مائیک ہیسن نے اپنی ’ڈیٹا اورئینٹڈ‘ سوچ کی بدولت، پاکستان کے اسی ’وصف‘ کو خامی سے خوبی میں بدل دیا ہے کہ اب یہ ٹیم اپنے ہی شائقین کے بجائے اپنے حریفوں کے لیے ’ناقابلِ پیش گوئی‘ بننا سیکھ رہی ہے۔
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا نیا اصول بھی وہی ہے جو پاکستان کرکٹ کلچر کا خاصہ ہے یعنی ’ناقابلِ پیش گوئی‘ ہونا۔پاکستان کے کرکٹ کلچر کا خاصہ رہا ہے کہ یہ کبھی بھی لگے بندھے ضابطوں پہ نہیں چلا۔ یہاں انتظامی سطح سے لے کر گراؤنڈ میں کھیلتی ٹیم تک سبھی کچھ ’ناقابلِ پیش گوئی‘ ہوتا ہے اور عموماً پاکستان کا یہ ’وصف‘ اس کے اپنے ہی شائقین پہ بھاری پڑا ہے۔
یہ کرکٹ کلچر ہمیشہ ایسے کوچز کی تلاش میں رہا ہے جو اس کے بے ترتیب ڈھانچے کو ڈسپلن کے سانچے میں سلجھا سکے۔ جبھی اس کی نظریں عموماً غیر ملکی کوچز کی طرف رہی ہیں کہ بیشتر مقامی کوچز خود بھی اس ’ناقابلِ پیش گوئی‘ کلچر سے نہیں نکل پاتے۔
مگر جو غیر ملکی کوچز بھی پی سی بی نے پچھلی دو دہائیوں میں آزمائے، ان میں سے اکا دکا ہی کچھ قابلِ ذکر کردار نبھا پائے ورنہ بیشتر تجربات ناکام ہی رہے کیونکہ اکثر غیر ملکی کوچز کی اپروچ پاکستانی کلچر سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے اسے بدل کر اپنے سانچے میں ڈھالنے پہ رہتی ہے۔
مگر مائیک ہیسن کی شکل میں شاید پاکستان کو وہ کوچ مل گیا ہے جو روایتی اپروچ سے ہٹ کر پاکستان کے ہی کرکٹ کلچر میں ڈھل کر اسے بہتر کرنے پہ مائل ہے۔
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا نیا اصول بھی وہی ہے جو پاکستان کرکٹ کلچر کا خاصہ ہے یعنی ’ناقابلِ پیش گوئی‘ ہونا۔
مائیک ہیسن نے اپنی ’ڈیٹا اورئینٹڈ‘ سوچ کی بدولت، پاکستان کے اسی ’وصف‘ کو خامی سے خوبی میں بدل دیا ہے کہ اب یہ ٹیم اپنے ہی شائقین کے بجائے اپنے حریفوں کے لیے ’ناقابلِ پیش گوئی‘ بننا سیکھ رہی ہے۔
پچھلے تین برسوں میں پاکستان کے ٹی ٹوئنٹی انحطاط کا ایک نمایاں سبب اس ٹیم کا حریفوں کے لیے ’قابلِ پیش گوئی‘ ہونا بھی تھا۔ دنیا بھر کی ٹیمیں جانتی تھیں کہ پاکستان پاور پلے میں کس رفتار سے کھیلے گا، مڈل اوورز میں کیا کرے گا اور ڈیتھ اوورز میں کیا کرنا چاہے گا۔
عمان نے جب پاکستانی بلے بازوں کو 160 تک محدود کیا تو بظاہر پاکستان کی جانب سے عزم کی کمی دکھائی دی۔جب کسی ٹیم کے بارے میں اتنا کچھ معلوم ہو تو حریف کیمپ کے لیے سٹریٹیجی بُننا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ اس دور میں حریف بیٹنگ آرڈر کو پاکستان کا پورا بولنگ پلان بھی معلوم ہوا کرتا تھا کہ اٹیک کون کرے گا، سپنر کب آئیں گے اور ڈیتھ اوورز کون نمٹائے گا۔
مگر مائیک ہیسن کی حکمتِ عملی پہ چلتے سلمان آغا کے پاکستان بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ بیٹنگ آرڈر کیا ہو گا۔ لمحۂ موجود میں اگر سوریا کمار یادیو جاننا چاہیں کہ ان کے خلاف میچ میں پاکستان کی جانب سے تیسرے نمبر پہ کون کھیلے گا تو پچھلے پندرہ میچز کے سکور کارڈز سے انھیں کچھواضح نہیں ہو پائے گا۔
ہو سکتا ہے ایک میچ میں شاہین آفریدی کے بجائے محمد نواز اٹیک کر رہے ہوں، ہو سکتا ہے پاور پلے میں چار اوورز سپنر پھینک دیں، ہو سکتا ہے صائم ایوب پاور پلے میں بولنگ کریں، ہو سکتا ہے وہ مڈل اوورز بھی پھینکیں یا ہو سکتا ہے وہ سرے سے بولنگ ہی نہ کریں۔
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں کوچنگ سیٹ اپ کی جو عملی ذمہ داری ہوتی ہے، وہ ہیسن کی نگرانی میں بخوبی نبھائی جا رہی ہے کہ میچ کی ’لائیو فیڈ‘ کی روشنی میں ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے سٹریٹیجی لمحہ بہ لمحہ نہ صرف مرتب ہوتی رہے بلکہ آن فیلڈ ظہور پذیر بھی ہوتی رہے۔
عمان نے جب پاکستانی بلے بازوں کو 160 تک محدود کیا تو بظاہر پاکستان کی جانب سے عزم کی کمی دکھائی دی۔ مگر تھنک ٹینک نے اس سبق کو سٹریٹیجی میں بدلتے ہوئے سپن کے کردار پہ غور کیا اور اسے شدت سے عمل میں لانے کا فیصلہ کیا۔
پاور پلے میں دونوں کناروں سے سپن کا استعمال بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے مگر پاکستان کی یہی حکمتِ عملی عامر کلیم کے عزائم کا انہدام ثابت ہوئی حالانکہ وہ شاہین آفریدی کے خلاف جارحیت سے اپنی مہارت ثابت کر رہے تھے۔
جب عامر کلیم نے اوپر تلے شاہین آفریدی کے خلاف باؤنڈریز بٹوریں، تب فوری سپن کی جانب جانے کا فیصلہ میچ کو یوں پلٹا گیا کہ جو مقابلہ کچھ کچھ میچ بنتا دکھائی دے رہا تھا، وہ یکایک بے جوڑ ہو گیا اور لطف اچانک ہوا ہو گیا۔
انڈیا کے خلاف میچ سے پہلے یہ اعتماد اس ڈریسنگ روم کے لیے ضروری بھی تھا۔صائم ایوب پاکستان کے لیے ایک امید افزا پہلو ہیں کہ وہ کھیل کے تینوں شعبوں میں ٹیم کے لیے لڑنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اور اپنی تمام تر ’پُر اسراریت‘ کے باوجود محمد حارث بھی ٹیم کی ضروریات کے مطابق کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سلمان آغا کی یہ ٹیم اس لحاظ سے قابلِ تحسین ہے کہ بالآخر اس ڈریسنگ روم میں ایک ’جُڑت‘ نظر آتی ہے جہاں سبھی کے قد برابر ہیں اور مقدم صرف ٹیم کی ترجیحات ہیں۔
مائیک ہیسن ایک ایسے کوچ ہیں جو ڈیٹا کے بخار میں مبتلا روایتی ٹی ٹونٹی سوچ کے ناقد ہیں اور وہ اعدادوشمار کو سیاق و سباق کے تناظر میں دیکھنے پہ ہی یقین رکھتے ہیں۔
رواں ایونٹ میں جو رجحان دونوں گروپوں میں دکھائی دیا ہے، اس کی مسابقت کے عین مطابق پاکستان نے عمان پہ ایک بھاری مارجن سے فتح پائی ہے۔ انڈیا کے خلاف میچ سے پہلے یہ اعتماد اس ڈریسنگ روم کے لیے ضروری بھی تھا۔