سات اکتوبر 2023 کی صبح حماس نے ’ناحل عوز‘ نامی اسرائیلی فوجی اڈے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 60 سے زیادہ فوجی ہلاک جبکہ بہت سے یرغمال بنے۔ اسرائیلی فوج نے آج تک اس واقعے کے بارے میں سرکاری تحقیقات شائع نہیں کی ہیں لیکن بی بی سی نے اُس اڈے پر موجود اہلکاروں اور ہلاک ہونے والوں کے اہلخانہ سے موصول ہونے والی تفصیلات کی بنیاد پر اس روز پیش آئے واقعات کو ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔
حماس کی اسرائیل کے اندر تاریخ کی مہلک ترین کارروائی کو آج ایک برس مکمل ہو چکا ہے، لیکن آج بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اسرائیل کے سکیورٹی ادارے آخر اِس اتنے بڑے حملے کی آمد کو کیوں بھانپ نہ سکے اور یہ ادارے کیسے اتنی آسانی سےحماس کے قابو میں آ گئے؟
غزہ کی پٹی سے ایک کلومیٹر دور واقع ایک اسرائیلی فوجی اڈے پر اُس روز (سات اکتوبر 2023) جو کچھ ہوا، بی بی سی نے اس کی تفصیلات وہاں موجود اسرائیلی فوجی اہلکاروں کے اہلخانہ کے ذریعے حال کی ہیں اور ان بیانات تک رسائی حاصل کی ہے جو اسرائیلی فوج نے متاثرہ فوجیوں کے خاندانوں کو دیے ہیں۔
آج سے ٹھیک ایک برس قبل یعنی سات اکتوبر کی صبح حماس کے مسلح افراد نے ’ناحل عوز‘ نامی اسرائیلی فوجی اڈے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 60 سے زائد اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے جبکہ دیگر کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اس بڑے حملے کے بعد حماس کے جنگجوؤں نے اس فوجی اڈے پر اپنا قبضہ جما لیے۔
ایک سال گزرنے کے باوجود بھی اسرائیلی فوج نے کوئی سرکاری تحقیقات شائع نہیں کیں جن سے معلوم ہو سکے کہ آخر اُس روز ’ناحل عوز‘ فوجی اڈے پر ہوا کیا تھا۔ لیکن وہاں ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کے رشتہ داروں کو سرکاری سطح پر حماس کی اُس روز کی گئی کارروائی کی تفصیلات کے بارے میں آگاہ کیا جا چکا ہے۔ اِن خاندانوں نے حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی کچھتفصیلات بی بی سی کے ساتھ شیئر کی ہیں۔
سات اکتوبرکو ’ناحل عوز‘ اڈے پر جو کچھ ہوا وہ اسرائیلی فوج کے اُس مؤقف کے قریب ترین ہے جو ہم حاصل کر سکے ہیں۔
اُس دن اس فوجی اڈے پر جو ہوا اور جس رفتار سے ہوا، اُس کی کہانی ترتیب دینے کے لیے ہم نے وہاں زندہ بچ جانے والوں سے بھی بات کی، ہلاک ہونے والوں کے پیغامات دیکھے اور حملے کی ابتدائی اطلاع دینے والی ریکارڈنگ بھی سُنی۔ موصول ہونے والی اس تمام تر تفصیل سے ایک تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے۔
بی بی سی کو معلوم ہوا کہ:
- سات اکتوبر کے حملے سے قبل یہاں تعینات بہت سے فوجیوں نے سرحد کے پار (یعنی غزہ کی سائیڈ پر) بہت سی مشکوک سرگرمیوں کو نوٹس کیا تھا، ان سرگرمیوں کو نوٹس کرنے والوں میں غزہ، اسرائیل سرحد پر تعینات وہ خواتین فوجی اہلکار بھی تھیں جن کی ذمہ داری سرحد پر لگے کیمروں کی مانیٹرنگ کرنا تھا
- سرحد پر تعینات فوجیوں نے نوٹس کیا تھا کہ سات اکتوبر کو ہونے والے بڑے حملے سے چند روز قبل یہ مشکوک سرگرمیاں حماس کی جانب سے اچانک ختم کر دی گئی تھیں
- اس فوجی اڈے پر تعینات بہت سے اسرائیلی فوجی اہلکار غیر مسلح تھے اور یہاں رائج سرکاری پروٹوکول کے مطابق اگر یہاں کسی قسم کا حملہ ہوتا ہے تو انھیں آگے بڑھ کر جواب دینے کے لیے بجائے پسپائی اختیار کرنا تھی
- یہاں نصب نگرانی کے کچھ آلات یا تو اُس روز کام نہیں کر رہے تھے اور بقیہ حماس کے حملہ آوروں کی جانب سے آسانی سے تباہ کیے جا سکتے تھے
ہم نے جو تفصیلات حاصل کی ہیں اُن سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں جیسا کہ سرحد کے انتہائی نزدیک واقع ایک فوجی اڈے پر اتنی کم تعداد میں مسلح اہلکار کیوں تعینات تھے؟ سرحد کے نزدیک مشکوک سرگرمیاں نوٹس کیے جانے کے باوجود بروقت بچاؤ کے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ حملے کے بعد اس اڈے پر فوجی کمک پہنچنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟ اور کیا اڈے کے انفراسٹرکچر نے وہاں تعینات لوگوں کو غیرمحفوظ بنا دیا تھا؟
بی بی سی نے موصول ہونے والی تمام تر تفصیلات اسرائیلی فوج کے سامنے رکھیں، جس نے جواب میں فوج نے کہا کہ ’ناحل عوز‘ فوجی اڈے سمیت سات اکتوبر کو پیش آنے والے تمام واقعات، اور اس سے پہلے کے حالات کی جامع تحقیقات جاری ہیں۔
چلیے اب پڑھتے ہیں کہ حملے کے روز اِس فوجی اڈے پر کیا ہو رہا تھا۔
سات اکتوبر کے روز شیرون (فرضی نام) نے مقامی وقت کے مطابق چار بجے ’ناحل عوز‘ پر اپنی شفٹ کا آغاز کیا۔ یہ فوجی اڈہ غزہ کی سرحدی باڑ سے تقریباً ایک کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔
شیرون خواتین کے اُس فوجی یونٹ کا حصہ تھیں، جسے عبرانی زبان میں ’تتزپیٹانیوٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اُن کے فرائض میں باڑ کے ساتھ لگے کیمروں کے ذریعے براہ راست حاصل ہونے والی فوٹیج کا معائنہ کرنا تھا۔
خواتین اہلکاروں پر مشتمل یہ اسرائیلی فوجی یونٹ ناحل عوز کے وار روم یا ’ہمال‘ میں شفٹوں میں کام کرتا تھا اور ان کے بنیادی فرائض میں دن کے 24 گھنٹے کیمروں کے ذریعے باڑ کے اُس پار غزہ کی صورتحال کا جائزہ لینا اور اسے رپورٹ کرنا تھا۔
درحقیقت وار روم یا ’ہمال‘ کھڑکیوں کے بغیر ایک مضبوط اور بڑا کمرہ ہے جس کی خصوصی دیواریں دھماکوں کو برداشت کر سکتی تھیں جبکہ اس کمرے میں نصب دروازے بھی انتہائی مضبوط تھے اور اس کمرے میں داخل ہونے کے سخت حفاظتی پروٹول تھے۔
اسرائیلی فوج نے سات اکتوبر کو یہاں ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجی اہلکاروں کے اہلخانہ کو بتایا ہے کہ اُس روز یہاں تعینات بہت سے فوجی اہلکار غیر مسلح تھے۔
اسرائیلی فوج کے آپریشنز ڈویژن کے سابق سربراہ جنرل اسرائیل زیو نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کی ملازمت کے دوران سرحدی علاقوں میں کبھی بھی غیر مسلح فوجی تعینات نہیں ہوتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سپاہی ہتھیارکے بغیر۔۔۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔‘
اُس دن ناحل عوز پر جو مسلح اہلکار تعینات تھے اُن میں سے چند کا تعلق اسرائیلی فوج کے گولانی بریگیڈ کی انفنٹری یونٹ سے تھا۔
اس سے قبل بی بی سی نے خبر دی تھی کہ خواتین پر مشتمل فوجی یونٹ ’تتزپٹانیوٹ‘ کی اہلکاروں نے باڑ کے دوسری جانب سات اکتوبر 2023 سے قبل مشکوک سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا تھا لیکن اب بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ ’تتزپٹانیوٹ‘ یونٹ کے علاوہ اِس اڈے پر تعینات مختلف یونٹوں سے تعلق رکھنے والے فوجیوں نے اسی نوعیت کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
تاہم اسرائیلی فوجیوں کو مشکوک سرگرمیوں کے بعد باڑ کے اُس پار یعنی غزہ میں 7 اکتوبر سے کچھ روز پہلے خاموشی ہو گئی تھی۔
اڈے پر تعینات ایک فوجی یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ (سات اکتوبر سے قبل) ’وہاں کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا، اور یہی بات ہمیں پریشان کر رہی تھی۔ ہر کسی کو لگ رہا تھا کہ کچھ عجیب ہے، لیکن کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔‘
جنرل زیو کہتے ہیں کہ سات اکتوبر سے قبل جو کچھ ہو رہا تھا اس کو سمجھنے میں ناکامی دراصل اسرائیلی فوجی کے تکبرانہ رویے کی وجہ سے تھی۔ یعنی وہ تکبرانہ خیالکہ ’حماس حملہ کرنے کی جرات نہیں کرے گا اور اگر کوششکی بھی تو اس میں اتنی صلاحیت ہی نہیں۔‘
’ہم 6 تاریخ کو یہ سوچ کر سوئے تھے کہ وہاں ایک بلی ہے اور ہم 7 تاریخ کو جا گے تو وہاں ایک شیرتھا۔‘
مقامی وقت کے مطابق صبح کے ساڑھے پانچ بجے ناحل عوز پر تعینات گولائی بریگیڈ کے مسلح جوان باڑ کے ساتھ اسرائیلی حصے میں جیپ پر گشت شروع کرنے کی تیاری کر رہے تھے، وہ یہ گشت ہر صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے کرتے تھے۔
اُن میں سے تین فوجیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اُس روز اعلیٰ حکام نے ممکنہ ٹینک شکن میزائل حملے کے خدشے کے پیش نظر گشت میں تاخیر کرنے اور پیچھے کھڑے ہونے کا حکم دیا تھا۔
ایک اور فوجی نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایک وارننگ جاری ہوئی اور ہمیں باڑ کے ساتھ والے راستے پر جانے سے منع کر دیا گیا تھا۔‘
ایک اور21 سالہ فوجی شیمعون مالکا نے کہا کہ ’اس طرح کی وارننگ جاری ہونا غیرمعمولی بات تھی لیکن ایسی کوئی انہونی بھی نہیں تھی۔ لہذا انھوں نے اس کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی۔‘
جنرل زیو کا کہنا ہے کہ حملے کی اطلاع پر فوجیوں کو پیچھے رہنے کا حکم دنیا پروٹوکول کے عین مطابق ہے تاکہ وہ ہدف بننے سے بچ جائیں لیکن اُن کا کہنا ہے کہ حماس کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا اور انھوں نے اس چیز کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔
انھوں نے کہا کہ اڈے پر ایسی پوزیشنز ہونی چاہیے تھیں جہاں گولانی بریگیڈ کے مسلح اہلکار محفوظ طریقے سے جواب دے سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’فوجیوں کو کور دینے کے لیے بہت آسان طریقے موجود ہیں تاکہ وہ محفوظ رہتے ہوئے جوابی کارروائی کر سکیں اور کوئی چیز ان کی نظر سے باہر نہ ہو۔‘
تاہم اسی دوران وہاں تعینات خاتون فوجی اہلکار شیرون کو حماس کے جنگجوؤں کی نقل و حرکت نظر آنے لگی لیکن وہ اُن کی نظر میں وہ معمول کی نقل و حمل تھی۔ شیرون نے بتایا کہ جیسے فوجی اڈے پر ان کی شفٹیں بدلتی ہیں ویسے ہی باڑ کے اُس پار ’اُن (حماس) کی بھی شفٹیں تبدیل ہوتی ہیں۔‘
6:20 پر راکٹ حملہ
مگر پھر اچانک صبح 6:20 بجے حماس نے راکٹ داغنا شروع کر دیے، تاہم شیرون کا کہنا ہے کہ یہ بھی کسی بڑے خطرے کی بات نہیں تھی۔
وہ پہلے بھی ایسے راکٹ حملوں کا سامنا کر چکی تھیں اور اس نوعیت کے راکٹ حملوں کے پیش نظر ناحل عوز کی ہمیشہ سے اچھی حفاظت کی جاتی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ماضی میں ہونے والے راکٹ حملے عموماً پانچ منٹ جاری رہتے جس کے بعد وقفہ آ جاتا مگر ’اس بار کوئی وقفہ نہیں تھا۔‘
06:30 پر حماس کے جنگجوؤں کا باڑ پر حملہ
اسرائیلی خاتون فوجی اہلکار شیرون کا کہنا ہے کہ تقریباً 06:30 بجے وہ حماس فورسز کو قریب آتے ہوئے دیکھ سکتی تھیں۔
شیرون کی یونٹ، جس کا کام کیمروں کے ذریعے نگرانی کرنا تھا، نے زمینی افواج کو خبردار کرنے کے لیے ریڈیو پیغام نشر کیا جس میں پیغام تھا کہ ’تمام سٹیشن، چار لوگ باڑ کی طرف بھاگے چلے آ رہے ہیں، کاپی۔‘
اس کے بعد یونٹ کی ایک ایک نوجوان خاتون فوجی اہلکارنے آواز میں ہلکی سی کپکپاہٹ کے ساتھ اعلان کیا کہ ’میں دو مسلح افراد کی شناخت کر پا رہی ہوں، جو باڑ کی طرف بھاگے چلے آ رہے ہیں، کاپی۔‘
تقریباً اُسی وقت باڑ کے ساتھ گشت پر جانے کے منتظر شیمعون نے اپنے ریڈیو کے ذریعے راکٹ حملے کے لیے بولے جانے والے کوڈ ورڈز سُنے۔ اُن کے کمانڈر نے انھیں حکم دیا کہ وہ اپنی جیپ سے نکل کر بکتر بند گاڑی میں سوار ہوں اور باڑ کی طرف بڑھیں۔
لیکن بظاہر انھیں کوئی دراندازی نظر نہیں آئی اور انھیں لگا کہ یہ صرف ایک فوجی مشق تھی۔
اسرائیلی فوج اور اسرائیلی عوام اس لوہے کی دیوار (اسرائیل اور غزہ کے بیچ باڑ) کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے لیکن اگلے چند ہی لمحوں میں اِس دیوار کے قریب واقع فوجی اڈوں نے اس پر حملہ ہونے کی اطلاعات دینی شروع کر دی تھیں۔
شیرون کا کہنا ہے کہ ناحل عوز میں شفٹ پر موجود خواتین فوجی اہلکاروں کے یونٹ ’تتزپٹانیوٹ‘ کی ہر رُکن نے سرحدی باڑ کے دو سے پانچ حصوں میں خلاف ورزیاں دیکھی ہیں جن کی نگرانی کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی تھی۔
نگرانی پر معمور ان اہلکاروں نے حماس کے جنگجوؤں کو اسرائیل کے اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔
جنرل زیو کا کہنا ہے کہ جس آسانی کے ساتھ جنگجوؤں نے باڑ عبور کی تھی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس دیوار کو ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا اس میں نقائص موجود تھے۔
’جیسا کہ آپ نے دیکھا، دو ٹرک آ کر اسے (باڑ) دھکیل سکتے تھے۔ یہ باڑ کچھ بھی نہیں تھی۔ اگر وہاں 50 یا 60 میٹر کے علاقے میں بارودی سرنگیں ہی نصب کی گئی ہوتیں تو حماس کو اسرائیل میں داخل ہونے سے چند گھنٹوں کے لیے روکا جا سکتا تھا۔‘
بی بی سی کے ساتھ شیئر کیے گئے اسرائیلی فوج کے ’فیملی بریفنگ نوٹ‘ کے مطابق 06:40 بجے ناحل عوز پر موجود آبزرویٹری کو راکٹ سے نشانہ بنایا گیا، اس حملے میں آبزرویٹری کو نقصان پہنچا۔
اسرائیلی فوج نے ناحل عوز اڈے پر موجود اہلکاروں کے اہلخانہ کو بتایا کہ اڈے کے مرکز یعنی ہمال (وار روم) میں نصب سنائپرز کو دیکھنے اور نشانہ بنانے کے نظام کو فعال کیا گیا اور ایک افسر نے سرحد پار کرنے کی کوشش کرنے والے مسلح افراد پر ریموٹ کے ذریعے گولی چلانے کی کوشش بھی کی تھی۔
یہ وہ موقع پر انفنٹری افسران بھی ہمال میں موجود خواتین اہلکاروں کے یونٹ ’تتزپٹانیوت‘ تک پہنچ گئے۔ شیرون یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ایک انفنٹری کمانڈر پاجامے میں وہاں آ گئیں۔
اور پھر جیسے جیسے مسلح افراد نگرانی کے کیمروں پر فائرنگ کرتے رہے، ہمال میں نصب مانیٹرنگ سکرینوں پر اندھیرا چھانے لگا۔
جنرل زیو کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کے حملوں سے قبل حماس جو ہفتوں سرحد پر نگرانی کرنے والے کیمروں کے سامنے موجود تھے وہ ایک حکمت عملی تھی۔
الرؤے نامی اہلکار اسرائیلی فوج کی ’بیلون آبزویٹری‘ (نگرانی کرنے والے غبارے) میں موجود پانچ افراد میں سے ایک تھے۔ اُن کے والد رفیع بن شتریت نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کا بیٹا راکٹ فائر ہونے اور بعدازاں بجنے والی سائرن کی آواز سُن کر جاگا۔
اسرائیلی فوج نے بعد میں الرؤے کے اہلخانہ کو ابتدائی تحقیقات کی تفصیلات فراہم کیں کہ اُس دن کیا ہوا تھا۔
ناحل عوز کے مقام پر موجود یہ غبارے غزہ پر گہری نظر رکھتے تھے اور وہ 24 گھنٹے متحرک رہتے ہیں لیکن 7 اکتوبر کو سرحد پر موجود تین غباروں میں سے صرف ایک کام کر رہا تھا۔
رفیع بین شیتریت کا کہنا ہے کہ ’ناحل عوز میں موجود غبارے کام نہیں کر رہے تھے۔ کسی کو کوئی پریشانی نہیں تھی۔انھیں بتایا گیا تھا کہ ان غباروں کو آئندہ اتوار کو ٹھیک کر دیا جائے گا۔‘
مجموعی طور پر ماحول کچھ اس طرح کا تھا کہ ’حماس کو روکا جا چکا ہے، اگر کچھ ہوتا بھی ہے تو یہ زیادہ سے زیادہ دہشت گردوں کی دراندازی یا اس سے زیادہ دہشت گردوں کا سکواڈ ہو سکتا ہے۔‘
لیکن نگرانی کے مقام پر موجود شیرون مسلسل چیخ چیخ کر گراؤنڈ پر موجود فوجیوں کو اطلاعات فراہم کر رہی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں روتے ہوئے اعلانات کر رہی تھی۔‘
شیرون کو یاد ہے کہ اُن کی کمانڈنگ آفیسر نے چیخ کر کہا کہ خاموش ہو جاؤ کیونکہ کئی نوجوان خواتین ڈر کے مارے کام پر توجہ نہیں دےپا رہی تھیں۔
شمعون بتاتے ہیں کہ وہ ریڈیو پر ملنے والی ہدایات پر عمل کر رہے تھے لیکن انھیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ نوجوان عورت جو اعلانات کر رہی ہے، وہ اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہے۔
’میں اس کی پریشانی کو محسوس کر سکتا تھا لیکن گراونڈ پر کچھنظر نہیں آ رہا تھا۔‘
جب اُن کا یونٹ اس مقام پر پہنچا جہاں تتزپٹانیوت نے انھیں پہنچنے کی ہدایت کی تھی تو انھوں نے حماس کے ٹرکوں کو باڑ توڑتے ہوئے دیکھا۔
شمعون بتاتے ہیں کہ ’انھوں نے ہم پر گولیاں چلانا شروع کر دیں۔ شاید پانچ ٹرک (تھے)۔‘
اسرائیلی فوجیوں نے جوابی فائرنگ کی اور حماس کے چند وہ جنگجو جو موٹر سائیکلوں پر سوار تھے انھیں کچل دیا۔
حماس کے مسلح افراد ہمال کے دروازے پر پہنچ گئے
07:00 بجے کے کچھ ہی دیر بعد وہ لمحہ آیا جب ہر کوئی خوفزدہ تھا اور فوجی اڈے پر وہ ہو رہا تھا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ حماس کے مسلح افراد ہمال کے دروازے پر موجود تھے۔
کیمروں کے ذریعے نگرانی کرنے والی خواتین اہلکاروں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی پوزیشنیں چھوڑ دیں اور وار روم کے اندر موجود ایک دفتر کا رُخ کریں۔
جنرل زیو کا کہنا ہے کہ فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد نے خود ان اڈوں کے دفاع پر زیادہ زور نہیں دیا بلکہ بیرونی گشت پر توجہ مرکوز کی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ پوری گڑبڑ کا حصہ تھا کیونکہ ایک بار جب دشمن نے انھیں حیران کر دیا اور اڈے میں داخل ہو گئے تو وہ تیار نہیں تھے۔ ہر چیز برباد ہو گئی۔‘
07:20 پر ہمال پر حملہ
تقریباً 07:20 بجے اڈے میں موجود ہمال پر حملہ کیا گیا۔
اس موقع پر وہاں موجود ایک اہلکار کی جانب سے بھیجے گئے واٹس ایپ میسج کو بی بی سی نے دیکھا۔
اس میسج کے مطابق وہاں پر کچھ آف ڈیوٹی نگرانی کرنے والی اہلکار بھی موجود تھیں، جن کا تحظ چار خواتین فوجی اہلکار کر رہی تھیں۔
اسرائیلی فوجیوں نے متاثرہ خاندانوں کو بتایا کہ یہ ’خواتین جنگجو‘، پناہ گاہ میں موجودہ واحد مسلح اہلکار تھیں اور انھوں نے اپنی فائرنگ سے حماس کے جنگجوؤں کو اس وقت تکدور رکھا جب تک کہ ایک دستی بم دھماکے میں اُن کی ایک کمانڈر ہلاک اور دیگر زخمی ہو گئیں۔
اس موقع پر تقریباً 10 فوجی اڈے میں واقع پناہ گاہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور خود کو رہائشی بیرکوں میں بند کر لیا۔ شیلٹر میں موجود باقی تمام افراد یا تو حماس کے ہاتھوں مارے گئے یا پکڑے گئے۔
شیمعون اور اس کے کمانڈر واپس اڈے کی طرف چلے گئے لیکن انھیں ابھی واضح نہیں ہو رہا تھا کہ حملہ کتنا بڑا ہے۔
بعد ازاں اسرائیلی فوج نے ناحل عوز میں ہلاک ہونے والے اہلکاروں میں سے ایک کے اہلخانہ کو بتایا کہ اڈے پر حملے کا آغاز ڈرون حملوں اور چار اطراف سے 70 جنگجوؤں کی کارروائی سے ہوا تھا۔
اس کے بعد غزہ کی پٹی سے سینکڑوں افراد اسرائیلی علاقے میں داخل ہو گئے۔
اڈے پر واپس پہنچنے کے بعد شیمعون کو اندازہ ہونا شروع ہوا کہ یہ حملہ کتنا بڑا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب ہم اڈے پر پہنچے تو ہر چیز جل کر خاکستر ہو چکی تھی۔‘
شیرون کہتی ہیں کہ ہمال کے دفتر کے اندر تقریباً 20 فوجی ایسے تھے، جو اب بھی ایک دوسرے کو تسلی دے رہے تھے۔
اس کے ساتھ ہی انھوں نے مزید مدد بلانے کے لیے بار بار کوشش کی۔
’میرا اندازہ ہے کہ (کسی نے) کچھ ایسا کہا کہ ’کوئی بیک اپ نہیں، کوئی نہیں آ سکتا‘ اور مجھے یاد ہے کہ میرے افسر نے کہا تھا کہ ’ہمیں بیک اپ کی ضرورت نہیں بلکہ ضرورت ہے کہ کوئی ہمیں ریسکیو کرے۔‘
8:00 بجے اسرائیلی ڈرونز کی آمد
آٹھ بجنے سے چند لمحے پہلے ایک اسرائیلی ڈرون ’زک‘ وہاں پہنچا تاہم اسرائیلی فوج کے بیان کے مطابق وہ اسرائیل اور حماس کے فوجیوں کے درمیان فرق نہیں کر پا رہا تھا، جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ اہداف پر حملہ کرنے میں سُست تھا۔
اور پھر اُسی وقت حمال پر حملہ شروع ہوا، جس میں بہت زیادہ فائرنگ تھی۔ دروازوں پر موجود مسلح افراد لڑتے رہے تاکہ حماس کو اندر جانے سے روکا جا سکے۔ یہ دو بدو لڑائی تقریباً چار گھنٹے جاری رہی۔
شیمعون کا کہنا ہے کہ اڈے پر لڑنے والے فوجیوں کی تعداد بہت کم تھی اور اضافی نفری کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔
تقریباً 09:00 بجے گولانی یونٹ کے اہلکار اڈے میں ڈائننگ روم کی طرف بڑھے جہاں زیادہ تر بندوق بردار چھپے ہوئے تھے۔
اسرائیلی فوج نے بعد میں رشتہ داروں کو بتایا کہ اس دن ناحل عوز میں ہر 25 فوجیوں کے مقابلے میں 150 بندوق بردار (حملہ آور) موجود تھے۔
جنرل زیو کہتے ہیں کہ ’اُس دن 70 سے زیادہ خلاف ورزیاں ہوئی تھیں۔۔۔ تین ہزار سے زیادہ دہشتگرد تھے۔۔۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے پاس کوالٹی نہیں، لہذا انھیں اپنی زیادہ تعداد پر انحصار کرنا پڑا۔‘
ایک ویڈیو، جسے اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق اُسی وقت فلمایا گیا تھا، میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ناحل عوز میں نگرانی کا کام کرنے والے جوان افسران کو حماس نے پکڑا ہوا تھا۔
اس ویڈیو میں 19 برس کی ناما لیوی، جنھوں نے اس حملے سے ایک دن پہلے ہی اڈے پر کام کرنا شروع کیا تھا، کا خون سے بھرا چہرہ دیکھا جا سکتا ہے،وہ حملہ آوروں سے التجا کرتی ہیں کہ ’اُن کے فلسطین میں دوست ہیں۔‘
فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انھیں گھسیٹ کر ایک گاڑی میں لے جایا جاتا ہے۔
ناما کی والدہ ڈاکٹر ایلیت لیوی کے لیے یہ سب دیکھنا تباہ کن تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’زخم، خون، وہ کیا کہہ رہی تھی، دہشتگرد اسے کیا کہہ رہے تھے، اُن لمحات کا خوف۔‘
9:45 پر اسرائیلی طیاروں کی آمد
اسرائیلی حکام نے اُس دن نشانہ بننے والے اہلکاروں کے اہلخانہ کو بتایا کہ ’یہ حملہ شروع ہونے کے تین گھٹنے سے بھی زیادہ کے بعد 9:45 پر فوجی ہیلی کاپٹر نے حماس کے بندوق برادروں پر فائرنگ شروع کی۔ اڈے پر 12 بار فائرنگ کی گئی۔‘
شیمعون نے بتایا کہ ’ہر طرف سے فائرنگ ہو رہی تھی۔‘
آٹومیٹک بندوقوں کی فائرنگ کے شور کے درمیان وقتاً فوقتاً ایک سنگل فائر کی آواز بھی آتی، جو دراصل حماس کا سنائپر تھا جو فائر کر رہا تھا۔
شیمعون کہتے ہیں کہ ’جب بھی وہ گولی چلاتا، میرے کسی نہ کسی ساتھی کو سر پر گولی لگتی تھی۔‘
شیمعون کے مطابق اپنے ساتھیوں میں سے صرف وہ ہی تھے جو زندہ بچ گئے اگرچہ ایک گولی اُن کے بھی بہت قریب سے گزری۔
’ایک گولی میرے سر کے پاس سے گزری۔ میں اپنے اردگرد موجود کنکریٹ پر لگنے والی گولیوں کی آواز کو سُن سکتا تھا اور اُن سے پیدا ہونے والی تپش کو محسوس کر سکتا تھا۔‘
شیمعوں کے مطابق اُس وقت اُن کے ریڈیو نے بھی کام کرنا بند کر دیا۔
جنرل زیو اس دن کو ایک ’بہترین طوفان‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ (یاد رہے کہ حماس نے ان حملوں کو طوفان الاقصیٰ کا نام دیا تھا۔)
وہ کہتے ہیں کہ ’بہت گھنٹوں تک وہاں بیک اپ نہیں تھا کیونکہ کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہاں پر ہو کیا رہا ہے اور بیک اپ یا اضافی نفری کہاں بھیجنی ہے۔‘
شیمعون ایک اور یونٹ کے فوجیوں سے ملنے سے پہلے کسی طریقے سے سنائپر حملہ کرنے والے کی ایک پوزیشن تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
11:00 بجےفائرنگ اور دستی حملے
واپسآتے ہیں ہمال ( وار روم) کی جانب جہاں دن کے تقریباً 11:00 بجے ایک اہم پیش رفت ہوئی تھی۔
وہاں کی بجلی کی سپلائی منقطع کر دی گئی جس کے سبب آٹومیٹک یا خودکار دروازوں کے تالوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ یہ لاک بجلی کے نظام سے چلتے تھے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے کئی متاثرہ خاندانوں کو فراہم کی گئی تفصیلات کے مطابق بجلی منقطع ہونے سے وار رومکُھل گیا جس کے نتیجے میں حماس کے جنگجوؤں نے فائرنگ شروع کر دی اور دستی بم پھینکے۔
اسرائیلی فوج نے اہلخانہ کو بتایا کہ گولانی یونٹ کے سپاہی کے ساتھدو بدو لڑائی میں چاقوکے وار سے اسرائیلی سپاہی ہلاک ہو گیا۔
جنرل زیو نے اس موقع پر کہا کہ فوجی اپنی حفاظت کے لیے دروازے کے تالوں پر انحصار کر رہے تھے کیونکہ اڈے پر موجود وسیع تر فوجی نظام و انتظام پہلے ہی ناکارہ ہو چکا تھا۔
جنرل زیو نے کہا کہ متاثرہ خاندانوں کو اسرائیلی فوج کی جانب سے دی کی بریفنگ میں بتایا گیا کہ دہشت گردوں نے حمال میں آتش گیر مادہ پھینکا اور اسے آگ لگا دی۔
شیرون یاد کرتے ہیں کہ ’دھواں انتہائی زیادہ تھا۔ سب کو کھانسی آنے لگی اور دم گھٹنے لگا۔ لوگ گرنے اور بیہوش ہونے لگے ہیں۔‘
ایک اہلکار کی والدہ کا کہنا ہے کہ انھیں فوج کی جانب سے آگاہ کیا گیا تھا کہ حماس نے حملے میں ایک ’زہریلا مادہ‘ استعمال کیا تھا، تاہم دیگر متاثرہ خاندان اس تفصیل سے واقف نہیں تھے یا بعض نے کہا کہ بعدازاں اسرائیلی فوج نے اپنا مؤقف تبدیل کر لیا تھا۔
12:30 بجے کھڑکی سے فرار اور یرغمال بنایا جانا
اس دن وہاں موجود اہلکاروں کے بیان کے مطابق حمال میں موجود شیرون سمیت سات دیگر افراد ٹوائلٹ کی کھڑکی تک پہنچنے اور وہاں سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
باہر نکل کر وہ مزید ایسے لوگوں کا انتظار کرنے لگے جو شاید اُن کی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہو پاتے مگر ان کے بعد اس راستے سے کوئی نہیں آیا۔ شیرون اس دن شفٹ پر موجود نگرانی کرنے والی خواتین اہلکاروں میں سے واحد زندہ بچ جانے والوں میں تھیں۔ یونٹ میں ایک اور نوجوان خاتون بھی بچ گئی تھیں جو اُس دن اڈے پر تو تھیں لیکن اُس صبح وہ شفٹ پر نہیں آئی تھیں یعنی کام نہیں کر رہی تھیں۔
سات اکتوبر کے دن کے اختتام تک اسرائیلی فوج نے ناحل عوز نامی اس فوجی اڈے کا دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا تھا، لیکن وہاں تعینات بہت سے لوگ اُس دن اپنی کہانی سنانے کے لیے زندہ نہیں رہے۔ نگرانی کے کام پر معمور سات خواتین اہلکاروں کو یرغمال بنا کر غزہ لے جایا گیا جن میں سے ایک ہلاک ہو چکی ہیں، دوسری کو بچا لیا گیا ہے جبکہ پانچ ابھی بھی یرغمال ہیں۔
اُس دن حماس کے حملوں میں اسرائیل بھر میں تقریباً 1,200 افراد مارے گئے جن میں 300 سے زیادہ فوجی بھی شامل تھے جبکہ 251 دیگر کو یرغمال بنایا گیا۔ حماسکی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی کے نتیجے میں 41 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
ناحل عوز میں مرنے والوں میں ’بیلون آبزرویٹری‘ کے الروئے اور اُن کے چار ساتھی بھی شامل تھے۔ ان پانچوں افراد نے اس روز حماس کے ساتھ طویل جنگ لڑی تھی۔ اُن کے والد نے اسرائیلی فوجکی طرف سے فراہم کی گئی معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ 10 کے قریب مسلح افرادکو مارنے میں کامیاب ہوئے، لیکن حملہ آوروں کی تعداد اُن کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ وہ سب ایک موبائل شیلٹر کے اندر 14:30 بجے مردہ پائے گئے۔‘
وار روم کو فوجی اڈے میں موجود یونٹس کے لیے محفوظ جگہ کے طور پر ڈیزائن کیا گیا تھا تاہم وہ مکمل تباہ ہو چکا تھا۔ تصاویر اور ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہوہ مقام جلا ہوا ہے۔نگرانی کرنے والی خواتین اہلکاروں نے جن سکرینوں کیکڑی نگرانی کی تھی وہ حملے سے سیاہ ہو چکی تھیں۔ وہاں راکھ کے ڈھیر میں ہڈیوں کے ٹکڑے ملے تھے۔
زندہ بچ جانے والوں اور ہلاک اور اغوا ہونے والوں کے اہلخانہ کے پاس بہت سے سوالات کے جوابات نہیں ہیں کہ یہ اتنا غلط کیسے ہوا۔
اضافی رپورٹنگ جان ڈونیسن اور ناؤمی شیربیل