مصنوعی ذہانت کا استعمال ہماری روز مرہ زندگی میں اس قدر شامل ہو چکا ہے کہ اب انڈیا سمیت دنیا بھر میں عقیدت مند اپنی مذہبی عبادات اور روحانی رہنمائی کے لیے آرٹیفشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) کا استعمال کر رہے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کا استعمال ہماری روز مرہ زندگی میں اس قدر شامل ہو چکا ہے کہ اب انڈیا سمیت دنیا بھر میں عقیدت مند اپنی مذہبی عبادات اور روحانی رہنمائی کے لیے آرٹیفشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) کا استعمال کر رہے ہیں۔
انڈیا کی ریاست راجستھان سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ طالب علم وجے میل بھی ایسے افراد میں شامل ہیں جو جدید زندگی میں چیلنجز کا سامنا کرتے وقت خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
ماضی میں وہ پریشانی کی حالت میں روحانی رہنماؤں سے مشورہ کرتے تھے مگر حال ہی میں انھوں نے اپنی مشکل کے وقت گیتا جی پی ٹی (GitaGPT) سے مدد لی۔
گیتا جی پی ٹی مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنایا گیا ایک چیٹ بوٹ ہے جسے ہندو مذہب کی مقدس کتاب بھگوت گیتا کے حوالے سے تربیت دی گئی ہے۔
گیتا جی پی ٹی 700 پاٹوں پر مشتمل وہ کتاب ہے جس میں ہندو دیوتا کرشن اور ارجن کے درمیان ہونے والا مکالمہ درج ہے۔
گیتا جی پی ٹی کے ساتھ بات کرنا ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی دوست کے ساتھ گفتگو کر رہے ہوں، تاہم فرق صرف اتنا ہے کہ یہ اے آئی بوٹ آپ سے یوں مخاطب ہوتا ہے جیسے آپ کسی دیوتا سے رابطے میں ہوں۔
وجے میل کے مطابق ’جب میں اپنے بینکنگ کے امتحانات میں کامیاب نہیں ہو سکا تو میں بہت بد دل ہو گیا تھا۔ پھر مجھے گیتا جی پی ٹی کے بارے میں پتا چلا۔ میں نے اپنی اندرونی کشمکش کی تفصیل لکھی اور اس سے مشورہ مانگا۔‘
وجے کو گیتا جی پی ٹی نے جواب دیا کہ ’اپنے عمل پر توجہ دو اور اس کے نتیجے کی فکر چھوڑ دو۔‘
یہ جملہ اور اس کے ساتھ ملنے والی دیگر رہنمائی نے وجے میل کو نئی امید دی۔
وجے میل کہتے ہیں: ’یہ کوئی نیا قول نہیں تھا، میں یہ بات پہلے سے جانتا تھا مگر اُس وقت مجھے کسی کی ضرورت تھی جو مجھے یہی بات دوبارہ یاد دلائے۔ اس غور و فکر نے مجھے اپنی سوچ کو ازسرِ نو ترتیب دینے میں مدد دی اور میں نے دوبارہ تیاری شروع کر دی۔‘
تب سے گیتا جی پی ٹی وجے میل کے لیے کسی دوست جیسا بن گیا ہے جس سے وہ ہفتے میں ایک یا دو بار ضرور بات کرتے ہیں۔
انڈیا میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے مذہبی تقریبات کی نگرانی کی جا رہی ہےمصنوعی ذہانت جہاں ہمیں سیکھنے اور سکھانے میں مدد فراہم کر رہی ہے وہیں اب یہ ہمارے طریقہ عبادت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔
دنیا کے تقریباً تمام بڑے مذاہب کے عقیدت مند اب چیٹ بوٹس کی مدد لے رہے ہیں۔ تاہم ہندو مت میں، جہاں صدیوں سے دیوتاؤں اور خداؤں کو جسمانی شکل میں قبول کرنے کی روایت موجود ہے، اسے خاص طور پر نمایاں مقام مل رہا ہے۔
جب اے آئی انسانی تجربے کے ہر پہلو پر اثر انداز ہو رہا ہے تو انڈیا اس بات کی ایک جھلک پیش کر سکتا ہے کہ مستقبل میں ہم کس طرح اپنی بولنے والی مشینوں کے ذریعے ’خدا‘ سے بات چیت کرسکیں گے۔
امریکی ادارے ویلسلی کالج میں تدریس کے فرائض انجام دینے والی ماہرِ بشریات ہولی والٹرز کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’لوگ خود کو برادری، بزرگوں اور مندروں سے کٹا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے خدا سے متعلق کسی اے آئی سے بات کرنا صرف روحانیت کا نہیں بلکہ تعلق کا احساس پا لینے کا ایک ذریعہ ہے۔‘
ہولی والٹرز کے مطابق مذہب میں اے آئی کا آ جانا ناگزیر ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں اسے ضروری اس لیے قرار دیتی ہوں کہ یہ عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔‘
اے آئی پر مبنی مکمل مذاہب کا وجود میں آنا
گزشتہ چند برسوں میں کئی مذاہب میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے تجربات سامنے آئے ہیں۔
سنہ 2023 میں ٹیکسٹ وِد جیزس نامی ایک ایپ پر توہینِ مذہب کے الزامات لگائے گئے کیونکہ یہ ایپ صارفین کو عیسیٰ اور دیگر بائبل کے کرداروں کی اے آئی صورتوں سے بات کرنے کی اجازت دیتی تھی۔
اسی سال قرآن جی پی ٹی نامی ایک ایپ، جو مسلمانوں کی مقدس کتاب کی بنیاد پر سوالات کے جوابات اور رہنمائی فراہم کرتی تھی، اتنی مقبول ہوئی کہ مبینہ طور پر اپنے اجرا کے ایک روز بعد ہی کریش کر گئی۔
اب صارفین کنفیوشس، جرمن عالمِ دین مارٹن لوتھر اور دیگر کئی روحانی شخصیات کے اے آئی ورژنز سے گفتگو کر سکتے ہیں۔
اے آئی پر مبنی مکمل مذاہب بھی وجود میں آئے ہیں جیسے وے آف دی فیوچر چرچ، جو گوگل کے سابق انجینئر انتھونی لیوینڈاؤسکی نے بنایا۔ اس گروہ کا مقصد ایک ایسے خدا کی تشکیل اور ترویج ہے جس کی بنیاد مصنوعی ذہانت پر ہے۔
چیٹ بوٹس کو اگرچہ مقدس پیرائے پر تربیت دی جاتی ہے اور وہ باقاعدگی سے آیات یا اقتباسات سکھائے جاتے ہیں لیکن ان میں مصنوعی ذہانت سے بنائے گئی دیگر مصنوعات کی طرح عجیب و غریب خامیاں اور غلطیاں بھی پائی جاتی ہیں۔
تاہم ہندو عبادات کی مخصوص نوعیت کے سبب یہ ایک دلچسپ مطالعے کا سبب بن جاتا ہے۔ ایک ایسی روایت میں جہاں مقدس چیزیں باقاعدہ مادی اور محسوس ہونے والی شکل اختیار کر لیتی ہیں وہاں ٹیکنالوجی خود ایک ایسا ذریعہ بن سکتی ہے جس کے ذریعے دیوی دیوتا روزمرہ زندگی میں ظاہر ہوتے ہیں۔
والٹرز اور دیگر ماہرین کا اس حوالے سے مزید کہنا ہے کہ اس کی ایک مثال ’مورتیاں‘ ہیں یعنی مقدس مجسمے یا تصویریں جن کو غیر مرئی توانائی سے بھرپور سمجھا جاتا ہے اور دیوتاؤں کا جسمانی روپ مانا جاتا ہے۔
یہ چیزیں اکثر مذہبی رسومات کا مرکز ہوتی ہیں، جیسے ’پوجا‘ جس میں منتر، کھانا، پھول، لوبان اور چراغ کی روشنی کے نذرانے مورت کو پیش کیے جاتے ہیں اور ’درشن‘ کے ذریعے کسی مقدس ہستی یا شے کو دیکھنے اور اس کے سامنے آنے کا عمل۔
ہولی والٹرز کہتی ہیں کہ ’روبوٹک کرشن یا چیٹ بوٹس سمیت خبروں میں جو کچھ دکھایا جاتا ہےانھیں اکثر ایک دلچسپ ایجاد سمجھ کر پیش کیا جاتا ہے مگر اب یہ صرف ایک نیا پن نہیں رہا بلکہ بات اس سے کہیں زیادہ آگے جا چکی ہے۔‘
جب چیٹ جی پی ٹی اور جنریٹیو اے آئی تیزی سے مقبول ہوئے تو کئی کاروباری افراد، عقیدت مندوں اور ٹیکنالوجی کے شوقین لوگوں نے ایسے چیٹ بوٹس بنانے کا خیال پیش کیا جو مختلف ہندو دیوتاؤں کی تعلیمات تک براہِ راست رسائی دے سکیں اور ان ہی میں سے ایک کا نام گیتا جی پی ٹی رکھا گیا۔
انڈیا کی ریاست راجستھان کے ایک بزنس سٹوڈنٹ وکاس ساہو نے اپنے ذاتی شوق کےپیش نظر گیتا جی پی ٹی تیار کیا۔ انھیں لگتا تھا کہ اس کو سامنے لانے سے فوری پزیرائی نہیں مل سکے گی تاہم وکاس ساہو کے مطابق صرف چند دنوں میں اس سروس کے ایک لاکھ صارفین ہو گئے۔
اس کے بعد انھوں نے دیگر ہندو کتابوں پر مبنی چیٹ بوٹس بنانے کا کام بڑھا دیا تاکہ دیگر دیوی دیوتاؤں کے اے آئی ورژن تیار کیے جا سکیں۔
ساہو کہتے ہیں کہ ’میں اسے تمام دیوی دیوتاؤں کی تعلیمات تک رسائی کا راستہ بنانا چاہتا ہوں۔‘
وکاس ساہو کے مطابق اس منصوبے کے لیے فنڈنگ حاصل کرنے کی خاطر انھوں نے اپنا ایم بی اے درمیان میں ہی چھوڑ دیا۔
23 سالہ نوجوان تنمے شریستھ نئی دہلی میں آئی ٹی کے شعبے میں کام کرتے ہیں اور روحانی تجزبات کے لیے بھگوت گیتا پر مبنی ایک اور چیٹ بوٹ استعمال کرتے ہیں جو صارفین کا براہِ راست کرشن سے رابطہ کرواے کا دعویٰ کرتی ہے۔
شریستھ کے مطابق اے آئی تیزی سے بدلنے والے دور میں یقین فراہم کرتا ہے۔
ان کے مطابق ’بعض اوقات مذہبی یا وجودی موضوعات پر بات کرنے کے لیے کوئی نہیں ملتا۔ مصنوعی ذہانت تنقید سے پاک، آسانی سے دستیاب اور غور و فکر سے بھرپور جوابات فراہم کرتی ہے۔‘
کرشن اور شیو ہی وہ دیوتا نہیں جنھیں مصنوعی ذہانت کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ ’کریکٹر اے آئی‘ نامی پلیٹ فارم پر بیسویں صدی کے اوائل کے ایک مشہورانڈین درویش اور روحانی استاد بھگوان سری رمانا مہارشی کی تعلیمات پر مبنی ایک چیٹ بوٹ اب تک تقریباً 35 ہزار بار استعمال کیا جا چکا ہے۔
دیگر بڑے روحانی ادارے بھی اس تبدیلی کو اپنا رہے ہیں۔
سنہ 2025 کے اوائل میں معروف انڈین روحانی رہنما اور ایشا فاؤنڈیشن کے بانی سادھ گرو نے ’میریکل آف مائنڈ‘ نامی مراقبے کی ایپ متعارف کرائی جس میں کئی اے آئی خصوصیات شامل ہیں۔
اس ایپ کے مواد کے نگران، راہب اور ایشیا فاؤنڈیشن کے مستقل رضاکار سوامی ہرش کہتے ہیں کہ ’ہم مصنوعی ذہانت سے قدیم دانش کو جدید انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ یہ صرف ایپ کو ذہین بنانے سے متعلق نہیں، بلکہ ہمارا مقصد اس تجربے کو ذاتی اور مستند بنانا ہے۔‘
ان کے مطابق ایپ کا تمام مواد سادھ گرو کی 35 سالہ تعلیمات سے ترتیب دیا گیا ہے تاکہ صارف کو ہر دن کے لیے بالکل موزوں پیغام فراہم کیا جا سکے۔
اطلاعات ہیں کہ یہ ایپ اپنے اجرا کے صرف 15 گھنٹوں میں 10 لاکھ سے زائد بار ڈاؤن لوڈ کی گئی۔
اسی طرح 2025 کے مہا کمبھ میلے میں بھی مختلف مقاصد کے لیے مصنوعی ذہانت کو اپنایا گیا۔ یاد رہے کہ یہ میلہ انڈیا میں منعقد ہونے والا دنیا کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع سمجھا جاتا ہے۔
انٹرنیٹ پر مبنی ٹولز نے عقیدت مندوں کو دور دراز علاقوں سے مذہبی رسومات میں شریک ہونے کا موقع بھی دیا۔
ایک ڈیجیٹل مہا کمبھ سینٹر بھی قائم کیا گیا تھا جو ٹیکنالوجی کے ذریعے زائرین کو ایک روحانی اور تخیلاتی سفر پر لے جاتا تھا جس میں دیومالائی کہانیاں گویا زندہ ہو کر سامنے آ جاتی تھیں۔
جو عقیدت مند خود وہاں پہنچ جاتے وہ اپنے رشتہ داروں کو ویڈیو کال کے ذریعے ڈیجیٹل درشن میں شامل کرتے تھے۔
کچھ نے تو علامتی طور پر ترنتی سنگم کے مقدس پانی میں آن لائن ڈبکی بھی لگائی۔
ایک مخصوص رقم کے عوض آپ ’ڈیجیٹل غسل‘ کی سروس میں حصہ لے سکتے تھے جہاں منتظم آپ کی تصویر کو پانی میں ویڈیو کال کے ذریعے ڈبوتا تھا۔
مصنوعی ذہانت کو روحانی اور علمی تحقیق میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
سنہ 2022 میں ایک تحقیق کے دوران ایک بڑے ماڈل کی مدد سے بھگوت گیتا اور اوپنیشد (جو قدیم ہندو عبارات کا مجموعہ ہے) کا تقابلی مطالعہ کیا گیا۔
نتائج کے مطابق دونوں عبارات میں زیرِ بحث موضوعات میں 73 فیصد مشابہت پائی گئی جو ان ہندو علما کی روایتی تحقیق کی تصدیق کرتی ہے جنھوں نے ان صحیفوں کا کلاسیکی انداز میں مطالعہ کیا تھا۔
تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر تجزیاتی تحقیق ان باریک یا پوشیدہ نکات کو بھی سامنے لا سکتی ہے جو محض انسانی مطالعے سے سامنے نہیں آتے اور اس طرح مقدس عبارات کے نئے مفہوم سامنے آ سکتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کو روحانی اور علمی تحقیق میں بھی استعمال کیا جا رہا ہےہولی والٹرز کے مطابق مصنوعی ذہانت دراصل اس رجحان کا تسلسل ہے جس کے تحت ہندو مت اور جدید ٹیکنالوجی پہلے ہی ایک دوسرے میں ضم ہو چکے ہیں۔
اس کی ایک دلچسپ مثال ہندو رسم ’آرتی‘ سے جڑی ہے جس میں عقیدت مند تیل کے دیے جلا کر مورتیوں کے سامنے دائرے میں روشنی گھماتے ہیں اور بھجن یا مقدس کلمات پڑھتے ہیں۔
2017 کے گنپتی فیسٹیول میں منتظمین نے یہ رسم ایک روبوٹک بازو کے ذریعے ادا کی جو ہندو دیوتا گنیشا کے سامنے آرتی انجام دیتا تھا۔
اب تو بازار میں ایسی روبوٹک مورتیاں اور پوجا کے خودکار آلات دستیاب ہیں جو گھروں میں روزمرہ کی مذہبی رسومات خود ہی ادا کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالا کے ایرنجا ڈپلی سری کرشن مندر میں ایک روبوٹک ہاتھی موجود ہے جس کا نام ایرنجاڈپلی رمن ہے۔
ہولی والٹرز کے بقول ’یہ ہاتھی رسومات ادا کرتا ہے، عقیدت مندوں سے نذرانے قبول کرتا ہے اور اسی طرح برکت دیتا ہے جیسے کسی مندر کا زندہ ہاتھی دیتا ہے۔‘
اسی طرح دہلی میں واقع انٹرنیشنل سوسائٹی فار کرشن کونشسنیس کے زیر انتظام گلوری آف انڈیا مندر میں 10 برس قبل ہی مکمل طور پر اینیمیٹرونک (حرکت کرنے والی) مورتیاں نصب کر دی گئی تھیں۔
ہولی والٹرز کا کہنا ہے کہ ’یہ روبوٹک دیوتا باتیں کرتے اور حرکت میں آ جاتے ہیں۔ سچ کہوں تو یہ منظر کچھ عجیب سا لگتا ہے، لیکن بہت سے لوگوں کے لیے یہ واقعی خدا ہیں۔ لوگ ان کی پوجا کرتے ہیں، انھیں درشن دیتے ہیں۔‘
’مقدس عبارات کے ساتھ تعلق محسوس ہونا‘
صدیوں سے مذہبی برادریاںپجاریوں اور روحانی رہنماؤں کے زیرِ اثر رہی ہیں، تاہم مذہبی اخلاقیات اور مصنوعی ذہانت کے تقابلی مطالعے پر کام کرنے والے آکسفورڈ یونیورسٹی کے محقق لینڈن ڈریک کا کہنا ہے کہ: ’اے آئی چیٹ بوٹس ممکن ہے مذہبی پیشواؤں کے مقام کو چیلنج کر دیں کیونکہ یہ ایسے نئے راستے کھول رہے ہیں جن کے ذریعے لوگ مقدس عبارات کے ساتھ تعلق محسوس کرتے ہیں اور یوں ان کے عقائد پر ایسے اثرات مرتب ہوتے ہیں جن کا انھیں خود بھی ادراک نہیں ہوتا۔‘
یہ مذہبی چیٹ بوٹس بظاہر کتابوں پر مبنی جوابات دیتے ہیں اور آیات دہراتے ہیں لیکن ان میں وہی خامیاں اور بے ربطگیاں پائی جاتی ہیں جو کسی بھی عام اے آئی میں ہوتی ہیں۔
ایک موقع پر گیتا جی پی ٹی نے بھگوان کرشن کی آواز میں یہ اعلان کیا کہ ’دھرم کے تحفظ کے لیے قتل جائز ہے۔‘
وکاس سہو کے مطابق بھگوت گیتا پر مبنی دیگر اے آئی ماڈلز نے بھی اسی نوعیت کے بیانات دیے جس کے بعد سوشل میڈیا پر شدید تنقید ہوئی۔
وکاس سہو بتاتے ہیں کہ ’مجھے احساس ہوا کہ معاملہ بہت نازک ہے لہٰذا میں نے اے آئی کو ازسرِنو تربیت دی اور ایسے جوابات روکنے کے لیے حدود مقرر کیں۔ اب یہ چیٹ بوٹ زیادہ محفوظ اور قابلِ اعتماد ہے اور درست رہنمائی فراہم کر سکتا ہے۔‘
2024 میں ایک عیسائی تبلیغی گروپ کیتھولک آنسرز کو اپنا چیٹ بوٹ پادری فادر جسٹن فوری طور پر بند کرنا پڑا جب اس نے صارفین سے کہا کہ وہ ایک حقیقی پادری ہے جو مقدس رسومات ادا کر سکتا ہے اور یہاں تک کہہ دیا کہ انرجی ڈرنک جیسے مشروب میں بچے کو غسل دینا درست ہے۔
بعد میں گروپ نے یہ اے آئی دوبارہ فعال کیا لیکن اس کے نام سے فادر کا سابقہ ہٹا دیا اور اس کے علامتی لباس سے پادری کی چادر بھی غائب کردی۔
لینڈن ڈریک کے مطابق ’غلط اور غیر موثر مذہبی جوابات کا مسئلہ دراصل ایک بڑے مسئلے کی علامت ہے یعنی ایسا اے آئی تیار کرنا جو اخلاقی اور پیش گوئی کے قابل ہو۔‘
ایک ہاتھ کی جنبش پر مقدس اوراق تک رسائی
ڈریک مذہبی چیٹ بوٹس کی موجودگی کو سراہتے ہیں وہیں وہ ان کے استعمال کے طریقے پر تحفظات رکھتے ہیں۔
ان کے مطابق ڈیجیٹل ٹولز بظاہر غیر جانبدار نظر آتے ہیں جس سے صارفین یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انھیں صاف، سچی اور غیر جانب دار معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔
لیکن دراصل ہر اے آئی اپنے تخلیق کاروں کے نظریات اور تربیتی مواد کی عکاسی کرتا ہے۔
لینڈن ڈریک کہتے ہیں کہ ’مقدس عبارات کی تعبیر ہمیشہ متنازع رہی ہےاور چونکہ چیٹ بوٹس اپنے ڈیٹا اور تربیت یافتہ معلومات کے اثر میں ہوتے ہیں اس لیے ان کی تشریحات بھی جانبدار ہو سکتی ہیں۔‘
انڈیا جیسے ملک میں جہاں ڈیجیٹل تقسیم اب بھی بہت گہری ہے اس قسم کے خطرات ان میں کئی گنا اضافہ کر سکتے ہیں۔
ہولی والٹرز کے مطابق جن لوگوں کی ٹیکنالوجی کی سمجھ محدود ہے ان کے لیے کسی چیٹ بوٹ کی بات کوئی الگورتھم کی پیداوار نہیں بلکہ ’خدائی آواز‘ لگ سکتی ہے۔
وہ کہتی ہیں ’خطرہ صرف یہ نہیں کہ لوگ ان چیٹ بوٹس کی باتوں کو سچ مان لیں بلکہ یہ کہ انھیں یہ احساس ہی نہ ہو پائے کہ وہ ان پر سوال اٹھانے کا اختیار رکھتے ہیں اوریہی اصل خطرہ ہے کہ جب ٹیکنالوجی کو خدائی حیثیت دے دی جاتی ہے تو اس کے الفاظ کی طاقت اس کی حقیقت سے کہیں بڑھ جاتی ہے۔‘
بہرحال ان سب خطرات کے باوجود کچھ لوگوں کے لیے یہ تجربہ فائدہ مند بھی ثابت ہو رہا ہے۔
وجے میل کا کہنا ہے کہ ’کوئی مندر باقاعدگی سے جائے، پجاری کے ساتھ بامعنی اور مفصل گفتگو کرے ایسا کم ہی ممکن ہوتا ہے۔ ایسے میں چیٹ بوٹس اس خلا کو پُر کرتے ہیں اور یہ مقدس عبارات پر مبنی رہنمائی صرف ہاتھ کی ایک جنبش پر فراہم کرتے ہیں۔‘