پاکستان اور افغانستان کے درمیان 14 اور 15 اکتوبر کی درمیانی شب چمن سمیت دوسرے سرحدوں پر جھڑپیں شروع ہوگئیں، جس میں دونوں اطراف سے بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا، پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 15 اکتوبر کی صبح افغان طالبان نے اسپن بولدک میں چار مختلف مقامات پر بزدلانہ حملے کیے جنہیں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے مؤثر اور بھرپور جوابی کارروائی سے پسپا کر دیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق افغان طالبان نے اپنی جانب واقع پاک - افغان دوستی گیٹ کو بھی تباہ کردیا۔ پاکستانی فورسز کی جوابی کارروائی میں 15 تا 20 افغان طالبان موقع پر ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ 14 اور 15 اکتوبر کی شب افغان طالبان اور فتنۃ الخوارج نے کرم سیکٹر میں بھی پاکستانی چوکیوں پر حملے کی کوشش کی، جسے فورسز نے بہادری سے ناکام بنایا۔ جوابی کارروائی میں دشمن کی متعدد چوکیوں کو بھاری نقصان پہنچا، 8 پوسٹس اور 6 ٹینک تباہ ہوئے جبکہ 25 تا 30 جنگجو مارے گئے۔
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے بعد 48 گھنٹوں کی جنگ بندی ہوگئی، وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق یہ فیصلہ خطے میں امن و استحکام کے فروغ اور کشیدگی میں کمی کے لیے کیا گیا ہے۔
ترجمان وزارتِ خارجہ نے بتایا کہ افغان طالبان رجیم کی جانب سے باقاعدہ طور پر پاکستان سے سیز فائر کی درخواست کی گئی تھی، جس پر غور کے بعد حکومتِ پاکستان نے مثبت ردِعمل دیتے ہوئے آئندہ 48 گھنٹوں کے لیے عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔
وزارتِ خارجہ کے مطابق اس اقدام کا مقصد سرحدی علاقوں میں جاری کشیدگی کو کم کرنا اور مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان ہمیشہ خطے میں امن، استحکام اور باہمی تعاون کا خواہاں رہا ہے اور اس فیصلے سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے عمل کو تقویت ملے گی۔
دوسری جانب افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی جنگ بندی کی تصدیق کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ پاکستان کی درخواست پر جنگ بندی ہوگئی ہے۔
دوست محمد بڑیچ کا نقطۂ نظر
معروف تجزیہ کار اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر دوست محمد بڑیچ نے "ہماری ویب" کو بتایا کہ ہمیں سب سے یہ دیکھنا ہوگا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات اتنے خراب کیوں ہوئے، پاکستان کے تعلقات اتنے خراب سابق صدر اشرف غنی دور میں نہیں تھے، اب جس طرح سرحدوں پر تصادم ہوا، اس سے پہلے کبھی دونوں ممالک کے درمیان سرحدوں پر تصادم نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی یعنی (تحریک طالبان پاکستان) کو بطور بارگیننگ شپ پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے، اس کی مختلف وجوہات ہیں، ایک تو یہ ہے کہ طالبان کنوینشنل وار فیئر جیسے ملٹری کی جنگ، ڈرون کی جنگ میں کافی پیچھے ہے، پاکستان اس حوالے سے کافی مضبوط ہے۔
بلوچستان کے افغانستان سے متصل ضلع چمن میں کشیدگی کے باعث سرحد کے قریب ایک کلو میٹر کے علاقے میں لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی ہدایت کی گئی، جبکہ پاکستان سے افغانستان جانے والے پناہ گزین بھی سرحد پر پھنس گئے، جن کو ضلعی انتظامیہ نے محفوظ مقام پر منتقل کردیا۔
طالبان نے غیر متوازی جنگ میں بہت زیادہ حصہ لیا اور امریکا کے خلاف جنگ لڑی ہے، اس میں وہ مہارت رکھتے ہیں، اس لیے وہ پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کو سپورٹ کرتے ہیں اور جتنی مراعات ٹی ٹی پی کی قیادت کو افغانستان میں حاصل ہے، اتنی شاید طالبان کے وزرا کو بھی نہیں میسر نہیں ہے، وہ ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی بھی نہیں کرسکتے ہیں، کیوں کہ ان کو خطرہ ہے کہ اس طرح ٹی ٹی پی داعش کے ساتھ نہ مل جائے، جو افغانستان کے لیے بہت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔
دوست محمد کے بقول: اس کے بعد ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ٹی ٹی پی اور طالبان کے جتنے رہنما ہیں وہ ایک ساتھ پڑھے ہیں، ایک ساتھ تربیت حاصل کی ہے، انہوں نے ایک ساتھ جنگیں لڑی ہیں، وہ بہت حد تک نظریاتی طور پر ایک دوسرے ساتھ ہیں، ان وجوہات کی بنا پر وہ ٹی ٹی پی کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، ایسے حالات میں اس طرح کے واقعات کا ہونا، یہ بھی ممکن ہے کہ افغان وزیر خارجہ امیر متقی انڈیا کے دورے پر تھے، تو شاید انڈیا طالبان کے ذریعے پاکستان پر دباؤ بڑھا دے، اور ٹی ٹی پی کے واقعات میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے، جن کو طالبان کی مدد حاصل ہو اور انڈیا بھی ان کی مدد کرے، اس طرح کی صورتحال میں انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان نے اس حوالے سے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔
دوسری جانب چین نے بھی کہا ہے کہ اس کے شہریوں کی افغانستان اور پاکستان میں حفاظت کو یقینی بنایا جائے، اس کو اپنے شہریوں اور سرمایہ کاری کے حوالے سے تشویش ہے، کیوں کہ افغانستان اور پاکستان دونوں چین کے ہمسایے ہیں، خدشہ ہے کہ انڈیا کی مداخلت کے بعد اس طرح کے واقعات میں مزید اضافہ ہوجائے، تاہم مستقبل کے حوالے سے پیش گوئی کرنا کافی مشکل ہے۔
بلوچستان سے متصل سرحدی علاقوں کے علاوہ خیبر پختونخوا کے کرم ایجنسی میں بھی جھڑپیں ہوئی جس میں دونوں اطراف سے بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا جبکہ سوشل میڈیا پر مختلف ویڈیو کے ذریعے پروپیگنڈا بھی چلتا رہا، جن کی آزاد ذرائع سے کوئی تصدیق نہ ہوسکی، ایک ویڈیو میں چمن میں باب دوستی کا ایک حصہ بھی تباہ دکھایا۔
رفعت اللہ اورکزئی کا تجزیہ
ادھر پشاور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار اور صحافی رفعت اللہ اورکزئی کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدہ تعلقات کے آنے والے دنوں میں انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، دونوں ممالک کے رویے بھی سخت ہورہے ہیں۔
رفعت اللہ اورکزئی نے "ہماری ویب" کو بتایا کہ جب افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت تھی تو ان کو بھی ہم دشمن کہتے تھے، لیکن ان کے دور میں اس جیسے حملے نہیں ہوئے جیسے طالبان کے دور میں ہوئے ہیں، جو ہمارے دوست تھے، ہم ان کی وکالت کرتے تھے، ہم نے ان کی 2021 میں کابل پر قابض ہونے کے بعد سے سال ڈیڑھ سال تک وکالت کی، یقیناً اس کے آنے والے وقت میں بہت سے اثرات پیدا ہوں گے۔
پہلے پاکستان کا رویہ بہت سخت تھا، لیکن اس حالیہ تصادم کے بعد طالبان کے رویے میں مزید سختی پیدا ہورہی ہے، ایک تو یہ ہے کہ افغان طالبان نے کل جو لاہور میں مذہبی جماعت کے کارکنوں کے خلاف کارروائی پر بیان جاری کیا ہے، یہ پہلی مرتبہ ہے کہ جب سے طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے، انہوں نے پہلی مرتبہ پاکستان کے اندرونی معاملات پر کوئی بیان دیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کتنی کشیدگی ہے۔
پاکستان کا مؤقف اور دعوے
انہوں نے کہا کہ اب یہ سوال کہ پاکستان نے کابل پر کیوں حملہ کیا؟ تو پاکستان کا موقف ہے کہ وہاں پر دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں، ٹی ٹی پی ہے، حافظ گل بہادر گروپ ہے، اور وہاں سے یہ لوگ آکر پاکستان پر حملے کرتے ہیں، پاکستان میں حملے تو ہورہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں، لیکن یہ حملے پاکستان کے اندر سے ہورہے ہیں، افغانستان میں لیڈرشپ موجود ہے، ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر گروپ ہے، افغان طالبان آفیشلی اس سے انکار کرتے ہیں، لیکن وہاں پر ان کے ٹھکانے ہیں، پاکستان نے جو کچھ دن قبل کابل میں کارروائی کی تھی وہ مفتی نور ولی محسود کی گاڑی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی، تاہم ابھی اس کی تصدیق نہیں ہورہی ہے، یہ اطلاعات ہیں کہ پاکستان کچھ عرصے سے افغان طالبان سے کہتا رہا ہے کہ ہمارے پاس ہر معلومات ہیں کہ ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کابل میں رہتا ہے، اگر ہمیں موقع ملتا ہے تو ہم اس کو نشانہ بنائیں گے، وہ گاڑی نشانہ بنی ہے اور اس میں کچھ ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں، ٹی ٹی پی اس کی تردید کررہی ہے تاہم افغان طالبان نے بھی اس حوالے سے کچھ نہیں کہا ہے۔
کشیدگی کے ممکنہ نتائج
رفعت اللہ کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان جو تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا ہے یہ بہت بڑا نقصان ہے، جب سے عمران خان کی حکومت ختم ہوئی ہے اور فوج کی قیادت جو تبدیل ہوئی ہے اس کی پالیسی بالکل مختلف ہے، جیسی پالیسی جنرل ریٹائرڈ باجوہ کے دور میں تھی، ان کے دور میں مذاکرات ہوئے جبکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم کوئی مذاکرات نہیں کریں گے، ہم طاقت کے ذریعے اس معاملے کو حل کریں گے۔
انہوں نے کہا "افغانستان کی تاریخ رہی ہے کہ وہاں ہمیشہ طاقت کو شکست ہوئی ہے، اگر ہم یہ غلطی کریں گے تو اس سےمزید بگاڑ پیدا ہوگا۔"
کیوں کہ ابھی جو پاکستان اور افغانستان کے سرحدوں پر تصادم ہوا ہے اس میں بہت سے لوگ مارے گئے ہیں، جانی نقصانات ہوئے ہیں، پاکستان نے 23 افراد کے جان سے جانے کی تصدیق کی ہے جو بہت بڑی تعداد ہے، جو زیادہ بھی ہوسکتی ہے کہ کیوں اس وقت پروپیگنڈا جنگ بھی چل رہی ہے، جبکہ پاکستان کا دعویٰ کہ انہوں نے افغانستان کے 200 افراد مارے ہیں۔
اس سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ صرف ایک تصادم کے نتائج ہیں اگر مزید اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو کتنی تباہی ہوسکتی ہے۔
واقعے کے وقت کا سیاق و سباق
رفعت کے مطابق: اس حملے کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ اس کا وقت بہت اہم ہے، کہ پاکستان اس پر ناراضگی کا اظہار کررہا ہے، جس دن کابل پر فضائی کارروائی ہوئی تو اسی روز افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی انڈیا پہنچا تھا، یعنی امیر خان متقی جس دن انڈیا پہنچا اسی رات کو کابل اور پکتیکا پر کارروائی ہوئی۔
رفعت نے کہا کہ، میرے خیال میں یہ درست عمل نہیں کیوں کہ افغانستان ایک خودمختار ملک ہے اور وہ اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے، یہ ہماری ناکام خارجہ پالیسی ہے کہ افغانستان اتنی دور بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے، افغانستان اسلامی ملک ہے اور جہاں تک بات بھارت کی ہے تو مودی کی حکومت جو مسلمان مخالف حکومت ہے، جس نے مسلمانوں کے خلاف کیا کیا مظالم نہیں کیے، بی جے پی تو ہندوتوا کی پیداوار ہے، ان کی پالیسی ہی مسلمانوں کی مخالفت پر مبنی ہے، یہاں بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھا کر کابل بھی غلطی کررہا ہے چونکہ کافر کبھی مسلمانوں کا دوست نہیں ہوسکتا ہے۔
لیکن چونکہ کابل کے پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ نئے دوست ڈھونڈے گا۔
علاقائی اور بین الاقوامی تشویش
وہ اس حوالے سے مزید کہتے ہیں کہ عالمی تناظر میں دیکھیں تو چین، روس اور سعودی عرب بھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پر تشویش کااظہار کر چکے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ دونوں ممالک آپس میں لڑیں کیوں کہ افغانستان میں بعض کی سرمایہ کاری بھی ہوئی ہے، افغانستان میں جو سب سے بڑا خطرہ ہے پوری دنیا کے لیے وہ عالمی دہشت گرد تنظیمیں ہیں، القاعدہ ہے، ٹی ٹی پی ہے، داعش ہے، ترکستان اسلامک موومنٹ ہے، جنداللہ ہے، یہ سب بڑی بڑی تنظیمیں ہیں، ان سے پوری دنیا کو خطرہ ہے۔
افغانستان کے جتنے پڑوسی ممالک ہے ان سب کو ان تنظیموں سے خطرات لاحق ہیں، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی سے ان تنظیموں کو موقع ملے گا، جس سے یہ تمام ممالک غیر محفوظ ہوجائیں گے۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب اور قطر کی بڑی کوشش ہے کہ یہ معاملہ آگے نہ بڑھے، عارضی جنگی بندی تو ہوچکی ہے، کوئی فائرنگ نہیں ہورہی ہے لیکن پاکستان کی افغانستان کے ساتھ تمام سرحدیں بند ہیں، جو تین دن سے بند ہیں، طورخم، انگور اڈا بھی بند ہے، آمدورفت بھی معطل ہے، بہت سے لوگ سرحد کھلنے کے منتظر ہیں، تجارت بھی بند ہے، افغانستان کا زیادہ تر انحصار پاکستا ن پر ہے، علاج معالجے کے لیے آنے والے بھی پریشان ہیں، جس طرح کل پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کا بیان سامنے آیا ہے کہ کوئی مذاکرات نہیں ہورہے ہیں کوئی رابطہ بھی نہیں ہے۔ اس صورتحال میں جنگ کسی بھی وقت چھڑ سکتی ہے، حالات تو خراب ہیں۔
حکمتِ عملی اور ممکنہ راستے
رفعت اللہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے حوالے سے جارحانہ پالیسی نہیں چل سکتی ہے، پاکستان کے ساتھ طاقت کے علاوہ بھی بہت سے حربے ہیں، لیکن اس بار معلوم نہیں کیوں زیادہ زور طاقت کے استعمال پر دیا جارہا ہے، جہاں تک بات طالبان کی ہے تو وہ اس چیز سے خوش ہوتے ہیں، وہ بندوق کی پیداوار ہیں، بندوق ہی ان کے کندھوں پر ہے، وہ 40 سال سے جہادی ہیں، وہ ان جنگوں میں پلے بڑھے ہیں، ان کو جنگ مزہ دیتا ہے وہ جنگ کو خوش آمدید کہتے ہیں، ہمیں اس معاملے کو حکمت عملی سے حل کرنا ہوگا، اگر ہم طاقت کا استعمال کریں گے تو بہت زیادہ نقصان ہوگا۔
اس سے ایک اور جنگ خیبر پختونخوا اور بلوچستان پر مسلط ہوگی، کیوں یہ دونوں صوبے افغانستان کے ساتھ ملتے ہیں، انہوں نے 40 سال سے جنگیں دیکھی ہیں، یہاں کے لوگ اس کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں۔
ہمارے پاس بہت سے آپشن ہیں ، ہم ریجنل ممالک کے ذریعے دباؤ ڈال سکتے ہیں، جیسے چین، ایران، روس ہے، جو طالبان سے خوش نہیں ہیں، ان کو ملا کر اگر ہم کچھ کرتے ہیں تو اس سے طالبان پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
دوسری طرف جو عرب ممالک ہیں، جیسے سعودی عرب جن کے ساتھ ہمارا ابھی معاہدہ بھی ہوا ہے، اس طرح قطر ہے جس نے بہت فعال کردار ادا کیا ہے جو طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدہ ہوا وہ بھی قطر میں ہوا تھا، ان کو اعتماد میں لے کر ہم اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔
ٹی ٹی پی کا مسئلہ اور کنٹرول کی مشکلات
رفعت اللہ اورکزئی کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کا ایک بہت ٹیکنیکل مسئلہ ہے اور طالبان کے لیے مشکل ہے اس کے خلاف کارروائی کرے، کیوں یہ ان کے مورچے کے ساتھی رہے ہیں، انہوں نے ان کے لیے خون بہایا ہے، پھر یہ پشتون بھی ہیں، پھر ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پاکستان میں جو لوگ مارے جاتےہیں ان کے دوسرے لوگ ٹی ٹی پی کے ساتھ جا کر مل جاتے ہیں۔ ادھر طالبان کی بھی کوشش ہے کہ ان کے جنگجو ٹی ٹی پی کا ساتھ نہ دیں، لیکن اس کو کنٹرول کرنا مشکل ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان عارضی جنگ بندی ہوگئی ہے، تاہم کشیدگی اب بھی برقرار ہے، دوبارہ تصادم کی صورت میں دونوں اطراف سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔