امریکی صدارتی انتخابات: کیا کملا ہیرس اور ٹرمپ کے درمیان سخت مقابلے میں ’اکتوبر سرپرائز‘ نتائج کا رخ بدل سکتا ہے؟

قومی اور ریاستی سطح پر دونوں امیدواروں کے درمیان وائٹ ہاؤس تک پہنچے کی دوڑ میں سخت مقابلہ ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ جیت کا مارجن کم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس صورت حال میں ہر ایک ووٹ ناک آؤٹ کرنے جیسی طاقت رکھتا ہے چاہے وہ نئے ووٹرز کا ہو یا پھر ان کا جنھوں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا ہے کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے۔
ٹرمپ اور ہیرس مدمقابل
Reuters
ٹرمپ اور ہیرس مدمقابل

امریکی صدارتی انتخابات میں اب محض ایک ماہ باقی رہ گیا ہے اور اس دوران ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان انتخابی مقابلہ کانٹے کا ہو گیا ہے۔

قومی اور ریاستی سطح پر دونوں امیدواروں کے درمیان وائٹ ہاؤس تک پہنچے کی دوڑ میں سخت مقابلہ ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ جیت کا مارجن کم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس صورت حال میں ہر ایک ووٹ ناک آؤٹ کرنے جیسی طاقت رکھتا ہے چاہے وہ نئے ووٹرز کا ہو یا پھر ان کا جنھوں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا ہے کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے۔

رٹگرز یونیورسٹی کے امریکہ میں صدارتی تاریخ کے ماہر ڈیوڈ گرین برگ کہتے ہیں کہ ’کسی بھی انتہائی قریبی دوڑ میں، جہاں رائے دہندگان بٹے ہوئے ہوں وہاں ایک یا دو فیصد کا فرق فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔‘

جبکہ دونوں پارٹیوں کی حکمت عملی بنانے والوں کی توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ فیصلہ کن برتری کیسے حاصل کی جائے۔ لیکن یہ ان کے قابو سے باہر ہے کیونکہ آخری ہفتوں میں جب انتخابی مہم زوروں پر ہوتی ہے کوئی بھی غیر متوقع موڑ یا واقعہ اس کو بدل سکتا ہے۔

پہلے سے ہی یہ سیاسی جھٹکوں کا سال رہا ہے کیونکہ ایک امیدوار (ٹرمپ)دو بار قاتلانہ کوششوں میں زندہ بچے ہیں اور جرم کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب صدر جو بائیڈن انتخابی مہم کے دوران اپنے سے بہت چھوٹے نائب صدر کے حق میں صدارتی دوڑ سے دستبردار ہوئے ہیں۔

لیکن جب اکتوبر میں چیزیں مستحکم ہونے لگے گیں ایسے میں اگر ٹرمپ کی ایکسیس ہالی وڈ ٹیپ یا ہلیری کلنٹن کی 2016 کی ای میلز جیسی چیزیں سامنے آتی ہیں تو ٹرمپ یا کملا ہیرس کے کسی بھی غلط قدم یا بری خبر کے بعد اس سے نکلنے کے لیے بہت کم وقت ملے گا۔

اسی ہفتے کو دیکھیں تو کئی ایسی نئی ہنگامہ آرائیاں نظر آئی ہیں جو پانچ نومبر تک سیاسی طوفان میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔

ہیلن طوفان کی زد میں ایک گھر
Getty Images
ہیلین طوفان سے ہلاکتوں کی تعداد 130 سے زائد ہوگئی ہے

ہیلین طوفان کے سیاسی نتائج

پہلا ممکنہ اہم سیاسی طوفان بہت حد تک حقیقی تھا۔ سمندری طوفان ہیلین نے گذشتہ ہفتے دو اہم انتخابی ریاستوں جارجیا اور شمالی کیرولائنا میں تباہی مچائی۔ اس صدارتی دوڑ میں دونوں ریاستوں پر شدید توجہ مرکوز ہونے کی وجہ سے اس سمندری طوفان سے پیدا ہونے والی قدرتی آفت بھی ایک سیاسی مسئلہ بن گئی ہے کیونکہ اس میں ہلاکتوں کی تعداد 130 سے زیادہ ہو گئی ہے۔

ہیرس نے رواں ہفتے کے شروع میں جارجیا میں اپنے مختصر قیام کے دوران خطے کے لیے طویل مدتی امداد کا وعدہ کیا جبکہ انھوں نے سنیچر کے روز شمالی کیرولائنا میں طوفان سے متاثرہ لوگوں سے ملاقات کی۔

انھوں نے جارجیا میں کہا ’ہم یہاں بڑی تبدیلی کے لیے آئے ہیں۔‘

دریں اثنا ان دونوں ریاستوں کا ٹرمپ کے لیے جیتنا لازمی ہے جبکہ وہاں ہونے والے پولز بتاتے ہیں کہ دونوں برابری پر ہیں۔ جارجیا کے دورے کے دوران سابق صدر ٹرمپ نے دعوی کیا کہ امریکی باشندے ہنگامی امدادی رقم سے اس لیے محروم ہیں کیونکہ ان کی رقم تارکین وطن پر خرچ کی جا رہی ہیں۔

درحقیقت ان دونوں الگ الگ پروگراموں کے عیلحدہ عیلحدہ بجٹ ہیں اور بائیڈن انتظامیہ نے ریپبلکنز پر ’کھلے عام جھوٹ‘ پھیلانے کا الزام لگایا۔

جب کوئی آفت آتی ہے تو حکومت کے لیے سب کو خوش رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ اگر ٹرمپ کے حملے بحالی کی کوششوں میں ووٹرز کے عدم اطمینان کو تقویت پہنچاتے ہیں تو یہ ممکنہ طور پر ملک کی دو سب سے زیادہ کانٹے کے مقابلے والی ریاستوں کے نتائج کو متاثر کر سکتے ہیں۔

مشرق وسطی میں جنگ کے بادل
Reuters
مشرق وسطی میں جنگ کے بادل

مشرق وسطیٰ میں کشیدگی

قدرتی تباہی سے تباہ حال جنوب مشرقی امریکی ریاستوں سے ہزاروں میل دور ایک انسان اور بحران امریکی سیاست پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ غزہ کی جنگ خطے کی جنگ میں پھیلنے کے خطرے سے دوچار ہے، کیونکہ اسرائیلی افواج جنوبی لبنان میں حزب اللہ کی افواج کے مدمقابل ہے اور ایران نے رواں ہفتے کے شروع میں اسرائیل پر سینکڑوں میزائل داغے ہیں۔

اگرچہ کملا ہیرس نے خود کو تبدیلی لانے والے امیدوار کے طور پر پیش کیا ہے، لیکن جب بات امریکہ-اسرائیل پالیسیوں کی آتی ہے تو انھوں نے موجودہ انتظامیہ کے فیصلوں کی توثیق کی ہے اور ان میں کوئی فاصلہ یا فرق نہیں ہے۔ اور اس میں خطرات مضمر ہیں۔

امریکی انتخابات سے قبل غزہ میں کسی بھی قسم کی جنگ بندی کی امیدیں مضبوطی سے دم توڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اور اس وقت وائٹ ہاؤس اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ منگل کے ایرانی حملے کے جواب میں اسرائیل کا ناگزیر ردعمل ہمہ گیر جنگ کا باعث نہ بنے۔

جمعرات کی رات صدر بائیڈن قطعی طور پر لوگوں کو مطمئن کرنے میں ناکام نظر آئے۔

انھوں نے کہا کہ ’مجھے یقین نہیں ہے کہ ایک کھلی جنگ شروع ہو جائے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم اس سے بچ سکتے ہیں۔ لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔‘

اگرچہ امریکی ووٹرز عام طور پر اپنا ووٹ ڈالتے وقت خارجہ پالیسی کے بارے میں براہ راست نہیں سوچتے لیکن جنگ ڈیموکریٹس کے لیے معنی خیز ہو سکتی ہے اور اس کے اثرات ہو سکتے ہیں۔

اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھنے کا ہیرس کا عزم ڈیموکریٹک بنیاد والے دو اہم طبقات کے لیے مسئلہ ہو سکتے ہیں۔ ایک ریاست مشی گن میں عرب امریکی ووٹرز ان سے دوری بنا سکتے ہیں اور دوسرے یونیورسٹی کیمپسوں نوجوان ووٹرز متاثر ہو سکتے ہیں کیونکہ وہاں جنگ مخالف مظاہرے دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں تنازعات نے مالی وسائل کے خدشات کو بھی ہوا دی ہے۔ بائیڈن نے جب اسرائیل کی جانب سے ایرانی آئل ریفائنریوں کو نشانہ بنانے کے خدشات کا اظہار کیا اس کی وجہ سے جمعرات کو تیل کی قیمتوں میں پانچ فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہو گيا ہے۔

اگر ایک چیز جس کے بارے میں امریکی صارفین خاص طور پر حساس ہیں تو وہ پٹرول پمپ پر پٹرول کی زیادہ قیمت ہے۔

کملا ہیرس
Reuters
کملا ہیرس

ڈیموکریٹس کے لیے سرپرائز

تمام رائے عامہ کے سروے یہ ظاہر کرتے رہتے ہیں کہ امریکی ووٹروں کے لیے معیشت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اور ہیرس اور ڈیموکریٹس کو جمعہ کے روز اس محاذ پر کچھ اچھی خبریں موصول ہوئی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ روزگار کے تازہ ترین اعداد و شمار میں گذشتہ چند مہینوں کے دوران ملازمت میں زبردست اضافہ دیکھا گيا ہے اور بے روزگاری کی سطح 4.1 فیصد تک گر گئی ہے۔

گرینبرگ کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود معیشت پر ووٹروں کے خدشات تازہ ترین روز گار کے مواقع کے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’جب لوگ معیشت کے بارے میں شکایت کرتے ہیں، تو وہ واقعی ملک کے بعض حصوں میں طویل مدتی ناکامی کی شکایت کر رہے ہوتے ہیں، جیسے دیہی امریکہ کی غیر صنعتی کمیونٹیز۔ یہ ملک کے وہ حصے ہیں جو اچھی معیشت میں بھی نقصان میں ہیں۔‘

انتخابی مہم کے دوران زیادہ تر سروے میں جب ووٹروں سے معیشت کے بارے میں پوچھا گیا ہے کہ کون سی حکومت اچھی رہی تو ٹرمپ نے ہیرس سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

سی این این کے حالیہ سروے میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے۔ لیکن اس بات کے شواہد ہیں کہ ان کی برتری کو پتھر پر لکیر نہیں مانا جا سکتا کیونکہ سوئنگ ریاستوں میں کیے جانے والے کُک پولیٹیکل رپورٹ کے سروے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں امیدوار اس معاملے پر برابر ہیں کہ کون مہنگائی سے نمٹنے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔

ڈیموکریٹس کے سامنے آنے والا ایک معاشی نقصان بھی اس ہفتے ختم ہو گيا جب ڈاک ورکرز نے اپنی ہڑتال ختم کر دی۔ اس ہڑتال نے گذشتہ 50 سالوں میں پہلی بار مشرقی ساحل اور خلیج میکسیکو کی اہم بندرگاہوں کو مختصر طور پر بند کر دیا تھا۔ دونوں فریقین نے بندرگاہوں کو دوبارہ کھولنے پر اتفاق کرتے ہوئے جنوری میں اس پر بات چیت کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

اگر ان بندرگاہوں پر کام بند رہتا تو اس سے سپلائی چین میں خلل پڑ سکتا تھا اور انتخابات سے پہلے کے ہفتوں میں مصنوعات کی قیمتیں بڑھ سکتی تھیں۔

دریں اثنا امریکہ-میکسیکو کی سرحد پر بغیر دستاویز کے سرحد عبور کرنے کا معاملہ گذشتہ دسمبر اپنی بلند ترین سطح پرتھا لیکن اب وہ کووڈ سے پہلے کی سطح پر واپس آگیا ہے۔

اگرچہ سرحد سے لوگوں کے آنے میں اضافے کا اثر اب بھی بہت سے امریکی شہروں میں محسوس کیا جا رہا ہے لیکن اس بحران سے نمٹنے کی فوری ضرورت کم ہو رہی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ
EPA
ڈونلڈ ٹرمپ

کیپیٹل کے فسادات دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں

اگرچہ رواں ہفتے کی زیادہ تر خبریں ہیریس اور ڈیموکریٹس کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں لیکن یہ ہفتہ ٹرمپ کے لیے ہموار نہیں تھا۔

تقریبا چار سال قبل چھ جنوری کو امریکی کیپیٹل ہل پر حملے کے دوران ٹرمپ کا طرز عمل بدھ کو ایک بار پھر لوگوں کے سامنے اس وقت آیا جب ایک وفاقی جج نے خصوصی وکیل جیک سمتھ کی جانب سے ایک دستاویز جاری کیں جس میں سنہ 2020 کے انتخابی نتائج کو الٹنے کی کوشش کے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف جاری کیس میں شواہد پیش کیے۔

ان دستاویز میں استدلال کیا گیا ہے کہ سابق صدر کو استغاثہ سے صدارتی استثنیٰ نہیں دیا جانا چاہیے۔ اس میں ٹرمپ کے الفاظ اور اقدامات کے بارے میں نئی تفصیلات موجود ہیں جو ان کے حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہنگامے کا باعث بنے۔

سی این این کے ایک حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ووٹرز نے ’جمہوریت کے تحفظ‘ کے مسئلے پر ٹرمپ کے مقابلے میں ہیرس کی حمایت کی ہے۔ اگر ٹرمپ کو 40 فیصد ووٹ ملے ہیں تو ہیرس کو 47 فیصد حمایت ملی ہے۔ لہذا کوئی بھی چیز جو ٹرمپ کی افراتفری پھیلانے پر ان آخری ہفتوں میں توجہ مرکوز کرتی ہے وہ ڈیموکریٹ کے فائدے میں ہوسکتی ہے۔

ہیرس اور ٹرمپ
BBC
ہیرس اور ٹرمپ

نامعلوم خدشات

’اکتوبر سرپرائز‘ کی اصطلاح تقریباً 50 سالوں سے امریکی سیاسی لغت میں ایک حقیقت ہے۔ یہ اصطلاح نومبر میں ووٹنگ سے قبل اکتوبر کے مہینے میں جاری انتخابی مہمات کے دوران کسی غیر متوقع سرخی یا بحران کے لیے ہوتی ہے جو ہوا کا رخ بدل دیتا ہے۔

اس موقعے پر رائے عامہ کی ایک چھوٹی سی بھی لہر وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کی دوڑ کے ایک سال کی مہم پر بھاری پڑ سکتی اور وہ بھی ایسے میں جب سوئنگ ریاستوں میں انتخابی مارجن کو صرف دسیوں ہزار ووٹوں میں جانچا جا سکتا ہے۔

گرینبرگ کا کہنا ہے کہ نومبر کی رائے شماری ناخن چبانے والی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے پاس کوئی ناخن چبانے کے لیے باقی نہیں ہے۔ میں مکمل طور پر تصور کر سکتا ہوں کہ یہ انتخاب کسی بھی طرف جا سکتا ہے اور اس کے اہم نتائج ہو سکتے ہیں چاہے آپ کسی بھی پارٹی کے وفادار ہوں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.