پاکستان میں پہلے ہی ٹیکن ایک مقبول کھیل ہے اور لوگ اب ٹیکن کے میچ براہِ راست دکھانے میں بھی شوق رکھتے ہیں اور نوجوان خاص کر اسے تفریح کے طور پر کھیلتے نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں پہلے ہی ٹیکن ایک مقبول کھیل ہے اور اب بہت سے شائقین ٹیکن کے میچ براہِ راست دیکھنے کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ نوجوان خاص کر اسے تفریح کے طور پر کھیلتے نظر آتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان کے نوجوان کھلاڑی پروفیشنل ای گیمنگ کی دنیا میں ٹیکن گیم میں اپنی فتوحات کے باعث حاوی ہیں لیکن اِس گیم کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ انھیں نہیں معلوم کہ پاکستان میں اِس کی مقبولیت کی وجہ کیا ہے اور کیسے یہاں کے کھلاڑی اس گیم پر راج کر رہے ہیں۔
جاپان میں بنائی جانے والی اس گیم کو آج سے 30 سال پہلے متعارف کروایا گیا تھا اور رواں برس اس گیم کا آٹھوں ورژن لانچ کیا گیا ہے۔
ٹیکن گیم کے پیشہ وارانہ مقابلوں میں پہلے پہل کورین، جاپانی، یورپی اور شمالی امریکی کھلاڑیوں کا راج ہوا کرتا تھا مگر اب ٹاپ ٹین کھلاڑیوں میں چار پاکستانی کھلاڑی بھی شامل ہیں۔
حال ہی میں ایک گیمنگ ٹورنامنٹ میں ٹیکن گیم کے ڈائریکٹر کاٹشوہیرو ہاردا نے بی بی سی ایشیئن نیٹ ورک کو بتایا اس گیم پر پاکستانی کھلاڑیوں کے راج ’اچانک سے شروع ہوا جس کا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔‘
ٹیکن ایک تھری ڈی میں بنی فائیٹنگ گیم ہے جس میں کھلاڑی ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں اور اس مقابلے میں تین راؤنڈ ہوتے ہیں۔
پاکستان کھلاڑی ارسلان، جنھیں ٹیکن کی دنیا میں ’ارسلان ایش‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، سنہ 2019 میں ایوو گیمنگ ٹورنامنٹ میں فتح حاصل کر کے راتوں رات گیمنگ کی دنیا کے سپر سٹار بن گئے تھے۔
یاد رہے کہ سنہ 2019 میں بی بی سی نے ان کی اس فتح پر ایک خصوصی تحریر پیش کی تھی جس میں سیالکوٹ کے رہائشی اور گیمر فرقان بشارت نے بی بی سی اردو کو بتایا تھا کہ جس طرح کرکٹ کا ورلڈ کپ ہوتا ہے ویسے ای سپورٹس کے لیے ’ایوو‘ سب سے بڑا ٹورنامنٹ ہے۔
ان کے مطابق ’اس میں بہت سخت مقابلے ہوتے ہیں اور یہ گیمرز کا خواب ہوتا ہے کہ وہ یہ مقابلہ جیت پائیں۔۔۔‘
سنہ 2019 میں ٹیکن کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی نے ایک سال میں ایوو کے دونوں مقابلے جیتے تھے اور یہ منفرد اعزاز ارسلان کے پاس آیا تھا جس کے بعد وہ ٹیکن کی تاریخ کے پہلے ایسے فاتح ہیں جنھوں نے دونوں مقابلوں میں پہلی مرتبہ شرکت کی اور مقابلے اپنے نام کیے۔
لاس ویگاس میں ہونے والے ایوو مقابلے میں نو مختلف گیمز میں 1500 کھلاڑیوں نے شرکت کی تھی اور یہ ٹورنامنٹ تین دنوں پر محیط تھا۔
ٹیکن کے کھیل میں کھلاڑی افسانوی کرداروں کی مدد سے لڑائی کرتے ہیں۔ ارسلان عام طور پر ٹیکن کی افسانوی کردار ’کزومی‘ سے کھیلتے ہیں جبکہ فائنل میچ میں ان کے مقابل کھلاڑی ہولی نی ٹیکن کردار ’کزویا‘ سے کھیلا۔ اتفاق سے کزومی اور کزویا کا افسانوی رشتہ ماں اور بیٹے کا ہے۔
ارسلان کی صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ہولی نی کو سنہ 2018 سے 2019 کے درمیان کبھی جیتنے نہیں دیا تھا۔
ارسلان نے مزید چار بار یہ اعزاز حاصل کیا اور اپنے مداحوں اور ٹیکن کےشائقین کی نظروں میں انھیں ’بے تاج بادشاہ‘ کا درجہ حاصل ہے۔
29 سالہ ارسلان اس وقت لندن میں ریڈ بل گولڈن لیٹرز ٹورنامنٹ سے جلد باہر ہونے کے بعد عالمی رینکنگ میں 10 ویں نمبر پر ہیں، لیکن ان کے ساتھی پاکستانی کھلاڑی عاطف بٹ عالمی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
ٹیکن کے ڈائریکٹر ہاردا سان کہتے ہیں کہ ’یہ واضح ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر ایک قوت بن چکا ہے‘ لیکن انھیں آج بھی یہ معلوم نہیں کہ پاکستانی کھلاڑی اس مقام تک کیسے پہنچے۔ وہ کہتے ہیں ’ہمیں کبھی یہ علم نہیں تھا کہ وہ ٹیکن کو اتنی سنجیدگی سے کھیل رہے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’گیم پر اس راج کے باوجود بھی میں آج تک پاکستان نہیں گیا اس لیے میں اب بھی یہ جاننے میں کافی دلچسپی رکھتا ہوں کہ پاکستانی نوجوانوں کو ٹیکن کا اتنا جنون کیوں ہے اور وہ گیم میں اتنے اچھے کیسے ہو گئے۔‘
ٹیکن گیم کے پروڈیوسر مائیکل مرے نے ایشین نیٹ ورک کو بتایا کہ ’جب ارسلان گیمنگ کی دنیا میں منظرعام پر آیا تو انھیں بہت پسند آیا تھا۔‘ وہ کہتے ہیں ’اس وقت اسے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔‘
’پھر کہیں سے بھی کوئی ایسا نہیں تھا جو اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کر رہا ہو اور پھر آپ کو ایک ایسی کمیونٹی مل جائے جہاں ارسلان اکیلا نہیں تھا بلکہ اس جیسے اور بھی تھے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ ایک شاندار کہانی تھی اور مجھے آج بھی یاد ہے کہ اسے سُننا کتنا پُرجوش تھا۔‘
ٹیکن گیم کے لندن میں ہونے والے حالیہ مقابلے میں، جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے لم سو-ہون جن کا گیمنگ کی دنیا میں نام ’السن‘ ہے نے فائنل میں شاندار مقابلے کے بعد جے ہون کماور گیمنگ کی دنیا میں ’چیری بیری مینگو‘ کے نام سے جانے جانے والے کھلاڑی کو ہرا کر پہلی پوزیشن حاصل کی۔
ان کے ساتھ اس مقابلے میں امریکہ، جاپان اور یورپ کے کھلاڑی شامل تھے جس نے ٹیکن کی عالمی مقبولیت کا پتا چلتا ہے۔
ہاردا سان گذشتہ 30 برسوں سے اس گیم کی سیریز پر کام کر رہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اس کے ساتویں ورژن کے بعد عالمی سطح پر اس کے مقابلوں میں تیزی آئی۔
انھوں نے ایشین نیٹ ورک کو بتایا کہ جب انھوں نے پہلی بار اپنی والدہ کو بتایا کہ وہ ویڈیو گیمز میں اپنا کیریئر بنانا چاہتے ہیں تو ان کی والدہ رو پڑیں، لیکن اب جب ان کا خاندان ان کی شہرت دیکھتا ہے تو انھیں ’کافی فخر‘ محسوس ہوتا ہے۔
ان کے گھر والے کہتے ہیں کہ ’واہ اب تو تم واقعی کچھ اچھا کر رہے ہو۔‘
ہاردا کہتے ہیں کہ انھیں خوشی ہے کہ ٹیکن آج بھی لوگوں میں مقبول ہے اور وہ اسے یہاں تک لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
لیکن وہ ایک بات پر افسوس بھی ہے کہ اب یہ ہی واحد تھری ڈی فائیٹنگ گیم بچی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اچھا ہوتا کہ اس گیم کے اور بھی حریف ہوتے۔‘