قرضوں پر سود کا بھاری بوجھ، حکومت یومیہ 24 ارب روپے ادا کر رہی ہے

image

وفاقی حکومت نے گزشتہ مالی سال کے دوران قرضوں پر سود کی مد میں 8 ہزار 887 ارب روپے کی ادائیگی کی جو اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 9 فیصد زیادہ ہے۔

آخری سہ ماہی یعنی اپریل تا جون کے دوران قرضوں پر سود کی مد میں حکومت نے 2 ہزار ارب 440 ارب روپے ادا کیے ہیں۔ ان قرضوں میں ملکی بینکوں سے حاصل قرض کا حجم زیادہ ہے جب کہ بیرونی قرضے بھی شامل ہیں۔ قرضوں پر سود کی مد میں سال 2023 میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا جب کہ شرح سود 23 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھا لیکن اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں پچھلے ایک سال کے دوران 12 فیصد کی کمی سے حکومت پر سود بڑھنے کی رفتار کچھ کم ہوگئی ہے لیکن معاشی ماہرین کے مطابق اب بھی یہ بوجھ بہت زیادہ ہے۔ حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کے لیے بھی قرضوں پر سود ادائیگی کے لیے 8 ہزار 207 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

وفاقی وزارت خزانہ کے اعدادو شمار کے مطابق وفاقی حکومت نے گزشتہ سال جتنا سود ادا کیا ہے اس کا یومیہ اور ماہانہ تجزیہ کیا جائے تو حکومت نے گزشتہ مالی سال کے دوران یومیہ 24 ارب روپے صرف سود کی مد میں ادائیگی کی ہے جب کہ رواں سال قرضوں پر یومیہ 22 ارب روپے سود دیا جارہا ہے۔گزشتہ سال ماہانہ تقریباً 295 ارب روپے سود کی ادائیگی کی جارہی تھی رواں سال ہر ماہ 273 ارب روپے سود دیا جائے گا۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے گزشتہ مالی سال میں ملک بھر سے 11ہزار 744 ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا گیا جس کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ سود کی مد میں چلا گیا، رواں سال کے بجٹ میں بھی مجموعی بجٹ کا 46.7 فیصد صرف سود کی میں خرچ ہوگا۔ سود کی مد میں بوجھ کتنا زیادہ ہے اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ چاروں صوبوں میں کسی بھی صوبے کا مجموعی بجٹ وفاقی حکومت کی جانب سے ادا کیے جانے والے سود سے کم ہے۔

اسی طرح گزشتہ مالی سال کےاعداد وشمار کے مطابق سود کی مد میں 8 ہزار 887 ارب روپے ادائیگی کا حجم گزشتہ سال کے 2 ہزار 194 ارب روپے دفاعی بجٹ سے تین گنا زیادہ ہے، تمام سبسڈیز اور گرانٹس میں خرچ 2 ہزار 931 ارب روپے سے بھی تین گنا زیادہ ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کے میں خر چ رقم 2 ہزار 966 ارب روپے سے بھی تین گنا زیادہ ہے یہاں تک کہ وفاق کی جانب سے چاروں صوبوں کو گزشتہ سال 6 ہزار 854 ارب روپے منتقل کیے گئے جو سود کی مد میں ادا کی جانے والی رقوم سے کم ہے۔

معروف معیشت دان ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے "ہماری ویب" سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جن کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی انتہائی کم ہے، ٹیکس چوری ہوتی ہے حکومت کی جانب 25 ہزار ارب روپے استعداد سے کم ٹیکس لیا جارہا ہے، بچتوں کی شرح کم ہے، بینک میں شہریوں کا استحصال ہوتا ہے، ملک میں سرمایہ کاری کم ہورہی ہے، برآمدات کے مقابلے میں درآمدات ڈیڑھ گنا زیادہ ہیں اس تمام صورتحال سے قرضوں کا بوجھ بڑھنے کی صورت میں نکل رہا ہے۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ ملکی اور بین الاقوامی اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، ایس ای سی پی سمیت تمام متعلقہ ادارے معیشت میں اصلاحات کے لیے تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے صورتحال ابتر ہوتی جارہی ہے۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US