سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران آئینی اور قانونی نکات پر تفصیلی بحث ہوئی۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس مظاہر نقوی شامل تھے۔
سماعت کے دوران نجی کمپنیوں کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ جو بھی ڈائریکشن دیتی ہے پارلیمنٹ اس کی پابند ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایک رعایت دی ہے لیکن اگر وہ رعایت کسی کو نہ ملے تو اس کا اطلاق پرانے قانون سے ہی ہونا چاہیے۔ انہوں نے مؤقف اپنایا کہ رعایت کی حد تک حکومت کو ترمیم کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ سے مشورہ لیا جا سکتا ہے ممکن ہے کوئی بہتر مشورہ مل جائے۔ انہوں نے کہا کہ کیا کافی ہے اور کیا ناکافی اس کا فیصلہ پارلیمنٹ نے ہی کرنا ہے۔جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ ماضی میں ایک قانون موجود تھا اب اس میں ترمیم ہو گئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا اطلاق ماضی سے ہوگا یا نہیں؟
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ یہاں حکومت کچھ نہیں دے رہی، بات منافع اور انکم کی ہو رہی ہے۔ اگر میری پراپرٹی ہے اور میں نے بیچ دی تو فائدہ یا نقصان خریدار کا ہوگا۔عدالتِ نے کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔