انڈیا کے شہر حیدرآباد کی ایک 76 سالہ ریٹائرڈ میڈیکل آفیسر کو ’ڈیجیٹل حراست‘ کی آڑ میں دھوکے بازوں نے ساڑھے چھ لاکھ روپے سے زیادہ کا دھوکہ دیا، جس کے بعد خاتون دل کا دورہ پڑنے سے چل بسیں۔
اہلخانہ کا کہنا ہے کہ خاتون کی موت ہراساں کیے جانے کی وجہ سے ہوئی (فائل فوٹو)انڈیا کے شہر حیدرآباد کی ایک 76 سالہ ریٹائرڈ میڈیکل آفیسر کو ’ڈیجیٹل حراست‘ کی آڑ میں دھوکے بازوں نے ساڑھے چھ لاکھ روپے سے زیادہ کا دھوکہ دیا، جس کے بعد خاتون دل کا دورہ پڑنے سے چل بسیں۔
جنوبی ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد کی سائبر کرائم پولیس نے اس معاملے میں ایک کیس بھی درج کیا ہے۔
حیدر آباد سائبر کرائم ڈیپارٹمنٹ کی ڈی سی پی کویتا نے بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ اس معاملے میں تحقیقات جاری ہیں۔
ڈی سی پی نے کہا ہے کہ متاثرہ خاتون کا نام اور خاندان کی تفصیلات شیئر نہیں کی جا سکتی ہیں۔
پیسے ایسے بینکوں میں منتقل کیے جاتے ہیں جہاں سے انھیں حاصل کرنا دشوار ہورقم شیل اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی
ستمبر کے پہلے ہفتے میں پیش آنے والا یہ واقعہ ابھی حال ہی میں سامنے آیا ہے۔
ڈی سی پی کویتا نے بتایا کہ 5 اور 8 ستمبر کے درمیان خاتون کو ’ڈیجیٹل حراست‘ کی دھمکی دی گئی اور ہراساں کیا گیا۔
پولیس کے مطابق ملزمان نے انھیں پہلی بار 5 ستمبر کو فون کیا۔ اگلے دن یعنی 6 ستمبر کو 660,543 روپے ان کے بینک اکاؤنٹ سے مہاراشٹر میں ایک بینک اکاؤنٹ میں منتقل کیے گئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ اکاؤنٹ ’شیل اکاؤنٹ‘ تھا۔
تفتیش کاروں کے مطابق سائبر کرائم کرنے والے پہلے دھوکہ دہی کی رقم کو شیل اکاؤنٹ میں جمع کرتے ہیں، پھر اسے مختلف بینک اکاؤنٹس میں منتقل کرتے ہیں، اسے کرپٹو کرنسی میں تبدیل کرتے ہیں اور اس طرح رقم کو غائب کر دیتے ہیں۔
ڈی سی پی کویتا نے کہا کہ چونکہ معاملہ زیر تفتیش ہے اس لیے زیادہ تفصیلات نہیں بتائی جا سکتی ہیںموت کے بعد بھی فون پر پیغامات آتے رہے
اہلخانہ نے پولیس کو بتایا کہ خاتون کو 8 ستمبر کو دل کا دورہ پڑا اور ہسپتال لے جانے سے پہلے ہی ان کی موت ہو گئی۔ اگلے دن ان کی تدفین کر دی گئی۔
تاہم اہلخانہ نے دیکھا کہ ان کی موت کے بعد بھی ان کے فون پر پیغامات آتے رہے۔ اس کے بعد انھیں شبہ ہوا کہ وہ سائبر فراڈ کا شکار ہوئی تھیں۔ اس کی بنیاد پر انھوں نے پولیس میں شکایت درج کرائی۔
اہلخانہ نے اپنی شکایت میں کہا کہ سائبر کرائم کرنے والوں کی طرف سے ہراساں کیے جانے اور دھمکیاں برداشت نہ کر پانے کی وجہ سے ان کی موت ہوئی۔
پولیس نے کہا کہ ’ہمیں پتہ چلا کہ ان کی موت کے بعد بھی ان کے فون پر کئی پیغامات بھیجے گئے لیکن یہ پیغامات اس نمبر سے نہیں آئے جہاں سے ابتدائی کال آئی تھی۔‘
ٹائمز آف انڈیا نے اس واقعے کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ متاثرہ خاتون نے اس فون نمبر کو ’جے شنکر سر‘ کے نام سے محفوظ کر رکھا تھا۔ انھیں واٹس ایپ پر ایک جعلی عدالتی نوٹس اور کئی ویڈیو کالز بھی موصول ہوئیں۔
ڈی سی پی کویتا نے کہا کہ جاری تحقیقات کی وجہ سے اس وقت مزید معلومات شیئر نہیں کی جا سکتی ہیں۔
ڈیجیٹل حراست میں دھوکے باز اپنے شکار کو کمیرے کے نگرانی میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں’ڈیجیٹل حراست‘ کیا ہے؟
یہ آن لائن دھوکہ دہی کا نیا طریقہ ہے جس میں جرائم پیشہ افراد ویڈیو کالز پر خود کو پولیس یا سرکاری ملازم ظاہر کر کے لوگوں کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہ ویڈیو کالز کے ذریعے ہر وقت آپ کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں، کہاں جا رہے ہیں یا کس سے بات کر رہے ہیں۔
گرفتاری کے خوف سے اکثر لوگ ان کی ہر بات مان لیتے ہیں۔ وہ لوگوں سے ان کے بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم بھیجنے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔
انڈیا میں یہ دھوکہ بڑھتا جا رہا ہے اور گذشتہ سال صرف جنوری سے اپریل کے دوران انڈیا کے شہری ایسے مختلف واقعات میں 12 کروڑ روپے گنوا بیٹھے تھے۔
نومبر میں شائع ہونے والی بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ اعداد و شمار سرکاری حکام نے دیے ہیں جن کا یہ بھی کہنا تھا کہ بہت سے متاثرین ایسے فراڈ کے بارے میں رپورٹ درج نہیں کرواتے اور اسی لیے درست اعداد و شمار موجود نہیں۔
یہ فراڈ کرنے والے گروہ خوف کی مدد سے متاثرین سے پیسے ٹرانسفر کرواتے ہیں جنھیں بیرون ملک موجود اکاؤنٹس میں منتقل کروا دیا جاتا ہے۔
انڈیا میں یہ فراڈ اِس قدر بڑھ چکا ہے کہ اکتوبر 2024 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے عوام کو خبردار کیا تھا کہ لوگ ایسی فون کال پر خوفزدہ نہ ہوں اور لوگوں کو علم ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے تفتیشی ادارے کبھی فون یا ویڈیو کال پر تفتیش نہیں کرتے۔