رپورٹ کے مطابق 12 سال پرانے بوئنگ 787 ڈریم لائنر طیارے کے ٹیک آف کے فوراً بعد دونوں فیول کنٹرول سوئچ اچانک ’کٹ آف‘ پوزیشن پر چلے گئے جس کے باعث انجنوں کو ایندھن کی فراہمی بند ہو گئی اور مکمل پاور لوڈ ڈاؤن ہو گیا۔

جون میں پیش آنے والے ایئر انڈیا کی فلائٹ 171 کے المناک حادثے کی ابتدائی تحقیقات میں ایک دل دہلا دینے والا انکشاف سامنے آیا ہے۔ اس حادثے میں 260 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق 12 سال پرانے بوئنگ 787 ڈریم لائنر طیارے کے ٹیک آف کے فوراً بعد دونوں فیول کنٹرول سوئچ اچانک ’کٹ آف‘ پوزیشن پر چلے گئے جس کے باعث انجنوں کو ایندھن کی فراہمی بند ہو گئی اور مکمل پاور لوڈ ڈاؤن ہو گیا۔
عام طور پر ’کٹ آف‘ موڈ لینڈنگ کے بعد استعمال کیا جاتا ہے، پرواز کے دوران نہیں۔
ابتدائی رپورٹ کے مطابق جب کاک پٹ میں ہونے والی گفتگو اور مختلف قسم کی ’مشینی آوازوں‘ کی ریکارڈنگ کا جائزہ لیا گیا تو اس میں ایک پائلٹ دوسرے سے پوچھتا ہے کہ ’تم نے (فیول کنٹرول سوئچ) کٹ آف کیوں کیا؟‘ جس پر جواب آتا ہے کہ ’میں نے نہیں کیا۔‘
تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ جملے کس نے کہے۔ پرواز کے وقت معاون پائلٹ (کو پائلٹ) جہاز اڑا رہے تھے جبکہ کپتان نگرانی کر رہے تھے۔
سوئچز کو دوبارہ نارمل پرواز کی پوزیشن پر لایا گیا جس سے انجن دوبارہ سٹارٹ ہونے کا عمل شروع ہوا۔ حادثے کے وقت ایک انجن دوبارہ پاور حاصل کر رہا تھا جبکہ دوسرا انجن سٹارٹ ہو چکا تھا لیکن پاور کی مکمل بحالی نہیں ہوئی تھی۔
ایئر انڈیا فلائٹ 171 بمشکل 40 سیکنڈ تک فضا میں رہی اور اس کے بعد مغربی انڈین شہر احمد آباد کے ایک گنجان آباد علاقے میں گر کر تباہ ہو گئی۔ اسے انڈیا کی ہوابازی کی تاریخ کے سب سے پراسرار حادثات میں سے ایک میں شمار کیا جا رہا ہے۔
تحقیقات کرنے والے ملبے اور کاک پٹ کی ریکارڈنگز کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ ٹیک آف کے فوراً بعد کیا غلطی ہوئی۔ پرواز نے صاف موسم میں 625 فٹ بلندی تک اڑان بھری تھی لیکن 50 سیکنڈ بعد اس کا لوکیشن ڈیٹا غائب ہو گیا جیسا کہ فلائٹ ریڈار 24 نے بھی رپورٹ کیا ہے۔ سنیچر کے روز جاری کردہ 15 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ابتدائی معلومات دی گئی ہیں۔
یہ تحقیقات انڈین حکام کی قیادت میں کی جا رہی ہیں جس میں بوئنگ، جنرل الیکٹرک، ایئر انڈیا، انڈین ریگولیٹرز کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ کے ماہرین بھی شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق فیول کنٹرول لیور لاک سوئچز کو غلطی سے فعال ہونے سے روکنے کے لیے خاص طریقے سے بنایا گیا ہے۔ انھیں پہلے اوپر اٹھا کر پھر پلٹنا ہوتا ہے، یہ ایک پرانا حفاظتی فیچر ہے جو 1950 کی دہائی سے چلا آ رہا ہے۔ ان سوئچز کے اردگرد حفاظتی بریکٹس بھی ہوتے ہیں تاکہ انھیں حادثاتی طور پر آن نہ کر دیا جائے۔
فضائی حادثات کے ایک کینیڈین ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’دونوں سوئچز کو ایک ہی ہاتھ کی ایک حرکت سے کھینچنا تقریباً ناممکن ہے، اسی لیے ان کا حادثاتی طور پر آن ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔‘
اسی چیز نے ایئر انڈیا فلائٹ 171 کے کیس کو مزید الجھا دیا ہے۔
کینیڈا میں مقیم ہوائی حادثات کے ایک ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا 'دونوں سوئچز کو ایک ہی ہاتھ کی ایک حرکت سے کھینچنا تقریباً ناممکن ہے، اسی لیے اسے حادثاتی طور پر حرکت دینے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔'ایئرلائن حادثوں کے سابق تحقیق کار اور اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی میں ہوا بازی کے ماہر شان پروچنیکی کا کہنا ہے کہ اگر ان دونوں فیول کنٹرول سوئچز کو بند کرنے کا ذمہ دار کوئی ایک پائلٹ ہے چاہے وہ دانستہ ہو یا انجانے میں۔۔۔ تو اس صورت میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر پائلٹ نے سوئچز کو ’آف‘ پوزیشن پر کیوں منتقل کیا؟
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا دانستہ طور پر کیا گیا یا یہ کسی الجھن کا نتیجہ تھا؟ یہ امکان کمزور لگتا ہے کیونکہ پائلٹس نے کسی بھی غیرمعمولی صورتحال کی اطلاع نہیں دی تھی۔ اکثر کاک پٹ کی ایمرجنسی صورتحال میں پائلٹس غلط بٹن دبا دیتے ہیں یا غلط انتخاب کر لیتے ہیں، لیکن یہاں ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آتی نہ ہی کوئی ایسی بات ریکارڈ میں آئی ہے جو یہ ظاہر کرے کہ فیول سوئچ غلطی سے منتخب کیے گئے تھے۔ ایسی غلطی عام طور پر کسی بڑے مسئلے کے بغیر نہیں سرزد ہوتی۔‘
ڈریملائنر 787 طیارے کے کاک پٹ کنٹرول پینل کا اندرونی منظر جس میں مختلف حصے لیبل کے ساتھ دکھائے گئے ہیں۔ درمیان میں نمایاں تھرسٹ لیورز موجود ہیں۔ بائیں جانب انجن فیول کنٹرول سوئچز ہیں جو ایندھن کی فراہمی بند کر کے انجن کو بند کر سکتے ہیں۔ دائیں جانب وہ سوئچز ہیں جن میں 'سٹاپ لاک' کا میکانزم لگا ہوتا ہے جسے گھمانے سے پہلے اٹھانا ضروری ہوتا ہے۔ سوئچز کی حادثاتی حرکت سے بچانے کے لیے حفاظتی بریکٹس بھی نصب ہیں۔پیٹر گوئلز جو امریکہ کے نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ (این ٹی ایس بی) کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر رہ چکے ہیں، نے بھی اسی نوعیت کے خدشات کا اظہار کیا۔
انھوں نے کہا ’یہ انکشاف انتہائی تشویشناک ہے کہ پرواز کے چند ہی لمحوں بعد ایک پائلٹ نے فیول سوئچ بند کر دیا۔‘
گوئلز کے مطابق ’ممکن ہے کہ کاک پٹ وائس ریکارڈر میں وہ کچھ ہو جو اب تک سامنے نہیں آیا۔ صرف ایک جملہ ’تم نے سوئچ کیوں بند کیے؟‘ کافی نہیں ہے۔‘
’نئی تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کاک پٹ میں موجود کسی فرد نے وہ سوئچز بند کیے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کون تھا اور اس نے ایسا کیوں کیا؟ دونوں سوئچ چند سیکنڈ میں بند ہوئے اور پھر دوبارہ آن کیے گئے۔ وائس ریکارڈر مزید وضاحت فراہم کرے گا کہ کیا جہاز اڑانے والے پائلٹ نے انجن ری سٹارٹ کرنے کی کوشش کی تھی یا جو نگرانی کر رہے تھے انھوں نے ایسا کیا۔‘
تحقیقاتی ٹیم کا ماننا ہے کہ کاک پٹ وائس ریکارڈر جو پائلٹس کی گفتگو، ریڈیو کالز اور کاک پٹ کے پسِ منظر کی آوازیں محفوظ کرتا ہے، اس معمے کو حل کرنے کی کنجی ہے۔
گوئلز کے مطابق ’شناخت کا عمل بہت اہم ہے تاہم تاحال یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آوازیں کس کی ہیں۔ عام طور پر جب وائس ریکارڈر کا جائزہ لیا جاتا ہے تو وہ افراد بھی موجود ہوتے ہیں جو پائلٹس کو ذاتی طور پر جانتے ہیں تاکہ آوازوں کی شناخت میں مدد ملے۔ ابھی تک ہم یہ نہیں جانتے کہ سوئچ بند اور دوبارہ آن کس پائلٹ نے کیے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مرحلے پر ضروری ہے کہ کاک پٹ وائس ریکارڈر کی مکمل ٹرانسکرپٹ تیار کی جائے، ہر بولنے والے کی شناخت واضح ہو اور جہاز کے گیٹ سے پیچھے ہٹنے کے لمحے سے لے کر حادثے تک کی تمام گفتگو اور کمیونیکیشن کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس واقعے نے کاک پٹ ویڈیو ریکارڈرز کی ضرورت کو اجاگر کر دیا ہے جیسا کہ این ٹی ایس بی کی طرف سے پہلے بھی سفارش کی جا چکی ہے۔ اگر ایک ’اوور دی شولڈر‘ کیمرہ موجود ہوتا تو یہ واضح ہو جاتا کہ سوئچ پر ہاتھ کس کا تھا۔
رپورٹ کے مطابق فلائٹ 171 میں سوار ہونے سے قبل دونوں پائلٹس اور عملے نے بریتھلائزر ٹیسٹ (یعنی کیا انھوں نے شراب نوشی تو نہیں کر رکھی) دیا تھا اور انھیں پرواز کے لیے فٹ قرار دیا گیا تھا۔ دونوں پائلٹس ممبئی سے تعلق رکھتے تھے اور پرواز سے ایک روز قبل احمد آباد پہنچے تھے، جہاں انھیں مناسب آرام بھی ملا۔
تاہم تحقیقاتی ٹیم رپورٹ کے ایک اور پہلو پر بھی خاص توجہ دے رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق دسمبر 2018 میں امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) نے ایک سپیشل ایئروردینیس انفارمیشن بلیٹن (سیئب) جاری کیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ کچھ بوئنگ 737 طیاروں میں فیول کنٹرول سوئچز بغیر لاکنگ فیچر کے نصب کیے گئے تھے۔
اگرچہ یہ مسئلہ نوٹ کیا گیا لیکن اسے اتنا سنگین نہیں سمجھا گیا کہ ایئر وردینیس ڈائریکٹِو (اے ڈی) یعنی ’کسی خطرناک تکنیکی خرابی کی قانونی اصلاح‘ جاری کی جائے۔
یہی فیول سوئچ ڈیزائن بوئنگ 787-8 ماڈل میں بھی استعمال کیا جاتا ہے جس میں ایئر انڈیا کا تباہ ہونے والا طیارہ VT-ANB بھی شامل ہے۔
چونکہ ’سیئب‘ محض ایک ایڈوائزی تھی اس لیے ایئر انڈیا نے اس میں دی گئی سفارشات کے مطابق معائنہ نہیں کروایا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیول ٹینکس سے لیے گئے ایندھن کے نمونے 'اطمینان بخش' تھے۔ ماہرین نے اس سے پہلے ایندھن میں آلودگی کو دونوں انجن فیل ہونے کی ممکنہ وجہ قرار دیا تھا۔اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی کے ہوا بازی کے ماہر اور سابق فضائی حادثات کے تفتیش کار شان پروچنیکی نے سوال اٹھایا ہے کہ آیا فیول کنٹرول سوئچز میں کوئی تکنیکی خرابی تو نہیں تھی۔
انھوں نے کہا ’رپورٹ کے اس حصے کا مطلب اصل میں کیا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ایک بار سوئچ پلٹنے سے انجن بند ہو سکتا ہے اور ایندھن کی فراہمی رک سکتی ہے؟ اگر سوئچ کا لاکنگ فیچر فعال نہ ہو تو کیا وہ خود بخود ’آف‘ پوزیشن پر جا سکتا ہے؟ اگر ایسا ممکن ہے تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اور اگر نہیں تو پھر اس کی وضاحت بھی ضروری ہے۔‘
تاہم دیگر ماہرین اس معاملے کو اتنا اہم نہیں سمجھتے۔
گولز نے کہا ’میں نے ایف اے اے کی اس تنبیہ کے بارے میں نہیں سنا جو بظاہر کم توجہ حاصل کرنے والا نوٹس تھا۔ نہ ہی میں نے کبھی پائلٹس کی طرف سے ایسے فیول سوئچز پر کسی شکایت کے بارے میں سنا حالانکہ پائلٹس کسی بھی مسئلے پر فوراً بول اٹھتے ہیں۔ چونکہ یہ بات رپورٹ میں آئی ہے لہذا اس کا جائزہ ضرور لینا چاہیے لیکن یہ شاید توجہ ہٹانے والی بات ہو۔‘
انڈیا کے ائیر کرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹیگیشن بیورو (اے اے آئی بی) کے سابق تفتیش کار کیپٹن کشور چنتا نے اس امکان پر بات کی کہ شاید فیول سوئچز طیارے کے الیکٹرانک کنٹرول یونٹ کی وجہ سے خود بخود ٹرپ ہوئے ہوں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’کیا طیارے کا الیکٹرانک کنٹرول یونٹ بغیر پائلٹ کی حرکت کے خود بخود فیول کٹ آف سوئچز کو ٹرپ کر سکتا ہے؟ اگر یہ سوئچز الیکٹرانک طور پر ٹرپ ہوئے تو یہ باعثِ تشویش ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیول ٹینکس سے لیے گئے ایندھن کے نمونے ’اطمینان بخش‘ تھے۔ ماہرین نے اس سے پہلے ایندھن میں آلودگی کو دونوں انجن فیل ہونے کی ممکنہ وجہ قرار دیا تھا۔ خاص بات یہ ہے کہ نہ تو بوئنگ 787 اور نہ ہی اس کے GE GEnx-1B انجن کے لیے کوئی انتباہ جاری کیا گیا ہے اور تحقیقات مکمل ہونے تک میکینیکل خرابی کو بھی خارج از امکان قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ طیارے کا ریم ائیر ٹربائن (ریٹ) متحرک ہو گیا تھا جو کسی بڑے سسٹمز کے فیل ہونے کی واضح علامت ہے اور لینڈنگ گئیر ’ڈاؤن پوزیشن‘ میں ملا۔۔۔ یعنی وہ اندر نہیں گیا تھا۔
’ریٹ‘ ایک چھوٹا پروپیلر ہوتا ہے جو بوئنگ 787 ڈریم لائنر کے نچلے حصے سے باہر آتا ہے اور ایمرجنسی بیک اپ جنریٹر کے طور پر کام کرتا ہے۔ اگر دونوں انجن فیل ہو جائیں یا تینوں ہائیڈرولک سسٹمز کا پریشر خطرناک حد تک کم ہو جائے تو ’ریٹ‘ محدود پاور فراہم کر کے بنیادی پرواز کے نظام کو فعال رکھتا ہے۔‘
شان پروچنیکی کہتے ہیں ’ریٹ کا متحرک ہونا اس بات کی مضبوط دلیل ہے کہ دونوں انجن فیل ہو چکے تھے۔‘
ایک بوئنگ 787 کے موجودہ پائلٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پرواز کے وقت لینڈنگ گئیر واپس نہ جانا ایک قدرتی ردعمل تھا۔
’جب بھی میں 787 میں ٹیک آف کرتا ہوں تو میں لینڈنگ گئیر کے ہٹنے کا عمل غور سے دیکھتا ہوں۔ گئیر ہینڈل عام طور پر 200 فٹ کی بلندی پر کھینچا جاتا ہے اور پورا عمل 400 فٹ تک مکمل ہو جاتا ہے یعنی آٹھ سیکنڈ کے اندر اور ایسا طیارے کے ہائی پریشر ہائیڈرولک سسٹم کی بدولت ممکن ہوتا ہے۔‘
تاہم اس پائلٹ کا کہنا ہے کہ جس وقت دونوں انجن بند ہو جائیں، وہ لمحہ صرف حیرانی کا نہیں، بلکہ سُن کر دینے والا ہوتا ہے۔
’اس لمحے میں آپ لینڈنگ گئیر کے بارے میں نہیں سوچتے۔ پوری توجہ ایک ہی چیز پر ہوتی ہے: فلائٹ پاتھ۔ کہاں اور کیسے طیارہ اتارا جا سکتا ہے؟ اور اس کیس میں تو بلندی ہی اتنی کم تھی کہ کچھ سوچنے کا وقت نہیں تھا۔‘
تحقیقات کرنے والے حکام کے مطابق پائلٹس نے طیارے کو سنبھالنے کی کوشش ضرور کی لیکن سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ وہ ناکام رہے۔
شان پروچنیکی کے مطابق ’دونوں انجن پہلے بند ہوئے اور پھر دوبارہ آن کیے گئے۔ پائلٹس نے محسوس کیا کہ انجن پاور کھو رہے ہیں۔ غالباً پہلے بائیں انجن کو دوبارہ شروع کیا گیا، پھر دائیں کو۔‘
’لیکن دائیں انجن کو دوبارہ مکمل پاور حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ دونوں انجن آخرکار ’رن‘ موڈ پر سیٹ کیے گئے تھے لیکن چونکہ بایاں پہلے بند ہوا تھا اور دایاں دیر سے آن ہوا تو نتیجہ صرف یہی تھا: بہت دیر ہو چکی تھی۔‘