اسرائیلی فوج کی جانب سے سیزفائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیوں اور درجنوں فلسطینیوں کی شہادت کے بعد غزہ میں جنگ بندی دوبارہ نافذ کر دی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق قابض اسرائیلی افواج نے گزشتہ 24 گھنٹوں میں حماس کے نام پر غزہ کے مختلف علاقوں میں 120 فضائی حملے کیے جن میں عام شہریوں، نصیرات کیمپ اور خان یونس کے بے گھر افراد کے خیمے بھی نشانہ بنے۔ ان حملوں میں 45 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔
فلسطینی حکام کے مطابق 10 اکتوبر کو نافذ ہونے والی جنگ بندی کے بعد سے اب تک 98 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ حماس نے اسرائیلی الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل جنگ دوبارہ شروع کرنے کے بہانے تلاش کر رہا ہے۔
غزہ میں کشیدہ صورتحال کے بعد امریکی نائب صدر جے ڈی وینس، صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اسرائیل پہنچ گئے ہیں تاکہ جنگ بندی فریم ورک پر بات چیت کی جا سکے۔
روانگی سے قبل جیرڈ کشنر نے کہا کہ حماس معاہدے کے وعدوں پر عمل کر رہی ہے جنگ بندی 100 فیصد کامیاب ہوگی اس کی ناکامی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی جنگ بندی برقرار رہنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں فائرنگ کے واقعات میں حماس کی اعلیٰ قیادت نہیں بلکہ چند باغی عناصر ملوث ہیں۔
دوسری جانب حماس نے امریکی محکمہ خارجہ کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ الزامات اسرائیل کی جارحیت کو چھپانے کی کوشش ہیں، امریکا اسرائیلی بیانیہ دہرانا بند کرے۔
مصر، ترکیہ، قطر اور امریکا نے جنگ بندی بحال کرانے میں کردار ادا کیا۔ عرب ذرائع کے مطابق حماس کا وفد خلیل الحیہ کی قیادت میں قاہرہ پہنچ گیا ہے تاکہ معاہدے پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر مصری حکام سے مشاورت کی جا سکے۔
دوسری جانب اسرائیل نے غزہ میں امدادی قافلوں کے داخلے پر عارضی پابندی لگا دی ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق حکومت نے فوج کو غزہ کی جانب امداد کی ترسیل اگلے حکم تک روکنے کی ہدایت دی ہے۔
سیز فائر کے باوجود اسرائیلی حملوں میں اب تک 97 فلسطینی شہید اور 230 زخمی ہو چکے ہیں جب کہ رفح بارڈر تاحال بند ہے۔ تاہم ثالثوں کی کوششوں سے غزہ میں امن کی بحالی کا عمل ایک بار پھر شروع کر دیا گیا ہے۔