تکیے اور چادریں کتنے عرصے بعد بدل لینی چاہئیں؟ اس کی اہم وجہ کیا ہے

آپ کا بستر صرف آپ کی ہی پسندیدہ جگہ نہیں بلکہ لاکھوں جراثیم، پھپوندی کے ذرات، عام آنکھ سے نظر نہ آنے والے کیڑے اور وائرس بھی یہاں بستے ہیں اور بعض اوقات انھیں یہاں پنپنے کے لیے بہترین ماحول بھی میسر ہوتا ہے۔
تصویر
Getty Images
’اگر آپ فنگس کے ذرات کی تعداد کی بات کریں تو یہ ہر تکیے میں اربوں اور کھربوں کی تعداد میں موجود ہو سکتے ہیں‘

دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد اگر رات کی پُرسکون نیند ایک صاف سُتھرے بستر میں آئے تو نیند کا مزا ہی دوبالا ہو جاتا ہے۔ اور پھر تھکاوٹ کا علاج بھی یہی ہے کہ اپنا سر ایک نرم سے تکیے پر رکھیے اور بستر پر لیٹ کر میٹھی نیند سو جائیں۔

تاہم آپ کا بستر صرف آپ کی ہی پسندیدہ جگہ نہیں بلکہ لاکھوں جراثیم، پھپوندی کے ذرات، عام آنکھ سے نظر نہ آنے والے کیڑے اور وائرس بھی یہاں بستے ہیں اور بعض اوقات انھیں یہاں پنپنے کے لیے بہترین ماحول بھی میسر ہوتا ہے۔ آپ کے بستر پر آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے جسم کی گرمائش، پسینہ، جلد کے مردہ خلیے اور کھانے کے چھوٹے ذرات بھی موجود ہوتے ہیں جن کی وجہ سے جراثیموں کو اپنی نسل بڑھانے کا موقع ملتا ہے۔

ڈسٹ مائیٹس (یعنی گھر میں موجود دھول مٹی میں پائے جانے والے کیڑ) کی مثال لے لیں۔ ہر روز ہماری جلد سے 50 کروڑ کے لگ بھگ مردہ خلیے جھڑتے ہیں اور کروڑوں کی تعداد میں جھڑنے والے یہی مردہ خلیے اِن ’ڈسٹ مائیٹس‘ کے لیے خوراک کا ایک بڑا ذریعہ بنتے ہیں۔ بدقسمتی سے عام آنکھ سے نظر نہ آنے والے اِن کیڑوں اور اِن کے اجسام سے نکلنے والی رطوبتوں کی وجہ سے آپ کو الرجی ہو سکتی ہے، ایکزیما جیسی جلد کی بیماری ہو سکتی ہے اور دمہ بھی۔

ہمارے بستر پر موجود گدّے اور فوم کے ساتھ ساتھ بستر پر بچھی چادریں بھی جراثیم کی پسندیدہ پناہ گاہوں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔

گھر میں موجود تکیے اور چادر جن پر ’ٹوائلٹ سیٹ سے زیادہ جراثیم ہو سکتے ہیں‘

تصویر
Getty Images
’ہمارے بستر پر موجود گدّے اور فوم کے ساتھ ساتھ بستر پر بچھی چادریں بھی جراثیم کی پسندیدہ پناہ گاہوں میں سے ایک ہو سکتی ہے‘

سنہ 2013 میں بستر بنانے والی ’امیری سلیپ‘ نامی امریکی کمپنی نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے ایک ایسے تکیے کے غلاف سے نمونہ لیا جو ایک ہفتے سے نہیں دھویا گیا تھا۔

اس تکیے کے غلاف پر فی مربع انچ تقریباً 30 لاکھ جراثیم موجود تھے جو کہ اوسطاً ٹوائلٹ سیٹ پر موجود جراثیموں کی تعداد سے تقریباً 17 ہزار گنا زیادہ ہیں۔

برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی میں انفیکشن کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں اور عالمی صحت کے پروفیسر ڈیود ڈیننگ نے اس موضوع پر ایک تحقیق کی ہے۔ سنہ 2006 میں انھوں نے اور اُن کے ساتھیوں نے اپنے دوست احباب کے گھروں سے چھ تکیے لیے۔ یہ تکیے اُن گھروں میں گذشتہ کئی برسوں سے زیر استعمال تھے۔

بظاہر اِن صاف نظر آنے والے تکیوں میں پھپھوندی کی موجودگی کے شواہد ملے، خاص طور پر پھپھوندی کی ’ایسپگیلس فیومی گیٹس‘ نامی قسم کے جو عموماً مٹّی میں موجود ہوتی ہے۔

پروفیسر ڈیننگ نے بتایا کہ ’اگر آپ فنگس کے ذرات کی تعداد کی بات کریں تو یہ ہر تکیے میں اربوں اور کھربوں کی تعداد میں موجود ہو سکتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اتنا فنگس موجود ہونے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ رات کو سوتے وقت زیادہ تر لوگوں کے سروں سے پسینہ نکلتا ہے۔ ہمارے بستروں میں ڈسٹ مائیٹ بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ ڈسٹ مائیٹ کے جسم سے نکلنے والی رطوبت فنگس کی نشوونما میں مدد کرتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اور پھر سر رکھنے کی وجہ سے تکیہ گرم بھی ہو جاتا ہے جس کے باعث فنگس کو پھلنے پھولنے کے لیے ناصرف گرمائش میسر آتی ہے بلکہ غذا اور نمی بھی۔‘

اںھوں نے کہا کہ ویسے بھی زیادہ تر لوگ اپنے تکیے باقاعدگی سے نہیں دھوتے جس کی وجہ سے تکیوں میں فنگس سالہا سال راج کرتی ہے۔ تکیے میں موجود فنگس میں صرف اُس وقت ہل چل مچتی ہے جب ہم اپنے تکیوں کو برابر کرنے کے لیے انھیں تھپتھپاتے ہیں اور یہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے فنگس پورے کمرے میں پھیل جاتا ہے۔

یاد رہے کہ اگر ہم بستر کی چادریں اور تکیوں کے غلاف 50 ڈگری سینٹی گریڈ کے گرم پانی پر بھی دھوئیں تب بھی اُن میں موجود فنگس زندہ رہ سکتا ہے۔

غلاف کے علاوہ اگر تکیوں کی بات کی جائے تو اُن (تکیوں) کو دھونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ایسا کرنے سے اُن میں مزید نمی پیدا ہو جاتی ہے جس سے فنگس کو پھیلنے میں مدد ملتی ہے۔

اگر تکیے دھونے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے؟

تصویر
Getty Images
’اگر ہم بستر کی چادریں اور تکیوں کے غلاف 50 ڈگری سینٹی گریڈ کے گرم پانی پر بھی دھوئیں تب بھی اُن میں موجود فنگس زندہ رہ سکتا ہے‘

پروفیسر ڈیوڈ ڈیننگ کے مطابق اگر آپ کو پھیپھڑوں کی بیماری یا دمہ نہیں ہے تو آپ کو ہر دو سال بعد تکیے بدل لینے چاہییں۔ تاہم جن لوگوں کو ایسی کوئی سانس سے متعلقہ بیماری ہے تو انھیں ہر تین سے چھ ماہ بعد نئے تکیے خرید لینے چاہییں۔

بستر کی چادر کتنی مدت بعد دھونی چاہیے؟ اس پر ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر ہفتے چادر دھونے اور اسے استری کرنے سے جراثیم بہت حد تک کم ہو جاتے ہیں۔

پروفیسر ڈیوڈ ڈیننگ نے کہا کہ ’اگر آپ کے پاس یہ کرنے کے لیے وقت ہے تو آپ اپنی چادروں کو توجہ کے ساتھ اِستری کریں۔ تاہم ہم سب کے جسم میں جراثیم موجود ہوتے ہیں تو ایک صحت مند انسان کے لیے یہ عمل اتنا معنی نہیں رکھتا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ زیادہ بیمار رہتے ہیں تو پھر یہ عمل آپ کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اگر آپ کا بچہ بستر میں پیشاب کر دیتا ہے تو آپ کو چادروں کو بہت توجہ کے ساتھ تیز گرم پانی میں دھونا چاہیے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ اگر آپ کا کوئی پالتو جانور آپ کے ساتھ آپ کے بستر پر لیٹتا ہے تو اس کی وجہ سے بھی جراثیم اور فنگس میں اضافہ ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ نہائے بغیر یا گندے موزے پہن کر یا چہرے پر میک اپ یا لوشن لگا کر بستر میں لیٹ جاتے ہیں تو یوں سمجھیں آپ جراثیم کو بیچ رات میں سنیکس فراہم کر رہے ہیں۔‘

پروفیسر ڈیوڈ ڈیننگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں یہ نہیں کہہ رہا کہ بستر پر بیٹھ کر کھانا پینا نہیں چاہیے لیکن اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ کو چادریں دھونے پر دھیان دینا چاہیے۔ سچ بتاؤں تو ایسے لوگوں کے لیے ہفتہ وار چادر دھوںا بھی کم ہے۔‘

تصویر
Getty Images
’اگر آپ کا کوئی پالتو جانور آپ کے ساتھ آپ کے بستر پر لیٹتا ہے تو اس کی وجہ سے بھی جراثیم اور فنگس میں اضافہ ہوتا ہے‘

ہسپتال میں موجود تکیوں اور بستروں کی صورتحال کیا ہوتی ہے؟

سنہ 2013 میں فرانس کی یونیورسٹی آف لیل میں محققین نے ہسپتالوں میں مریضوں کے بستر پر بچھی چادروں کا معائنہ کیا۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ چادریں ’سٹیفلوکوکس‘ نامی جراثیم کا گڑھ تھیں۔

سٹیفلوکوکس انسانی جلد پر پایا جانے والا ایک عام جراثیم ہے جس کی زیادہ تر اقسام ہماری صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتی ہیں۔ تاہم اس کی ایک قسم ’ایس اوریئس‘ جلد میں انفیکشن اور کیل مہاسے نکلنے کا باعث بن سکتی ہے۔

ایسے لوگ جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے انھیں اس جراثیم سے نمونیا کی بیماری بھی لاحق ہو سکتی ہے۔

برطانیہ میں واقع ویسٹ منسٹر یونیورسٹی میں منال محمد نامی مائیکرو بائیولوجسٹ کا کہنا ہے کہ ’انسانی جلد پر خوردبین سے نظر آنے والے جاندار موجود ہوتے ہیں اور ایک کثیر تعداد میں وہ ہماری جلد سے جھڑتے رہتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’اگرچہ یہ جراثیم نقصان دہ نہیں ہوتے لیکن اگر آپ کے جسم پر کوئی زخم ہو اور اس کی مرہم پٹی نہ ہوئی ہوئی ہو، تو ایسے زخم کے ذریعے جراثیم آپ کے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں جس کے باعث آپ کسی سنگین بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایسا زیادہ تر ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔‘

گندے تکیوں اور چادروں میں جراثیم کی موجودگی کی دریافت خاص طور پر ان لوگوں کے لیے بہت مفید ہے جنھیں دمہ اور سائناسائٹس جیسی سانس کی بیماریاں ہیں۔

ایسے مریض جنھیں دمے کی دائمی بیماری ہے ان میں سے تقریباًآدھوں کو ’ایسپگیلس فیومی گیٹس‘ فنگس سے الرجی ہوتی ہے۔ جن لوگوں کو پہلے تپ دق یا تمباکو نوشی کی وجہ سے پھیپھڑوں کی کوئی بیماری ہو چکی ہو اور ان کا اس فنگس سے رابطہ قائم ہو جائے تو اُن کو پھیپھڑوں کی دائمی بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔

پروفیسر ڈیننگ کے مطابق 99.9 فیصد لوگ جن کا مدافعتی نظام مضبوط ہے ان پر ’ایسپگیلس فیومی گیٹس‘ اثر نہیں کرتا۔ تاہم جن لوگوں کا مدافعتی نظام کمزور ہو اور اگر وہ اس فنگس کی موجودگی میں سانس لے لیں تو ان لوگوں کو ایسے انفیکشن ہو سکتے ہیں جن سے ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

پروفیسر ڈیوڈ ڈیننگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر آپ کو لوکیمیا یا آپ کے کسی عضو کا ٹرانسپلانٹ ہوا ہو اور پھر آپ کو فلو یا کووڈ ہو جائے تو آپ کی طبیعت اتنی بگڑ جائے گی کہ آپ کو آئی سی یو میں داخل کرنا پڑے گا۔ ایسا تب ہوتا ہے جب ’ایسپگیلس فیومی گیٹس‘ نامی فنگس آپ کے پھیپھڑوں میں داخل ہو کر انھیں تباہ کرنا شروع کر دیتی ہے۔‘

اس موضوع پر تحقیق کرنے کے لیے ہسپتال ایک موزوں جگہ ہے کیونکہ یہاں صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ مریض کے جانے کے بعد اور دوسرے مریض کے آنے سے پہلے بستر کی چادر اور تکیے کا غلاف بدل دیے جاتے ہیں۔

سنہ 2018 میں نائجیریا کی ایک یونیورسٹی کے سائنسدانوں کو ہسپتالوں میں مریضوں کے پہننے والے مخصوص کپڑوں سے ’ای کولائی‘ نامی نقصان دہ جراثیم سمیت کئی اقسام کے جراثیم ملے تھے۔ ان جراثیم کی وجہ سے پیشاب کی نالی میں انفیکشن، نمونیا، اسہال، گردن توڑ بخار اور سیپسس )جان کو خطرے میں ڈالنے والی ایک بیماری( جیسی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔

بستر کی گندی چادروں سے انفیکشن ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ سنہ 2022 میں محققین نے ان مریضوں کے کمروں سے نمونے لیے جنھیں منکی پوکس کی شکایت کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔

محققین کو پتہ چلا کہ چادر بدلنے کے عمل کے دوران وائرس کے ذرات ہوا میں معلق ہو جاتے ہیں۔

سنہ 2018 میں برطانیہ میں ایک کیس سامنے آیا جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ ہسپتال میں کام کرنے والے ایک ہیلتھ ورکر (طبی عملے کے رُکن) کو منکی پوکس ہونے کا خدشہ ہے کیوںکہ انھوں نے ایک مریض کے بستر کی چادر وغیرہ بدلی تھی۔

تاہم ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح وائرس کے پھیلنے کا خدشہ کم ہوتا ہے کیوںکہ وہاں صفائی ستھرائی سے متعلق سخت طریقہ کار موجود ہوتے ہیں۔

پروفیسر ڈیود ڈیننگ نے بتایا کہ ہسپتالوں میں ’بہت زیادہ درجہ حرارت پر چادریں دھوئی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے زیادہ تر جراثیم مر جاتے ہیں۔‘

تاہم ایک جراثیم ہے جو زیادہ درجہ حرارت کو بھی برداشت کر جاتا ہے اور اسے 'سی ڈفیسیل' کہتے ہیں۔ اس جراثیم کی وجہ سے معمر افراد کو اسہال جیسی بیماری ہو سکتی ہے۔

پروفیسر ڈیوڈ ڈیننگ نے بتایا کہ چادریں دھونے سے کم از کم 50 فیصد ’سی ڈفیسیل‘ کے جراثیم مر جاتے ہیں تاہم ’اس جراثیم کے مساموں کو مارنا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’برطانیہ میں ’سی ڈفیسیل‘ سے ہونے والے انفیکشن کی رپورٹس میں کمی آئی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کے اگر برطانوی ہسپتالوں میں مریضوں کے کپڑے، چادریں وغیرہ دھونے کے طریقہ کار پر سختی سے عمل کیا جائے تو انفیکشن پھیلنے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.