ڈیورنڈ لائن کا تنازع: 132 سال قبل کھینچی جانے والی لکیر کو قیام پاکستان کے بعد افغانستان نے سرحد تسلیم کرنے سے انکار کیوں کیا؟

افغان حکومتیں ڈیورنڈ لائن کو سرحد کے طور پر تسلیم کیوں نہیں کرتیں، یہ تنازع کب اور کیسے شروع ہوا اور کیا یہ معاہدہ سو سال کے لیے ہوا تھا؟
سرحد
Getty Images
ڈیورنڈ لائن معاہدے نے افغانستان اور برطانوی ہند کے درمیان سرحد کو طے کیا تھا

’یہ پہلا موقع ہے کہ افغانستان کی ایک واضح سرحد متعین ہوئی ہے جس سے مستقبل میں غلط فہمیاں نہیں ہوں گی اور افغانستان برطانوی ہتھیاروں اور اسلحہ کی مدد سے مضبوط اور طاقتور ہو جائے گا۔‘

آج سے تقریبا 132 سال قبل 13 نومبر سنہ 1893 کے دن جب افغانستان کے امیر عبدالرحمان کابل میں ملک کے عمائدین کے سامنے انگریزوں کے ساتھ ڈیورنڈ لائن معاہدے کی تعریف کر رہے تھے تو وہ ایک وسیع علاقے پر حاکمیت کے حق سے بھی دستبردار ہو رہے تھے جو بہت سال پہلے ہی افغان اثرورسوخ سے نکل چکا تھا۔ یہ علاقہ آج پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کا حصہ ہے۔

تاہم یہ معاہدہ وقت گزرنے کے ساتھ متنازع ہو گیا جس کی بنیادی وجہ افغانستان کی جانب سے اس لکیر کو پاکستان کے ساتھ سرحد ماننے سے انکار کرنا تھا جس کی توثیق خود متعدد افغان حکمرانوں نے ڈیورنڈ لائن کے بعد ہونے والے کئی معاہدوں میں بھی کی۔

گزشتہ دنوں افغانستان میں برسراقتدار طالبان حکومت کے وزیر دفاع ملا یعقوب کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے ایسے ہی ایک متنازع بیان نے اس موضوع کو پھر سے نمایاں کیا۔ ایسے میں بہت سے لوگ اس معاملے پر بحث کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور یہ سوال کر رہے ہیں کہ افغان حکومتیں ڈیورنڈ لائن کو سرحد کے طور پر تسلیم کیوں نہیں کرتیں اور یہ تنازع کب اور کیسے شروع ہوا؟ اور کیا یہ معاہدہ سو سال کے لیے ہوا تھا؟

یاد رہے کہ ڈیورنڈ لائن افغانستان اور پاکستان کے درمیان تقریباً 2,600 کلومیٹر طویل سرحد ہے، جو 1893 میں برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان قائم ہوئی لیکن سنہ 1947 میں قیام ِ پاکستان کے بعد سے افغانستان کی جانب سے اس پر مختلف اعتراضات کے باعث دونوں ملکوں میں تنازع کی ایک بڑی وجہ ہے۔

ڈیورنڈ لائن
Getty Images
گزشتہ دنوں افغانستان میں برسراقتدار طالبان حکومت کے وزیر دفاع ملا یعقوب کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے ایسے ہی ایک متنازع بیان نے اس موضوع کو پھر سے نمایاں کیا

گریٹ گیم اور ڈیورنڈ معاہدہ

ڈیورنڈ لائن کا نام برطانوی ہند کے خارجہ سیکرٹری سر ہینری مارٹیمر ڈیورنڈ کے نام پر رکھا گیا جن کا افغانستان کے امیر عبدالرحمٰن خان کے ساتھ معاہدہ ہوا۔

اس لائن کا مغربی سرا ایران کی سرحد سے جا ملتا ہے جبکہ مشرقی سرا چین کی سرحد سے۔ اس کی ایک جانب افغانستان کے 12 صوبے ہیں اور دوسری جانب پاکستان کے علاقے خیبرپختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان واقع ہیں۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق 19ویں صدی کے اوائل میں افغانستان، وسطی ایشیا پر غلبے کی برطانوی اور روسی کشمکش، جسے ’گریٹ گیم‘ کہا جاتا ہے، میں ایک مہرہ بن گیا۔ روس کی جنوبی سمت پیش قدمی روکنے کے لیے برطانیہ نے 1839 میں افغانستان پر حملہ کیا جس میں برطانوی افواج کو شکستہوئی۔

’سنہ 1849 میں انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کر لیا اور دریائے سندھ کے مغرب میں واقع سکھوں کی غیر واضح سرحدی پٹی کو اپنے زیرِ نگیں کر لیا۔ اس علاقے میں مختلف پشتون قبائل آباد تھے، جس کے انتظام اور دفاع نے انگریزوں کے لیے مسائل پیدا کیے۔ برطانوی حکام دو گروہوں میں بٹ گئے، ایک سٹیٹک سکول جو دریائے سندھ تک واپس ہٹنے کا حامی تھا، اور دوسرا فارورڈ سکول جو کابل، غزنی اور قندھار تک پیش قدمی چاہتا تھا۔‘

بریٹینیکا ہی کی تحقیق ہے کہ ’سنہ 1878 کی جنگ میں برطانیہ کامیاب رہا اور عبدالرحمٰن خان کو نیا امیر مقرر کیا گیا۔ عبدالرحمٰن نے 1880 میں گندمک معاہدےکی توثیق کی، جو 1879 میں اُن کے پیش رو یعقوب خان نے کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت افغانستان کی خارجہ پالیسی برطانوی کنٹرول میں آگئی۔ البتہ برطانیہ نے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی ضمانت دی، اور بعد ازاں اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔‘

سنہ 1893 میں برطانوی حکومت کے خارجہ سیکرٹری سر ہینری مارٹیمر ڈیورنڈ اور افغانستان کے عبدالرحمٰن خان کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں ڈیورنڈ لائن معاہدہ طے پایا، جس نے افغانستان اور برطانوی ہند کے درمیان سرحد کو طے کیا۔

’یہ معاہدہ صرف ایک صفحے پر مشتمل تھا، اور 1894 سے 1896تک ایک مشترکہ افغان-برطانوی سروے کے ذریعے سرحد کھینچی گئی۔‘

برطانیہ نے افغانستان پر سنہ 1839 اور 1919 کے درمیان تین مرتبہ حملہ کیا
Getty Images
برطانیہ نے افغانستان پر سنہ 1839 اور 1919 کے درمیان تین مرتبہ حملہ کیا

پردے کے پیچھے چھپے منشی اور امیر کا اطمینان

اولف کیرو اپنی کتاب ’دی پٹھان‘ میں امیر عبدالرحمٰن خان کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’ذیل میں دیا گیا اقتباس امیر عبدالرحمٰن خان کے شکی مگر عملی ذہن کی ایک نمایاں مثال ہے: ’سر مارٹیمر ڈیورنڈ بڑے زیرک مدبر اور فارسی کے بھی اچھے عالم تھے، اس لیے بات چیت خوش اسلوبی سے آگے بڑھی۔ تاہم میں نے ہر گفتگو کا مکمل ریکارڈ رکھنے کے لیے یہ انتظام کیا کہ میرے میر منشی سلطان محمد خان ایک پردے کے پیچھے بیٹھے رہیں — اس طرح کہ نہ کوئی انھیں دیکھ سکے، نہ ان کی موجودگی کا علم ہو، سوائے میرے۔‘

’ان کا کام یہ تھا کہ وہ سر مارٹیمر ڈیورنڈ، میری، اور وفد کے دیگر ارکان کی تمام گفتگو — چاہے وہ انگریزی میں ہو یا فارسی میں —شارٹ ہینڈ میں نوٹ کریں۔ یہ تمام ریکارڈ آج بھی میرے دفتر کے محفوظات میں موجود ہے۔‘

’گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ سرحدی حد بندی پر اتفاق ہو گیا — چترال اور درہ بروغیل سے لے کر پشاور تک، اور وہاں سےکوهِ ملک سیاہ (جہاں ایران، افغانستان اور بلوچستان کی سرحدیں ملتی ہیں) تک۔‘

’معاہدے کے مطابق واخان، کافرستان، اسمار، لالپورہ کا مہمند، اور وزیرستان کا ایک حصہ (بیرمل) میری سلطنت میں شامل ہوئے، جبکہ میںنئے چمن کے ریلوے سٹیشن چغی، باقی وزیری علاقے، بلند خیل، کرم، آفریدی، باجوڑ، سوات، بونیر، دیر، چلاس اور چترال پر اپنے حق سے دست بردار ہو گیا۔‘

’ان سرحدی امور پر جو غلط فہمیاں اور تنازعات پیدا ہو رہے تھے، وہ ختم ہو گئے، اور جب دونوں حکومتوں کے کمشنروں نے معاہدے کے مطابق سرحد کی نشان دہی مکمل کی، تو امن و ہم آہنگی قائم ہوگئی — جس کے دائمی رہنے کی میں خدا سے دعا کرتا ہوں۔‘

اس کے بعد کیرو لکھتے ہیں کہ ’قارئین پر کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ امیر عبدالرحمٰن اس معاہدے سے مطمئن تھے۔ ڈیورنڈ کے فارسی پر عبور سے امیر خوش ہوئے، اور وقتی طور پر سب کچھ بخیر و خوبی طے پا گیا۔‘

ڈیورنڈ معاہدے میں ڈیورنڈ لائن کو سرحد کے طور پر بیان نہیں کیا گیا تھا۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے کیرو لکھتے ہیں کہ ’یہ درست ہے کہ معاہدے میں اس لکیر کو ہندوستان کی سرحد نہیں کہا گیا بلکہ امیر [عبدالرحمٰن] کے اقتدار کے خطِ حد کے طور پر بیان کیا گیا، اور یہ طے پایا کہ اس لکیر سے آگے کسی فریق کا اثر و رسوخ نہیں ہوگا۔‘

’اس کی وجہ یہ تھی کہ برطانوی حکومت کا ارادہ قبائلی علاقوں کو اپنے انتظامی نظام میں شامل کرنے کا نہیں تھا بلکہ صرف اپنا اثر و اختیار بڑھانے اور امیر کے اختیار کو اس لکیر کے مشرق اور جنوب کے علاقوں سے خارج کرنے کا تھا۔ بین الاقوامی لحاظ سے اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی، کیونکہ امیر نے اس لکیر کے پار اپنی خودمختاری سے دست برداری اختیار کر لی تھی۔‘

تین دہائیاں قبل کھویا ہوا علاقہ

امور سلامتی کے تجزیہ کار اعجاز حیدر کے ڈان اخبار میں چھپنے والے ایک مضمون کے مطابق ’کئی افغان مصنفین اور سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ افغانستان نے دریاے سندھ اور ڈیورنڈ لائن کے درمیان کا زیادہ تر علاقہ ڈیورنڈ معاہدے کے نتیجے میں کھو دیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ علاقے معاہدے سے تین دہائیاں پہلے تک ، یعنی 1810 سے 1870 کے درمیان کھو چکے تھے۔‘

وہ افغان محقق اَرون راہی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’درحقیقت، ڈیورنڈ معاہدے کے ذریعے افغانوں نے آخری بار کچھ علاقہ برطانیہ کے حوالے کیا، پہلی بار نہیں۔‘

بریٹینیکا کے مطابق اسی معاہدے کے تحت بلوچستان کو برطانوی ہند کے سپرد کیا گیا اور واخان کوریڈور کی حدود بھی طے ہوئیں۔ چین کی سرحد تک جاتی یہ تنگ پٹی اور روس اور برطانیہکے درمیان بفر زون کا کردار ادا کرتی تھی۔

معاہدہ راولپنڈی اور سرکاری سرحد

سنہ 1901 میں امیر عبدالرحمٰن کے انتقال کے بعد برطانیہ اور افغانستان کے تعلقات بتدریج بگڑنے لگے۔ 1919 میں اُن کے جانشین حبیب اللہ خان، جو برطانیہ کے حامی تھے، قتل کر دیے گئے۔ اُن کے بعد تخت پر امان اللہ خان بیٹھے، جو برطانیہ مخالف تھے، اور جلد ہی تیسری اینگلو-افغان جنگ چھڑ گئی۔

یہ جنگ 1919 کے معاہدہ راولپنڈی پر ختم ہوئی جس کے نتیجے میں افغانستان نے اپنی خارجہ پالیسی پر دوبارہ اختیار حاصل کر لیا اور ڈیورنڈ لائن کو برطانوی سلطنت کے ساتھ سرکاری سرحد کے طور پر تسلیم کیا گیا۔

کیمبرج ویب سائٹ پر شائع ہونے والی سید عاطف رضا کی تحقیق ہے کہ ’یہ معاہدہ افغانوں کے لیے جشن کا موقع تھا۔ امان اللہ خان نے برطانوی بادشاہ کو شکریہ کا خط لکھا اور 19 اگست 1919 کو آزادی کا اعلان کیا جو بعد میں افغانستان کا یومِ آزادی قرار پایا۔‘

’افغان وفد نے معاہدے میں افغان حکومت کی اصطلاح پر زور دیا تاکہ یہ معاہدہ حکومتوں کے درمیان ہو، نہ کہ صرف امیر کی حیثیت میں۔ اسی معاہدے میں امان اللہ کو بادشاہ کا لقب دیا گیا۔‘

’تیسری افغان جنگ دراصل برطانوی اثر سے آزادی کی جنگ تھی، نہ کہ سرحدی تنازع۔ معاہدہ راولپنڈی نے پہلے کے تمام سرحدی معاہدوں، بشمول ڈیورنڈ لائن، کی توثیق کی۔ بعدازاں 1921 کے کابل معاہدے میں دونوں فریقوں نے ایک بار پھر ان حدود کی تصدیق کی اور باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کیے۔‘

معاہدہ متنازع کب ہوا

رضا لکھتے ہیں کہ ’سنہ 1947میں برصغیر کی تقسیمکے بعد نوزائیدہ ملک پاکستان نے ڈیورنڈ معاہدہ وراثت میں حاصل کیا۔ تاہم سرحد کے دونوں جانب ایک تحریک اُبھری جس کا مقصد پشتونستان نامی آزاد ریاست کا قیام تھا۔‘

جب پاکستان نے 1947 میں اقوامِ متحدہ کی رکنیت کے لیے درخواست دی تو افغانستان واحد ملک تھا جس نے اس کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔

افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اسے ’برطانوی دباؤ کا نتیجہ‘ قرار دیتے ہوئے معاہدے کو کالعدم کہا۔

’افغان اعتراض کے جواب میں کہ امیر عبدالرحمٰن نے یہ معاہدہ دباؤ کے تحت کیا تھا، برطانوی مورخ اور وکیل بیجان عمرانی لکھتے ہیں کہ مذاکرات ایک ماہ تک جاری رہے۔‘

’اور سر مارٹیمر ڈیورنڈ اور حکومتِ ہند کے درمیان ہونے والے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دوران میں حقیقی گفت و شنید کا عمل جاری تھا: برطانوی حکومت نے افغانستان کی حکومت کے کہنے پر چند علاقوں کو افغان حدود میں شامل کرنے پر رضامندی ظاہر کی، حالانکہ وہ پہلے انھیں ہندوستانی جانب رکھنا چاہتی تھی۔‘

افتخار احمد یوسف زئی اور حمایت اللہ یعقوبی پنجاب یونیورسٹی کے جرنل آف ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان کے لیے اپنے تحقیقی مضمون ’ڈیورنڈ لائن: اٹس ہسٹاریکل، لیگل اینڈ پولیٹیکل سٹیٹَس‘ میں بتاتے ہیں کہ امیر عبدالرحمٰن خان نے درانی دربار اور لویہ جرگہ بلا کر معاہدے کی توثیق حاصل کی، جس سے واضح ہوتا ہے کہ امیر، ان کے درباری اور قبائلی سردار معاہدے سے خوش تھے۔

’بعد ازاں افغانستان کی مختلف حکومتوں (امان اللہ خان، حبیب اللہ خان، شاہ محمد نادر خان وغیرہ) نے بھی اس معاہدے کو تسلیم کیا۔ معاہدہ راولپنڈی (1919)، معاہدہ کابل (1921)، تجارتی معاہدہ (1923) اور 1930 میں نادر خان کے دور میں بھی ڈیورنڈ لائن کو دونوں ممالک کی بین الاقوامی سرحد مانا گیا۔‘

یوسف زئی اور یعقوبی کی تحقیق کے مطابق 1920 کے بعد ’افغانستان آزاد ہو چکا تھا؛ اگر وہ چاہتا تو معاہدہ مسترد کر سکتا تھا، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔‘

سر ہینری مارٹیمر ڈیورنڈ
Getty Images
ڈیورنڈ لائن کا نام برطانوی ہند کے خارجہ سیکرٹری سر ہینری مارٹیمر ڈیورنڈ کے نام پر رکھا گیا

پاکستان کا قیام اور وراثت

یوسف زئی اور یعقوبی کی تحقیق کے مطابق ’اس تنازع نے اس وقت سر اٹھایا جب برصغیر میں تقسیم ہوئی اور پاکستان کی آزاد مملکت وجود میں آئی۔‘

’یہ مسئلہ اُس وقت اُبھرا جب برطانیہ نے ہند سے اقتدار منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ افغان حکومت نے مطالبہ کیا کہ 1893 کے ڈیورنڈ معاہدے کے تحت جو علاقے برطانیہ کو دیے گئے تھے، وہ واپس کیے جائیں۔‘

’برطانوی حکومت نے یہ مؤقف رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ علاقے برطانوی ہند کا حصہ ہیں، اور اقتدار کی منتقلی کے وقت جو صورت حال ہو گی، وہی نئی ریاستوں کو وراثت میں ملے گی۔ یہی پالیسی پاکستان کے قیام کے بعد بھی برقرار رہی۔‘

30 جون 1950 کو برطانیہ کے وزیرِ دولتِ مشترکہ نوئل بیکر نے ہاؤس آف کامنز میں کہا: ’بین الاقوامی قانون کے مطابق پاکستان، سابقہ برطانوی ہند اور برطانوی حکومت کے تمام حقوق و فرائض کا وارث ہے، اور ڈیورنڈ لائن ایک بین الاقوامی سرحد ہے۔‘

یوسف زئی اور یعقوبی کی تحقیق میں لکھا ہے کہ ’قانونی ماہر احمر بلال صوفی کے مطابق، ویانا کنونشن (آرٹیکل 62) کے تحت جب کوئی نیا ملک کسی نوآبادیاتی خطے سے وجود میں آتا ہے، تو سابقہ تمام معاہدے اور ذمہ داریاں نئی حکومت کو منتقل ہو جاتی ہیں۔ اس لیے پاکستان نے آزادی کے بعد جائز طور پرڈیورنڈ معاہدے کا تسلسل حاصل کیا۔‘

’اسی اصول کی وضاحت دیگر بین الاقوامی مقدمات میں بھی کی گئی، جیسے برکینا فاسو بناممالی کیس اورلیبیابنامچاڈ کیس، جن میں عالمی عدالت نے قرار دیا کہ معاہدے سے طے شدہ سرحدیں مستقل ہوتی ہیں، چاہے معاہدہ خود ختم ہو جائے۔‘

لیکن افغانستان پاکستان کو برطانوی ہندوستان کی جانشین ریاست تسلیم نہیں کرتا اور اسے ایک نئی ریاست قرار دیتا ہے۔

پاکستان سرحد
Getty Images

کیا یہ معاہدہ سو سال کے لیے تھا؟

یوسف زئی اور یعقوبی کی تحقیق بتاتی ہے کہ ’افغان عوام میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ ڈیورنڈ معاہدہ صرف سو سال کے لیے تھا اور 1993 میں ختم ہو گیا۔ تاہم کسی معاہدے یا دستاویز میں ایسی کوئی مدت درج نہیں۔‘

’احمر بلال صوفی کے مطابقڈیورنڈمعاہدہ یا بعد کے 1919 اور 1921 کے معاہدے کہیں بھی مدت کی کوئی حد نہیں بتاتے۔ سو سال کی بات محض قیاس آرائی ہے۔‘

ان کے مطابق ’رواجی بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی ملک کا رویہ اور دیگر ممالک کا طرزِ عمل قانونی معیار بنتا ہے۔ افغانستان اگر اپنی باقی سرحدوں (روس، چین اور ایران) کو تسلیم کرتا ہے، تو اسے پاکستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن بھی تسلیم کرنی چاہیے، کیونکہ ان سرحدوں کے تعین میں تو اسے مشاورت کا موقع بھی نہیں ملا تھا۔‘

’اگر برطانیہ کے انخلا کے ساتھ ڈیورنڈ معاہدہ کالعدم ہو جاتا، تو پھر روس کے ٹوٹنے پر افغانستان کوتاجک، ازبک اور ترکمان علاقے بھی واپس کرنے پڑتے لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا۔‘

افغانستان نے ستمبر 1947 میں پاکستان کے خلاف منفی ووٹ دیا، یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہ پاکستان کا شمال مغربی سرحدی علاقہ اُس وقت تک پاکستان کا حصہ تسلیم نہیں کیا جانا چاہیے جب تک وہاں کے پشتونوں کو آزادی یا علیحدہ حیثیت کے حق پر رائے دینے کا موقع نہ مل جائے۔

تاہم اکتوبر 1947 میں افغانستان نے یہ منفی ووٹ واپس لے لیا اور فروری 1948 میں دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات قائم کیے۔

اعجاز حیدر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’مئی 1963 کے تہران معاہدے کے بعد دونوں ممالک میں عارضی مفاہمت پیدا ہوئی، لیکن اس سے پہلے افغانستان کے وزیرِاعظم سردار محمد داؤد نے ستمبر 1960 میں باجوڑ میں فوج بھیج کر تعلقات خراب کر دیے تھے۔ پاکستان اور مقامی قبائل کو ایک سال لگا افغان افواج کو نکالنے میں۔‘

’داؤد ڈیورنڈ لائن کے شدید مخالف اور پشتونستان کے حامی تھے۔ پاکستان نے کابل کو چیلنج کیا کہ وہ اپنے پشتون علاقوں میں ریفرنڈم کرائے تاکہ دیکھا جا سکے کہ وہاں کے پشتون افغانستان میں رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان میں شامل ہونا۔‘

سردار داؤد
Getty Images
افغانستان کے وزیرِاعظم سردار محمد داؤد ڈیورنڈ لائن کے شدید مخالف اور پشتونستان کے حامی تھے

جب ڈیورنڈ لائن کا حل نزدیک تھا

حیدر لکھتے ہیں کہ ’سنہ 1973 میں داؤد نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر جمہوریہ افغانستان قائم کی۔ انھوں نے دوبارہ پشتونستان کی مہم شروع کی اور پاکستان میں پشتون اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت کی۔ ان کی سخت گیر پالیسیوں کے باعث کئی مذہبی رہنما پاکستان بھاگ آئے، جن میں گلبدین حکمت یار، عبدالرب رسول سیاف، برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود شامل تھے۔‘

پاکستان نے جوابی حکمتِ عملی اپنائی۔

برنیٹ روبن نے ’دی فریگمینٹیشن آف افغانستان‘ میں لکھا ہے کہ’1975 میں پاکستان نے افغان اسلام پسندوں کی بغاوت کو خفیہ طور پر منظم کیا تاکہ داؤد پر دباؤ بڑھایا جا سکے اور وہ پاکستان کے ساتھ بارڈر کے مسئلے پر بات چیت پر آمادہ ہو جائیں۔‘

حیدر کے مطابق بالآخر داؤد نے سوویت یونین سے فاصلہ اور امریکا، ایران، مصر، سعودی عرب اور پاکستان سے قربت اختیار کرنا شروع کی۔

مختلف مصنفین جیسے روبن، ڈیاگو کارڈووِز اور سیلگ ہیریسن نے لکھا کہ داؤد ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو حل کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے۔

’جون 1976 میں بھٹو کابل گئے اور اگست میں داؤد اسلام آباد آئے۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ اگر بھٹو نیشنل عوامی پارٹی کے گرفتار رہنماؤں کو رہا کر دیں تو وہ ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں۔‘

’بعد میں جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی برطرفی کے بعد یہی پالیسی آگے بڑھائی اور اکتوبر 1977 میں کابل گئے۔ داؤد نے مارچ 1978 میں جوابی دورہ کیا۔ داؤد سے پوچھا گیا کہ کیا ڈیورنڈ لائن پر بات ہوئی؟ انھوں نے جواب دیا: ہر چیز پر بات ہوئی، وقت کے ساتھ سب کچھ طے ہو جائے گا۔‘

’لیکن 27 اپریل 1978 کو داؤد اور ان کا خاندان کمیونسٹ افسروں کے ایکانقلابمیں مارے گئے، اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (پی ڈی پی اے)نے اقتدار سنبھال لیا۔‘

سوویت یونین نے 24 دسمبر 1979 کو افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ دس سال بعد سوویت انخلا تو ہوا، مگر خطے کے لیے ایک نئے دور کی مشکلات شروع ہو گئیں۔ یوں ’پاکستان کا بنیادی ہدف یعنی کابل کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرانا، داؤد کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US