’بوٹس‘: امریکی فوج میں ہم جنس پرستوں کی خفیہ تاریخ

نیٹ فلکس کے کامیڈی ڈرامہ بوٹس میں ایک ایسے نوجوان کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے جو اپنی ہم جنس پرستی کو چھپاتے ہوئے امریکہ کی میرین کور میں بھرتی ہوجاتا ہے۔ اس کہانی میں مزاح کے انداز میں اس تلخ حقیقت کو پیش کیا گیا ہے کہ مسلح افواج میں ہم جنس پرستوں کی بھرتیوں سے کیا تجربات اور کس طرح کی مشکلات سامنے آئیں۔
ہم جنس پرستی
BBC

نیٹ فلکس کے کامیڈی ڈرامہ ’بوٹس‘ (Boots) کا مرکزی کردار ایک ایسا نوجوان ہے جو اپنی ہم جنس پرستی کو چھپاتے ہوئے امریکی فوج میں بھرتی ہو جاتا ہے۔

اس کہانی میں مزاح کے انداز میں اس تلخ حقیقت کو پیش کیا گیا ہے کہ امریکہ کی مسلح افواج میں ہم جنس پرستوں کو کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

امریکی فوج میں ہم جنس پرست افراد کی تاریخ کا احاطہ یہ دو الفاظ کرتے ہیں: سروس اور رازداری۔

فریڈرک سٹوبن کا شمار امریکی صدر جارج واشنگٹن کے نہ صرف قابلِ اعتماد مشیروں میں ہوتا تھا بلکہ وہ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں امریکہ کی پیشہ وارانہ فوج کو ترتیب دینے کے بانیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

بہت سے مؤرخین کے مطابق فریڈرک ہم جنس پرست تھے، تاہم نہ تو وہ اور نہ ہی امریکی فوج میں اُن کے بعد آنے والے بے شمار فوجی اہلکار کبھی اپنی اصل شناخت ظاہر کر سکے۔

اور جنس سے متعلق یہ رازداری برتنے کی وجہ یہ تھی کہ کئی دہائیوں تک ہم جنس پرست افراد کو امریکی مسلح افواج میں نہ صرف سزا کا سامنا ہوتا تھا بلکہ انھیں اس بنیاد پر برطرف تک کر دیا جاتا تھا۔

حتیٰ کہ سنہ 1994 میں جب امریکہ میں یہ قانون باقاعدہ طور پر نافذ کیا گیا کہ ایل بی جی (لیزبین (ہم جنس پرست خواتین)، گے (ہم جنس پرست مرد) اور بائی سیکشوئل (دونوں جنسوں میں دلچسپی رکھنے والے) افراد فوج میں قانونی طور پر خدمات انجام دے سکتے ہیں، تب بھی ایک واضح ہدایت جاری کی گئی کہ ’ڈونٹ آسک، ڈونٹ ٹیل‘۔ (یعنی نہ ہی پوچھو، اور نہ کسی کو بتاؤ۔‘

اور انھی سخت ہدایات کی وجہ سے ایسے افراد اپنی جنسی شناخت کے بارے میں لب کشائی کرنے کی جسارت نہیں کر سکتے تھے۔

جب خاموش رہنے کی یہ پالیسی سنہ 2011 میں ختم کی گئی تو ہم جنس پرست افراد کو آخرکار امریکی فوج میں ان کی شمولیت کو نہ صرف اعلانیہ تسلیم کیا گیا بلکہ اس میں بعد مزید پیش رفت بھی ہوئی۔

جون 2024 میں صدر جو بائیڈن نے ان ہزاروں سابق فوجیوں کو عام معافی دینے کا تاریخی اعلان کیا جو فوجی سابقہ فوجی قوانین کی شِق 125 کے تحت سزا یافتہ قرار دیے گئے تھے۔ یاد رہے کہ یہ متنازع قانون 1951 میں متعارف ہوا تھا اور اسے 2013 میں منسوخ کیا گیا۔ اس قانون کے تحت فوجی اہلکاروں کو ’غیر فطری جسمانی تعلق‘ رکھنے پر سزا دی جاتی تھی خاص طور پر اگر وہ تعلق ایک ہی جنس کے فرد کے ساتھ ہوتا (یعنی ہم جنس پرستی پر سزا)۔

اپنے بیان میں صدر بائیڈن نے تسلیم کیا کہ اس قانون نے ایسے کئی سابق فوجیوں کو مجرم بنا ڈالا جو وہ اپنی اصل شناخت کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے تھے مگر کڑے اور سخت قوانین کی وجہ سے اپنی شناخت ظاہر نہ کر سکے اور مجرم قرار دیے گئے۔

نیٹ فلکس کی نئی کامیڈی ڈرامہ سیریز ’بوٹس‘، مصنف گریگ کوپ وائٹ کی سنہ 2016 میں لکھی جانے والی یاداشتوں ’دی پنک میرین‘ پر مبنی ہے جن میں فوج میں خدمات انجام دینے والے ایل بی جی اہلکاروں کی بہادری کو سامنے لایا گیا ہے۔

’خوف، شک اور غیر یقینی کے ماحول میں کام کرنے والے ایل جی بی فوجی‘

تاہم تمام تر قوانین کے نافذ ہونے کے باوجود حالیہ دہائیوں تک بھی ایل جی بی ٹی کیو فوجی اہلکاروں کو اپنے غیر ہم جنس پرست ساتھیوں جیسے مساوی حقوق پانے کے لیے مشکلات کا سامنا رہا ہے۔

اگرچہ فوجی انصاف کے ضابطے کا آرٹیکل 125 بظاہر ہم جنس پرست افراد کو ملک کی خدمت سے نہیں روکتا، لیکن انھیں ایک بات کا ہر وقت دھیان رکھنا پڑتا تھا کہ اُن کی شناخت ظاہر نہ ہو جائے۔

ثقافتی مورخ ڈاکٹر نیتھنیئل فرینک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایل جی بی فوجی ہمیشہ خوف، شک اور غیر یقینی کے ماحول میں کام کرتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ اگر کسی ہم جنس تعلق میں کوئی مسئلہ ہو جاتا، یا کسی افسر یا ماتحت کے ساتھ تنازعپیدا ہو جاتا، تو یہ مسئلہ بلیک میلنگ کا باعث بن جاتا، جو اُن فوجیوں کے لیے سر پر مستقل لٹکتی ایک تلوار کی مانند تھا۔‘

نیتھنیئل فرینک ’ان فرینڈلی فائر:ہاؤ دا گے بین انڈرمائین دا ملٹری اینڈ ویکین امریکہ‘ کے مصنف اور کارنیل یونیورسٹی کے تحقیقی پورٹل ’واٹ وی نو‘ کے ڈائریکٹر ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی فوجی اپنی شناخت ظاہر کر دیتا تو اس کی تنخواہ، پنشن یہاں تک کہ پوری فوجی سروس کو ہی خطرے کا سامنا ہوتا تھا۔

’بعض اوقات، ہم جنس تعلقات میں ملوث ہونے پر اہلکاروں کو قید جیسی سزاؤں کا سامنا بھی کرنا پڑتا۔‘

فرینک کے مطابق جب صدر بل کلنٹن نے ’ڈونٹ آسک، ڈونٹ ٹیل‘ نامی پالیسی متعارف کرائی تو اُس کا مقصد ایسی بہتری لانا تھا جس سے ہم جنس پرست فوجی اہلکاروں کو انتقام کا نشانہ بننے سے بچانا تھا۔ اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ ہم جنس پرست فوجیوں کو ہراسانی یا امتیازی سلوک سے تحفظ مل سکے۔

تاہم اس کے برعکس حالات مزید بگڑ گئے۔

فرینک کے مطابق ’اس پالیسی نے جب قومی ثقافت میں اس معاملے کو نمایاں کر دیا تو ہم جنس پرست افراد مزید نظروں میں آئے اور اعدادوشمار سے پتہ چلا کہ جنسی رجحان کی بنیاد پر فوج سے برطرفیوں کی تعداد کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی۔‘

’افسران کو کسی سے یہ نہیں پوچھنا تھا کہ وہ ہم جنس پرست ہے یا نہیں، لیکن بے شمار لوگ اس اصول کی بار بار خلاف ورزی کرتے رہے اور انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنتے رہے۔‘

’مردانگی کی دنیا میں اپنی جگہ بنانے کی خواہش‘

اب واپس آتے ہیں نیٹ فلیکس کی سیریز ’بوٹس‘ کی جانب جس میں اُن فوجی اہلکاروں کی جرأت اور حوصلے کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے جو خدمت کے جذبے کے تحت اپنی شناخت کے ایک بنیادی حصے کو دباتے رہے۔

یہ سیریز اینڈی پارکر نے تخلیق کی ہے، جو اس سے پہلے نیٹ فلیکس پر آرمیسٹڈ ماؤپن کے ناول ’ٹٹیلز آف دی سٹی‘ کی ڈرامائی تشکیل کر چکے ہیں۔

’بوٹس‘ گریگ کوپ وائٹ کی کتاب پر مبنی ایک ایسی کہانی ہے جس میں ترس کے بجائے صاف گوئی اور مزاحیہ انداز میں اس کمیونٹی کو درپیش چیلیجز کی مثبت انداز میں عکاسی کی گئی ہے۔

میلِز ہائزر کیمیرون کا کردار ادا کر رہے ہیں جو ایک نوجوان ہم جنس پرست ہے اور جو اپنی شناخت چھپاتے ہوئے میرین کور کے بوٹ کیمپ میں محض اس امید میں شامل ہوتا ہے کہ وہ اپنی جگہ بنا پائے گا، بالکل ویسے ہی جیسے کوپ وائٹ نے کیا تھا۔

مصنف کے مطابق ’مجھے معلوم تھا کہ میں ایک مرد ہوں، لیکن معاشرہ مجھے میری جنسیت کی وجہ سے کمتر سمجھ رہا تھا۔ میں اُس ماحول میں اس لیے گیا تاکہ مردانگی کی دنیا میں اپنی جگہ تلاش کر سکوں، حالانکہ وہ شاید اس کے لیے سب سے مشکل جگہ تھی۔‘

آٹھ اقساط پر مشتمل نیٹ فلکس کی اس سیریزمیں اصل تصنیف کے مقابلے میں کچھ تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں مثلا جہاں کوپ وائٹ نے 1979 میں بوٹ کیمپ جوائن کیا تھا جبکہ اس سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ ایسا تب ہوا، یعنی صرف چار سال قبل جب ڈونٹ آسک، ڈونٹ ٹیل کی پلیسی متعارف کروائی گئی تھی۔

پارکر کو امید ہے کہ اس سیریز کے مزید سیزن بھی بنائے جائیں گے اور انھیں یقین ہے کہ یہ پالیسی کہانی کے لیے زبردست ڈرامائی مواد فراہم کرے گی۔

پارکر کہتے ہیں کہ ’ہمارا مرکزی ہم جنس پرست کردار ایک ایسے راز کے ساتھ فوج میں جی رہا ہے جو اُس ماحول میں اُس کے لیے بے حد خطرناک ہے۔ لیکن وہاں موجود ہر شخص ہی کسی نہ کسی راز کو چھپا رہا ہے یا کسی چیز سے بھاگ رہا ہے۔ یہ مشترکہ کیفیت مجھے ایک دلچسپ پہلو لگا جسے سامنے لانے کی ضرورت تھی۔‘

ہم جنسیت پر رجحان ہونے کے باوجود اس سیریز میں ایک ایسی تلخ اور تباہ کن حقیقت کو دکھایا گیا ہے جس کا سامنا کئی فوجی اہلکاروں نے کیا۔

پارکر کہتے ہیں کہ ’اس سیریز پر کام کرنے والے کچھ سابق فوجی کمانڈو(میرین) ہم جنس پرست نہیں تھے لیکن وہ بھی ان پالیسیوں کو بے معنی اور عجیب قرار دیتے تھے۔

ان کے مطابق یہ قوانین فوجی زندگی کے سب سے اہم اصول یعنی آپس میں اتحاد اور بھروسہ کی یکسر خلاف ورزی پر مبنی تھے۔

تاہم اب حالات کافی بدل چکے ہیں۔ سنہ 2015 کے ایک سروے کے مطابق 16 ہزار سے زائد فوجی اہلکاروں میں سے تقریباً چھ فیصد نے خود کو ہم جنس پرست یا بائی سیکشول کہا۔ لیکن ٹرانس جینڈر افراد کے لیے مشکلات اب بھی کم نہ ہو سکیں۔

جنوری میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پابندی لگائی جس کے تحت ٹرانس افراد کو امریکی فوج میں نوکری کرنے کی اجازت نہیں۔

اُن کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ٹرانس جینڈر ہونا فوجی نظم و ضبط اور ایمانداری کے معیار کے خلاف ہے۔ بعد میں سپریم کورٹ نے عارضی طور پر ٹرمپ کو یہ پابندی نافذ کرنے کی اجازت دے دی۔ تاہم اس فیصلے کو چیلینج کیا جا چکا ہے۔

1990 کی دہائی میں ہم جنس پرست کارکن امریکی فوج کی پالیسی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے
Getty Images
1990 کی دہائی میں ہم جنس پرست کارکن امریکی فوج کی پالیسی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے

پارکر کے مطابق یہی وجہ ہے کہ بوٹس آج کے دور میں اور بھی اہم لگتی ہے۔

’جب میں نے 2020 میں یہ کہانی پیش کی تھی، تو میں نے سوچا تھا کہ ہم صرف تاریخی واقعات بیان کر رہے ہوں گے، لیکن آج جب ٹرانس افراد کے فوج میں شامل ہونے کے حق پر بحث ہو رہی ہے تو یہ کہانی پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔‘

مؤرخ فرینک کہتے ہیں کہ ’امریکی فوج ہمیشہ اس بات پر بحث کا مرکز رہی ہے کہ ایک ’حقیقی امریکی‘ ہونے کا مطلب کیا ہے۔‘

اُن کے مطابق ہم جنس پرست افراد کو فوج میں شامل ہونے دینا اُن لوگوں کے لیے چیلنج تھا جو نہیں مانتے تھے کہ ایل جی بی بھی محبِ وطن ہو سکتے ہیں۔

کوپ وائٹ کے مطابق ’ہم زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں سے کہتے ہیں کہ وہ اکٹھے ہوں اور ملک کے آئین اور عوام کی حفاظت کے لیے اپنی جان تک قربان کر دیں۔ تو پھر جو بھی اس کا اہل ہو اور اس کے لیے تیار ہو، اسے صرف اجازت نہیں بلکہ عزت و احترام کے ساتھ خوش آمدید کہنا چاہیے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US