں میں عام شہریوں کو ان اشیا سے محروم رکھا جو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ غزہ کے کئی حصوں میں قحط کی صورت حال ہے اور دیگر علاقوں میں اس کا واضح امکان موجود ہے۔

اسرائیل اس بات کی تردید کرتا ہے کہ غزہ میں قحط کی صورت حال ہے اور اس نے دعوی کیا ہے کہ خوراک کی کمی عسکری محاصرے کی وجہ سے نہیں بلکہ حماس کی چوری اور اقوام متحدہ کی نااہلی سے پیدا ہوئی۔

دوسری جانب اگر اسماعیل ہنیہ کی گرفتاری کا وارںت جاری ہوتا ہے، جو حماس کی سیاسی شاخ کے سربراہ ہیں، تو ان کو عرب رہنماوں سے ملنے سے قبل سوچنا پڑے گا۔ امکان ہے کہ ایسی صورت حال میں وہ زیادہ وقت قطر میں ہی گزاریں گے جو روم قانون پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل نہیں ہے جس کے تحت آئی سی سی کو قائم کیا گیا تھا۔

حماس کے دیگر دو رہنما، یحیی سنوار اور محمد دیف کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ غزہ میں ہی موجود ہیں۔ ان پر شاید اس وارنٹ سے زیادہ دباو نہیں پڑے گا۔ اسرائیل سات ماہ سے ان کو ہلاک کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس وارںٹ کی وجہ سے نتن یاہو ان سربراہان میں شامل ہو جائیں گے جن میں روسی صدر ولادیمیر پوتن اور لیبیا کے سابق سربراہ معمر قذافی کا شام بھی آتا ہے۔ روسی صدر پوتن پر یوکرینی شہریت رکھںے والے بچوں کو غیر قانونی طور پر روس بھجوانے کے الزام کے تحت وارنٹ گرفتاری کا سامنا ہے جبکہ کرنل قذافی کی ہلاکت سے پہلے عام شہریوں کے قتل کے الزام میں ان کے گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری ہوئے تھے۔

نتن یاہو کے لیے اس فہرست میں شامل ہونا اچھا نہیں کیوں کہ ان کا ملک جمہوری ہونے پر فخر کرتا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.