دبئی کے پُرتعیش علاقوں میں جنسی استحصال: وہ شخص جو خواتین کی تذلیل اور عجیب مطالبات کرنے والا سیکس رِنگ چلاتا ہے

بی بی سی کی تحقیقات میں ایک ایسے شخص کی شناخت کی گئی ہے جو دبئی کے سب سے شاندار رہائشی علاقوں میں سے ایک میں سیکس رِنگ چلا رہا ہے اور کمزور خواتین کا استحصال کرنے میں ملوث ہے۔
چارلس مویسیگوا
BBC
چارلس مویسیگوا کہتے ہیں کہ وہ لندن سے تعلق رکھنے والے سابق بس ڈرائیور ہیں

انتباہ: اس مضمون میں شامل مواد ممکنہ طور پر پریشان کن اور جنسی عمل کی وضاحتوں پر مشتمل ہے

بی بی سی کی تحقیقات میں ایک ایسے شخص کی شناخت کی گئی ہے جو دبئی کے سب سے شاندار رہائشی علاقوں میں سے ایک میں سیکس رِنگ (نیٹ ورک) چلا رہا ہے اور کمزور خواتین کا استحصال کرنے میں ملوث ہے۔

چارلس مویسیگوا نے، جو اپنے بقول لندن کے سابق بس ڈرائیور ہیں، ہمارے خفیہ رپورٹر کو بتایا کہ وہ سیکس پارٹی کے لیے ایک ہزار ڈالر میں خواتین فراہم کر سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ خواتین گاہکوں کی فرمائش پر ’تقریباً سب کچھ‘ کر سکتی ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں سیکس پارٹیز کے انعقاد کے بارے میں افواہیں برسوں سے گردش کر رہی ہیں۔ #Dubaiportapotty جیسے ہیش ٹیگز کو ٹک ٹاک پر 450 ملین سے زیادہ بار دیکھا گیا ہے۔

ایسی خواتین کی پیروڈی اور ان کے بارے میں قیاس آرائیوں کے لنکس ہیں، جن پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ پیسے کی بھوکی انفلوئنسرز ہیں اور خفیہ طور پر اپنے شاہانہ طرز زندگی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے جنسی خواہشات پوری کرتی ہیں۔

بی بی سی ورلڈ سروس کی تحقیقات کے دوران ہمیں بتایا گیا کہ حقیقت اس سے بھی کہیں تاریک ہے۔

یوگینڈا سے تعلق رکھنے والی نوجوان خواتین نے ہمیں بتایا کہ انھیں نہیں لگتا تھا کہ انھیں چارلس مویسیگوا کے لیے جنسی کام کرنا پڑے گا۔ کچھ معاملات میں، ان کا خیال تھا کہ وہ سپر مارکیٹس یا ہوٹلوں جیسی جگہوں پر کام کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات جا رہی ہیں۔

’میا‘، جن کا نام ہم نے شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے تبدیل کیا ہے، نے بتایا کہ وہ چارلس مویسیگوا کے نیٹ ورک میں پھنس گئی تھیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ چارلس مویسیگوا کے گاہکوں میں سے کم از کم ایک باقاعدگی سے خواتین پر رفع حاجت کرنے کے لیے کہتا ہے۔

تاہم چارلس مویسیگوا ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ مکان مالکان کے ذریعے خواتین کو رہائش تلاش کرنے میں مدد کرتے ہیں اور یہ کہ خواتین دبئی میں امرا سے ان کے رابطوں کی وجہ سے تقریبات میں ان کے پیچھے آتی ہیں۔

ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایسی دو خواتین، جن کا چارلس مویسیگوا سے رابطہ تھا، بلند عمارتوں سے گرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔

اگرچہ ان کی اموات کو خودکشی قرار دیا گیا تاہم ان کے دوستوں اور اہل خانہ کا خیال ہے کہ پولیس کو مزید تحقیقات کرنی چاہیے تھی۔

چارلس مویسیگوا نے کہا کہ دبئی پولیس نے ان واقعات کی تحقیقات کی ہیں۔ انھوں نے ہمیں معلومات کے لیے پولیس سے رابطہ کرنے کو کہا۔

تاہم پولیس نے ہماری درخواست کا جواب نہیں دیا۔

مونک کرونگی مغربی یوگینڈا سے دبئی آئی تھیں
Family handout
اپنی جان گنوانے والی خواتین میں سے ایک مونک کرونگی مغربی یوگینڈا سے دبئی آئی تھیں

اپنی جان گنوانے والی خواتین میں سے ایک مونک کرونگی مغربی یوگینڈا سے دبئی آئی تھیں اور چارلس مویسیگوا کے لیے کام کرنے والی درجنوں دیگر خواتین کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہتی تھیں۔

کیرا (فرضی نام) نامی خاتون کے مطابق وہ 2022 میں مونک کے ساتھ رہیں۔ ’وہ جگہ ایک بازار کی طرح تھی۔۔۔ 50 لڑکیاں تھیں۔ وہ خوش نہیں تھی کیونکہ اسے جس چیز کی توقع تھی اسے وہ نہیں ملی تھی۔‘

مونک کی بہن ریٹا کے مطابق ان کی بہن کا خیال تھا کہ اسے دبئی میں سپر مارکیٹ میں نوکری ملنے والی ہے۔

دبئی میں مونک سے جان پہچان رکھنے والوں میں میا بھی تھیں۔ ’جب اسے کہا کہ وہ گھر واپس جانا چاہتی ہے تو وہ (چارلس مویسیگوا) تشدد پر اتر آیا۔‘ میا کے مطابق جب وہ دبئی پہنچی تھی تو چارلس نے انھیں بتایا کہ پہلے ہی اس پر دو ہزار پاؤنڈ (2711 ڈالر) واجب الادا ہیں اور دو ہفتوں کے اندر یہ قرض دوگنا ہو گیا۔

میا کا کہنا ہے کہ اسے کہا گیا کہ یہ رقم ’ہوائی ٹکٹ، آپ کے ویزے، خوراک اور رہائش‘ کے لیے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو سخت محنت کرنی ہو گی ، سخت محنت کرنی ہوگی اور مردوں سے التجا کرنی ہوگی کہ وہ آ کر آپ کے ساتھ سوئیں۔‘

مونک نے چند ہفتوں کے بعد خود کو چارلس مویسیگوا کا 27 ہزار ڈالر سے زیادہ کا مقروض پایا۔

یہ مونک کے ایک رشتہ دار مائیکل (فرضی نام) کے مطابق خود مونک نے انھیں بتایا۔ مائیکل کے مطابق مونک نے بھرائی ہوئی آواز میں انھی وائس نوٹس بھیجے تھے۔

گاہکوں کے خواتین سے عجیب مطالبات

میا نے ہمیں بتایا کہ ان کے گاہک زیادہ تر سفید فام یورپی تھے اور ان میں ایسے افراد بھی شامل تھے جن کے مطالبات انتہائی عجیب تھے۔

’ایک گاہک ہے۔ وہ لڑکیوں پر پاخانہ کرتا ہے۔ وہ رفع حاجت کرتا ہے اور پھر ان سے کہتا ہے کہ وہ اس گندگی کو کھائیں۔‘

ایک اور خاتون کا، جسے ہم لیکسی کہہ رہے ہیں، کہنا ہے کہ اسے ایک مختلف نیٹ ورک نے دھوکہ دیا تھا۔ انھوں نے بھی میا کی اس کہانی کی تصدیق کی اور کہا کہ ’پورٹا پوٹی‘ کی درخواستیں اکثر ہوتی تھیں۔

’ایک گاہک تھا جس نے کہا 'ہم آپ کا گینک ریپ کرنے، آپ کے چہرے پر پیشاب کرنے، مارنے کے 15 ہزار اماراتی درہم دیں گے اور اگر آپ پاخانہ کھانے کی ویڈیو بنانے دیں تو اس میں پانچ ہزار مزید شامل کر لو۔‘

اس خاتون کے تجربات نے اسے یہ یقین دلایا ہے کہ اس ’فیٹش‘ میں نسلی عنصر بھی موجود ہے۔ ’ہر بار جب میں نے کہا کہ میں ایسا نہیں کرنا چاہتی، ایسا لگا کہ وہ اس میں زیادہ دلچسپی لینے لگے۔ وہ کوئی ایسا فرد چاہتے ہیں جو رونے، چیخنے اور بھاگنے والا ہو اور یہ کہ [ان کی نظر میں] کوئی سیاہ فام ہونا چاہیے۔‘

لیکسی کا کہنا ہے کہ اس نے صرف ان لوگوں سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی جن کے بارے میں اس نے سوچاکہ وہ مداخلت کر سکتے ہیں یعنی کہ پولیس۔

لیکن وہ کہتی ہیں کہ انھیں کہا گیا ’آپ افریقی ایک دوسرے کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ ہم اس معاملے میں شامل نہیں ہونا چاہتے اور یہ کہہ کر انھوں نے فون رکھ دیا۔‘

ہم نے اس الزام پر دبئی پولیس سے بات کی تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

لیکسی بالآخر یوگینڈا واپس فرار ہونے میں کامیاب رہیں اور اب اسی طرح کے حالات کا شکار خواتین کو بچاتی اور ان کی مدد کرتی ہیں۔

دبئی کا وارسان ٹاور
BBC
دبئی کا وارسان ٹاور جہاں سے گر کر مئی 2022 میں مونک کی موت ہوئی

چارلس مویسیگوا کو تلاش کرنا آسان نہیں تھا۔ ہمیں ان کی صرف ایک تصویر آن لائن ملی اور وہ بھی پیچھے سے لی گئی تھی۔ وہ سوشل میڈیا پر مختلف ناموں سے کام کرتے ہیں۔

لیکن اوپن سورسز، خفیہ تحقیقات، اور ان کے نیٹ ورک کے ایک سابق رکن سے حاصل معلومات کے ذریعے ہم انھیں دبئی کے متوسط طبقے کے علاقے جمیرا ولیج سرکل میں تلاش کر سکے۔

ہم نے اپنے ذرائع سے حاصل معلومات کی تصدیق کے لیے اپنے ایک خفیہ رپورٹر کو وہاں بھیجا جس نے خود کو ایک تقریب کے منتظم کے طور پر خواتین کو اعلیٰ سطح کی پارٹیوں کے لیے تلاش کرنے والے کے طور پر پیش کیا۔

ہم ان کے کاروبار کے بارے میں تصدیق کرنا چاہتے تھے جن میں خواتین کو ذلت آمیز جنسی سرگرمیوں کے لیے فراہم کرنا شامل تھا۔

مسٹر مویسیگوا اپنے کاروبار کے بارے میں بات کرتے ہوئے پُرسکون اور پر اعتماد نظر آئے۔

انھوں نے اطمینان سے کہا: 'ہمارے پاس تقریباً 25 لڑکیاں ہیں۔ بہت سی کھلے ذہن کی ہیں۔۔۔ وہ تقریباً ہر کام کر سکتی ہیں۔'

انھوں نے ان کی قیمت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک لڑکی کی فی شب ایک ہزار ڈالر قیمت ہے۔ لیکن 'جنونی کاموں' کے لیے زیادہ قیمت ہے۔ انھوں نے ہمارے رپورٹر کو 'ایک رات نمونہ دکھانے' کے لیے مدعو کیا۔

جب 'دبئی پورٹا پاٹی' کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا: 'میں نے کہا ہے ناں کہ وہ کھلے ذہن کی ہیں۔ جب میں کہتا ہوں کھلے ذہن کی۔۔۔ تو میں آپ کے پاس اس سب سے پاگل لڑکی بھیجوں گا جو میرے پاس ہے۔'

بات چیت کے دوران مسٹر مویسیگوا نے بتایا کہ وہ پہلے لندن میں بس ڈرائیور تھے۔ ہمیں ان کے اس دعوے کے متعلق شواہد ملے کہ انھوں نے سنہ 2006 میں مشرقی لندن میں ایک سرکاری دستاویز پر یہ پیشہ لکھا تھا۔

انھوں نے ہمارے رپورٹر کو بتایا کہ انھیں یہ کاروبار بہت پسند ہے۔

انھوں نے کہا: 'میں ایک ملین پاؤنڈ لاٹری بھی جیت جاؤن تو بھی میں یہ کام کرتا رہوں گا۔۔۔ یہ میرے وجود کا حصہ بن چکا ہے۔'

مسٹر موسگوا کے نیٹ ورک میں آپریشنز مینیجر رہنے کا دعوی کرنے والے ٹروئے نامی شخص نے ہمیں بتایا کہ یہ کاروبار کیسے چلتا ہے۔

ٹروے کا کہنا ہے کہ مویسگوا کے ساتھ کام کرنے سے قبل وہ ٹرک ڈرائیور تھے
BBC
ٹروے کا کہنا ہے کہ مویسگوا کے ساتھ کام کرنے سے قبل وہ ٹرک ڈرائیور تھے

خواتین کے استحصال میں مویسیگوا کا کردار

وہ بتاتے ہیں کہ مسٹر مویسیگوا مختلف نائٹ کلبوں میں سکیورٹی اہلکاروں کو رشوت دیتے ہیں تاکہ وہ ان کی بھیجی خواتین کو اندر جانے دیں تاکہ وہ اپنے لیے گاہک تلاش کر سکیں۔

انھوں نے کہا: 'میں نے ایسے جنسی طریقے سنے ہیں جو میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کو کیا کر گزرنا پڑے، بس آپ کے امیر گاہک خوش ہوں۔۔۔ ان (خواتین) کے پاس نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔۔۔ وہ موسیقاروں کے ساتھ جاتی ہیں، فٹبالرز کے ساتھ ہوتی ہیں، صدور کا خیال رکھتی ہیں۔'

ٹروے کا دعویٰ ہے کہ مسٹر مویسیگوا اس کام کو چلانے میں کامیاب رہے ہیں کیونکہ ٹروے اور دیگر صرف ڈرائیور کے طور پر کام نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسٹر مویسیگوا ان کے نام کاریں اور فلیٹ کرایہ پر لینے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں، تاکہ ان کا اپنا نام کبھی کاغذات میں ظاہر نہ ہو۔

27 اپریل سنہ 2022 کو، مونک نے دبئی کے ایک مقبول رہائشی علاقے البرشا سے اپنی سیلفی پوسٹ کی۔ چار دن بعد، وہ مردہ پائی گئیں۔ وہ امارات میں صرف چار مہینے پہلی ہی آئی تھیں۔

میا کے مطابق، مونک اور مسٹر مویسیگوا کے درمیان ان دنوں اکثر جھگڑے ہوتے رہتے تھے، خاص طور پر اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے نکلیں۔ میا کہتی ہیں کہ مونک مسٹر مویسگوا کی مانگوں کو ماننے سے انکار کر چکی تھیں اور ان کے نیٹ ورک سے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈ لیا تھا۔

میا کہتی ہیں کہ 'اسے کوئی نوکری مل گئی تھی۔ وہ بہت خوش تھی۔ اسے لگا کہ وہ آزاد ہو جائے گی، اپنی زندگی واپس پا لے گی کیونکہ اس کے پاس اب ایک حقیقی نوکری تھی، مردوں کے ساتھ نہیں سونا تھا۔'

مونک تقریباً دس منٹ کی پیدل مسافت پر ایک الگ فلیٹ میں منتقل ہو گئیں۔ یہی وہ فلیٹ تھا جس کی بالکونی سے وہ یکم مئی 2022 کو گر کر فوت ہو گئیں۔

ویڈیو گریب
Instagram
مرنے سے پہلے اپنی آخری سیلفی جو مونک سے شیئر کی

مونک کے رشتہ دار مائیکل مونک کی موت کے وقت متحدہ عرب امارات میں موجود تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے سچ جاننے کی کوشش کی۔

پولیس نے انھیں بتایا کہ انھوں نے اپنی تحقیقات روک دی ہیں کیونکہ جس فلیٹ کی بالکونی سے مونک گری تھیں وہاں منشیات اور شراب ملی ہے، اور بالکونی پر صرف مونک کے ہاتھ کے نشانات پائے گئے ہیں۔

مائیکل نے مونک کی موت کا سرٹیفیکیٹ ہسپتال سے حاصل کیا، لیکن اس میں موت کی وجہ نہیں لکھی تھی۔ اور ان کے خاندان کو ان کی ٹاکسیکولوجی رپورٹ حاصل نہیں ہو سکی۔

تاہم گھانا کے ایک شہری جو اسی عمارت میں رہتے تھے انھوں نے اس معاملے میں مائیکل کی زیادہ مدد کی اور مائیکل کو ایک دوسرے بلاک لے گئے اور وہاں مونک کے باس کا دعویٰ کرنے والے شخص سے ان کی ملاقات کروائی۔

مائیکل نے وہاں پہنچ کر منظر کا ذکر کیا، جہاں خواتین کو رکھا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ شیشہ کے دھوئیں کے بادل کے درمیان انھوں نے میز پر کوکین جیسی چیز دیکھی اور خواتین کو گاہکوں کے ساتھ کرسیوں پر جنسی تعلقات میں مشغول پایا۔

وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے اس شخص کو وہاں دیکھا جس کی ہم نے پہلے چارلس مویسیگوا کے طور پر شناخت کی تھی۔ ان کے مطابق وہ دو خواتین کے ساتھ بستر پر تھا، اور جب انھوں نے اسے پولیس کے پاس لے جانے کی کوشش کی تو مسٹر مویسیگوا نے کہا: 'میں نے دبئی میں 25 سال گزارے ہیں۔ دبئی میرا ہے۔۔۔ آپ کبھی بھی میرے خلاف رپورٹ نہیں کر سکتے۔۔۔ سفارتخانہ میں بھی میں ہوں، میں ہی سفارتخانہ ہوں۔'

مائیکل کے مطابق، انھوں نے مزید کہا: 'مونک پہلی نہیں ہے جو مری ہے۔ اور وہ آخری بھی نہیں ہوگی۔'

میا اور کیرا دونوں نے آزاد طور پر بتایا کہ انھوں نے یہ گفتگو دیکھی اور سنی اور دونوں نے مائیکل کے الفاظ کی تصدیق کی۔ جب ہم نے مسٹر مویسیگوا سے اس بات کا مطلب پوچھا تو انھوں نے انکار کیا کہ انھوں نے ایسا کچھ کہا تھا۔

مونک کی موت میں کائیلا بیرونگی کے ساتھ خوفناک مماثلتیں ہیں۔ وہ یوگینڈا سے آنے والی خاتون تھیں اور اسی محلے میں رہتی تھیں۔ کائیلا 2021 میں دبئی کی ایک بلند و بالا اپارٹمنٹ سے گر کر ہلاک ہوئی تھیں، جس کے بارے میں ہمارے پاس شواہد ہیں کہ اس کا انتظام چارلس مویسگوا کرتے تھے۔

کائیلا کے خاندان نے ہمیں اس کے مالک مکان کا فون نمبر دیا جو مسٹر مویسگوا کے فون نمبروں میں سے ایک نکلا۔ ٹروے نے بھی تصدیق کی ہے کہ مسٹر مویسیگوا اس اپارٹمنٹ کے منتظم تھے۔ اور ہم نے اپنی تحقیق کے دوران چار دیگر خواتین سے بھی اس بابت سنا۔

کائیلا ایک اور یوگنڈا کی شہری، بھی دبئی کی ایک بلند عمارت سے گرنے کے بعد ہلاک ہو گئیں۔
Instagram
کائیلا ایک اور یوگینڈا کی شہری، بھی دبئی کی ایک بلند عمارت سے گرنے کے بعد ہلاک ہو گئیں۔

لوگوں میں دبئی میں نوکری کا جھانسہ دیا جاتا ہے

کائیلا کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے مونک کے خاندان کی طرح سنا کہ کائیلا کی موت کا تعلق شراب اور منشیات سے تھا۔ لیکن بی بی سی کی طرف سے دیکھے گئے ایک ٹاکسیکولوجی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی موت کے وقت اس کے جسم میں کوئی منشیات موجود نہیں تھیں۔

کائیلا کا خاندان اس کے جسم کو واپس لانے اور دفنانے میں کامیاب ہوا، مونک کی باقیات کبھی واپس نہیں کی گئیں۔

ہماری تحقیقات سے پتہ چلا کہ اسے غالباً دبئی کے القسیس قبرستان کے ایک حصے میں دفن کیا گیا جسے نامعلوم کہا جاتا ہے۔ اس میں بغیر نشان کے قبروں کی قطاریں ہیں، جو عام طور پر ان مہاجرین کی ہوتی ہیں جن کے خاندان ان کے جسم واپس نہیں لا سکے۔

مونک اور کائیلا یوگینڈا سے خلیجی ممالک تک ایک وسیع، غیر سرکاری رابطہ جال کا حصہ تھیں۔

یوگینڈا نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے نبردآزما ہے اور بیرون ملک کام کے لیے جانا، خاص طور پر خلیجی ممالک میں جانا ایک بڑی صنعت بن چکی ہے جو ہر سال ملک کو 1.2 بلین ڈالر (885 ملین پاؤنڈ) کا ٹیکس ریونیو دیتی ہے۔

لیکن ان مواقع کے ساتھ خطرات بھی ہیں۔

مریم مویزا ایک یوگینڈن کارکن جو استحصال کے خلاف کام کرتی ہیں، کہتی ہیں کہ انھوں نے خلیج کے آس پاس سے 700 سے زائد لوگوں کو بچایا ہے۔

’ہمیں ایسی شکایات ملتی ہیں کہ لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک سپر مارکیٹ میں کام کریں گے۔ پھر وہ شخص جسم فروشی کے لیے فروخت کر دیا جاتا ہے۔‘

مونک کے خاندان کے لیے غم اب خوف کے ساتھ جڑ گیا ہے
BBC
مونک کے خاندان کے لیے غم اب خوف کے ساتھ جڑ گیا ہے

مونک کے خاندان کے لیے غم اب خوف کے ساتھ جڑ گیا ہے۔ خوف اس بات کا کہ دوسرے خاندان بھی وہی نقصان اٹھا سکتے ہیں جو انھوں نے اٹھایا۔

انکے رشتہ دار مائیکل نے ہمیں بتایا ’ہم سب مونک کی موت کو دیکھ رہے ہیں لیکن وہ لڑکیاں جو ابھی زندہ ہیں، ان کے لیے کون ہے؟ وہ ابھی وہاں ہیں۔ ابھی تک تکلیف میں ہیں۔‘

بی بی سی نے چارلس ایبی موسیگا سے ہماری تحقیقات میں لگائے گئے تمام الزامات پر ردعمل دینے کے لیے کہا۔ انھوں نے غیر قانونی جسم فروشی کے نیٹ ورک چلانے سے انکار کیا۔

انھوں نے کہا: ’یہ سب جھوٹے الزامات ہیں۔‘

’میں نے آپ کو بتایا کہ میں صرف ایک پارٹی پسند شخص ہوں، بڑے خرچ کرنے والوں کو اپنی میزوں پر مدعو کرتا ہوں، اس لیے بہت سی لڑکیاں میری میز پر جمع ہوتی ہیں۔ ایسے میں بہت سی لڑکیوں کو جانتا ہوں اور بس یہی بات ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا: ’مونک اپنے پاسپورٹ کے ساتھ مر گئی، یعنی کوئی اس سے پیسے مانگنے کے لیے اسے لے نہیں گیا تھا۔ اس کی موت سے پہلے میں نے اسے چار سے پانچ ہفتوں سے زیادہ عرصے سے نہیں دیکھا تھا۔‘

’میں مونک اور کائیلاکو جانتا تھا اور وہ مختلف مالک مکانوں کے ساتھ کرائے پر رہ رہی تھیں۔ اگر دونوں فلیٹوں میں سے کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی مالک مکان کو، تو اس کی کوئی وجہ تھی۔ دونوں واقعات کی دبئی پولیس نے تحقیقات کیں اور شاید وہ آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔‘

بی بی سی نے البرشا پولیسسٹیشن سے رابطہ کیا تاکہ مونیک اور کائیلا کی کیس فائلوں کو دیکھنے کی درخواست کی جائے۔ انھوں نے اس درخواست یا اس الزام کا جواب نہیں دیا کہ مونک اور کائیلا کی اموات کی مناسب تحقیقات نہیں کی گئیں۔

بی بی سی کو مونک کے حوالے سے ٹاکسیکولوجی رپورٹس دیکھنے یا اس اپارٹمنٹ کے مالک مکان سے بات کرنے میں کامیابی نہیں ملی جہاں وہ اپنی موت کے وقت رہ رہی تھی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US