کرغزستان میں پاکستانی طلبہ پر حملہ اور فیک نیوز: ’ریپ اور قتل کی جھوٹی خبروں‘ نے کشیدگی کو کیسے بڑھایا؟

بی بی سی نے 17 مئی کو بشکیک میں اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر لگائی گئی پوسٹس کا جائزہ لیا ہے اور کرغزستان کے مقامی صحافیوں اور بشکیک میں موجود پاکستانیوں سمیت ان کے اہلِخانہ سے اس بارے میں تفصیل سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ فیک نیوز نے کیسے اس معاملے کی سنگینی اور اس سے متاثرہ افراد کی پریشانی اور بے یقینی میں اضافہ کیا۔

کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک کے انٹرنیشنل سکول آف میڈیسن کے ایک ہاسٹل میں موجود چھٹے سیمیسٹر کی پاکستانی طالبہ ورشا اپنی سہیلیوں کے ہمراہ ہاسٹل میں توڑ پھوڑ کی آوازیں سن کر کمرے میں سہم کر بیٹھی ہوئی تھیں۔

اپنے کمرے کے دروازے پر شور آتا دیکھ کر انھوں نے پاکستان میں موجود اپنی چھوٹی بہن کو ٹیکسٹ پیغام بھیجا: ’شاید یہ میرا آخری میسیج ہو۔‘

ورشا کے پاس اس کمرے میں سوشل میڈیا اور دیگر گروپس میں موجود معلومات کے علاوہ کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جس سے وہ یہ جان سکتیں کہ باہر اصل میں کیا ہو رہا ہے۔

ہزاروں میل دور صوبہ سندھ کے شہر عمر کوٹ میں موجود ان کے والد خوشحال داس کے پاس بھی اس لمحے میں اپنی بیٹی کی خوفزدہ آواز اور سوشل میڈیا پر موجود معلومات کا ہی سہارا تھا جہاں ناصرف متعدد پاکستانی طلبہ کے قتل بلکہ لڑکیوں کے مبینہ ریپ کی خبریں بھی شیئر کی جا رہی تھیں۔

خوشحال داس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ورشا تک ایسی خبریں پہنچ رہی تھیں کہ چار سو، پانچ سو لوگوں کو مارا گیا ہے۔۔۔ اسے لگا کہ جو لوگ اوپر آ رہے ہیں ان کے ہاتھ میں بندوقیں ہیں۔‘

اپنی زندگی میں ہجوم کے ہاتھوں تشدد کے کئی واقعات دیکھنے والے خوشحال داس سوچ رہے تھے کہ ’پُرتشدد ہجوم کی اپنی نفسیات ہوتی ہے، کب کیا کر دیں کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘

ان لمحات میں ورشا اور ان کے والد دونوں ہی خوف اور پریشانی میں مبتلا تھے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔

لیکن کچھ دیر بعد خوشحال داس کو ورشا سے اچھی خبر ملی۔ ’حملہ آوروں سے اس کمرے کا دروازہ نہیں ٹوٹا جس میں ورشا اپنی چار دوستوں کے ساتھ پناہ لیے ہوئے تھی۔‘

بعد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے وہاں پہنچ کر انھیں ریسکیو کیا اور اب وہ بحفاظت پاکستان اپنے والدین کے پاس پہنچ چکی ہیں۔

ورشا اور ان کے والد کی طرح گذشتہ جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب بشکیک میں موجود پاکستانیوں اور پاکستان میں موجود ان کے اہلِ خانہ نے کافی وقت شدید غیر یقینی اور کرب میں گزارا۔

دونوں کے درمیان اس سینکڑوں میل کے فاصلے کو دور کرنے کے لیے جو مواصلاتی ذرائع دستیاب تھے وہ بذاتِ خود ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ان کی پریشانی اور خوف میں اضافہ کر رہے تھے کیوں کہ سوشل میڈیا پر پریشان کن خبروں کا سیلاب موجود تھا جبکہ دوسری جانب مصدقہ اطلاعات کی کمی تھی۔

دوسری جانب بشکیک میں بھی فیک نیوز نے اس معاملے کی سنگینی کو بڑھایا جہاں مقامی طور پر اشتعال انگیز مواد شیئر ہوا۔

بشکیک میں پاکستانی اور دیگر غیر ملکی طلبہ پر چند مقامی افراد کی جانب سے 17 مئی کی رات ہونے والے حملے کے بعد فیک نیوز یعنی جھوٹی معلومات کے سوشل میڈیا پر پھیلاؤ نے معاملے کی سنگینی میں اتنا اضافہ کر دیا کہ دونوں ممالک کے سربراہان کو اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے مداخلت کرنی پڑی۔

’واقعہ غلط معلومات کی وجہ سے اتنا بڑھ گیا‘

کرغزستان کی وزیرِ تعلیم ڈاگدرکل کیندیربیور نے لندن میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آغاز میں ایک جھڑپ ہوئی جس کے بعد سوشل میڈیا پر غلط معلومات اور بے بنیاد، اور نفرت انگیز مواد کا پھیلاؤ شروع ہوا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’اس وقت تحقیقات جاری ہیں اور صدر کرغز رپبلک نے باضابطہ بیان جاری کیا ہے کہ جو افراد اس کے ذمہ دار ہیں انھیں ان کے کیے کی کڑی سزا دی جائے گی اور اس حوالے سے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔‘

پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے گذشتہ روز بشکیک کا دورہ کیا اور پھر واپسی پر اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ اب تک واپس آنے والے پاکستانی طلبہ کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور اس میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

انھوں نے اس سے قبل بھی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’یہ واقعہ غلط معلومات اور غلط فہمی کی وجہ سے اتنا بڑھ گیا، اور جھوٹی معلومات کو سیاسی مقاصد کے لیے سوشل میڈیا پر پھیلایا جا رہا تھا۔‘

بی بی سی نے 17 مئی کو بشکیک میں اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر اس دوران لگائی گئی پوسٹس کا جائزہ لیا ہے اور کرغزستان کے مقامی صحافیوں اور بشکیک میں موجود پاکستانیوں سمیت ان کے اہلِخانہ سے اس بارے میں تفصیل سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ فیک نیوز نے کیسے اس معاملے کی سنگینی اور اس سے متاثرہ افراد کی پریشانی اور بے یقینی میں اضافہ کیا۔

بشکیک
Getty Images
پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ’یہ واقعہ غلط معلومات اور غلط فہمی کی وجہ سے اتنا بڑھ گیا، اور جھوٹی معلومات کو سیاسی مقاصد کے لیے سوشل میڈیا پر پھیلایا جا رہا تھا‘

’فیک نیوز پھیلانے والوں پر غصہ ہے، اور اسے سچ سمجھنے پر شرمندگی بھی‘

بشکیک میں موجود ایک پاکستانی ٹیچر فریحہ (فرضی نام) بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو سوشل میڈیا پر چلنے والی جھوٹی معلومات کا شکار ہوئیں۔انھوں نے 18 مئی کو جب بی بی سی سے اس واقعے کے فوری بعد بات کی تھی تو طالبات کے مبینہ ریپ سے متعلق افواہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی تھی۔

تاہم گذشتہ روز جب ہم نے فریحہ سے بات کی تو انھیں اس بات کا ادراک ہو چکا تھا کہ اس روز سوشل میڈیا پر موجود اکثر معلومات جھوٹی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’17 کی رات جو حملہ کیا گیا وہ تو ظاہر ہے غلط تھا لیکن اس کے بعد جو غلط معلومات پھیلائی گئیں، میں انھیں سچ سمجھ کر بہت پریشان ہوئی اور طلبہ سے ہمدردی بھی ہوئی، لیکن اب مجھے فیک نیوز پھیلانے والوں پر غصہ ہے، اور اسے سچ سمجھنے پر شرمندگی بھی۔‘

ہم نے فریحہ کی مدد سے ان جعلی پوسٹس کا جائزہ لیا ہے جو اس عرصے کے دوران کرغزستان اور پاکستان میں پھیلائی گئیں۔

فریحہ کو سب سے پہلے جو جھوٹی خبر موصول ہوئی وہ پاکستان میں ان کی بہن کی جانب سے شیئر کیا گیا ایک کینیڈا میں مقیم بلاگر کا کمنٹ تھا جنھوں نے لکھا تھا کہ ’مجھے اطلاعات مل رہی ہیں کہ اب تک 13 طلبہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہمارے سفیر اور سفارتی عملے کو سست روی کا مظاہرہ کرنے پر نوکری سے ہٹا دینا چاہیے۔‘

اسی بلاگر کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایسی ہی ایک پوسٹ موجود ہے جس میں خواتین کے ریپ کے حوالے سے افواہوں کی غیر تصدیق شدہ دعوے اب بھی موجود ہیں۔

اسی طرح فریحہ نے ہمارے ساتھ دو ایسی تصاویر شیئر کیں جن میں دو لڑکوں کو خون آلود حالت میں زمین پر پڑے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان تصاویر کو پاکستان میں متعدد صارفین کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کیا ہے۔

گوگل کی ریورس امیج سرچ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تصاویر کے ساتھ نہ ہی ان افراد کی شناخت بتائی گئی اور نہ ہی تصاویر کے ذریعے یہ جاننا ممکن ہے کہ آیا یہ واقعی کوئی پاکستانی طالبعلم ہے یا نہیں۔

اس دوران زخمی حالت میں انڈین کرکٹر رشبھ پنت کی تصویر کو بھی پاکستانی طالبعلم کی تصویر کے کیپشن کے ساتھ پوسٹ کیا گیا۔ ان خون آلود تصاویر کو یہاں دوبارہ شیئر نہیں کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح فریحہ کے مطابق سنیچر کی شب بھی متعدد واٹس ایپ گروپس میں ایسی خبریں پھیلائی گئیں کہ ایک اور حملہ ہونے والا ہے، جس کے باعث ان کے اضطراب میں مزید اضافہ ہوا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ان غلط معلومات کے پھیلاؤ کی وجہ سے یہاں ورک ویزا پر موجود افراد کے لیے مزید مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔ کام کے لیے یہاں آنے والوں کو ویزا ویسے ہی بہت مشکل سے ملتا ہے، اب اس کے بعد سے صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔‘

’جب سچ بتانے کی کشمکش جاری ہوتی ہے تو جھوٹ آدھی دنیا تک پھیل چکا ہوتا ہے‘

اس حوالے سے ہم نے مقامی صحافیوں کی بھی رائے جانی ہے جو اس وقت بشکیک میں ہی موجود تھے جب 17 مئی کی رات کو یہ حملہ کیا گیا۔

بی بی سی سے منسلک صحافی ایلینورا کلینبکووا کہتی ہیں کہ ’ابتدا میں خبریں پھیلائی گئیں کہ پاکستانی یا انڈین طالبعلموں نے مقامی لوگوں کو مارا پیٹا ہے جس کے نتیجے میں کرغز نوجوانوں نے بدلہ لینے کے لیے طلبہ سے لڑائی جھگڑا کیا۔ تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ مقامیوں کے ساتھ مار پیٹ کرنے والے مصری تھے۔‘

’یہ وہ پہلی فیک نیوز تھی جو بشکیک میں سوشل میڈیا پر پھیلی۔‘

بعد میں ایسی فیک خبریں پھیلیں جن میں دعوے کیے گئے کہ بہت سے لوگ مارے گئے ہیں اور ہنگاموں کے دوران بہت سی غیر ملکی لڑکیوں کا ریپ ہو گیا ہے۔ تاہم مقامی پولیس نےفوری طور پر اس قسم کی خبروں کو مسترد کر دیا۔

ایلینورا کے مطابق بشکیک میں ہونے والے واقعات کے تناظر میں نو مقدمات درج کیے گئے جن میں غنڈہ گردی، ڈکیتی، بڑے پیمانے پر انتشار پھیلانے اور بین النسلی دشمنی پر اکسانے جیسے دفعات شامل تھیں۔

ان واقعات میں 30 افراد متاثر ہوئے، 10 افراد کو ان جرائم کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ پاکستان میں واٹس ایپ پر پھیلائی جانے والی زیادہ تر فیک ویڈیوز اور تصاویر پرانے واقعات کی تھیں جن کا بشکیک میں ہونے والے واقعات سے کوئی تعلق نہیں تھا مگر پاکستانی یوٹیوبرز کی جانب سے دعوے کیے جا رہے تھے کہ ’کرغز لوگ پاکستانیوں کو مار رہے ہیں اور ہماری بہنوں اور بیٹیوں کا ریپ کر رہے ہیں۔‘

علی توکتاکونوف، ایک تحقیقاتی صحافی اور بشکیک میں ’میڈیا ہب‘ کے سربراہ ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے علی کہتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے کرغزستان میں مقیم پاکستانی شہریوں سمیت چند غیر ملکیوں کو فیک نیوز کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا۔‘

علی توکتاکونوف کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک کہاوت ہے کہ ’جب سچ بتانے کی کشمکش جاری ہوتی ہے تو اس دوران جھوٹ آدھی دنیا تک پھیل چکا ہوتا ہے اور یہاں بھی ایسا ہی ہوا جب ہم معلومات کی جانچ اور تصدیق کر رہے تھے، فیک نیوز دنیا بھر میں پھیل گئیں۔‘

علی ان صحافیوں میں سے تھے جو اس دوران موقع پر موجود تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس دوران سوشل میڈیا پر ایسی فیک نیوز پھیلائی گئیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ مبینہ طور پر لڑائی کے دوران ایک کرغز کو مار دیا گیا ہے۔

علی کے مطابق اس فیک نیوز کے باعث مقامی لوگ چھوئی سٹریٹ اور کرمنجن ڈٹکا سٹریٹ کے چوراہے پر جمع ہونا شروع ہو گئے اور ان کی تعداد سینکڑوں تک جا پہنچ گئی۔

علی توکتاکونوف بتاتے ہیں کہ ’وہاں جمع ہونے تمام افراد نے فسادات میں حصہ نہیں لیا۔ لیکن انھوں نے حراست میں لیے گئے کرغز شہریوں کی رہائی، مائیگریشن پالیسی کو بہتر بنانے، لڑائی میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور غیر قانونی تارکین وطن کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’اس رات میں نے ان میں کوئی ایسا لیڈر نہیں دیکھا جو انھیں کنٹرول کر رہا ہو بلکہ اس کے برعکس کئی سول کارکنوں نے پولیس کے ساتھ مل کر بھیڑ کو پرسکون رکھنے کی کوشش کی۔‘

علی توکتاکونوف کہتے ہیں کہ ’جب صبح کے پانچ بجے میں اس جگہ پہنچا اور بشکیک پولیس کے سربراہ عظمت ٹوکٹونالیف سے ملا تو انھوں نے لڑائی کے دوران کسی بھی ہلاکت کی تردید کی۔‘

’صبح چھ بجے تک ہجوم منتشر ہو چکا تھا اور پولیس پاکستانیوں سمیت دیگر غیر ملکیوں کے ہاسٹل پر پہرہ دیتی رہی۔‘

علی توکتاکونوف کہتے ہیں کہ ’ہمارا مذہب ایک ہونے کے باوجود ہماری ذہنیت مختلف ہے۔‘ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں ’ایسا کوئی رویہ نہیں تھا جس سے عوام میں غم و غصہ پیدا ہو۔ یہ سب ایک فیک نیوز کی وجہ سے ہوا جو سنسنی پھیلانے کے مقصد سے شیئر کی گئی تھی۔‘

’حکومت ایسا نظام بنائے کہ طلبہ یہاں کے میڈیکل کالجز میں ٹرانسفر ہوں‘

حالیہ دنوں میں اور خاص کر 17 مئی کے روز ورشا کے والد خوشحال داس اور ان کا خاندان جس اذیت سے گزرے، کیا اس کے بعد وہ اپنی بیٹی کو پڑھائی مکمل کرنے واپس بشکیک بھیجیں گے؟

اس کے جواب میں خوشحال داس نے ایک گہرا سانس لیا جیسے وہ سوچ رہے ہوں کہ آگے کیا کرنا ہے۔

کچھ دیر بعد انھوں نے بتایا کہ ’جس دن ورشا آ رہی تھی، ان کے ہوسٹل کے سامنے ایک بوڑھی عورت ایک چھوٹی سی دکان چلاتی ہے، اس نے ورشا اور ان کی دوست کو بلایا اور گلے لگ کر رونے لگی اور کہا کہ میں معافی مانگتی ہوں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’اس دن بہت سے کرغز لوگ ان کے لیے کھانا بھی لائے۔‘

خوشحال داس سمجھتے ہیں کہ ’سب لوگ برے نہیں ہوتے، ہر معاشرے میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں ’ہجوم کی نفسیات کا عام لوگوں کی نفسیات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ وہ ایک پاگل پن کا دورہ تھا جو اسی وقت بنا اور ختم ہو گیا۔‘

خوشحال داس کہتے ہیں کہ ’لوگوں میں اتنی اخلاقیات بھی نہیں کہ وہ فیک نیوز پوسٹ کرنے سے پہلے کم از کم یہ سوچ لیا کریں کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے، والدین کس اذیت سے گزر رہے ہوں گے ان کے سوشل سرکل اور لڑکی کے رشتہ دار کیا کیا باتیں بنائیں گے اور وہ لڑکی کس ٹراما سے گزر رہی ہو گی۔‘

’ہم گاؤں سے ہیں اور ہر گاؤں کی طرح یہاں بھی چند فرسودہ خیالات کے لوگ موجود ہیں۔ جب اس طرح کی فیک نیوز پھیلائی جاتی ہے تو لوگوں کے ذہنوں میں بھی بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔‘

جب ان سے دوبارہ پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنی بیٹی کو دوبارہ کرغزستان بھیجیں گے، تو انھوں نے کہا کہ ہرگز نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ورشا جس میڈیکل کالج میں ہے وہ پی ایم ڈی سی کی ویب سائٹ کے مطابق گرین لسٹ (منظور شدہ) کیے گئے نو کالجوں میں سے اے کیٹیگری کا میڈیکل کالج ہے جہاں ان کی ڈگری پر کم از کم سوا کروڑ کا خرچہ ہے۔‘

ان کی پہلی خواہش یہی ہے کہ بچیوں کو واپس نہ بھیجا جائے اور حکومت ایسا کوئی نظام بنائے کہ ان کے کریڈیٹ یہاں کے میڈیکل کالجز میں ٹرانسفر ہوں یا ان بچوں کے لیے کوئی موقع نکالا جائے جس سے ان کا مستقبل بچ سکے۔

اس بارے میں ان کی راہ میں حال ایک رکاوٹ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا ایک قانون ہے جس کے تحت بیرون ملک حاصل شدہ تعلیم کو کسی مقامی تعلیمی ادارے میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اسے ’کریڈٹ ٹرانسفر‘ کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ طلبا اپنے کریڈٹ نجی میڈیکل کالجوں میں منتقل کروا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے متعلقہ میڈیکل کالج کی رضا مندی درکار ہوتی ہے۔

اس حوالے سے گذشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے پی ایم ڈی سی کے حکام سے رابطے میں ہیں اور اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے مشاورت کی جائے گی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.