ڈیجیٹل اثاثوں کے غیرقانونی لین دین کی وجہ سے پاکستان کا ’ایف اے ٹی ایف‘ کی گرے لسٹ میں دوبارہ جانے کا کتنا خطرہ ہے؟

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان میں غیر قانونی ڈیجیٹل لین دین کا عمل جاری رہا تو ملک کے دوبارہ فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں جانے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ بی بی سی نے ماہرین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ یہ خطرہ کتنا حقیقی ہو سکتا ہے؟

پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے خبردار کیا ہے کہ اگر غیر قانونی ڈیجیٹل لین دین کا عمل جاری رہا تو پاکستان کے دوبارہ فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں جانے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان اکتوبر 2022 میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف اقدامات کی بنیاد پر ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوا تھا۔

تاہم اب پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے اس لسٹ میں شمولیت کے دوبارہ خطرے سے خبردار کیا گیا ہے۔

یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی کے شعبے کے لیے کرپٹو کونسل اور ورچوئل ایسٹ اتھارٹی قائم کیے جا چکے ہیں۔ پاکستان کرپٹو کونسل کے سربراہ بلال بن ثاقب کا اندازہ ہے کہ ملک میں قریب دو کروڑ افراد کرپٹو کرنسی میں لین دین کرتے ہیں۔

اگرچہ ملک میں کرپٹو تجارت کے لیے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نئی اتھارٹی قائم کی گئی ہے مگر اسے مستقل قانونی تحفظ دینے کے لیے پارلیمان سے قانون سازی درکار ہے۔

پاکستان کے ڈیجیٹل کرنسی کے لیے ریگولیٹری نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے ملک کو درپیش خطرات کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ کی جانب سے تشویش کا اظہار قابل فہم ہے اور ریگولیٹری نظام اس کے بغیر یہ شعبہ صحیح خطوط پر استوار نہیں کیا جا سکتا۔

بلاک چین اور ڈیجیٹل اثاثہ جات

وزیر خزانہ
Getty Images
وزیر حزانہ نے ڈیجیٹل لین دین میں زیادہ شفافیت پر زور دیا ہے

ٹیکنالوجی اور اختراع پر ہونے والی لیڈرشپ سمٹ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ملک کی معیشت درست سمت میں گامزن ہے۔

انھوں نے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کے نکلنے کو اجاگر کرتے ہوئے ڈیجیٹل لین دین میں زیادہ شفافیت پر زور دیا۔

انھوں نے خبردار کیا کہ ڈیجیٹل کرنسی میں سرگرمی کے اس پیمانے کو دیکھتے ہوئے ڈیجیٹل اثاثہ جات کو نظر انداز

کرنے سے پاکستان (اپنے صارف کو جاننے کی شرائط) اور انسداد منی لانڈرنگ اور پابندیوں سے دوچار کر سکتا ہے اور پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں دوبارہ ڈال سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگلے ہفتے سے پارلیمانی قائمہ کمیٹیاں ورچوئل اثاثہ جات آرڈیننس پر غور شروع کریں گی جو حکومت نے چند ہفتے قبل نافذ کیا تھا تاکہ ورچوئل اثاثہ جات اور کرپٹو کرنسیوں کے لیے ایک آزاد ریگولیٹر قائم کیا جا سکے۔

ڈیجیٹل کرنسی سے پاکستان کو لاحق خطرات کی نشاندہی کیوں کی گئی

کرپٹو کرنسی
Getty Images

وزیر خزانہ کی جانب سے پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے ریگولیٹ نہ ہونے اور اس کی وجہ سے پاکستان کو لاحق خطرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے وزیر خزانہ کی تشویش کو قابل فہم قرار دیا۔

اُن کے مطابق پاکستان کے لیے عالمی مانیٹرنگ اداروں کے ساتھ تعاون اور بلاک چین اینالیٹکس ٹولز کا استعمال ناگزیر ہے۔

انھوں نے کہا کہ قانون سازی صرف مقامی تعمیلی تقاضوں پر مبنی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس میں غیر ملکی ریگولیٹرز کے ساتھ تعاون کے لیے مؤثر چینلز بھی قائم کرنا ضروری ہیں، تاکہ پاکستان میں آنے اور باہر جانے والے غیر قانونی سرمائے کا سراغ لگایا جا سکے اور اسے منجمد کیا جا سکے۔

امریکہ میں مقیم مالیاتی قوانین کے ماہر عبد الروف شکوری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ کے بیان کو ایف اے ٹی ایف کے طریقۂ کار سے لاعلمی کا مظہر قرار دیتے ہوئے سوال کیا آیا حکومت اور اس کی ٹیم کرپٹو کرنسی کے لیے مؤثر ضوابط بنانے کی صلاحیت رکھتی بھی ہے یا نہیں؟

انھوں نے کہا ایف اے ٹی ایف کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق اپریل 2025 تک 138 ممالک کا جائزہ لیا گیا مگر ان میں سے صرف 40 ممالک کو کرپٹو کرنسی سے متعلق معیار (ریکمنڈیشن 15) میں ’زیادہ تر مطابقت پذیر‘ قرار دیا گیا۔

ان کے مطابق صرف ایک ملک، بہاماس، مکمل طور پر مطابقت پذیر پایا گیا۔ اس طرح صرف 29 فیصد ممالک کم از کم تقاضے پورے کرتے ہیں۔

انسداد منی لانڈرنگ کی کوششوں میں خامیاں

ڈالرز
BBC
سنہ 2020 میں بھی منی لانڈرنگ کے خلاف پاکستان نے قانون میں ترمیم بھی کی تھی تاکہ مزید کارروائی کی جا سکے

اعداد و شمار یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ 67 ممالک، جہاں ورچوئل اثاثہ جات کے بڑے شعبے موجود ہیں، میں سے 90 فیصد سے زائد نے خطرات کا تجزیہ کیا، لائسنسنگ سسٹم نافذ کیا اور نگرانی کے معائنے انجام دیے ہیں۔

اسی طرح ’ٹریول رول‘، جس کے تحت کرپٹو لین دین کے ساتھ شناختی معلومات فراہم کرنا لازمی ہے، 73 فیصد ممالک میں قانون کا حصہ بن چکے ہیں۔ تاہم ان میں سے تقریباً 60 فیصد ابھی تک اس پر عملدرآمد کرنے میں ناکام ہیں۔

انھوں نے کہا یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر ورچوئل اثاثہ جات کی ریگولیشنز پر مکمل عملدرآمد ابھی باقی ہے، اور بیشتر ممالک مرحلہ وار اپنے ضوابط کو بہتر بنا رہے ہیں۔

عبد الروف شکوری نے کہا اس کے برعکس پاکستان کی حکمتِ عملی کو ’غیر واضح‘ اور ’غیر فیصلہ کن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

ایک طرف حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ پاکستان کرپٹو میں عالمی رہنما بنے گا اور دوسری جانب اپنے بیانات میں یہ تسلیم کرتی ہے کہ وہ سفارشات میں نمبر 15 کے بنیادی تقاضوں، جیسا کہ خطرے پر مبنی فریم ورک، لائسنسنگ اور عمل درآمد، کو مؤثر طور پر نافذ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔

عبد الروف شکوری کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹنگ کے حوالے سے ایسی غیر ذمہ دارانہ باتیں نہ صرف سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متزلزل کرتی ہیں بلکہ حکومتی سطح پر فیصلہ سازی میں سنجیدگی کی کمی کو بھی ظاہر کرتی ہیں ۔

مالیاتی امور کے سینیئر صحافی شہباز رانا کے مطابق وزیر خزانہ کے اس بیان کی ایک وجہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کی ایک رپورٹ بھی ہے جس میں ادارے کی جانب سے انسداد منی لانڈرنگ کی کوششوں میں کچھ خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔

پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی قانونی حیثیت کے بارے میں عبد الروف شکوری نے بتایا کہ ملک میں ورچوئل اثاثہ جات آرڈیننس 2025 کے نفاذ کے بعد ملک میں باضابطہ طور پر کرپٹو کرنسی کے لیے ریگولیشنز متعارف کرا دیے گئے ہیں اور لائسنس کے تقاضے بھی واضح کر دیے گئے ہیں۔

تاہم انھوں نے تسلیم کیا کہ کرپٹو ریگولیشن کے تمام پہلوؤں کو جامع انداز میں حل کرنے کے لیے اہم قوانین میں اب بھی ترامیم درکار ہیں۔

انھوں نے کہا تاہم آرڈیننس میں یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ کرپٹو کی حیثیت کو باقاعدہ طور پر قانونی تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔

کرپٹو کا ریگولیٹری نظام نہ ہونا کتنا بڑا خطرہ؟

پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے ریگولیٹری نظام کے تاحال نہ ہونے کے بعد اس کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں دوبارہ جانے کے خدشات کے بارے میں شکوری نے کہا اس سوال کا جواب دینا ابھی قبل از وقت ہے، کیونکہ اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ پاکستان کا حتمی قانونی فریم ورک کتنا مؤثر ثابت ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا ’حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے تاحال جامع قانون سازی نہیں کی اور نہ ہی ان بڑے قوانین میں ترمیم کی ہے جن کا حوالہ پاکستان ورچوئل اثاثہ جات آرڈیننس 2025 میں دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ آیا پاکستان کا ریگولیٹری ڈھانچہ ایف اے ٹی ایف کے معیارات پر پورا اترے گا یا نہیں۔‘

ان کے مطابق ’یہ جانچ اس بات پر ہو گی کہ آیا آنے والے فریم ورک میں سروس فراہم کنندگان کی لائسنسنگ کے لیے سخت ضوابط شامل کیے گئے ہیں یا نہیں۔‘

ان کے مطابق ’یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ صارفین کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے یا نہیں، مؤثر اینٹی منی لانڈرنگ کا نظام اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام ہے یا نہیں، ٹرانزیکشنز میں گمنامی کے خطرات کو قابو میں لایا گیا ہے یا نہیں اور عالمی سطح پر بامعنی تعاون کے میکانزم فراہم کیے گئے ہیں یا نہیں۔‘

عبد الروف شکوری نے کہا ’ان پہلووں کی غیر موجودگی میں پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہوگا، تاہم جب تک ایک مکمل ریگولیٹری نظام کو حتمی شکل دے کر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا، یہ دعویٰ کہ ملک دوبارہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں جا رہا ہے، محض قیاس آرائی ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US